ہفتہ, مئی 10, 2014

نومسلموں کے جذبات کا خیال کیجئے

 کل شام ایک گارڈن میں کچھ فیملی کے ساتھ تفریح کے لیے گئے تھے ، تلگو زبان کے ایک قدیم نومسلم بلال بھائی جن کے ہاتھ پر ہزار سے زائد غیرمسلموں کو قبول اسلام کی سعادت نصیب ہوئی ”نومسلموں اورمسلمانوں کے بیچ موجود کھائی “ کے حوالے سے عرض کررہے تھے :
  •  میں اپنے دوست کی شادی میں اس کی دعوت پر مع اہم خانہ شریک ہوا ، میں نے گھر والوں کو تاکید کردی تھی کہ ميرے بیوی بچے تلگوزبان میں بات کرتے ہیں اردوزبان نہیں جانتے، گھرکی عورتوں نے ایک جگہ ميرے بچوں کو بٹھا دیا، وہاں بیٹھی دیگرخواتین اردو زبان میں ان پر طنزیہ تبصرہ کرتے ہوئے آپس میں ہنس مذاق كر رہی تھیں کہ دیکھو نا تلگو زبان کی عورت مسلمان ہوئی ہے کچھ تعلق رہا ہوگا ان دونوں کا آپس میں۔ جب طنز حد سے زیادہ ہوا تو میری بیوی نے اس عورت پر ہاتھ اٹھا دیا ۔ اب کیا تھا شادی کی ساری خوشی پھیکی پڑگئی ۔
  • دیپاولی کا دن تھا، سماج کے سارے بچے پٹاخے پھوڑ رہے تھے، میرے دو کم عمر بچے پٹاخے خریدنے کے لیے بضد تھے، اور رو رہے تھے، میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ بیٹے! یہ ہمارا تہوار نہیں ہے، لیکن وہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے اوراصرار بڑھتا گیا تو بالآخر بازار جاکر میں نے انہیں پٹاخے خریدا دئیے لیکن تاکید کی کہ آج نہیں کل بجانے ہیں ۔ بچے مان گئے، لیکن اسی وقت ايک دينى جماعت کے ذمہ دار کا فون آیا کہ میرا ایک لڑکا ڈاکٹر کے ہاں اڈمٹ ہے، میں اپنے بچوں کے ساتھ ملنے گیا ، تو انہوں نے كہا كہ پٹاخے سے اس نے اپنے دونوں ہاتھ جلا لیا ہے ۔ میرے بچے سن رہے تھے، کہنے لگے : وہ مسلمان ہیں پھر بھی پٹاخے پھوڑتے ہیں اورہمیں آپ منع کیوں کر رہے ہیں ۔ وہاں مجھے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ۔
  • میں اپنے بڑے بیٹے عمر کی شادی اردو زبان جاننے والی کسی مسلم لڑکی سے کرنے کا خواہشمند ہوں تاکہ گھر کا ماحول بدل جائے لیکن تلاش بسیار کے باوجود مجھے رشتہ اس لیے نہیں مل رہا ہے کہ میری فیملی تلگو زبان سے تعلق رکھتی ہے، لوگ مجھے لڑکی دینے سے جھجھک محسوس کرتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ وہ نومسلم ہے ہم کیسے اس پر اعتماد کریں ۔
  • میرے ایک استاذ میرے تعلق سے کسی کے سامنے کہہ رہے تھے کہ بلال اگر ٹھیک ہوتا تو کم ازکم اپنے بچوں کو بلاکر عمرہ بھی تو کراسکتا تھا ، سوال یہ ہے کہ کیا وہ میری پریشانی کو جانتے ہیں، میرے سارے بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں ابھی تو ان کے اخراجات صحیح طریقے سے مکمل نہیں ہوپا رہے ہیں ایسے میں ہم فیملی کو آخر عمرہ کے لیے کیسے بلا سکتے ہیں۔ میری اہلیہ ہمیشہ کہتی ہے کہ جب بچے تعلیم مکمل کرلیں گے تو ہم سب حج کو جائیں گے ۔

میں نے ان کے جذبات کی قدر کی اوراسلام اورمسلم سماج کے فرق کو واضح کرتے ہوئے عرض کیا کہ ہم نے مسلمانوں کا دین نہیں اپنایا ہے اللہ کا دین اپنایا ہے، اگر آپ مسلم سماج کی طرف دیکھیں گے تو واقعی آپ کو مایوسی ہوگی، ہمیں مسلمانوں کو نہیں دیکھنا ہے، اسلامی تعلیمات کو دیکھنے ہیں، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سارے مسلمانوں سے بدظن ہوجائیں، الحمد لله آج بھی مسلمان دوسری قوموں کی بنسبت اخلاق وکردار میں اچھے ہیں۔ رہی بات مسلمانوں اورنومسلموں کے بیچ دوری کی تو صدحیف کہ مسلم سماج کی اکثریت نے اسلام کو اپنی جاگیر سمجھ ركها ہے جس کے باعث نومسلموں کے ساتھ ہمدردی رکھنے کے باوجود معاملات میں سوتیلاپن کا رویہ اپنایا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں جہاں نومسلموں کی تربیت کی ضرورت ہے وہیں مسلم سماج کے بعض خاندانی مسلمانوں کی ذہن سازی کی ضرورت ہے کہ وہ مسلم سماج میں ضم ہونے والے نومسلموں کے ساتھ کیسا معاملہ کریں ۔
 اسلام کا شعوررکھنے والے مسلمان ایسے خاندانی مسلمانوں کو دیکھ کر بآسانی سمجھ لیتے ہیں کہ یہ ان کی جہالت کا نتیجہ ہے تاہم نومسلموں کو اس کا اندازہ نہیں ہوپاتا، اس لیے قبول اسلام کے شروع ایام میں مسلم سماج کے باشعور لوگوں سے ہی نومسلموں کا تعارف کرانا چاہیے ۔اوردیندار لوگوں کے بیچ ہی ان کو رکھنا چاہیے تاکہ وہ کچھ حد تک اسلام کو عملی شکل میں دیکھ سکیں ۔ جب وہ اسلام کو اچھی طرح سمجھ لیں گے تو خود انہیں” اسلام اورمسلمان “ کا فرق سمجھ میں آجائے گا ۔
ہم نے بلال بھائی کو سمجھایا کہ اسلام قربانی چاہتا ہے، قدم قدم پر قربانی کی ضرورت ہے، دعوت کی راہ اگر خاردار ہے تو اس کے بعد کا مرحلہ صبر کا متقاضی ہے، اور صبر کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے، کبھی بھی آپ اسلام کو مسلمانوں میں کھوجنے کی کوشش نہ کریں چاہے وہ کتنا بڑا عالم ہی کیوں نا ہو۔اوراگر کوئی آپ کی غیبت کرتا ہے یا آپ کی عیب جوئی کررہا ہے تو وہ اصل میں آپ کو اپنی نیکیاں دے رہا ہے اس سے آپ کو خوش ہونا چاہیے ۔ میں نے انہیں بتایا کہ ایک دن حسن بصری رحمہ اللہ کی کسی نے غیبت کی تو انہوں نے ایک طبق کھجور ان کی خدمت میں بھیجا اور عرض کیا کہ :
میں نے سنا ہے کہ آپ نےمجھے اپنی نیکیوں کا ہدیہ دیا ہے میری خواہش ہوئی کہ بدلے میں کچھ پیش کروں، اس لیے میرا یہ ہدیہ قبول کیجئے گوکہ یہ ان کا متبادل نہیں بن سکتے ۔
راقم سطورکا ذاتی تجربہ ہے کہ میں نے ایک نومسلم ڈاکٹر کی کئی سرکردہ شخصیات سے ملاقات کرائی، ہر مجلس میں زیادہ تر جماعتی اختلافات پر گفتگو اور ذمہ داران کی عیب جوئی ہوتی رہی، ایک بارملاقات کے بعد نومسلم ڈاکٹر نے اپنے دل کی بات بتادی کہ کہ مجھے اکثرمجلسوں میں زیادہ تر اختلافات سننے کو ملے ایسا کیوں؟ میں نے اپنے انداز سے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی ۔ 
بہرکیف نومسلموں کے جذبات کی رعایت بہت ضروری ہے اوران کی زندگی کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لیے مناسب لائحہ عمل تیار کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ پچھلے دنوں عمرہ کے سفرمیں مدینہ منورہ جانے کا شرف حاصل ہوا، ایک روز ڈاکٹر معراج عالم تیمی کے ہمراہ ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمن اعظمی حفظہ اللہ سے ملاقات کے لیے ان کے دولت خانہ پر گئے، دعوت کے موضوع پر گفتگو چل رہی تھی جس میں انہوں نے کہا کہ آج دعوتی مراکز کے سب سے اہم کام کرنے کے یہ ہیں کہ وہ نومسلموں کے معاشرتی مسائل کو حل کرنے کی طرف دھیان دیں، جب تک ان کے معاشرتی مسائل حل نہیں ہوتے دعوت کا کام ناقص رہے گا۔


0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔