بدھ, اگست 14, 2013

امام کعبہ کا پيغام ضيوف الرحمن کے نام

 شیخ عبدالرحمن بن عبدالعزیز السدیس
امام وخطیب ”مسجد حرام “ مکہ مکرمہ

اللہ کے بندو! ہرسال ان ايام ميں امت مسلمہ ایسی عظيم الشان مناسبت کا استقبال کرتی ہے، جس کے ليے مومن کا دل بیتاب رہتا ہے ۔ جس کی طرف نگاہيں مرکوز اور گردنيں دراز رہتی ہيں، جس کی آمد پر مسلمانوں کے دلوں ميں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ یہ دراصل خانہ کعبہ میں فريضہ حج کی ادائيگی ہے، جہاں مقامات مقدسہ ہيں، مشاعر مشرفہ ہيں، جو مہبط وحی ہے، منبع رسالت ہے، جہاں سے ساری دنيا ميں ايمان کا نورجگمگايا، جہاں پر آنکھيں اشکبار ہوتی ہيں، رحمتيں اترتی ہيں، لغزشوں سے درگذرکيا جاتاہے، درجات بلند کيے جاتے ہيں، گناہوں کومٹاديا جاتا ہے، اور رب دو جہاں کی سخاوت عام ہوتی ہے۔ جيسا کہ بخاری ومسلم ميں حضرت ابو ہريرہ رضي الله عنه کابیان ہے کہ اللہ کے رسول صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: ”حج مبرور کابدلہ جنت ہی ہے “۔
اور بخاری ومسلم ميں حضرت ابوہريرہ  رضي الله عنه کی ايک دوسری روايت ہے، اللہ کے رسول صلي الله عليه وسلم نے فرمايا :
”جس نے حج کيا اور دوران حج اس سے نہ کوئی شہوانی فعل سرزد ہوا اور نہ ہی اس نے فسق وفجور کا ارتکاب کيا وہ گناہوں سے اس طرح پاک و صاف ہو کر لوٹا گويا آج ہی اس کی ماں نے اسے جنم ديا ہے “۔
بيت اللہ کے حاجيو! خانہ کعبہ کا قصد کرنے والے اگرحج کے فوائد اور اس کے اثرات سے مستفيدہوناچاہتے ہيں اوراللہ تعالی نے حاجيوں کے ليے جو اجروثواب اور فضل وانعام طے کررکھاہے اس سے بہرہ ور ہونے کے خواہاں ہيں توان کے ليے ضروری ہے کہ اس عظيم فريضے کی ادائےگی ميں شرعی منہج اور نبوی طريقہ کا التزام کريں ۔ حج کے چند شرائط اور ارکان ہيں ، چند واجبات اور مستحبات ہيں، چنداصول وآداب ہيں جن کی رعايت نہايت ناگزیر ہے ۔
 اے اللہ کے بندو! اے عازمين حج ! اے وہ لوگو !جنہوں نے جنگلات اور بے آب وگياہ مقامات کو پار کياہے، مختلف فضاؤں اورسمندروں کی خاک چھانی ہے، مشکلات کاسامنا کيا ہے، مشقتيں برداشت کی ہيں، اپنے اموال واولاد اور وطن کو خیرباد کیاہے، آپ کی خدمت ميں يہ جامع نصيحتيں ہيں، نفع بخش مختصرکلمات ہيں، بالخصوص ايسے وقت ميں جب کہ آپ اس عظيم عبادت کی تياری کر رہے ہيں ۔

پہلی نصيحت:

اس اساس کواپنائیں جس پر حج اور ديگرتمام عبادات کا دار ومدارہے یعنی توحيد باری تعالی، عبادت کے سارے اعمال کواسی کے ليے خالص کرنا، اور اس کے ساتھ کسی کو شريک نہ ٹھہراناہے۔ جيسا کہ اللہ تعالی نے فرمايا :
”آپ فرما دیجيے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا مرنا، یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہاں کا مالک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں سے پہلا ہوں“ ( الانعام 162-163)
حج کے مقاصد وفوائد ميں سب سے عظيم مقصد وفائدہ توحيد باری تعالی کا اقرار اور شرک سے اجتناب ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
”اور جبکہ ہم نے ابراہیم کو کعبہ کے مکان کی جگہ مقررکردی، اس شرط پر کہ میرے ساتھ کسی کوشریک نہ کرنا “ ( الحج 26)
لہذا بندے کے ليے ضروری ہے کہ اپنی ضروريات کی تکميل، مشکلات سے نجات، اور مريضوں کی شفا کے ليے صرف اور صرف اللہ رب العالمين کی پناہ طلب کرے جو معاملات کی تدبير، شروروفتن کو دور کرنے اور زمانوں کو بدلنے کا مالک ہے ۔ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہيں، اللہ رب العالمين بيزار ہے اس شرک سے جو مشرکين اس کے ساتھ ٹھہراتے ہيں۔

دوسری نصیحت:

اپنے سارے اعمال خالص اللہ تعالی کی رضا کے ليے انجام دیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

” خبردار! اللہ تعالی ہی کے ليے خالص عبادت کرنا ہے “(الزمر3)
نہ رياکاری ہونی چاہيے، نہ نام ونمود اور نہ ہی اللہ سے ہٹ کر غيراللہ کی طرف التفات خواہ وہ اشخاص ہوں، يا بینرز يا اصول ومناہج جو اس اصل کے منافی ہوں۔

تيسری نصيحت:

 رسول پاک صلي الله عليه وسلم کی اطاعت وتابعداری کولازم پکڑیں۔ اللہ تعالی کے اوامر کو بجا لائیں اور آپ صلي الله عليه وسلم کی سنت کو حرزجاں بنالیں کيوں کہ آپ صلي الله عليه وسلم کا خود ارشاد ہے:

 ”جس نے کوئی ایسا کام کیا جو ہماری سنت کے مطابق نہیں وہ مردود ہے“ (مسلم) 

اور حج کے تعلق سے فرمايا :

 ”ہم سے حج کے مناسک سیکھ لو“ (مسلم)

چوتھی نصيحت :

 اللہ تعالی کا تقوی اختيار کریں، اس کی اطاعت کے اعمال بجا لائیں، اور عمل صالح کے ذريعہ اس کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کریں بالخصوص اس وقت جب کہ افضل ترين زمان ومکان اکٹھا ہوجائے:
” اور اپنے ساتھ زادسفررکھ لیا کرو، سب سے بہترزاد راہ اللہ تعالی کا ڈر ہے “ ( البقرة 197)
ذکر، دعا، تلاوت قرآن، تلبيہ، نمازاور نيکی واحسان کا بکثرت اہتمام ہونا چاہيے۔

پانچويں نصيحت:

 فريضہ حج کی عظمت کا احساس دل ودماغ پر طاری رکھیں: نہ تو يہ کوئی بری سياحت ہے، نہ کوئی فضائی تفريح ، اور نہ ہی اسے تقليد وعادت اور نقل کے طور پر انجام ديا جاتا ہے بلکہ يہ ايمانی سياحت ہے جس کی فضا بلند معانی اور نيک مقاصد سے لبريز ہوتی ہے، يہ ایمانی و فکری آلود گيوں اور منہجی واخلاقی مخالفتوں سے دور رہ کر توبہ وانابت، رجوع الی اللہ اور صراط مستقيم کے التزام کا سنہری موقع ہے۔

چھٹی نصیحت :

اس بيت عتيق اور مبارک سرزمين کی عظمت وشان کا دل ميں احساس ہو، يہاں خون نہيں بہايا  جا سکتا، اس کے درخت اکھاڑے نہيں جا سکتے، یہاں کے شکار بھگائے نہيں جا سکتے، یہاں کی گمشدہ اشياء اٹھائی نہيں جا سکتيں سوائے اس کے جو اس کا اعلان کرنا چاہتاہو۔ (بخاری ومسلم ) يہاں درخت، شکار، انسان، اور حيوان خوف اور اذيت سے بالکل محفوظ ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
 ”اس میں جو آجاے امن والا ہوجاتا ہے“ (آل عمران 97) ۔
 اس جگہ ايسے اعمال انجام ديناجائز نہيں جومقاصد شريعت اور منہج اسلام کے منافی ہوں،يہاں صرف اللہ تعالی ہی کی طرف دعوت دی جا سکتی ہے، يہاں صرف توحيد کا شعار ہی بلند کيا جا سکتاہے، يہاں اللہ اور يوم آخرت پر ايمان رکھنے والوں کے ليے جائز نہيں کہ مسلمانوں کو تکليف دے، يا امن وامان سے رہنے والوں کو خوفزدہ کرے، يا حج کے اعمال سنت نبوی کے خلاف بجالائے ارشاد باری تعالی ہے:
 ”جوبھی ظلم کے ساتھ وہاں الحاد کا ارادہ کرے ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے“ (الحج 25)

ساتويں نصيحت :

 مسائل حج سے آگاہی حاصل کرکے حج کی تياری کریں، اور جس مسئلے ميں اشکال پيدا ہو اس کی بابت اہل علم سے دریافت کرلیں، کيوں کہ جہالت کی بنياد پر اللہ تعالی کی عبادت کرنی ياسنت نبوی کے خلاف حج کے اعمال بجا لانا جائز نہيں۔ يہ ايسا معاملہ ہے جس کا حاجيوں کو کافی اہتمام کرنے کی ضرورت ہے ۔

آٹھويں نصيحت: 

گناہوں اور معاصی سے کلی اجتناب کریں: اللہ تعالی نے فرمايا:
”حج میں اپنی بیوی سے میل ملاپ کرنے، گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑے کرنے سے بچتا رہے“ ۔ (البقرہ 197)
 طاعات کی انجام دہی پر نفس کو آمادہ کریں، اور منکرات سے خود کو دور رکھیں خواہ ان کی نوعيت جيسی بھی ہو۔

نويں نصيحت :

حج کو خالص کرنے اور ان تمام امور کو بجالانے کی سعی کریں جن سے آپ کے حسنات زیادہ ہوں، اور حج کے مناسک مکمل ہوسکیں۔ جن میں سرفہرست نیک دوست کا انتخاب اور پاکیزہ وحلال کمائی ہے جوکہ قبولیت حج کا سبب ہے

دسویں نصیحت :

مکا رم اخلاق، اور شرعی آداب سے مزین ہوں اور گفتار وکردار، ہاتھ یا زبان سے بندگان خداکو اذیت نہ پہنچائیں۔ کیوں کہ حج ایک ایسا مدرسہ ہے جو صبروتحمل ، تعاون باہمی اورایثار وقربانی جیسے پاکیزہ اخلاق ، عمدہ خصائل، نیک عادات ،اوراعلی اوصاف کی تعلیم دیتا ہے۔

امت کے پاسبانو! یہ نہایت ناگزیر ہے کہ خانہ کعبہ کے حجاج اس عظیم فریضے کو سمجھیں ، اپنے دلوں میں ان وصیتوں کو اتاریں، اور اپنے کردار کے ذریعہ ان کا عملی نمونہ پیش کریں۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ملت اسلامیہ ایمان وعمل، اتحاد واتفاق، صبر وشکر، آپسی تعاون وبھائی چارگی، اور اجتماعیت وبالادستی کے اسباق کو دہرائے اور یہ سب کے سب اس عظیم فریضے کے آثار وثمرات ہیں جنہیں اللہ تعالی نے اپنے فرمان
لیشہدُوا منافع لہُم میں جمع کردیا ہے ۔


0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔