جمعرات, اگست 09, 2012

طلبہ جامعہ امام ابن تیمیہ کے نام


آج میری چھٹی کا دن ہے ، میرے لیے چھٹی تو نام کى ہوتی ہے کیوں کہ اس دن میری مشغولیت کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی ہے ، ليكن آج میں مادرعلمی کے خوشہ چینوں کو پہلے اپنے دل کی آواز سناؤں گا، اس کے بعد ہی کوئی کام کروں گا۔ توچلتے ہیں اپنے عزیز بھائیوں کی طرف ۔
میرے پیارے بھائیو! آپ طلب علم میں مشغول ہیں، آپ کا مقام نہایت اعلی ہے ، آپ انبیاءکی وراثت حاصل کررہے ہیں، زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھ رہے ہیں، دین ودنیا دونوں کی کامیابی کا سامان جمع کررہے ہیں، آپ کے لیے ساری مخلوق حتی کہ سمندر کی مچھلیاں بھی دعاگوہیں۔ میں نے بھی اسی چمن میں اپنی زندگی کا اچھا خاصا وقت گنوایا ہے ، جی ہاں! گزارا نہیں ہے بلکہ گنوایا ہے ۔ زندگی کا اچھا خاصا وقت لایعنی اور بیکار کاموں میں برباد کرلیا ۔ مجھے اس کا احساس ہے ،اسی لیے آج میں اپنے دلی جذبات آپ تک پہنچانے بیٹھاہوں .... اپنی کوتاہیوں کو یاد دلانا چاہتاہوں تاکہ آپ ان سے بچ سکیں ....سلف کے قصے سنانا چاہتاہوں تاکہ آپ کی ہمت کو مہمیز لگے ۔ آپکی خیرخواہی کا حق اداکرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ اسے حرزجاں بنالیں۔

عزیز بھائیو! یوں توپڑھتے بہت سارے بچے ہیں لیکن کامیاب چندہی ہوتے ہیں ۔ کیوں؟ اس لیے کہ کامیابی محنت کے اندازے سے حاصل ہوتی ہے ، جس قدر محنت ہوگی اسی کے تناسب سے کامیابیاں بھی ملیں گی ۔ صحت اور فرصت دونوں بہت قیمتی سرمایہ ہے۔ اکثر لوگ اس نکتے کو نظرانداز کرجاتے ہیں جس کا خمیازہ انہیں بعد میں بھگتنا پڑتا ہے۔ جامعہ ایک تربیت گاہ ہے ، یہ ایک سنہری فرصت ہے ، آج میں ترستاہوں کہ کاش وہ زمانہ پھر لوٹ آتا تو میری وہ حالت نہ ہوتی جو پہلے تھی لیکن یہ قانون فطرت ہے کہ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں ۔

عزیز بھائیو! اپنی ہمت بلند رکھیں ،احساس کمتری کے شکار نہ ہوں ،محنت کبھی ضائع نہیں ہوتی ایک نہ ایک دن رنگ لاتی ہے ۔ آج جس قدر جسم کو ذلیل کریں گے کل اسی قدر عزت واحترام پائیں گے ۔ آرزوؤں اور تمناؤں سے کچھ ہوتا جاتا نہیں .... بلند ہمت انسان کی پہچان ہے کہ وہ پُرعزم ہوتاہے ۔سستی اسے چھوکر بھی نہیں جاتی ۔ وہ دنیا کے بکھیروں میں نہیں پڑتا، اس کے ذہن میں ہمیشہ یہ بات گردش کرتی ہوتی ہے کہ
 مجھ کو جانا ہے بہت اونچا حد پرواز سے ۔
 آسان پسندی ، بے مقصدیت اور عیش کوشی ایک مسلمان کا شیوہ نہیں چہ جائیکہ طالب علم کا شیوہ ہواور وہ بھی ایسا طالب علم جو اپنی نسبت ابن تیمیہ کی طرف کرتا ہو۔ خالد بن صفوان سے کسی نے عرض کیا کہ کیا بات ہے کہ جب میں آپ لوگوں کے ساتھ احادیث کا مذاکرہ کرنے بیٹھتا ہوں تو مجھ پر نیند کا غلبہ طاری ہوجاتا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : اس لیے کہ تم انسان کی شکل میں شیطان ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ایک حریص اور علم کا جویا کبھی بھی علمی مجالس سے تھکتا نہیں بلکہ اس کے اندر مزید کی تڑپ پیدا ہوتی ہے ۔

عزیز ساتھیو ! ابھی آپ کو رہنمائی کی بہت ضرورت ہے ، علم کے میدان میں شرم زہرہلاہل ہے ،بلا جھجھک ہرکسی سے اپنے کیرئر کے تئیں مشورہ لیں ، کیا پڑھیں کیا نہ پڑھیں اس سلسلے میں اساتذہ کی رہنمائی حاصل کریں ۔ ساری باتیں کتابوں میں نہیں ہوتیں ۔ اور اگر ہیں بھی تو انہیں سمجھنے کے لیے اساتذہ کی رہنمائی درکارہے ۔ اساتذہ کی عزت کرنی چاہیے ۔ ان کی صحبت کو غنیمت سمجھنا چاہیے ۔ ہمارے ہاں ایک عجیب تصور عام ہوگیا ہے کہ استادہے تو صرف کلاس کے وقت .... ادھرکلاس ختم ہوا اورادھر استاد سے رابطہ بھی ختم.... اس سے طالب علم بہت ساری رہنمائیوں سے محروم رہ جاتا ہے ۔
نیتوں میں اخلاص پیدا کریں : دین الہی کی خدمت کے جذبہ سے تعلیم حاصل کریں، روایتی تصور کو ذہن سے بالکل نکال دیں کہ اس میدان میں غربت کا سامنا کرنا پڑے گا ، مالی حالت خراب رہے گی ، ایسا تصور ذہن میں بٹھانے والے بچے کامیاب نہیں ہوتے ۔ استاذ محترم شیخ کفایت اللہ سلفی رحمه الله سے جب میں نے ایک بار ایسی ہی کچھ شکایت کی تھی تو بہت پیار سے انہوں نے کہاتھا کہ عزیزم ! تمہارا جو کام ہے وہ کام کرتے رہو .... راستہ خود بخود ہموار ہوتا جائے گا ۔ آپ نے تو یہ حدیث تو پڑھی ہی ہوگی کہ ” جس شخص کی تگ ودو آخرت کے لیے ہوتی ہے اللہ تعالی اس کی شیرازہ بندی کرتا ہے ،اس کے دل میں بے نیازی پیدا کردیتا ہے اور دنیا اس کے سامنے جھک کر آتی ہے اور جس شخص کی ساری تگ ودو حصول دنیا کے لیے ہوتی ہے اللہ تعالی اس کے معاملے کو منتشر کردیتا ہے ، اسکی آنکھوں کے سامنے اس کے فقروفاقہ کو ظاہر کردیتا ہے اور اسے دنیا اسی قدر حاصل ہوتی ہے جس قدر اللہ نے اس کی قسمت میں لکھ دیا ہوتا ہے “ ۔ (ابن ماجہ)

مجھے یاد آتاہے جس وقت میں نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ لیا تھاشاید پہلی بارتھا کہ میں نے بانی جامعہ محترم ڈاکٹر محمد لقمان سلفی کوفون کیا، اپنے داخلہ کی اطلاع دی ۔تو بہت خوش ہوئے ، مبارکباد دی، اورجب میں نے ان سے مختصر نصیحت کی گزارش کی توآپ نے صرف ایک جملہ کہاتھا کہ
 أخلص نیتک واتق اللہ ۔
 یہ نصیحت کیا تھی گویا دریا کوکوزے میں بند کردیا گیا تھا۔ کاش کہ اللہ پاک آج بھی ہمارے اندر وہ صفت پیدا کردے ۔

اب میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں ۔ اگلی نشست میں مزید کچھ باتیں ہوں گی ۔ تب تک کے لیے اجازت دیجئے ۔ اللہ حافظ

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔