منگل, ستمبر 15, 2009

وہ علم نہیں زہرہے احرار کے حق ميں


ابھی ہم اکيسويں صدی عیسوی سے گذر رہے ہیں ، یہ صدی ایجادات کی صدی کہلاتی ہے ، عقل ودماغ کے عروج کی صدی کہلاتی ہے ، لوگ چاند پر کمندیں ڈال رہے ہيں، سائنسی ایجادات کا فےضان ہماری مٹھی ميں ہے ، ہرمیدان میں ترقی ہی ترقی دکھائی دے رہی ہے ، ليکن افسوس اِسی صدی ميں مہذب اور ترقی يافتہ کہلانے والے لوگوں کے ایسے ایسے واقعات منظرعام پرآنے لگے ہیں جنہیں سنکر جانوروں کی دنيا ياد آجاتی ہے ، عقل ماتم کرنے لگتی ہے، دماغ چکرانے لگتا ہے اور باربارہمارے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ لوگ عقل رکھتے ہوئے ايسا سب کچھ کيوں کررہے ہيں؟ پچھلے دنوں اخباربینی کے دوران میری نظر سے تين ايسے واقعات گزرے جنہیں پڑھ کر ميں دم بخود رہ گیا ۔
(1) ايک شخص نے اپنے ہردل عزيز بیٹے کوجان سے مار ڈالا کيونکہ کسی تانترک نے اُسے بتايا تھا کہ اگر تم نے اپنے بچے کو قتل کرديا تو بہت جلد مالدار ہوجاوگے -يہ واقعہ ہندوستان کی رياست آسام کا ہے ۔
(2) ايک باپ اپنی ہی بيٹی کے ساتھ نو سال تک جنسی زيادتی کرتا رہا کيونکہ اُسے جيوتشی نے يہ مشورہ ديا تھا کہ اگر اپنی معاشی بدحالی دور کرنا چاہتے ہو‘ تو اُس کا ايک ہی علاج ہے کہ اپنی بيٹيوں کو اپنی ہوس کا شکار بناو۔ اور خود باپ نے اپنی ايک دوسری جوان بیٹی کو تانترک کے حوالے کياجو اُسی کے گھرميں اس بچی کی عصمت دری کرتا رہا ۔ يہ واقعہ عروس البلاد ممبئی کا ہے
(3) چار بھائيوں نے راتوں رات دولت حاصل کرنے کے چکر ميں تانترکوں کے کہنے پر اپنی ماں کو بے رحمی سے قتل کردیا ۔ اُن چاروں بھائيوں کو کسی جيوتشی نے يہ بات کہہ دی تھی کہ اُن کے گھر ميں خزانہ موجود ہے.... مگر اسے حاصل کرنے کے ليے اپنی ماں کی بلی دینی ہوگی ۔ تعجب خيزبات يہ ہے کہ چاروں بھائی تعليم يافتہ تھے‘ اُن ميں سے ایک ایم بی اے، دوسرا انجینئراور باقی دو‘ بارہويں جماعت کے طالب علم تھے ۔ يہ واقعہ ہندوستان کی راجدھانی دہلی کا ہے۔
     ایک عام آدمی جب ایسے واقعات کو سنتا اور پڑھتا ہے تو ورطہ حیرت میں پڑ جاتا ہے کہ کیا آج بھی اِس دھرتی پر چلنے پھرنے والے ایسے لوگ ہیں جو اربابِ بصیرت اور تہذب یافتہ کہلانے کے باوجود جانوروں کی سطح سے نیچے اُترچکے ہیں .... لیکن اگر اِن واقعات کا صدور اُس قوم سے ہو رہاہو جو 33کروڑ دیوتاوں کے سامنے سرٹیکتی ہو ، ہر کنکر کو شنکر مانتی ہو اور شرمگاہ تک کو عقیدت سے پوجتی ہو ‘ تو یہ کوئی تعجب کی بات نہ ہوگی ۔ کیوں کہ جب ایک قوم اپنے خالق اور منعمِ حقیقی سے بے وفائی کر سکتی ہے اور پنڈتو ں اور جوگیوں کو خدائی کا درجہ دے سکتی ہے تو اپنی روزمرہ کی زندگی میں اُنکے حکموں کو عملی جامہ پہنانے میں کیوں کر جھجھک محسوس کرے گی ۔جی ہاں! یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج تک ہندوقوم پر اِس خاص طبقے کا ایسا رعب طاری ہے کہ علم وتحقیق کے اِس دورمیں بھی اُن کی باتیں پتھر کی لکیر سمجھی جاتی ہیں چنانچہ یہ جوگی اور تانترک جیسے چاہتے ہيں اس قوم کی عقل سے آج کھلواڑ کررہے ہیں ۔اور یہ سب صرف اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ اُن کا ایمان اللہ پر نہیں ہے۔ واقعہ یہی ہے کہ جب انسان کا تعلق اپنے خالق ومالک سے کٹ جاتا ہے ‘ تو وہ در در کی ٹھوکریں کھاتا ہے ، ہرچیز سے ڈرتا ہے ، یہاں تک کہ اپنی پرچھائی سے بھی خوف کھاتا ہے ، اپنے ہی جیسے انسان کو نفع ونقصان کا مالک بنا بیٹھتا ہے ،اُس کے سامنے سرٹیکتا ہے اور مادہ پرستی کے رنگ میں ایسا رنگ جاتا ہے کہ اُس کے اندر سے اچھے اور بُرے کی تمیز مٹ جاتی ہے ۔ وہ انسان نما جانور بن جاتا ہے .... یہاں تک کہ اُسے یہ بھی احساس نہیں رہتا کہ جان کی اہمیت کیا ہوتی ہے اور عزت وناموس کیا چیز ہے ؟۔
بہرکیف جب اِس طرح کے واقعات منظر عام پر آتے ہیں تو اِس سے ہمارے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے کہ ہم جس دین کے علمبردار ہیں اُس میں اس طرح کے خرافات کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں کیوں کہ اِس کی تعلیم خالص توحید پر مبنی ہے ۔چنانچہ آج سے چودہ سوسال پہلے نبی رحمت نے انسانیت کے سامنے جوپیغام پیش کیا تھا اُس کی بنیاد اس بات پر تھی کہ اللہ کے علاوہ کوئی ذات نفع ونقصان کی مالک نہيں ،اُسی سے مانگا جائے ، اُسی سے لو لگایا جائے ، اُسی کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھا جائے ، نیزآپ نے نجومیوں ،جیوتشیوں اور کاہنوں کا پول کھولتے ہوئے اپنی امت کو خبردار کردیا کہ ”جوشخص کسی نجومی کے پاس آیا اور اس سے کسی چیز کی بابت پوچھا تو اُس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں ہوتی “ (مسلم) اور ایک دوسری جگہ فرمایا : ” جوشخص کسی کاہن کے پاس آیا اور اس کی بات کی تصدیق کی تو اُس نے محمد(صلى الله عليه وسلم) پر اُتاری گئی شریعت کا انکار کیا “ (ابوداود) ایسا اس وجہ سے کہ مبادااِس امت کا وہی حال ہوجائے جو آج کفارومشرکین کا ہورہاہے۔
لیکن صدحیف ! وہ امت جس کی پہچان توحید سے ہوتی تھی ‘ آج ایمان کی کمزوری کی وجہ سے اس کے اندر بھی مختلف قسم کی توہم پرستياں پائی جاتی ہيں ۔ امتحان میں کامیابی حاصل کرنی ہو.... یا ....من پسند کی شادی ،.... شوہر کو قبضہ میں کرنا ہو ....یا.... دشمنوں کو ناکام بنانا .... ہر کام کے ليے عاملوں اورجيوتشيوں سے رجوع کيا جاتا ہے، جعلی عاملوں کا سب سے آسان شکار عورتیں ہوتی ہيں ، واقعہ يہ ہے کہ خواتین مردوں سے کئی گنا زیادہ توہم پرست ہوتی ہیں ، اس ليے عامل حضرات اُن کو اپنے چنگل ميں پھنسانے کے ليے طرح طرح کے ڈرامے کرتے ہيں ۔اور یہ بھولی بھالی عورتیں شوہر کے خون پسینے کی کمائی ایسے عاملوں کے حوالے کر دیتی ہيں‘ جو حقیقت میں فراڈ ہوتے ہيں جن کا کام ہی رنگ بازی اور ٹھگی کرکے دولت کمانا ہوتا ہے ۔
آج وقت کا تقاضاہے کہ سادہ لوح عوام کواِس فتنے کی خطرناکی سے آگاہ کیاجائے جواس کے ایمان کا سودا کررہاہے، اس کے ليے سب سے پہلے ضرورت اِس بات کی ہے کہ لوگوں کواللہ تعالی کی ذات وصفات اور اُس کی عظمت سے واقف کرایاجائے ،لوگوں کے سامنے اُن جعلی عاملوں، جیوتشیوں اور نجومیوں کا پول کھولا جائے اوراُن سے رجوع کرنے پر شرعی وعيدیں بتائى جائیں، منصوبہ بندی کے ساتھ عقائد پرمشتمل کتابچے اور پمفلٹ تیار کرکے لوگوںمیں تقسیم کیا جائے اور اُن کے شبہات کے ازالہ کے ليے خاص مجلسیں منعقدکی جائیں۔جب تک عقیدے کی اصلاح نہ ہوگی اصلاحِ معاشرہ کا خواب شرمندہ تعبيرنہیں ہوسکتا ۔


0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔