منگل, ستمبر 15, 2009

شعلوں سے محبت اس نے کيا


وہ ايک سليم الفطرت انسان تھا.... اپنے معاشرے کی بُرائيوں سے بےزار ہوکر کسی پہاڑی گوشہ ميں تنہائی اختيار کئے ہوا تھا ....شايد کسی غيبی ہدايت کا منتظر تھا جو اُسے منزل کا پتہ دے سکے .... اس نے اپنی پيشانی کی آنکھوں سے انسانيت کو سسکتے بلکتے اور وحشيانہ زندگی گزارتے ہوئے ديکھا تھا ....اس نے اپنے سامنے انسانيت کی کشتی کو بيچ بھنور ميں ہچکولے کھاتے ہوئے ديکھا تھا ....اس سے رہا نہ جا رہا تھا....اس کا دل تڑپ رہا تھا .... مچل رہا تھا کہ کوئی نا خدا مل جائے جو اس نَيا کو ساحل سمندر لگائے .... اچانک بنی نوع انسان پر رحم وکرم کی بارش ہوئی اور اسی انسان کو مسيحابنا ديا گيا ۔ اب کيا تھا ؟ کراہتی انسانيت کو مسيحا مل چکا تھا ....وہ زخموں پر مرہم ڈالنے کا بيڑا اٹھا ليتا ہے ، دہکتی اور سلگتی ہوئی آگ ميں کودنے والوں کا کمر پکڑ پکڑ کر نکال رہا ہے ، کيا دن اور کيا رات ہروقت اُسے انسانيت کی فکر ستا رہی ہے ، اچھے اخلاق کی تعليم ديتا ہے ، بُرے اخلاق سے روکتا ہے ،گلی، کوچہ اور بازار ہر جگہ ہانکے پکارے بولتا جا رہا ہے ” اے لوگو! اللہ والے بن جاؤ کامياب ہوجاؤگے .... “۔ پاکيزہ نفوس اس کی دعوت پر لبيک کہتی ہيں ، لوگ ساتھ آتے جا رہے ہيں اور قافلہ بنتا جا رہا ہے .... ليکن بُرا ہو جاہلی تعصب اور اندھی تقليد کا جس نے اکثريت کو راہ حق کا مزاحم بنا ديا، وہ ہاتھ دھوکر اس کے پيچھے پڑجاتے ہيں ، اس کے کاز کو ناکام بنانے کے ليے ہر حربہ استعمال کرتے ہيں ....
يہ ايک دن اور دو دن کا معاملہ نہ تھا .... مسلسل اکيس سال تک اُسے مشق ستم بنايا، اُسے پاگل ،کاہن اور ساحر کہہ کر مطعون کيا ، اس کے گردن پر اونٹ کی اوجھڑياں ڈالیں ، اس کے راستے ميں کانٹے بچھائے ، اس کے گھر کے دروازے پر عفونتيں پھينکیں ، اس کے ماننے والوں کو روح فرسا تکليفيں دیں ،اس کا معاشرتی بائيکاٹ کيا ، ايک موقع سے آواروں نے اس پر ايسی سنگ باری کی کہ پورا بدن لہولہان ہوگيا اور بيہوش ہوکرگرپڑا ، اس کے قتل کی سازشيں کیں، اسے اپنے جانثاروںسميت وطن عزيز کو خيربادکہنے پرمجبورکيا ، ملک بدرکرنے اورانکی جائدادوں کو ہڑپ لينے کے باوجود انہيں چين سے رہنے نہ ديا اور مسلسل آٹھ سال تک انکے خلاف محاذآرائیاںقائم رکھیں۔اب تک اکيس سال کا طويل عرصہ گذر چکا ہے اور حالات بدستور پُرآشوب ہيں ، ليکن اکيس سال کے بعد وہی انسان جب اپنے دس ہزار جانثاروں کے ہمراہ اپنے مادر وطن ميں فاتح کی حيثيت سے داخل ہوتا ہے تو سارے دشمنوں کو اپنے سامنے پاتا ہے ، اکيس سال تک دہشت گردی مچانے والوں ، امن وامان کا خون کرنے والوں اور اپنے جانثاروں کے قاتلوں کو اپنے قبضہ ميں پاتا ہے ، اگروہ چاہتا تو اُن مجرمين کو کيفرکردار تک پہنچا سکتا تھا ليکن قربان جاؤ اس انسان کے رحم وکرم پرجس نے اپنے جانی دشمنوں کے حق ميں عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمايا : کسی سے کوئی شکايت نہيں آج تم سب آزاد ہوسبحان اللہ ! يہ کيسا انسان ہے جو گالياں سن کر دعائيں دے رہا ہے، پتھر کھا کر گلدستہ پيش کررہاہے ، خون کے پياسوں کو جام حيات پلارہاہے ؟ جی ہاں! يہ ہيں ہمارے نبی رحمت عالم ، تاجدارمدينہ اورمحسن انسانيت کی ذات مبارکہ مطہرہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّم وَبَارِک عَلَيہِ جو اپنے سينے ميں سارے جہاں کا درد رکھتے تھے۔ جن کا فيض انسان تو کجاحيوان و نباتات اور جمادات تک کے ليے عام تھا ۔ يہی وہ رحم وکرم تھا جس نے اسلام کے ليے پوری دنيا ميں جگہ بنايا چنانچہ فتح مکہ جس ميں آپ کے جانثاروں کی تعدادمحض دس ہزار تھی‘ دو سال کے بعد آپ حجة الوداع کے ليے نکلتے ہيں توشمع اسلام کے پروانوں کی تعداد ڈيڑھ لاکھ تک پہنچ جاتی ہے ۔ پھر وہ دن آيا کہ ساری تاريکياں کافور ہو گئيں ، ہدايت کا چراغ جلنے لگا ، انسانيت اسلام کے سايہ ميں پناہ لينے لگی اور چند ہی سالوں ميں اسلام کا پرچم مشرق سے لے کر مغرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک لہرانے لگا ۔آج انسانيت جس پُرفتن دور سے گذر رہی ہے ،جس طرح معاشرے سے امن وامان رخصت ہوتا جا رہا ہے اورہرسُودہشت گردی کی فضا چھائی ہوئی ہے ايسے کشيدہ حالات ميں شديد ضرورت ہے کہ ہم بحيثيت مسلمان رحمت عالم صلي الله عليه وسلم کی زندگی کا مطالعہ کريں کيونکہ اللہ تعالی نے آپ کی پوری زندگی کو ہمارے ليے اسوہ حسنہ قرار ديا ہے اورہميں ساری مخلوق کے ليے رحمت کا پرتوبناياہے ۔ پھرعام انسانی نقطہ نظرسے بھی سيرت نبوی کے مطالعہ کی سخت ضرورت ہے کيونکہ آج دنيا جن عالمی مسائل ميں گھری ہوئی ہے اُن کا علاج بھی نظامِ مصطفوی ميں پوشيدہ ہے ۔ جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے محمد صلي الله عليه وسلم نے محض تئيس سال کی مختصر مدت ميں مردہ انسانوں کے اندر زندگی کی روح پھونک دی تھی اور زندگی کی کاياپلٹ دی تھی آج بھی وہ دورآسکتاہے بشرطيکہ ہم شريعت محمدی کی بالا دستی کو قبول کرنے کے ليے تيار ہوجائيں ۔

صفات عالم محمد زبير تيمى

1 تبصرہ:

گمنام نے لکھا ہے کہ

مولانا صفات عالم صاحب،
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتھ۔
تاجدار مدینہ ممحمد عربی صلی اللہ علیھ وسلم کی حیات مبارکہ پر آپ مضمون قابل تحسین ہے۔
آپ کی تحریر سے محبت رسول صلی اللہ علیھ وسلم میں مزید اضافہ ہوا۔
اللہ آپ کو دارین میں کامیابی عطافرمائيں۔
والسلام
مبصرالقاسمی کویت ریڈیو

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔