منگل, ستمبر 15, 2009

دشمن کی عياری بھی ديکھ

پچھلے دنوں غزہ ميں اسرائيلی بربريت کا جو ننگا ناچ ناچا گےا اور جس طرح مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی يہ اسرائيل کے اسلام دشمنی کی زندہ مثال ہے۔اسرائيلی ٹينکوں، بموں اور ميزائيلوں کی موسلادھار بارش نے تقريباً تيرہ ہزار مسلمانوں کو شہيد کرديا ہے اور پانچ ہزار سے زائد زخمیوں کوکراہنے پرمجبورکياہے۔ ان بيواوں، يتيموں اور مظلوموں کی آہ وبکا کے ذکرسے آنکھيں اشک بار ہوجاتی ہيں ، دل پھٹنے لگتا ہے اور جگرقاش قاش ہوا چاہتا ہے ۔
ليکن اسرائيلی دہشت گردی کا يہ سانحہ کوئی نيا نہيں ہے ، اسرائيل کا 60سالہ دوراقتدار گواہ ہے کہ اس نے ہرموڑ پر انسانی حقوق کوپامال کيا ہے بلکہ ہميں کہنے ديا جائے کہ يہود کی تاريخ روزاول سے بے وفائی ، غداری اور فريب کاری سے پُرہے ۔پوری انسانی تاريخ ميں شايد ايسی قوم پيدا نہ ہوئی ہو جس نے اللہ کی بے پناہ نعمتوں کو پانے کے باوجود مسلسل بدعہدی ، ضد اور ہٹ دھرمی کی راہ اپنائی ہو چنانچہ ان پر اللہ تعالی کے عبرتناک کوڑے برسے ، بھانت بھانت کی آفتيں آئيں، مغضوب وملعون ٹھہرے اور کتنے جانوروں کی شکل ميں بدل ديئے گئے ۔ پھرہردور ميں زمانے کے ہٹلر نے ان پرايسے ايسے مظالم ڈھائے کہ جنہيں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہيں، در در کی ٹھوکريں کھائی ، پھربھی ان کی شرست نہ بدلی ۔
مرورايام کے ساتھ جب اسلام کا آفتاب يثرب کی وادی ميں طلوع ہوا تويہودگويا اسی دن سے ہاتھ دھوکراسلام کے پيچھے پڑ گئے ،آپ کے ساتھ کئے گئے معاہدے کو توڑا ، مسلمانوں کی اذيت کا باعث بنے ، اسلام کے شاداب پودے کو بيخ وبن سے اکھاڑ پھينکنے کے ليے مختلف قبائل کواکساکر آپ کے خلاف ميدان جنگ ميں اُتارا ، جب انکے پيروں سے زمين کھسکتی نظر آئی توعبداللہ بن سبا اور اس کے ہم مشرب لوگوں نے نفاق کا لبادہ اوڑھ ليا تاکہ اندر سے امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کردياجائے ؛جمل وصفين کے معرکے ، حضرت عثمان ؓ وحضرت علی ؓ  کی شہادت اوراسلام ميں مختلف فرقوں کاظہور ‘ يہ سب يہودی ذہنيت ہی کا شاخسانہ ہے ۔
شيطان کے بعد منظم پلاننگ، منصوبہ بندی اور عياری کے ساتھ کام کرنے والی قوم اگر دنيا ميں ہے تو وہقوم يہود “ہے ،انکے عزائم ہميشہ جواں رہتے ہيں ، ان کا خواب ہے پوری دنيا کو اپنے تابع اور مسخر کرنا ، جس کی صراحت انہوں نے سن1897 ءميں سوئزرلينڈ ميں منعقدہ يہودی عالمی کانفرس کے دستاويز بنام ” صہيونی حکماءکے سياسی پروٹوکول“ ميں واضح انداز ميں کی ہے ۔يہی وجہ تھی کہ يہوديت کے نبض شناس سيدنا عمربن خطاب ؓ نے جب فتح بيت المقدس کے بعد اہل ايليا سے معاہدے کے شرائط طے کی تھی ‘تو ان ميں ايک شرط يہ رکھی تھی کہ بيت المقدس ميں نصرانيوں کے ساتھ کوئی يہودی رہائش اختيار نہيں کرے گا ۔
يہ شرط خليفہ ثانی کی دور انديشی اور دانشمندی پر مبنی تھی کہ مبادا يہوداپنی شاطرانہ چال کے ذريعہ اس سرزمين کوسياسی بازےگری کا آلہ کار بنالے۔چنانچہ تاريخ بتاتی ہے کہ تيرھويں صدی عيسوی تک ايک يہودی بھی فلسطين ميں نہ تھا، سن  1267ءميں پہلی بار دو يہودی آئے ، اس کے بعد سے ہی فلسطين ميں يہوديوں کی آمد شروع ہوگئی اور ہم غفلت وبے حسی کی چادر تانے سوئے رہے ۔ پھر جب سن 1887 ءميں فلسطين پر قبضہ کرنے کے مقصد سے ”صہيونی تحريک “ تشکيل دی گئی تو يہود کے سرمايہ داروں نے اس تحريک کی پشت پناہی کی، مکار يہوديوں نے منہ مانگی قيمتيں دے کر مسلمانوں کی زمينيں خريدی، محلات بنائے ، يہوديوں سے ارض فلسطين کی طرف ہجرت کرنے کی التجا کی گئی بالآخر جب زمين زرخيز ہوگئی تو اسرائيل نے14مئی 1948ءميں مسلمانوں سے غصب کی ہوئی زمين پرصہيونی رياست کی داغ بيل ڈال دی ۔ جس نے نہ جانے اب تک کتنے بچوں کو يتيم بناياہے ، کتنی بيويوں کو رانڈ کيا ہے ، کتنی دوشيزاوں کے سہاگ لوٹے ہيں اورکتنی ماوں کی ممتا کا خون کيا ہے ليکن اسرائيل کی يہ بربريت محض ايک وسيلہ ہے، منزل نہيں۔منزل تو وہ ہے جس کا ذکر اسرائيلی پارليامنٹ کی عمارت کی پيشانی پرکيا گيا ہے ” اے اسرائيل تيری حديں نيل سے فرات تک ہيں “ جی ہاں! اسرائيل کا نصب العين پوری دنيا کو اپنے زيرنگيں کرناہے ، ليکن اس کے عزائم ميں مصر سے لے کر شام اور مدينہ منورہ سميت حجاز سرفہرست  ہيں جس کی شروعات مسجد اقصی کے انہدام اور اس ميں ہيکل سليمانی کی تعمير کی پاليسی سے ہے ۔ اس خواب کوشرمندہ تعبير کرنے کے ليے مختلف تيارياں کی جا چکی ہيں اب صرف وقت کا انتظار ہے ۔
بيت المقدس عام مساجد کے جيسے نہيں بلکہ اس سے ہمارا ايمان اور عقيدے کا تعلق ہے ، اس سے ہميں ويسی ہی محبت ہونی چاہئے جيسی محبت حرمين شريفين سے ہے کيونکہ يہ روئے زمين پر بنائی جانے والی دوسری مسجد ہے ، مسلمانوں کا قبلہ اول ہے ، جہاں سے حضور پاک صلى الله عليه وسلم کو معراج کرايا گيا تھا ، جس ميں ايک نمازادا کرنے سے دو سو پچاس نمازوں کا ثواب ملتا ہے ، ، جس سرزمين کو بابرکت قرار ديا گيا ہے ، اور جس ميں دجال کا داخلہ ممنوع ہے ۔ اگر يہ پاک مسجد ہمارے ہاتھ سے چلی گئی تو امت مسلمہ کا ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ غزہ کے شہداءجنہوں نے اسلام کی سربلندی کے ليے سرزمين فلسطين کو لالہ زار بنايا ہے وہ اپنے رب کے انعامات سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے ‘ اس ميں ہميں غم واندوہ کا احساس اس قدر نہيں ہے جس قدر اس وقت ہوگا جب مسجد اقصی ہمارے ہاتھ سے چھن جائے گی ۔

ليکن ہميں يہ با ت نہيں بھولنی چاہيےکہ دشمن کی تدابير جس قدر بھی منظم اور مربوط ہوں ‘ رات کے بعد دن اور تاريکی کے بعد روشنی کا آنا يقينی ہے لہذا شب ديجور سے ہراساں ہونے کی ضرورت نہيں۔ شايد وہ وقت قريب ہے کہ حضور پاک صلى الله عليه وسلم کی پيشين گوئی کے مطابق مسلمان‘ يہوديوں کا صفايا کرديں گے ، يہاں تک کہ ايک يہودی اگرکسی پتھر اور درخت کی اوٹ ميں روپوش ہوکر پناہ لينا چاہے گا توپتھراور درخت گويا ہوگا : ” اے مسلمان! اے اللہ کے بندے ! يہ يہودی ميرے پيچھے چھپا ہوا ہے ، آؤاور اِسے قتل کردو۔ سوائے غرقد کے درخت کے (وہ نہيں بولے گا) کيونکہ وہ يہوديوں کا درخت ہے“ ۔ (مسلم)
لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دينی تعليمات کے مطابق زندگی گزاريں، گناہوں سے پرہيزکريں، اپنی نئی نسل کی دينی تربيت کريں، انکے اندر اولوالعزمی اور بلندحوصلگی پيدا کريں تاکہ وہ صلاح الدين ايوبی کا نمونہ بن سکيں ۔ رہے نام اللہ کا
صفات عالم محمد زبير تيمى

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔