منگل, ستمبر 15, 2009

سالِ نو کا پيغام

ابھی ہم عيسوی تقويم کے مطابق 2009 اورہجری تقويم کے مطابق 1430 ميں داخل ہوچکے ہيں۔ واقعہ يہ ہے کہ سالِ گذشتہ عالم انسانيت کے ليے بالعموم اورامت مسلمہ کے ليے بالخصوص نہايت کربناک رہا ،عالمی اقتصادیات ميں ايسی آگ لگی کہ اس کی شرر انگيزی تاہنوز جاری ہے، سيلابوں اور زلزلوں کی شکل ميں قدرتی آفات آئے، علاقائيت اور نسل پرستی کے شيطان نے کتنے شب خون مارے، دہشت گردی کے عفريت نے ايسی تباہی مچائی کہ انسانيت چينخ اٹھی ،اور حاليہ دنوںفلسطين ميں اسرائلی وحشيوں نے ايسی درندگی کا مظاہرہ کيا کہ دانتوں تلے انگلياں آگئيں، نہ جانے کہاں گئی انسانيت؟ کہاں گئی شرافت ؟ اورکہاں گئيں حقوق انسانی کی علمبردارتنظيميں؟۔
ليکن سوال يہ ہے کہ ہم کب تک اپنی پستی کا رونا روتے رہيں گے اور دوسروں کے سرالزام تھوپتے رہيں گے ؟ شايد قصورہمارا بھی تونہيں؟ کبھی ہم نے اپنا محاسبہ بھی کيا ؟ سال نو کی آمد ميں خود احتسابی کی دعوت ہے ۔ يہ محض ايک سال کا جانا اور دوسرے سال کا آنا نہيں بلکہ ہماری عمر سے ايک سال کم ہوا ہے ، اب ہم اپنے آپ کا جائزہ ليں کہ ہم کہاں ہيں؟ کيا کررہے ہيں؟ اور کيا کرنا چاہيے تھا ؟ ۔

آج ہماری تنزلی ، انحطاط، اورپستی کی واحد وجہ يہ ہے کہ ہم نے اس بنياد کو چھوڑ دياہے جسے تھامے رہنے ميں ہماری فتح وظفر کا راز پنہاں تھا ، اور يہ ايک مسلمہ حقيقت ہے کہ جب تک ايک چيز اپنی بنياد سے جڑی رہتی ہے اس کا وقار قائم رہتا ہے اور جب ہی اپنی بنياد کو چھوڑتی ہے پستی اس کا مقدر بن جاتی ہے‘ مثلاً آم کا پھل جب تک اپنی ڈاليوں سے لگا ہوتا ہے اونچائی پر ہوتاہے ليکن جب ڈالی کو چھوڑتاہے تو فوراً زمين پر آگرتاہے۔ يہی حال قوم مسلم كا ہے جس كي سربلندي ايمان پرموقوف ہے ۔ اللہ تعالی نے فرمابا : ﴿تم ہی سربلند رہوگے بشرطيکہ تم مومن رہو ۔ سربلندی کے ليےايمان کی شرط رکھی گئی ہے ۔گويا اگر تمہارے اندر سے ايمان گيا تو تمہارے اندر پستی آجائے گی ، دشمنان اسلام تمہارے خلاف جری ہوجائيں گے اور وہ تمہيں لقمہ تر بناليں گے ....آج حضور پاک کی يہ پيشين گوئی ہمارے حال پر صد فيصد صادق آتی ہے:
” ايک وقت ايسا آنے والا ہے جب دوسری قوميں تم پراس طرح ٹوٹ پڑيں گی جس طرح کھانے والے دسترخوان پر ٹوٹتے ہيں کسی نے پوچھا : يا رسول اللہ ! کيا اس وقت ہماری تعداد کم ہوگی کہ دوسری قوميں ہمارے خلاف متحد ہو جائيں گی ؟ ارشاد فرمايا : نہيں ‘ اس وقت تمہاری تعداد کم نہ ہوگی البتہ تم سيلاب ميں بہنے والے تنکوں کی طرح بے وزن ہوگے ، تمہارا رعب نکل جائے گا اور تمہارے دلوں ميں بزدلی پيدا ہوجائے گی ۔ (يہ سن کر ) کسی نے پوچھا: يارسول اللہ ! بزد لی کيوں پيداہوجائے گی؟ آپ نے فرمايا : اس ليےکہ تم دنيا سے محبت کرنے لگوگے اور موت سے نفرت کرنے لگوگے“ (ابو داود)
واقعہ يہ ہے کہ آج ہم دين سے دورہونے کے باعث ہی ہرجگہ ذليل وخوار ہو رہے ہيں ، ورنہ تاريخ نے وہ دور بھی ديکھا ہے کہ اہل ايمان کی مٹھی بھر جماعت نے کفرکے ايوانوں ميں کلمہ حق بلند کيا تھا، وقت کی سپر پاور طاقت قيصر وکسری كو تاراج کيا تھا، اور چہار دانگ عالم ميں اپنی فتح وظفر کا پرچم لہرايا تھا،اسلام کے ان سورماون ني جب دنبا کو قدموں سے ٹھکرايا تودنيا اُن کی کنيز بنی ، ليکن آج ہم نے دنيااور اس کی رعنائيوں ميں عزت ڈھونڈنے کی کوشش کی توہميںذلت و رسوائی نصيب ہوئی ۔
لہذا سال نو کا پيغام يہ ہے کہ اگر ہم تاجر ہيں تو اپنے مال کا جائزہ ليں کہ اس ميں حرام کی آميزش تو نہيں ، اگر ہم ملازم ہيں تو اپنی ڈيوٹی کا جائزہ ليں کہ ہم اِس ميں کوتاہی تو نہيں کر رہے ہيں ۔ اگر ہم مدرس ہيں تو اپنی ذمہ داری کا جائزہ ليں کہ ہم کس حد تک امانت کی ادائيگی کر رہے ہيں، اگر ہم داعی ہيں تو اپنی دعوت کا جائزہ ليں کہ کس حد تک اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآہوئے ہيں۔ اورمجموعی طورپر يہ بات ياد رکھيں کہ ہماری دنيوی واخروی سربلندی پوشيدہ ہے ايمان ميں ، يقين ميں، اور اتباع کتاب وسنت ميں .... دانا وہی ہے جو اپنے احوال کی اصلاح ميں لگ جائے ۔ تو غفلت کب تک اور سستی تابکے ؟ سالِ نو کی آمد پر اپنے نفس کا محاسبہ کريں ، اپنے معمولات پر نظر ثانی کريں اور اپنی زندگی کا نيا صفحہ کھوليںضرورہمارے دنيوی واخروی مسائل حل ہونگے

فضائے بدر پيدا کر فرشتے تيری نصرت کو
اُترسکتے ہيں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔