بدھ, مارچ 09, 2011

کھلتی کليوں کی حفاظت کيجئے


اگراللہ تعالی نے آپ کو اولاد جيسی نعمت سے مالامال کر رکھاہے،  توآپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے گلشن حيات کے ان کھلتی کليوں کی نگہبانی کريں، ايسی نگہبانی کہ ہميشہ شگفتہ رہيں اور ان ميں کمہلاپن نہ آنے پائے ۔ اگر يہ کلياں آپ کی آنکھوں کے سامنے ہيں تو زہے خوب، تاہم ان کی دينی وروحانی تربيت کی طرف دھيان دينے کی اشد ضرورت ہے، عصری تعليم کے ساتھ  ساتھ ان کے دينی تعليم کا بھی اہتمام ہونا چاہيے ، بفضلہ تعالی کويت کے ہرعلاقے ميں مساجد کے اندر حفظ قرآن کے حلقے پائے جاتے ہيں، جن کی کارگزارياں قابل ستائش ہيں، اور خوش آئند بات يہ ہے کہ بيشتر والدين اپنے بچوں کے تئيں ذمہ داری کا شعور رکھتے ہيں، اور اس کی طرف خاطرخواہ پيش رفت فرمارہے ہيں۔ اللہ تعالی انہيں مزيد بال وپرعطا فرمائے آمين۔ تاہم گھرکا ماحول بھی دينی ہونا چاہيے تاکہ بچوں کی روحانی تربيت ہوتی رہے کيوں کہ آج کے يہی بچے کل کے معمارِقوم وملت بننے والے ہيں۔

اگرآپ کے بچے آپ کی آنکھوں سے دور ہيں تو ان کی تربيت کی ساری ذمہ داری ماں پر عائد ہوتی ہے ،بچوں کی تربيت ميں ماں کا کليدی رول ہوتا ہے، تاہم قدم قدم پر باپ کے سايہ کی ضرورت پڑتی ہے، اگر وطن سے دور ہونے کے باعث بچے آپ کے سايہ شفقت سے محروم ہيں تو کم ازکم فون پر ان سے باتيں کرتے رہيں، انہيں ماں کی اہميت کا احساس دلاتے رہيں، اور ماں کو بھی بچوں کی تربيت پر خصوصی دھيان دلائيں۔
ليکن حقائق يہ بتاتے ہيں کہ بيشتر تارکين وطن اقتصادی حالت اچھی ہونے کے باوجود اپنے بچوں کی تربيت ميں ناکام ثابت ہورہے ہيں، جس کے باعث ان کے بچے زندگی کے ميدان ميں پيچھے رہنے کے ساتھ ساتھ اخلاقی انحراف کے شکار ہو جاتے ہيں، حالاں کہ ہونا يہ چاہئے تھا کہ اگروہ  وطن سے دور ہيں تو بيوی کو بچے کی دينی تربيت کرنے اور انہيں بُری صحبت سے دور رکھنے کی بار بار تاکيد کرتے رہتے۔
پرديسی بھائی! ماں اگرتعليم يافتہ اور ديندار ہوتو بچوں کی خاطرخواہ تربيت کرسکتی ہے، تاريخ ميں کتنی ايسی مائيں ملتی ہيں جن کی کوششوں سے ان کے بچے کاميابی کے بامِ عروج تک پہنچے۔
سفيان ثوری رحمه الله کی ماں اپنے فقروفاقہ کے باوجود ان کی تعليم کے ليے سوت کات کات کررقم جمع کرتی تھيں تاکہ يکسوئی کے ساتھ علم حاصل کرسکے، گاہے بگاہے نصيحت بھی کرتی تھيں ايک مرتبہ ماں نے فرمايا:
”بيٹا! جب تم دس حرف لکھ  چکوتو يہ غورکروکہ کيا تمہاری خشيت، برد باری اور وقار ميں اضافہ ہوا؟  اگرايسا نہ ہوسکا تو سمجھ لوکہ يہ علم تيرے ليے نقصاندہ ہے، نفع بخش نہيں“۔
اوريہ امام مالک رحمه الله کے استاد ربيعہ الرای رحمه الله ہيں جوابھی بچے تھے تو ان کے والد تيس ہزاردينار انپی بيوی کے پاس چھوڑکرپرديس کسی مہم پر نکل گئے، نيک بيوی ساری رقم ربيعہ کی تعليم وتربيت ميں صرف کرکے انہيں علامہ  زماں بناديتی ہے۔ جب ايک عرصہ کے بعد باپ گھرپہنچتا ہے تو يہ ديکھ  کراللہ کا شکربجالاتاہے کہ بيٹا مرجع خلائق بنا ہوا ہے۔  

بچپن ميں بچہ کورا کاغذ کی مانند ہوتا ہے جس پر جونقش ڈالا جاتا ہے ثبت ہوجاتا ہے۔  جب ان قيمتی لمحات ميں لاپرواہی برتی جاتی ہے تو بچوں کے اندر شروفساد کا در آنا يقينی ہوجاتا ہے۔  بعض دفعہ بچے جب غلطی کرتے ہيں تو مائيں بچوں کو متنبہ کرنے کی بجائے شاباس کہتی ہيں نتيجة بچہ غلطی کو اچھا سمجھ  کرسرانجام دينے لگتا ہے اور يہی عادت بچے کو جوانی کے بعد غلط راستے پر ڈال ديتی ہے:

خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثريا می رود ديوار کج
”اگرمعمار پہلی اينٹ ٹيڑھی رکھ دے تو ثريا تک بھی ديوار چلی جائے ٹيڑھی ہی ہوگی“۔ لہذا والدين کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی علمی وروحانی تربيت کواپنا اوليں فريضہ سمجھيں :
٭  بچپن سے ہی بچوں کے اندر دينی روح پيدا کريں، انہيں شہادتين کی صحيح ادائيگی، اور اس کے معانی ومفاہيم سے آگاہ کريں۔
٭ بچہ ہويا بچی دونوں کے ليے نماز کی تعليم وتربيت کی ابتداء بچپن ہی سے کرديں، بچے جب سات سال کے ہوجائيں توانہيں نماز کا حکم ديں، اور دس سال کے ہوجائيں تو نماز نہ پڑھنے پر ان کی سرزنش کريں، اور ان کا بستر الگ کرديں۔(احمد)
٭ بچوں کو گالی گلوچ، لعن طعن اور فضول وگھٹيا قسم کی باتوں سے خبردار کرتے رہيں اور قولی وعملی اعتبار سے انہيں سچائی کا عادی بنائيں۔
٭ بچی کو بچپن ہی سے اپنے جسم کوڈھانپ کر رکھنے کی تلقين کريں تاکہ بلوغت کی عمرکوپہنچنے تک وہ ساتر لباس پہننے کی عادی ہوچکی ہو۔
٭ اپنی اولاد کے احوال پر باريکی سے نظر رکھيں‘ ان کے دوست کون ہيں؟ ان کے گھر کے باہر کی مصروفيات کيا ہيں؟  ان کے اکثراوقات کن کے ساتھ گذرتے ہيں؟ ان کی آمد و رفت کہاں کہاں ہوتی ہے؟ وغيرہ وغيرہ۔
٭ اپنے بچوں کے ليے نمونہ بنيں اور اپنے گفتار وکردار پر دھيان رکھيں ورنہ:
 إذَا کَا نَ رَبُّ البَيتِ بِالطَّبلِ ضَارِباً
 فَلَا تَلُمِ الاَولَادَ فِيہِ عَلٰی الرَّقصِ
”جب گھرکا مالک طبلہ بجا رہاہو تو اس ميں بچوں کے رقص کرنے پرانہيں ملامت مت کرو“ ۔
کيوں کہ بچوں کی نظرميں اچھائی وہ ہوتی ہے جسے والدين انجام ديتے ہيں اور ہروہ چيز ان کی نگاہ ميں گھٹيا ہوتی ہے جس کے ارتکاب سے وہ احتراز کرتے ہيں۔
مجھے اس مناسبت سے ايک بچے کا وہ جواب ياد آرہا ہے جس نے دروازے پر دستک دينے والے کسی قريبی رشتہ دار کے ليے دروازہ کھولتے ہوئے کہا تھا: 
”چچاجان! ابّوجان نے کہا ہے کہ کہہ دو ابّوگھر پر نہيں ہيں “....۔ 
ديکھا آپ نے !کتنی معصوميت کے ساتھ بچے نے اپنے باپ کے جھوٹ کو رشتے دار کے سامنے ہوبہونقل کرديا اور باپ کی سبکی ہوئی۔

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔