جمعرات, مارچ 18, 2010

انسان خسارے میں ہے

والعصر إن الإنسان لفي خسر إلا الذين آمنوا وعملوا الصالحات وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر  (سورة العصر)

ترجمہ :زمانے کی قسم !بے شک انسان گھاٹے میں ہے ۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک کام کیے اور ایک دوسرے کو ( ایمان اور عمل صالح کی ) نصیحت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی “ ۔

تشریح : یہ سورہ بے پناہ اہمیت کی حامل اور عظمت والی سورہ ہے ۔ امام شافعی رحمه الله  فرماتے ہیں” اگر لوگ اس سورہ کوبغورپڑھیں اور سمجھیں تو ان کے لیے یہی سورہ کافی ہے“۔
 امام ابن قیم رحمه الله  مفتاح دار السعادة میں اس سورہ کی تشریح کرتے ہوے فرماتے ہیں :
 ” یہ سورہ چار باتوں پر مشتمل ہے ۔ سب سے پہلی بات علم ، جس سے حق کی معرفت حاصل ہوتی ہے ، مومن جانتا ہے کہ اللہ حق ہے ، اس کا وعدہ حق ہے ، اس کا رسول حق ہے ، اس کی ملاقات حق ہے ، فرشتے حق ہیں، انبیاءحق ہیں، جنت حق ہے، جہنم حق ہے ، پھر اس کے مطابق عمل کرتا ہے پھر لوگوں کو اس کی طرف بلاتا ہے اور علم عمل اور تعلیم پر صبر کرتا ہے ۔ یہ (علم ،عمل،تعلیم اورصبر) چارچیزیں ہوئیں ‘ جب انسان ان کو مکمل کرلیتا ہے تو وہ اپنی ذات کی تکمیل کرلیتا اور دوسروں کوبھی مکمل کرنے والا بن جاتا ہے “۔
 چنانچہ اللہ پاک نے اس سورہ میں زمانے کی قسم کھاکر کہاکہ اس دنیا میں سارے انسان گھاٹے ،خسارے اور ٹوٹے میں ہيں۔ زمانہ تین طرح کا ہوتا ہے ماضی حال اور مستقبل ‘ گویا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ سارے انسان خسارے میں تھے ،خسارے میں ہیں اور خسارے میں رہیں گے ۔ تاہم اس خسارے اور گھاٹے سے صرف وہی لوگ محفوظ ہیں جو ان چار صفات کے حامل ہیں۔
 (۱) (۲) اللہ پر پختہ ایمان ، اوراس ایمان کے مطابق عمل صالح : ایمان کے ساتھ عمل ہرانسان سے مطلوب ہے ، ایمان اور عمل دونوں کا بہت گہرا تعلق ہے ،ایمان کی تصدیق عمل ہی کرتا ہے،اور عمل کی قبولیت کے لیے ایمان لازم ہے ۔ اسی لیے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں مختلف مقامات پر دونوں کا ایک ساتھ ذکر کیا ہے جیسے ” جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کیا، وہی لوگ جنتی ہوں گے، اس میں ہمیشہ رہیں گے“ ( البقرة : ۲۸) اس معنی کی متعدد آیات آئی ہیں-
 عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی     
یہ خاکی اپنی فطرت میںنہ نوری ہے نہ ناری ہے
 (۳)حق کی وصیت :ایمان وعمل کے بعد اس امت کی بنیادی صفت ایمان وعمل کی طرف دعوت ہے،اوراسی بنیاد پر اس امت کو خیرامت کا لقب دیا گیا ہے کہ یہ امت محض اپنی اصلاح پراکتفانہیں کرتی بلکہ افراد اورمعاشرے کی اصلاح کی بھی فکرمند ہوتی اوراس کے لیے بے چین رہتی ہے۔ ( آل عمران :110 )
 (۴)صبر کی وصیت : دعوت واصلاح کا کام بڑا صبرآزماہوتا ہے ،اس راہ میں پھولوں کی سیج نہیں بچھائی جاتی بلکہ کانٹوں سے مقابلہ کرنا پڑتاہے ،اس لیے دعوت کی راہ میں آنے والی مصیبتوں اورپریشانیوں کوخندہ پیشانی سے انگیز کرنابندہ  مومن سے مطلوب ہے ۔ جس شخص کے اندر یہ چار صفات پیدا ہوگئے حقیقت میں وہی کامیاب ہے ۔

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔