بدھ, اپریل 03, 2013

جنت کے وارث



والذین ہُم لأمانَاتہم وعَہدہم راعُون، والذین ہُم علی صلواتہم یُحافظون أولئک ہم الوارثون، الذین یرِثون الفردوس ہُم فیہا خالدُون ( المومنون ۸۔۱۱ )

ترجمہ : جو اپنی امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرتے ہیں، جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں، یہی وارث ہیں جو فردوس کے وارث ہوں گے ، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔

تشریح : سورة المومنون کی ابتدائی دس آیات میں جنت کے وارث ہونے والوں کے آٹھ  صفات بیان کيے گيے ہیں(1) نمازوں میں خشوع وخضوع (2) لغویات سے پرہیز (3) زکاة کی ادائیگی (4) شرمگاہو ں کی حفاظت (5) امانتوں کا پاس ولحاظ (6) ایفاے عہد (7) نمازوں کی نگہبانی ۔
 پھربتایا گیاکہ ان مذ کورہ صفات کے حامل مومن ہی فلاح یاب ہوں گے، جو بہشت کی پرکیف نعمتوں کے حقدار بنیں گے ۔ جنت بھی جنت الفردوس  جو جنت کا اعلی حصہ ہے جہاں سے جنت کی نہریں جاری ہوتی ہیں ۔
زیرنظر آیات میں ادائیگی امانت، ایفاے عہد اور نمازوں کی محافظت جيسے تین اہم صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ امانت کی ادائیگی اور وعدے کا لحاظ رکھنا مومنوں کی خاص علامت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو امانت دار نہیں اس کے دین کا کوئی اعتبار نہیں اور جو وعدہ کر کے پورا نہیں کرتا اس کا ایمان قابل قبول نہیں۔  مومن کی یہ خوبی ہے کہ جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو وہ اس میں خیانت نہیں کرتا خواہ اس میں اس کا کتنا بھی نقصان ہو جائے۔ امانت صرف رقم یا کوئی چیز ہی نہیں ہوتی بلکہ بات اور مجلس بھی امانت ہوتی ہے۔ لہٰذا اللہ کا قرب اور کامیابی حاصل کرنے کے ليے امانت اور وعدے کا لحاظ کیاجائے۔ امانت میں خیانت اور وعدہ پورا نہ کرنا منافق کی علامت ہے۔
مومن جس سے جو بھی وعدہ کرتا ہے اسے پورا کرتا ہے اس ليے کہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ وعدے پورے کرو۔ امانت اور وعدے کی پاسداری کے ساتھ  ساتھ  مومن اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ نماز کی حفاظت کا مفہوم یہ ہے کہ پانچوں نمازیں مقررہ اوقات پر سنت نبوی کے مطابق ادا کرنا ، جو اپنی نمازوں کی حفاظت نہیں کرتے۔ ان کے ليے اللہ نے جہنم کی ویل وادی میں داخلے کی خبر دی ہے یا انہیں ہلاکت سے ڈرایا ہے۔ امانت میں خیانت نہ کرنے والے اور اپنے کيے ہوئے وعدے کا پاس کرنے والے جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ان کے ليے جنت میں داخلے کی بشارت کے ساتھ ساتھ یہ خوشخبری بھی دی جا رہی ہے کہ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ جنت میں ایسی ایسی نعمتیں ہیں جن کا تصور بھی ذہن میں نہیں آیا۔ اس مقام پر ہمیشہ رہنا بڑی ہی سعادت کی بات ہے۔

لیکن افسوس کہ آج یہ صفات مسلمانوں کی اکثریت سے عنقا نظر آتی ہیں، کہاں گئی امانت کی ادائیگی ؟ کہاں گیا ایفاے عہد؟ اور کہاں گئی نمازوں کی محافظت؟  کسی سے امانت لے لی اور ٹال مٹول کرتے رہے، کسی سے معاملہ کرلیا اور نظرانداز کرتے رہے،  وعدہ کرلیا اور وعدہ خلافی میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کی ۔ ہم تو مسلمان ہیں نا ....ہماری ایک پہچان ہونی چاہيے، ہمیں دوسروں کے ليے نمونہ بننا چاہيے، آج غیرمسلم ہمیں معاملات میں کوتا ہ سمجھ  کر ہی اسلام سے متعلق شک میں مبتلا ہیں، اسلام مکمل نظام حیات ہے، اسے پوری طرح زندگی میں اتارنے کی ضرورت ہے ،


0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔