بدھ, مئی 15, 2013

تجھ سا كوئى نہ ديكها


ہرقوم اورمذہب میں اخلاقیات کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ ہرمذہب اپنے ماننے والوں کو اچھے اخلاق کا پیکر بنانا چاہتا ہے ۔ قوموں اورملکوں کی ترقی میں بھی اخلا ق کا بنیادی رول ہے ۔ قومیں اپنے اخلاق کی بنیاد پر باقی رہتی ہیں اگران کا اخلاق جاتا رہا تو وہ خودبخود مٹ جاتی ہیں ۔ آج ہم اسی اخلاق کے بارے میں بات کریں گے ….لیکن یہ اخلاق ہوں گے ایک نبی کے …. اورایسے نبی کے جن کو صرف عربوں کے لیے نہیں….صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ….بلکہ پوری انسانیت کے لیے بھیجا گیا تھا ۔ ….جن کو حسن اخلاق کی تکمیل کے لیے ہی بھیجا گیا ۔ جن کے اخلاق کی گواہی خود اللہ پاک نے دی:
وَإِنّكَ لَعَلَىَ خُلُقٍ عَظِيمٍ  (القلم 4 )  
" آپ بہت عمدہ اخلاق پر ہیں" ۔
چنانچہ آپ جب اس نبی کے اخلاق کا مطالعہ کریں گے تو واقعی پائیں گے کہ ان کے جیسا اخلاق کا مالک انسان نہ كبهى دهرتى پر پیدا ہوا اورنہ كل قيامت كے دن تك ہوسکتا ہے ۔ آپ صلى الله عليه وسلم کی نشوونما یتیمی کے سایے میں ہوئی، اس کے باوجود آپ ہوش سنبھالتے ہیں اعلی اقدار کے دلدادہ ہوگئے ۔ صلہ رحمی کرتے ، غریبوں کی مدد کرتے، بیکسوں کی دست گیری کرتے ۔ نیکی ، پاکبازی ، امانت داری اور سچائی میں مشہور تھے ۔ لوگوں نے آپ کو صادق اور امین کا لقب دے رکھا تھا۔
آپ صلى الله عليه وسلم کے اند رحد درجہ کی خاکساری اور انکساری تھی ، آپ اپنے جوتے خود ٹانکتے ،اپنے کپڑے خود سیتے، اپنی بکری خود دوہتے اور اپنا کام خود کرلیا کرتے تھے ۔ کوئی ملتا تو اسے سلام کرنے میں پیش قدمی کرتے ، یہاں تک کہ بچوں کے پاس سے بھی آپ کا گذر ہوتا تو آپ ان کو بهى سلام کرتے، مصافحہ کے لیے بھی پہلے ہاتھ بڑھاتے، اوراپنا ہاتھ اس وقت تک نہ کھینچتے جب تک کہ وہ خود کھینچ نہ لے ۔ کوئی دعوت دیتا تو اس کی دعوت قبول کرتے ، آپ صلى الله عليه وسلم کی خاکساری کا یہ عالم تھا کہ اپنے خادم کو کبھی اُف تک نہ کہا ۔ نہ کسی کو اپنے ہاتھ سے کبھی مارا ۔ نہ بیوی کو نہ نوکر کو …. آپ کی ذات عفو ودرگذر کا نمونہ تھی ۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے کبھی بھی اپنے نفس کے لیے کسی سے بدلہ نہیں لیا …. یہاں تک کہ مکہ پر فتح پانے کے بعد ان دشمنوں کی بھی عام معافی کا اعلان کردیا جنہوں نے مسلسل اکیس سال تک ستایا، پریشان کیا، جانیں لیں اورجینا دوبھر کردیا تھا ۔
آپ صلى الله عليه وسلم نہایت حیادار اورپست نگاہ تھے ۔ پردہ نشین کنواری دوشیزاؤں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے ۔ آپ صلى الله عليه وسلم اس کثرت سے عبادت کرتے کہ پاؤں مبارک میں ورم آجاتا لیکن اس کے باوجود رہبانیت اور جوگی پن کو پسند نہیں کرتے تھے ۔ آپ صلى الله عليه وسلم دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو ناپسند کرتے تھے لیکن جب آپ کی خدمت میں سائل آجاتا تو اسے کبھی "نا" میں جواب نہ دیتے تھے ۔

زہدواستغنا اس قدر کہ آپ کا گھر نہایت تنگ ہے ۔ بستر ایسا ہے کہ جس میں کھجورکی چھال بھری ہوئی ہے ۔عائشہ رضى الله عنها فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے کبھی پیٹ بھر کر نہیں کھایا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بھوک کی وجہ سے آپ کو رات بھر نیند نہ آتی ۔ یہ زہد کوئی اضطراری نہیں بلکہ اختیاری تھا ۔ مسند احمد اورترمذی کی روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ترے رب نے میرے لیے یہ پیش کیا کہ مکہ کے پہاڑوں کو سونے کا پہاڑ بنادے ۔ میں نے کہا :
لا یا رب ولکن أشبع یوما وأجوع یوما (مسند احمد، سنن ترمذى)
" نہیں میرے رب میری خواہش یہ ہے کہ ایک دن کھانے کو ملے اورایک دن بھوکا رہوں۔" لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ خشک مزاج اور رہبانیت پسند تھے ۔ آپ دنیا سے بے پرواہ ضرور تھے لیکن تارک دنیا نہیں تھے ۔ اپنی بیویوں کے حقوق بھی ادا کرتے اورفرماتے:
خیرکم خیرکم لأھلہ وأنا خیرکم لأھلی ۔(سنن ترمذى)
" تم میں بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بہتر ہواور میں اپنے اہل خانہ کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں۔"

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔