منگل, اپریل 12, 2011

تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب


تجلیات کے اس کالم میں آج ہم اُس دھرتی کی تصویرکشی کرنے بیٹھے ہیں جس پر ہمارے آباءواجداد نے دس سو سالوں تک حکومت کی ،اُسے سجایا سنوارا اور سونے کی چڑیا بنایا، جب اس دھرتی پرسیاہ فام انگریزوں کا تسلط ہوا تو قوم مسلم کے سورماؤں نے اپنی جان ومال کی قربانیاں پیش کیں، دارورسن کے پھندے چومے ،اور تن کے گوروں اور من کے کالوں سے وطن عزیز کو آزاد کرایا ۔
 آزادی کا سورج طلوع ہونے کے بعد جمہوریت کے سایہ تلے چند سالوں تک مسلمانوں کا وقار بحال رہا لیکن رفتہ رفتہ اس ملک پر اعلی طبقوں کا قبضہ ہوتا گیا‘جو اسلام واہل اسلام سے خارکھاتے تھے،اب کیا تھا ؟ فسطائی ذہنیت کا لاوا پھوٹنے لگا،فرقہ واریت کے اژدہے پھن پھیلانے لگے ، ہندتو کے نعرے بلند ہونے لگے ، ہندواحیاء پرستی کے جذبے سے ان کی فسطائی تنظیمیں سرگرم ہوگئیں ۔ یہی چند مٹھی بھر جماعت ہے جو60 ساٹھ سالوں سے مسلمانوں کے ناک میں دم کیے ہوئی ہے ،اگر یہاں کی اکثریت جمہوریت پسندنہ ہوتی تو نہ جانے کب یہ مسلمانوں کا بستر گول کردیے ہوتے ، یہودی ذہنیت کی حامل اس قوم نے ملک کے کونے کونے میں سیکڑوں مسلم کش فسادات کرائے جن کے ذکر کا یہاں موقع نہیں ہم تو حال کا تجزیہ پیش کرنا چاہتے ہیں کہ اقتدار میں نہ ہونے کے باوجود اس قوم نے اقلیتی طبقوں کے خلاف کیا کیا گل کھلائے ہیں ۔

خواتین ریزرویشن بل :

حالیہ دنوں راجیہ سبھا نے خواتین ریزرویشن بل پاس کردیا ہے جس کے مطابق 33 فیصد خواتین ریزرویشن کی حقدار ہوںگی ،یہ مسلمانوں کے خلاف فرقہ پرستوں کی ایک خطرناک سازش ہے ، پچھلے دنوں کچھ اسلام پسند مسلمانوں کوایوان میں نمائندگی ملی تواس سے ان کو خطرہ محسوس ہونے لگا کہ اگر مسلمانوںاوراقلیتی طبقہ کے لوگوں کو یوں ہی موقع ملتا رہا تو یہ سیاست پر حاوی ہوجائیں گے ۔اس لیے کسی طرح اس بل کو پاس کرانا ضروری سمجھا ، ریزرویشن کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں مسلمانوں کی فی الحال جوبرائے نام نمائندگی پائی جاتی ہے وہ بھی ختم ہوجائے گی ۔ ظاہر ہے کہ جن حلقوں سے مسلم لیڈروں کے جیتنے کی توقع کی جا سکتی تھی وہ حلقے خواتین کے لیے خاص کردیے جائیں گے ، جیسا کہ پنچایتوں میں اس کا تلخ تجربہ ہوچکا ہے ، اگرایسا ہوا توان مخصوص حلقوں سے اونچے طبقے کی خواتین ہی پارلیمنٹ میں نمائندہ بن کر آئیں گی کیونکہ مسلم خواتین کاتو سیاست میں کوئی عمل دخل ہے نہیں.... اس طرح مسلمانوں کو سیاست سے پوری طرح واک آؤٹ کردیا جائے گا....پھر مسلمانوں کے مسائل حکومت کے پاس پیش کرنے والا بھی کوئی نہ بچے گا۔ یہ ہے فرقہ پرستوں کی سوچی سمجھی پلاننگ جسے کانگریس بھی منوانے پر تلی ہوئی ہے ۔

 تعلیمی اداروں کے خلاف سازش :

آزادی کے بعد مسلم قائدین نے اقلیتوں کے تحفظ کے لیے دینی مدارس کے ساتھ ساتھ عصری تعلیمی ادارے قائم کیے جوبرابرفرقہ پرستوں کے نشانے پر رہے،دینی مدارس پردہشت گردی کے الزامات تراشے گئے،اس میں کامیابی نہ مل سکی تو مرکزی مدرسہ بورڈ کی پلاننگ ہونے لگی جب یہاں بھی منہ کی کھانا پڑی تو اقلیتی کردار کے عصری تعلیمی ادارے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی وغیرہ میں اکثریتی فرقہ کے طلبہ وطالبات کو خوب سے خوب جگہیں دی جانے لگیں ،جس ادارے کو مسلم علماءوقائدین نے اپنے خون پسینے سے سینچا تھا انہیں اکثریتی طبقہ کے طلبہ وطالبات کی آماجگاہ بنادیا جائے تو کیا یہ اپنے گھر میں حصہ داربنانے کی بات نہ ہوگی ؟ حالیہ دنوں مسلم قائدین اس سلسلے میں پُرامن احتجاج کررہے ہیں اور حکومت سے ۰۵ فیصد کی حصہ داری کا حق مانگ رہے ہیں ....

دوہرا معیار :

بنگلہ دیش کی شاتم رسول مصنفہ تسلیمہ نسرین جس نے اسلام اور مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کیا اور اب تک کرتی آرہی ہے اسے فن اور فنکار کی حمایت کے نام پر گذشتہ دس سالوں سے حکومت نے پناہ دے رکھا ہے لیکن جب عالمی شہرت یافتہ آرٹسٹ مقبول فدا حسین نے ہندومورتیوں کی ننگی تصویریں بنائیں (جسکی توہین کے وہ خود عادی ہیں جبکہ اسلام کسی کے معبود کی توہین کی قطعاً اجازت نہیں دیتا ) تو آسمان سر پر اٹھا لیا گیا ،اس کے سر کی بولی لگائی جانے لگی ،اس کے لیے زمین تنگ کردی گئی ،اور راتوں رات جلاوطنی پر مجبور کر دیا گیا،عرصہ سے وطن لوٹنے کی منت سماجت کے باوجود جب کوئی شنوائی نہ ہوئی تو چنددنوں قبل حکومت قطر نے اس عالمی شہرت یافتہ آرٹسٹ کواپنے ملک کی شہریت عطا کرکے اس کے فن کی قدر کی ہے ۔
 پس چہ باید کرد: یہ ہیں حالیہ چند مثالیں جن سے ایک خاص طبقے کی ذہنیت طشت ازبام ہوکر سامنے آتی ہے،اوراسی سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مستقبل میں ان کے عزائم کسقدر خطرناک ہیں ۔لیکن ہم مسلمان ہیں ، ہمیں اپنے اسلام پر فخر ہے ، ہم میں کا ہرفرد ایک ذمہ دار ہستی ہے ، اس لیے ہمیں ظلمت شب سے ہراساں ہونے کی ضرورت نہیں 

تندی بادمخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

ہمیں شاہین صفت بننا ہے ، اپنے معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھانا ہے ، نئی نسل کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے ، برادران وطن میں دعوتی کاز کو وسعت دینی ہے ، مسلکی اختلافات سے اوپر اٹھنا ہے اور متحد ہوکر اپنی عظمت رفتہ کی بازیافت کرنی ہے .... ہمت سے بولو ان شاء اللہ

        

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔