جمعہ, جولائی 12, 2013

انسان غلطی کا پتلہ ہے


انسان غلطی کا پتلہ ہے، اس سے بارہاں غلطياں ہوتی ہيں ، اورکيوں نہ ہوں جبکہ انسان، نسيان سے نکلا ہے، بھول چوک اس کی شرست ميں داخل ہے ۔ پہلے انسان حضرت آدم و حوا عليہما السلام سے بھی غلطی ہوئی تھی ۔ اگر انسان ہے تو اس سے غلطياں ہوں گی ہی ۔ يہ تو فرشتوں کی صفت ہے کہ اُن سے غلطياں نہيں ہوتيں ۔
جس ذات رؤوف و رحيم نے انسان کی تخليق فرمائی تھی وہ جان رہا تھا کہ انسان غلطی کرے گا اِس ليے روز ازل سے ہرايک کے ليے توبہ کا دروازہ بھی کھول ديا، معافی مانگنے کی ترغيب دی، گنہگار بندوں کو پيار بھرے لہجے ميں معافی کا وعدہ ديا ۔
اس کا کرم ديکھو کہ ہررات سہ پہر ميں سماء دنيا پر اترتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ " ہے کوئی اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنے والا، کہ ہم اُس کے گناہوں کو معاف کر ديں..." ۔
اس کی دريا دلی ديکھو کہ فاسق وفاجر اور گناہوں ميں ڈوبے شخص پر بھی اپنی مغفرت کی برکھا برساتا ہے:
يا ابن آدم! إنک ما دعوتنی ورجوتنی غفرت لک علی ما کان منک ولا أبالی ، يا ابن آدم لو بلغت ذنوبک عنان السماء ثم استغفرت لی غفرت لک ولا أبالی-
"اے ابن آدم! جب تک تو مجھے پکارتا رہے گا اور مجھ سے اميد وابستہ رکھے گا، تو تو جس حالت پر بھی ہوگا ميں تجھے معاف کرتا رہوں گا ، اورميں کوئی پرواہ نہ کروں گا ۔ اے ابن آدم اگر تيرے گناہ آسمان تک پہنچ جائيں پھر تو مجھ سے معافی طلب کرے، تو ميں تجھے بخش دوں گا اور ميں کوئی پرواہ نہيں کروں گا"۔
اس کی سخاوت ديکھو کہ وہ پکارتا ہے:
” ميرے بندو! تم رات دن غلطياں کرتے ہو اور ميں سارے گناہوں کو بخشتا ہوں، ہم سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرو ميں تمہارے گناہوں کو معاف کردوں گا “
اس کی شفقت ديکھو کہ وہ اپنے گنہگار بندوں کو نااميد ہونے نہيں ديتا:
قل يا عبادی الذين أسرفوا علی أنفسھم لا تقنطوا من رحمة اللہ إن اللہ يغفرالذنوب جميعا إنہ ھو الغفور الرحيم.
آپ کہ ديجيے، اے ميرے بندو! جنہوں نے اپنے آپ پر ظلم کيا ہے اللہ کی رحمت سے نا اميد مت ہو، بيشک اللہ تعالی سارے گناہوں کو بخش دے گا، بےشک وہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے"۔
جب رب غفور رحيم کی معافی کا ٹھاٹھيں مارتا ہوا سمندر بہتا ہے تو بندے کے سارے گناہوں کو بہاکر لے جاتا ہے گو وہ زندگی بھر گناہوں کے دريا ميں ڈوبا رہا ۔ اس وقت شيطان اپنے سر پر مٹی ڈالنے لگتا ہے کہ ہائے ميری بربادی ! برسوں کی محنت اکارت گئی ، ہائے ميری ہلاکت! جس پر ساٹھ ستر سال تک وقت لگايا اسے چشم زدن ميں معاف کرديا گيا ۔
اس کی شان کريمی ديکھو کہ وہ معافی کے ليے بہانا ڈھونڈتا ہے، بنواسرائيل کی ايک فاحشہ عورت جس نے اپنی زندگی کے بيشتر ايام فسق وفجور اور جنسی انارکی ميں گذارا تھا ۔ ايک کتے کے پاس سے گذرتی ہے جو پياس کی شدت سے زمين ميں منہ رگڑ رہا تھا، اس کے دل ميں رحم آيا، کنويں ميں اُتری ،اپنے موزے کو پانی سے ترکيا، کنويں سے باہر آئی اور کتے کو سيراب کرديا ۔ اللہ تعالی کو اس کا يہ عمل اِس قدر پسند آيا کہ اس کے سارے گناہوں کو بخش ديا ۔
ايک آدمی راستے سے گذر رہا تھا کہ راستے ميں ايک خاردار ڈالی پڑی ديکھی ۔ اس نے کہا : بخدا ميں اسے ضرور مسلمانوں کے راستے سے دور کروں گا تاکہ اُنہيں تکليف نہ دے ۔ چنانچہ اُس نے اُسے اُٹھايا اور راستے سے ہٹا ديا۔ اللہ تعالی کو اُس کی يہ ادا پسند آگئی ، اُس کے گناہوں کو معاف کرديا اور اُسے آتش جہنم سے نجات دے دی۔
بندے سے جب کوئی فاش غلطی ہوجاتی ہے تو وہ معاشرے ميں سب کی نگاہوں سے گر جاتا ہے، اُسے اپنے وجود پر شرم آنے لگتی ہے ، وہ ذہنی الجھن اور پريشانی کا شکار ہوجاتا ہے ، بلکہ زمين اپنی وسعت کے باوجود اُس پر تنگ ہونے لگتی ہے ۔ ليکن جب ہی وہ اپنے خالق و مالک کےسامنے ہاتھ اُٹھاتا ہے ، شکستہ حال اور پراگندہ سر اپنے رب کو پکارتا ہے "يا رب يا رب" تو اُس پر اللہ تعالی کی رحمتيں جھوم کر برستی ہيں ۔ اللہ تعالی فرشتوں کو پکار کر کہتا ہے کہ فرشتو! ميرے بندے نے جان ليا کہ اُس کا کوئی رب ہے جو گناہوں پرمواخذہ کرتا ہے، اور گناہوں سے درگذر بھی کرتا ہے ۔ گواہ رہو! کہ ميں نے اپنے بندے کے گناہوں کو معاف کر ديا ۔ آخر بندے اور اللہ کے بيچ کون سی چيز حائل ہے ؟ ہمارے اور اللہ کے بيچ کوئی ترجمان نہيں ، کوئی پردہ حائل نہيں ، وہ توہمارے شہ رگ سے بھی زيادہ قريب ہے ۔
 پھراُس کی شان رحيمی ديکھو کہ وہ ہم سے توبہ کا سوال كرتا ہے ، شب و روز ميں دو مرتبہ اپنا ہاتھ پھيلاتا ہے تاکہ ہم توبہ كرليں:
إن اللہ يبسط يدہ بالليل ليتوب مسیئی النھار ويبسط يدہ بالنھار ليتوب مسئی الليل.
" اللہ تعالی رات ميں ہاتھ پھيلاتا ہے تاکہ دن ميں غلطی کرنے والا توبہ کرلے ، اور دن ميں ہاتھ پھيلاتا ہے تاکہ رات ميں غلطی کرنے والا توبہ کرلے"۔

ذرا تصور کرو! کيا وہ ہماری توبہ کا محتاج ہے ؟ کيا اسے ہماری عبادت کی ضرورت ہے ؟ نہيں ميرے بھائيو، ہرگزنہيں ! اگر پوری انسانيت بھی فاسق وفاجر ہوجائے تو اس کی بادشاہت ميں کوئی کمی نہيں آسکتی ۔ اور اگر پوری انسانيت بھی نيک وپرہيزگار بن جائے تو اس کی بادشاہت ميں کوئی زيادتی نہيں ہوسکتی ۔۔۔ ہاں وہ ہماری بھلائی چاہتا ہے۔۔۔ ہماری نجات چاہتا ہے ۔۔۔ ہميں قطرہ آب سے پيدا کيا ، ہر طرح کی نعمتوں سے مالامال کيا ، اورمسلسل کر رہا ہے اور ہم ہيں کہ اس کے حکموں کو پامال کر رہے ہيں ليکن اس کا ظرف ديکھو کہ وہ بخشنے کے ليے قرار ہے
 صحيح حديث ميں آتا ہے کہ اللہ تعالی قيامت کے دن بندے کو اپنے قريب کرے گا،اس پر اپنا بازو رکھے گا ، اورآہستہ سے اس سے پوچھے گا جسے اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا نہ سن سکے گا :
" ميرے بندے ! تم نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں کام کيا ؟ بندہ کہے گا : ہاں يا رب ۔ اللہ تعالی پھر پوچھے گا : ميرے بندے ! تم نے فلاں فلاں دن ، فلاں فلاں کام کيا ؟ بندہ کہے گا : ہاں يا رب ۔
يہاں تک کہ جب سارے عيوب کھل جائيں گے ، گناہوں کے پردے چاک ہو جائيں گے اور بندہ گھبڑا جائے گا تو رحيم و شفيق پروردگار فرمائے گا : عبدی سترتھا عليک فی الدنيا وھا أنا أسترھا عليک اليوم
"ميرے بندے ! ميں دنيا ميں تمہارے گناہوں پر پردہ ڈالے رکھا اور آج بھی اس پر پردہ ڈال دے رہا ہوں"۔ اِس طرح اللہ رب العالمين اپنی رحمت کاملہ سے اسے ڈھانپ لے گا اور اور اس کے گناہوں کو معاف کرکے جنت ميں جگہ نصيب کرے گا ۔
 جب اللہ رب العالمين اس قدر رحيم و شفيق ہے ۔ گناہوں سے درگذر کرنے والا ہے ۔ معافی کو پسند کرتا ہے توآخر ہم کيوں نا اپنے گناہوں سے معافی مانگ ليتے ۔ کيوں نا اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ، ابھی ہم نہايت عظمت و برکت والے ايام سے گذر رہے ہيں ، عہد نبوی ميں بنوقضاعہ کے دوشخصوں نے بيک وقت اسلام قبول کيا ان ميں سے ايک نے جام شہادت نوش کر ليا جبکہ دوسرے نے ايک سال بعد وفات پائی ۔حضرت طلحہ بن عبيداللہ رضي الله عنه نے اخير ميں وفات پانے والے کو خواب ميں ديکھا کہ وہ اپنے ساتھی سے پہلے جنت ميں داخل ہو چکے ہيں ، يہ منظرديکھ کر آپ کو بہت تعجب ہوا ، لوگوں کوبھی حيرت آنے لگی ۔ جب اللہ کے رسول سے اُس کا ذکر کيا گيا تو آپ نے فرمايا : أليس قد صام رمضان وصلی کذا وکذا رکعة صلاة سنة (رواہ أحمد وحسنہ الألبانی ) کيا ايسا نہيں ہے کہ اُس نے رمضان کے روزے رکھے اور سال بھر اِتنی اِتنی رکعات نمازيں ادا کی ۔ اور ايک دوسری روايت ميں يہ زيادتی آئی ہے کہ اُن دونوں کے بيچ ميں آسمان اور زمين کا فرق ہے ۔ ( سنن ابن ماجہ ، ابن حبان )
سبحان اللہ ! ايک سال بعد وفات پاتے ہيں تو اپنے مجاہد ساتھی پر فوقيت لے جاتے ہيں ۔ کيوں ؟ اسلئے کہ انہوں نے مزيد ايک رمضان پايا ، اس کے روزے رکھے ، شب قدر پايا اس ميں قيام کيا ، اور سال بھر نماز ادا کرتے رہے ۔۔ اسلئے ميرے بھائيو اور بہنو ! يہ ايام ہمارے ليے غنيمت ہيں ، کتنے لوگ اِس سال رمضان سے پہلے وفات پا چکے ، اللہ تعالی نے اگر ہميں حيات بخشی ہے تواِن ايام کے برکات سے اپنے آپ کو محروم نہ رکھيں ۔
يہ بابرکت مہينہ بس چند دنوں کا مہمان رہ گيا ہے ، جس نے بھی کوتاہی کی ہے ، احکام الہی کو پامال کيا ہے ، وہ ابھی بھی لوٹ آئے ۔ اِن ايام ميں ہماری مغفرت نہ ہو سکی تو سمجھ ليں کہ ہم سارے خير سے محروم کر ديئے گئے ۔ يہ بات ميں نہيں کہتا بلکہ نبی رحمت کی زبان فيض ترجمان سے نکلی ہوئی ہے:
 من حرم خيرھا فقد حرم الخير کلہ ولا يحرم خيرھا إلا کل محروم.
 ’’جو شخص اِس رات کے خير سے محروم ہو گيا وہ تمام خير سے محروم ہوگيا اوراس رات کے خير سے وہی محروم ہو سکتا ہے جو واقعی محروم ہو ۔
اور رمضان کا آخری عشرہ تو مغفرت کا عشرہ ہی ہے ۔ تب ہی تو حضرت عائشہ صديقہ رضي الله عنها نے جب اللہ کے رسول سے پوچھا تھا کہ جب اس رات کو پاؤں تو کيا پڑھوں ؟ تو آپ نے فرمايا تھا : عائشہ اس دعا کا ورد کرتی رہو: اللھم إنک عفو تحب العفو فاعف عنی
" اے اللہ تو گناہوں کی مغفرت کرنے والا ہے ، مغفرت کو پسند کرتا ہے لہذا ہمارے گناہوں کو معاف کردے" ۔
گويا کہ عشرہ اواخر کا سب سے اہم کام استغفار ہے ۔ اللہ تعالی سے گناہوں کی مغفرت طلب کرنا ہے ۔ اپنے آقا کوديکھو کہ دن ميں سو سو بار استغفار کرتے ہيں ، کسی خاص مناسبت سے نہيں ، بلکہ ہر وقت ہرآن اور ہر لمحہ ، حالانکہ وہ معصوم تھے ، غلطيوں سے پاک تھے ، جبکہ ہم گناہوں ميں ڈوبے هوئے ہيں ، آئے دن گناہ پر گناہ کرتے جا رہے ہيں ، تو پھر آپ تصور کر سکتے ہيں کہ ہمارے ليے استغفار کس قدر ضروری ہے ؟
پھر استغفار کا فائدہ بھی تو ہميں ہی حاصل ہونے والا ہے ۔ لہذا
٭اگرآپ چاہتے ہيں کہ آپ کو ذہنی سکون ملے تو استغفار کو اپنا شعار بنائيے وأن استغفروا ربکم ثم توبو إليہ يمتعکم متاعا حسنا إلی أجل مسمی (ھود 3)
" اور تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آوتو وہ ايک مدت خاص تک تم کو اچھا سامان زندگی دے گا" ۔
٭اگر آپ خوشحالی کے خواہاں ہيں اور جسمانی آفات و بليات سے نجات چاہتے ہيں تو استغفار کو اپنا شعار بنائيے: ويا قوم استغفروا ربکم ثم توبوا اليہ يرسل السماء عليکم مدرارا ويزدکم قوة إلی قوتکم.
"اور اے ميری قوم کے لوگو اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف پلٹو وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمہاری موجودہ قوت پر مزيد قوت کااضافہ کرے گا" ۔
٭اگر آپ اولاد کی نعمت سے محروم ہيں تو استغفار کو اپنا شعار بنائيے:
فقلت استغفروا ربکم إنہ کان غفارا ، يرسل السماء عليکم مدرارا ، ويمددکم بأموال و بنين ويجعل لکم جنات ويجعل لکم أنھارا. (نوح 10۔12)
ميں نے کہا : اپنے رب سے معافی مانگو بيشک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے ، وہ تم پر آسمان سے خوب بارشيں برسائے گا ، تمہيں مال اور اولاد سے نوازے گا ، تمہارے ليے باغ پيدا کرے گا ، اور تمہارے ليے نہريں جاری کردے گا ۔
ايک شخص کو اولاد نہ ہوتی تھی ، علاج ومعالجہ ميں کوئی کسر نہ اٹھارکھی ليکن کوئی فائدہ نہ ہو سکا ۔ آخرکار اُس نے کسی عالم سے پوچھا کہ کيا کروں ؟ انہوں نے کہا : کثرت سے استغفار کرو کيونکہ استغفار کرنے والوں سے اللہ تعالی کا يہ وعدہ ہے کہ ويمددکم بأموال وبنين (نوح 12) وہ تمہيں مال اور اولاد سے نوازے گا ۔ اس شخص نے کثرت سے استغفار کرنا شروع کرديا يہاں تک کہ اللہ تعالی نے اسے نيک اولادسے سرفراز فرمايا۔
 توآئيے! استغفار کوہم اپنا حرزجان بنائيں ، اورچلتے پھرتے، اٹھتے بيٹھتے، ہروقت، ہرآن اور ہر لمحہ اس کا اہتمام کريں۔ بالخصوص اس استغفارکا ورد کرنا نہ بھوليں جسے سيد الإستغفار کہا جاتا ہے۔ يہ وہ استغفار ہے کہ اگرکوئی اس کا اہتمام پورے يقين کے ساتھ دن ميں کرتا ہے اور شام سے پہلے اُس کی مو ت ہوجاتی ہے تووہ جنت ميں جائےگا ،اور اگرپورے يقين کے ساتھ رات ميں کرتا ہے اور صبح سے پہلے فوت پاجاتا ہے تووہ بھی جنت ميں جائے گا ۔۔ کيا آپ اِس استغفار کو جانتے ہيں ؟ استغفار يہ ہے : اللھم أنت ربی لا إلہ إلا أنت خلقتنی ، وأنا عبدک وأنا علی عھدک ووعدک ما استطعت ، أعوذبک من شرما صنعت، أبوء لک بنعمتک علی وأبوء بذنبی ، فاغفرلی فانہ لا يغفرالذنوب إلا انت.
" ميرے اللہ ! تو ميرا رب ہے ، تيرے سوا کوئی معبود نہيں ، تونے مجھے پيدا کيا اور ميں تيرا بندہ ہوں ، جتنا بس ميں ہے تجھ سے عہد و پيمان کرتا ہو ں ، ميں نے جو کچھ کيا اس کے شر سے تيری پناہ چاہتا ہوں ،ميں اپنے اوپر تيری نعمتوں کا اعتراف کرتا ہوں ، اور ساتھ ہی اپنے گناہوں کا اقراربھی ۔ پس مجھے بخش دے ۔ تيرے سوا کوئی گناہوں کو بخشنے والا نہيں" ۔
 يہ دعا جن لوگوں کو ياد نہيں ہے اسے دعا کی کتابوں سے ياد کريں ، اپنے بچوں اور اہل خانہ کو ياد کرائيں اور بکثرت اِس کا اہتمام کريں ۔ اللہ تعالی ہميں اس کی توفيق دے ۔ آمين

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔