جمعرات, جولائی 11, 2013

اورتم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر


”جب تک یہ کتاب مسلمانوں کے ہاتھوں میں موجودرہے گی یورپ مشرق
پرقبضہ نہیں جماسکتا اورنہ وہ بذات خود امن وامان سے رہ سکتا ہے“ ۔
 قرآن کریم رشدوہدایت کا سرچشمہ ،علم ومعرفت کا خزینہ اورجسمانی و روحانی بیماریوں کے لیے شفا،کامل ہے ، انسانیت کی رفعت وبلندی ، عزت وحکومت ،دینوی وآخروی سعادت اورقوم وملت کی تعمیر وترقی قرآن کریم کی اتباع میں مضمر ہے ،جب تک امت مسلمہ اس کتاب سے رہبری اور رہنمائی حاصل کرتی رہی ،دنیاوآخرت میں فوزوفلاح اورسعادت وکامرانی سے ہمکنار ہوئی ،اورجب اس نے اسے پس پشت ڈالا تو انحطاط وتنزلی ،ذلت وپستی اورشقاوت وبدبختی اس کامقدربن گئی ۔علامہ اقبال نے کیا خوب کہاہے ۔
        وہ زمانے میں معززتھے مسلماں ہوکر     
   اورتم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
صدحیف! آج جب ہم قرآن سے مسلمانوں کی بے رخی کودیکھتے ہیں توکلیجہ منہ کوآتاہے ،اکثرلوگوں نے قرآن سے بے تعلقی برت رکھا ہے ، ایک مرتبہ سیف اللہ المسلول خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اپنی کبرسنی میں مصحف اٹھایااور روتے ہوئے گویاہوئے : أشغلنا الجھاد عنک ”اللہ کے راستے میں جہاد نے ہمیں تجھ سے بے پرواہ کردیا“ ۔
عزیزقاری! خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کوجہاد نے قرآن سے بے پرواہ کردیاتھا ،لیکن ہمیں کس چیزنے اس کتاب سے بے پرواہ کررکھاہے ؟ آخری بار ہم نے قرآن کب ختم کیا تھا؟ہماری زندگی میں قرآن کااثرکیوں دکھائی نہیں دیتا؟ شاید ہم ہی ہیں جن کے متعلق سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم بروزقیامت اللہ کی جناب میں شکایت کریں گے:
 وقال الرسول یارب إن قومی اتخذوا ھذا القرآن مھجورا (سورہ الفرقان 30)
”اوررسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بیشک میری امت نے اس قرآن کوچھوڑرکھاتھا“چھوڑنے کاکیامفہوم ہے ؟ قرآن کونہ سننا اوراس پر ایمان نہ لانا قرآن کا ہجر ان ہے،اس کے اوامر پرعمل اورنواہی سے اجتناب نہ کرنابھی قرآن کاہجران ہے ، دین کے ا صول وفروع میں اس کونظراندازکرکے کسی اورکتاب کوفیصل بنانا بھی قرآن کاہجران ہے ،اس کوسمجھنا اوراس کے مراد کی جانکاری حاصل نہ کرنی بھی قرآن کاہجران ہے اوردلوں کی مختلف بیماریوں کااس سے علاج نہ کرنا بھی قرآن کاہجران ہے ۔
صد حیف ! آج یہ سارا ہجران ہماری کی زندگی میں پایاجارہا ہے ،جولوگ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں لیکن دین میں مختلف قسم کی بدعات وخرافات کورواج دے رکھا ہے ،وہ فی الواقع قرآن پرایمان نہیں رکھتے ،گو کہ وہ ہزاربار اس کادعوی کریں اورزندگی بھر اس کی تلاوت کرتے رہیں ، جولوگ زنا،سود،قتل ناحق ،چوری ،دھوکہ ،چغلخوری اورفحش کلامی کے عادی ہیں ،آخران کاایمان قرآن پرکہاں ہوا؟جولوگ واجبات کوترک کرتے ہیں ،اورمامورات میں سستی برتتے ہیں، مثلانماز، روزہ، زکاة، والدین کے ساتھ حسن سلوک ، صلہ رحمی ، اوریتیموں کی رعایت وغیرہ آخریہ قرآن کاہجران نہیں تواورکیاہے؟۔
عجیب بات یہ ہے کہ جتناہم قرآن کریم کی عظمت کاادراک نہ کرسکے اس سے کہیں زیادہ دشمنان اسلام نے اس کی اہمیت کوسمجھا اوراس کے آثارکو ملکوں اورقوموں سے نابودکرنے کی کوشش کی ،کیوں کہ انہیں اس بات کاشدیدخطرہ لاحق تھا ،کہ مبادایہ امت قرآن کی طرف لوٹ آئے ،چنانچہ عہد وکٹوریہ کے وزیراعظم مسٹر گلیڈااسٹون نے قرآن مجید کاایک نسخہ ہاتھوں میں اٹھاکر برطانوی دارالعلوم کے ارکان کوبتایا :
”جب تک یہ کتاب مسلمانوں کے ہاتھوں میں موجودرہے گی یورپ مشرق پرقبضہ نہیں جماسکتا اورنہ وہ بذات خود امن وامان سے رہ سکتا ہے“ ۔
فرزندان اسلام ! آج زمانہ پکارپکارکربلارہاہے کہ اے اسلام کے سپوتو!لوٹ آؤ اس کتاب کی طرف جس نے قوموں کی تقدیر کوبدلا،گلہ بانوں کو جہاں بان بنایا،ملکوں کوفتح کیا اورانسانی قلوب پرحکمرانی کی ،آؤ اس کتاب کی طرف جس نے صدیوں کے اختلافات کاخاتمہ کیا ، جانی دشمنوں کودوست بنایا، اورپتھردلوں کوموہ لیا، آؤاس کتاب کی طرف جس نے مورتی کے پجاریوں سے توحیدکاڈنکابجوایا،بھٹکے ہوئے آہوں کو حرم کاراستہ دکھایا،اورپیاسی انسانیت کو جام حیات پلایا۔کہاں گئے وہ لوگ جنہوں نے اس کتاب کو آویزہ گوش بنایاتھا؟ کہاں گئے وہ لوگ جن کی راتیں اس کی تلاوت میں بسرہوتی تھیں ؟ کہاں گئے وہ لوگ جن کی آنکھیں تلاوت قرآن سے اشکبار ہوتی تھی ؟
اگر آج بھی امت قرآن کے پرچم تلے اکٹھا ہوجائے اور اسے اپناحرزجان بنالے توعزت وشرف اوراقبال مندی ان کی کنیزبن جائے ،اوران کی سارے مشکلات حل ہوجائیں ۔ صحیح مسلم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:
 إن اللہ یر فع بھذا الکتاب أقوما ویضع بہ آخرین (رواه مسلم)
 ”اللہ تعالی اس کتاب کی وجہ سے بہت سے لوگوں کوسرفرازفرمائے گا اوراسی کی وجہ سے دوسروں کو ذلیل کردے گا“۔تاریخ کے اور اق الٹ کردیکھئے تو اس حدیث کاحقیقی منظر آپ کے سامنے آجائے گا ،مسلمانوں کو اللہ تعالی نے ابتدائی چند صدیوں میں ہرجگہ فتح وکامرانی عطاکی کیو ں کہ وہ قرآن کے حامل اورعامل تھے ، اس پرعمل کی برکت سے وہ دین ودنیاکی سعادتوں سے بہرہ ور ہوئے لیکن مسلمانوں نے جب سے قرآن کے احکام وقوانین پرعمل کرنے کواپنی زندگی سے خارج کردیا،تب سے ہی ان پر ذلت ورسوائی کا عذاب مسلط ہے ،آج بھی ہماری عظمت رفتہ کی بحالی ہوسکتی ہے تواسی قرآن کے ذریعہ ۔آج ہر شخص اپنی اپنی سمجھ کے مطابق بہتری اورافضلیت کامعیار بناتا ہے ،لیکن حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان فیض ترجمان نے سب سے بہتر انسان جانتے ہیں کسے بتایاہے ؟ صحیح بخاری میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :
خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ ( رواه البخاري في فضائل القرآن باب خيركم من تعلم القرآن وعلمه (5027)
”تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جوقرآن سیکھے اوردوسروں کوسکھلائے “ اللہ اکبر !یہ کسی شاعر ،کسی فلسفی ،اورکسی مفکر کی پرواز تخیل نہیں بلکہ اس صادق مصدوق کے الفاظ ہیں جن کے نطق سے وحی کے مقدس پھول جھڑاکرتے تھے ۔جی ہاں !تب ہی تو اللہ والوں نے قرآن کے سیکھنے اورسکھانے میں اپنی زندگی وقف کردی ۔
چنانچہ یہ عبدالرحمن السلمی رحمہ اللہ ہیں جو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت سے لے کر حجاج بن یوسف کی امارت تک لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیتے رہے یعنی تقریبا 60سال سے زیادہ عرصہ تک لوگوں کو قرآن کی تعلیم دی ،یہاں تک کہ نہایت ضعیف ہوگئے ، لوگوں نے اس کاسبب جانناچاہاتو آپ نے یہی حدیث سنائی ۔خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ ”تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جوقرآن سیکھے اوراسے سکھائے “۔پھر کہا : ھذا الذی أقعدنی مقعدی ھذا ” اسی بشارت نے مجھے اتنے دنوں تک یہاں بیٹھائے رکھا“۔(صحیح بخاری )
امام ذہبی رحمہ اللہ سیراعلام النبلاءمیں ان کی بابت لکھتے ہیں ، ان کی موت کے بعد لوگوں نے انہیں خواب میں دیکھا توپوچھا کہ اللہ تعالی نے آپ کے ساتھ کیسامعاملہ کیا ؟انہوں نے جواب دیا: ”مسلمانوں کے بچوں کو سورہ فاتحہ سکھانے کے باعث اللہ تعالی نے میری مغفرت فرمادی۔“
قرآن کریم کی تلاوت کے اجروثواب کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے ،کہ اس کے ایک حرف پر دس نیکیوں کی بشارت دی گئی ہے ، سنن ترمذی کی ایک روایت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : 
من قرأ حرفا من کتاب اللہ ،فلہ بہ حسنہ، والحسنة بعشر أمثالھا ،لا أقول الم حرف ولکن الف حرف ،ولام حرف ،ومیم حرف (ترمذی ، فضائل القرآن 2835 وصححہ الالبانی فی صحیح الجامع 4669)
”جس شخص نے اللہ کی کتاب کاایک حرف پڑھا ،اس کے لیے ایک نیکی ہے ، اورایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے،میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے ،بلکہ الف ایک حرف ہے،لام ایک حرف ہے،اورمیم ایک حرف ہے “۔یعنی الم تین حرفوں سے مرکب ہے ،لہذا اس کے پڑھنے والوکو 30نیکیاں ملیں گی۔
اگرآپ چاہتے ہیں کہ روزمحشر جس دن نفسی نفسی کاعالم ہوگا،اس دن آپ کے گناہوں کی معافی کی سفارش کی جائے توقرآن کریم کی تلاوت کریں، صحیح مسلم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :
إقرؤوا القرآن فانہ یأتی یوم القیامة شفیعا لأصحابہ  ( رواه مسلم)
”قرآن کثرت سے پڑھا کرو ،اس لئے کہ قیامت والے دن یہ اپنے پڑھنے والے ساتھیوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا“۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ بہشت کے اعلی درجات کے حقدار بنیں توقرآن کریم حفظ کریں اوربکثرت اس کی تلاوت کرتے رہیں ، سنن ابی داؤد اورترمذی کی روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے :
 یقال لصاحب القرآن اقرأ وارتق ورتل کماکنت ترتل فی الدنیا،فان منزلتک عند آخرآیة تقرأھا ( رواه الترمذي في فضائل القرآن (2838) وقال حسن صحيح ، وأبو داود في الصلاة (1252) ، وأحمد (6508) ، وابن حبان (766) ، وقال الأرناؤط إسناده حسن) 
”روزقیامت قرآن پڑھنے اوراسے حفظ کرنے والوں سے کہا جائے گا کہ ”قرآن پڑھتاجا‘اورچڑھتا جا“اوراس طرح آہستہ آہستہ تلاوت کرجیسے تودنیامیں ترتیل سے پڑھتا تھا ،پس تیرامقام وہ ہوگاجہاں تیری آخری آیت کی تلاوت ختم ہوگی“۔
اگر آپ کاتعلق ایسے لوگوں سے ہے ،جوقرآن اٹک اٹک کرپڑھتے ہیں ،اوراثناءتلاوت جومشقت ہوتی ہے ،اسے برداشت کرتے ہیں ،تو گھبرانے کی ضرورت نہیں ، رب کریم کافیضان کرم دیکھئے کہ ایسے لوگوں کواس مشقت کی وجہ سے دوگنا اجرملے گا ۔بخاری ومسلم کی روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
 الذی یقرأ القرآن وھو ماھر بہ مع السفرة الکرام البررة ،والذی یقرأالقرآن ویتتعتع فیہ وھو علیہ شاق لہ أجران۔( رواه البخاري في تفسير القرآن باب عبس وتولى (4937) ، ومسلم في صلاة المسافرين (1329)
”جوشخص قرآن پڑھتا ہے ،اوروہ (صحت کے ساتھ )قرآن پڑھنے میں ماہر ہے ،تووہ قیامت والے دن بزرگ نیکوکارفرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جوقرآن اٹک اٹک کرپڑھتا ہے اوراس کے پڑھنے میں اسے مشقت ہوتی ہے اس کے لیے دوگنااجرہے“۔
ابھی ہم پر رمضان کا مہینہ سایہ فگن ہے ،اورآپ جانتے ہیں کہ رمضان قرآن کامہینہ ہے ،اسی مہینے میں قرآن کانزول ہوا اور جبریل علیہ السلام رمضان کی ہرشب آپ کے ساتھ قرآن کادوراکرتے تھے ،اورعام دنوں میں قرآن کے ایک حرف پردس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ، تورمضان میں اس کے اجروثواب میں سترگنااضافہ کردیاجاتاہے ،اس طرح حساب لگائیں توماہ رمضان میں ایک پارہ ختم کرنے پرتقریبا4ملین نیکیاں ملتی ہیں ۔
اللہ اکبر ! کیااس کے باوجود بھی کوئی انسان ہوگاجویومیہ کم ازکم ایک پارہ بھی قرآن کی تلاوت نہ کرے ؟ اسی لیے اللہ والے اس مہینہ میں تلاوت قرآن کابکثرت اہتمام کرتے تھے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ رمضان میں روزانہ ایک ختم کرتے ،بعض سلف تین دن میں ،بعض سات دن میں اوربعض دس دن میں ایک ختم کرتے تھے ،امام شافعی رحمہ اللہ رمضان میں 60مرتبہ ختم کرتے تھے ۔اورقتادہ رحمہ اللہ ہمیشہ دس دنوں میں ،ماہ رمضان میں تین دنوں میں ،اورعشرہ اواخر میں ہرشب ختم کرتے تھے ،بعض سلف کاحال یہ تھا کہ جب رمضان آتا توحدیث کی خواندگی اوراہل علم کی مجالست ترک کردیتے اورمصحف سے قرآن کریم کی تلاوت میں لگ جاتے تھے ،اسی طرح سفیان ثوری رحمہ اللہ رمضان کی آمد پردیگرعبادتوں سے کنارہ کش ہوکر تلاوت قرآن میں مشغول ہوجاتے تھے ۔
یہاں پر کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیداہوسکتا ہے ،کہ احادیث میںتین دن سے کم میں قرآن ختم کرنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے ، توآخر اللہ والوں نے تین دن سے کم میں قرآن ختم کیسے کیا ؟تواس کاجواب حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے یوں دیاہے ۔
”تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنے کی جوممانعت وارد ہوئی ہے ،اس کامطلب اس پر ہمیشگی برتناہے ،البتہ افضل اوقات مثلا ماہ رمضان اورافضل اماکن مثلامکہ جس میں غیراہل مکہ داخل ہوں توایسی صورت میں زمان و مکان کی فضیلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ تلاوت قرآن مستحب ہے“
لیکن اس کامطلب ہرگزنہیں کہ قرآن ختم کرنے کی فکر میں اسے کاٹ کر پڑھا جائے ،جیساکہ بعض حفاظ کرتے ہیں ،بلکہ یہ تو قرآن پر بہت بڑی زیادتی ہے ،اوراس کی عظمت کونہ سمجھنے کا شاخسانہ ۔سنیں اپنے رب کی :
 لوأنزلناھذا القرآن علی جبل لرأیتہ خاشعا متصدعامن خشیة اللہ (الحشر21)
”اگر ہم قرآن کریم کوکسی پہاڑ پراتارتے توتودیکھتاکہ خوف الہی سے وہ پست ہوکر ریزہ ریزہ ہوجاتا“۔
 اللہ اکبر !قرآن کی بلاغت وفصاحت ،قوت استدلال اورعظمت وشان ایسی کہ انسانی قلوب توکجابلند وبالاپہاڑ بھی اس کی ہیبت سے رائی ہوجائے ۔
لہذا تمام مسلمانو ں سے بالعموم اورحفاظ کرام سے بالخصوص ہماری استدعا ہے ،کہ ہم قرآن کریم کے ساتھ اپنے تعامل پرنظر ثانی کریں ،کتاب اللہ کی بکثرت تلاوت کریں ،اس پرغور کریں ،اس کی آیات سے عبرت ونصیحت حاصل کریں اورامت کے نونہالوں کی اسی منہج پرتربیت کریں ،اللہ ہمیں اس کی توفیق دے ۔ آمین یارب العالمین

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔