اتوار, جنوری 26, 2014

اسلام ميں آزادى كا تصور

 ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ آزاد رہے اور اس کی آزادی کو کوئی چیلنج كرنے والا نہ ہو، اسی قدرتی جذبہ کا احترام کرتے ہوئے اسلام نے انسان کو مکمل طور پر آزادی دی ہے.
آزادی کی اہمیت کا صحیح تجربہ وہی کر سکتا ہے جو آزاد فضا میں زندگی گزارنے کے بعد غلامی کی زنجيروں میں جكڑا ہوا ہو. اسی ليے اسلام نے آزادی پر بہت زور دیا، مولانا ابوالکلام آزاد رحمه الله لکھتے ہیں:

"انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلانا اسلام کا بنيادى مقصد ہے." (تحريك آزادی صفحہ 14 )
مولانا دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
"اسلام نے ظاہر ہوتے ہی یہ اعلان کیا کہ حق طاقت نہیں بلکہ خود حق ہے، اور اللہ کے علاوہ کسی کے لئے مناسب نہیں كہ وه اس کے غلاموں کو اپنا تابع اور غلام بنائے." ( قول فيصل صفحہ 50)
مولانا آزاد نے مسلمانوں کی قیادت کرتے ہوئے صرف دو ہی راستے اپنانے کی دعوت دی ہے، آزادی یا موت، چنانچہ وه بے باکی سے کہتے ہیں:
"انسانوں کے برے رویے سے کسی کی تعلیم کی حقیقت نہیں جھٹلائى جا سکتی. اسلام کی تعلیم اس کى كتاب میں موجود ہے. وہ کسی صورت میں بھی جائز نہیں رکھتی کہ آزادی کھو کر مسلمان زندگی گزارے. مسلمانوں کو مٹ جانا چاہیے.تیسرا راستہ اسلام میں کوئی نہیں" ( قول فیصل، 63-64)

عام کاموں میں انسان آزاد ہے:

 اللہ نے انسان کو عام کاموں میں پوری آزادی دی، جو چاہے کھائے، جو چاہے پہنے، جہاں چاہے جائے، جو کام چاہے اپنائے، جو چاہے خریدے اور جو چاہے بيچے. اس آزادی میں عورت اور مرد برابر ہیں، شادی بیاہ میں بھی مرد اور عورت آزاد ہیں کہ جن سے چاہیں شادی کریں یہاں تک کسی لڑکی کی اجازت کے بغیر اس کی شادی بھی نہیں کی جا سکتی. اسی طرح ہر قسم کے سائنسی اكتشافات کی آزادی ہے کہ جس چیز کی چاہے تحقیق کرے.
اسلام نے انسان کو آزادی ضرور دی ہے لیکن اس آزادی کو اللہ اور اس کے احکامات کے تابع کر دیا ہے بالکل آزاد نہیں چھوڑا. اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
 وما كان لمؤمن ولامؤمنة إذا قضى الله ورسوله أمرا أن يكون لهم الخيرة من أمرهم - (الأحزاب 36)
"اور (دیکھو) کسی مومن مرد اور مومن عورت کے ليے اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد اپنے کسی معاملے کا کوئی حق باقی نہیں رہتا . "
 اس لئے اللہ اور اس کے رسول نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا انہیں کرنا اور جن کاموں سے روک دیا ان سے رک جانا ہی آزادی کا صحیح استعمال ہے. لہذا ایک شخص کو یہ آزادی نہیں دی جا سکتی کہ اللہ کے اوامرسے لاپرواہی برتے یا اس کى منہيات کو پامال کرنے لگے. آزادی کے نام پر دین کا مذاق اڑانا، اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں برے الفاظ کا استعمال کرنا  اور اسلام کے کسی حکم کو دل سے نا پسند کرنا جائز نہیں. بلکہ ایسا کرنے والا  اسلام کے دائره سے نکل جاتا ہے. اسی طرح اگر مرد اور عورت زنا کے ليے آپس میں راضی ہو جائیں تو زنا جائز نہیں ہو جاتا. اور اگر سود کا  لین دین کرنے والے آپس میں راضی ہوں تو سود جائز نہیں ہو سکتا-

اصل غلامى كس كى ہونى چاہيے؟

اللہ کو یہ بات ہرگز پسند نہیں کہ اس کی مخلوق کسی اور کی غلامی میں رہ کر زندگی گزارے. وجہ یہ ہے اللہ خالق ہے تو وہ اپنی ہر مخلوق سے غلامی کا مطالبہ اپنے آپ کے ليے کرتا ہے اور اپنے غلاموں کو اپنی غلامی میں دیکھنا چاہتا ہے. کیونکہ اس نے پوری كائنات کو پیدا ہی نہیں کیا ہے بلکہ ان كا منعم حقيقى بھی ہے. اور ان سب کى حفاظت بھی کر رہا ہے. جب اسی نے دنیا کو رچايا،  اسی نے ہر طرح کے احسانات کیے، وہی دنیا کو چلا رہا ہے اور دنیا کی مدت مکمل ہونے کے بعد وہی دنیا کو تباہ بھی کرے گا تو انسان کو قدرتی طور پر اسی کی غلامی میں رہنا چاہئے. اور اس کے علاوہ  ہر قسم کی غلامی کو رد کر دینا چاہيے.

اللہ کی غلامی میں آ جانے کے بعد ایک انسان ہر طرح کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے.جليل القدر صحابى رسول حضرت ربعى بن عامر رضى الله عنه نے شاه فارس رستم كو اللہ کا پیغام پہنچاتے ہوئے کہا تھا: 
الله ابتعثنا لنخرج من شاء من عبادة العباد إلى عبادة الله ومن ضيق الدنيا إلى سعتها ومن جور الأديان إلى عدل الإسلام
"ہمیں اللہ نے اس لیے بھیجا ہے تاکہ ہم لوگوں کو انسان کی پوجا سے نجات دلا کر اللہ کی عبادت کی طرف، دنيا كى تنگى سے كشادگى كى طرف اور مذاہب کے جور وظلم سے اسلام کے انصاف كى طرفلائیں".
جب مصر کے گورنر عمرو بن عاص رضى الله عنه کے بیٹے نے ایک مصری کى بغیر کسی وجہ کے پٹائی کی تو مصری نے اس وقت کے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضى الله عنه کے پاس اس کی شکایت کی، خلیفہ نے گورنر اور ان کے بیٹے کو مدینہ بلایا، پھر مصری سے کہا :میرے سامنے تم گورنر کے بیٹے سے ویسے ہی بدلہ لے لو، جس طرح اس نے تمہاری پٹائی کی ہے. پھر فرمایا :
متى استعبدتم الناس وقد ولدتهم أمهاتهم أحرارا
"تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنا لیا جب کہ ان کی ماؤں نے ان کو آزاد پیدا کیا تھا".
علی رضى الله عنه نے فرمایا:
لا تكن عبد غيرك وقد جعلك الله حراً  -
" اللہ نے تجھے آزاد پیدا کیا ہے اس لئے کسی اور کی غلامی قبول مت کر ."

دور جديد  میں غلامی کی مختلف شكليں:

 دنيا جب ترقی کے دور میں داخل ہوئى تو غلامی کی مختلف شكليں ظاہر ہونے لگیں. اسلام دشمنوں نے آزادی کے نام پر غلامی کے بہت سارے طریقے عام کئے تاکہ لوگ ان کے خيالات سے متفق ہو جائیں پھر وہ جیسے چاہیں لوگوں کو پھیرتے رہیں. اس طرح آزادی کے نام پر غلامی کے تصور کو پھیلایا جانے لگا. لہذا کچھ لوگ خواہشات کے غلام بن گئے کہ خواہشات ہی انہیں حركت دینے لگی، اٹھانے بٹھانے لگی. کچھ لوگ روپيے پیسے کے غلام بن گئے کہ دین سے بے پرواہ ہو کر دنیا کمانے میں پوری طرح مصروف رہنے لگے. کچھ لوگ منشیات کے ایسے غلام بن گئے کہ اپنی جوانی اور دولت تک کو گنوا بیٹھے.
یہ کہنا کہ دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر جو چاہو كرو،  یہ خیال بالکل غلط ہے. کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سگریٹ پینا حرام اس ليے ہے کہ اس سے دوسروں کو تکلیف پہنچتى ہے، اب اگر کوئی تنہائی میں سگریٹ پیتا ہے تو اسے اجازت دی جانی چاہیے. کوئی بند کمرے میں اللہ کی نافرمانی کرتا ہے تو اسے صحیح سمجھنا چاہئے …
اللہ کی قسم! یہ شیطانی فريب ہے. انسان تنہائی میں بھی آزاد نہیں ہوتا، وہاں بھی اللہ کی نگرانی اس کے ساتھ ہوتی ہے اور اس کے دائیں بائیں کندھوں پر فرشتے نگرانی کر رہے ہوتے ہیں.

بندھوا مزدورى:

آزادى كا استحصال كرنے والى ايك بهيانك رسم بندھوا مزدورى بهى ہے جو آج تک دنیا میں چلی آ رہی ہے، بھارت اور پاکستان سميت دنیا کے مختلف علاقوں  میں بندھوا مزدوری کی یہ بری رسم ایک سنگين مسئلہ کے طور پر موجود ہے. اس بارے میں اسلام نے وہ اصول دیئے جن سے بندھوا مزدوری کے خاتمہ میں مدد ملتی ہے:
سب سے پہلے اسلام نے ظلم سے روک دیا. اسی طرح اسلام کسی کو بھی نقصان پہنچانے سے منع کرتا ہے. اسلام میں زندگی کا لطف کسی خاص ذات تک محدود نہیں ہے بلکہ سارے انسان چونکہ اللہ کے بندے اور آدم و حوا کی اولاد ہیں اس لئے زندگی کے لطف سے محظوظ ہونا ہر ایک کا حق ہے. اول کسی آزاد انسان کو اس کی آزادی سے محروم کرنا جائز نہیں. نہ یہ جائز ہے کہ کسی انسان کو زبردستی روک لیا جائے یا اس سے اس کی مرضی کے خلاف کام لیا جائے. بلکہ اسلام نے تو مزدوروں کے ساتھ حسن معاملہ کی تاکید کی. مزدور کا پسینہ سوکھنے سے پہلے مزدوری دینے کا حکم دیا. (ابن ماجہ) اس بات کا بھی حکم دیا کہ مزدوری پوری پوری دی جائے اس میں کوئی کمی نہ کی جائے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "میں ایسے شخص کے خلاف قیامت کے دن حريف بن کر کھڑا ہوں گا جو کسی مزدور کو مزدوری پر رکھے اور اس سے پورا پورا کام لے لیکن اس کی مزدوری (پوری پوری) نہ دے “. (بخاری) اسلام نے اس بات کا بھی حکم دیا ہے کہ مزدور سے مزدوری طے کر کے ہی کام لیا جائے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: " جو کوئی کسی مزدور کو مزدوری پر رکھے تو چاہئے کہ اس کی مزدوری کو پہلے بتادے." (آثارالسنن) یہ تعليم اس ليے دی گئى تاکہ مالدارو ں كے اندر سے استحصال کی ذہنیت ختم ہو-

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔