جمعرات, جنوری 23, 2014

رسالت محمدی کی عالم گیریت

 زیرنظرمضمون میں ہماری گفتگو چار نکات پر مشتمل ہوگی جس کی روشنی میں ہرکہہ ومہ یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوگاکہ رسالت محمدی ایک عالم گیراور آفاقی دعوت ہے :
پہلا نکتہ : تاریخی حیثیت سے ساتویں صدی عیسوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ۔
دوسرانکتہ : جغرافیائی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے لیے سرزمین مکہ کاانتخاب ۔
تیسرانکتہ : قرآن کریم اوراحادیث نبویہ کی حفاظت کی ضمانت۔
چوتھانکتہ : مذہبی کتابوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدکی پیشین گوئیاں ۔
ساتویں صدی عیسوی میں ہی نبی اکرم کی بعثت کیوں ؟
آخرساتویں صدی عیسوی میں ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کیوں ہوئی؟ اس سے پہلے کیوں نہ ہوئی؟ آخرایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاکے بھیجنے کی کیاضرورت تھی ؟ کیوں نا اللہ تعالی نے شروع انسانیت کے وقت ہی رحمت عالم کو پیدا کردیا اورانہیں مکمل ضابطہ حیات دے کربھیج دیا؟ جب آپ اس نکتے پرغور کریں گے توآپ کوخودبخود سمجھ میں آجائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتویں صدی میں آنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ پوری انسانیت کے لیے بھیجے گئے تھے وہ کیسے ؟
 اللہ تعالی کایہ نظام ضرورتھا کہ پوری انسانیت کوایک اللہ،ایک رسول اورایک ہی نظام حیات کے ذریعہ ایک پلیٹ فارم پرجمع کردیاجائے تاکہ سارے بھیدبھاؤ دورہوجائیں لیکن شروع میں ایسا کرنا ممکن نہ تھا ، کیونکہ لوگ دنیا کے مختلف حصوں میں بٹے ہوئے تھے، ان میں آپسی میل جول نہ تھا،ان کی زبانیں بھی الگ الگ تھیں ،اس وقت ایک ملک سے دوسرے میں آمدورفت کے ذرائع بھی محدود تھے،کہیں دوملکوں کے بیچ میں سمندر تھا توکہیں پہاڑ،کہیں چٹیل میدان تھا توکہیں جنگل ،جن کاپارکرنااس وقت کے آدمی کے لیے ممکن نہیں تھا ، ایسی حالت میں ایک ہی نبی کاپوری انسانیت کی ہدایت ورہبری کرنا ممکن نہیں تھا ،اسی لیے اللہ تعالی نے ہرملک اورہرقوم میں الگ الگ نبی اوررسول بھیجا تاکہ لوگوں کی ہدایت کاکام بآسانی ہو سکے ۔
اوردوسری بات یہ ہے کہ اس وقت انسانی عقل بھی محدود تھی ،واقعہ یہ ہے کہ انسانیت کی ترقی اس طرح ہوئی ہے ،جس طرح ایک بچے کی ہوتی ہے کہ بچپن سے سن شعور ، اورسن شعور سے جوانی ،ایسی حالت میں انہیں جامع نظام حیات نہیں دیا جاسکتا تھا،اسی لیے اللہ تعالی نے مریض کی طاقت کے مطابق دوا کاانتخاب کیا اورانسانیت کو اتنے ہی احکامات دیئے جن کی وہ طاقت رکھتی تھی ، یہی پیشین گوئی عیسیٰ علیہ السلام نے کی تھی : ”مجھے تم سے بہت کچھ کہنا ہے مگر ان سب باتوں کو تم برداشت نہ کرسکوگے لیکن جب روح حق آئے گا توتم کوسچا ئی کی راہ دکھائے گا “۔ ( یو حنا باب 16درس 12)
اس تفصیل سے معلوم یہ ہوا کہ انسانیت ساتویں صدی عیسوی سے پہلے تک اس قابل نہیں تھی کہ اسے مکمل نظام حیات دیاجاسکے ۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ساتویں صدی عیسوی میں حالات سازگارہوچکے تھے ،انسانی عقل ودماغ میں وسعت آچکی تھی،آمد ورفت کے ذرائع بہت حدتک میسر ہوگئے تھے ، مختلف قوموں میں لکھنے پڑھنے اوراجنبی زبانوں کے سیکھنے کارجحان عام ہوگیا تھا ،تجارت اور کاروبار میں ترقی کے ساتھ ساتھ قوموں میں آپسی تعلقات قائم ہوچکے تھے،چین اورجاپان سے لیکر یورپ اورافریقہ کے ممالک تک بری اور بحری سفر وں کی شروعات ہوچکی تھی ، اس طرح وہ دوری اورجدائی جوپہلے قوموں کے بیچ پائی جاتی تھی ،دھیرے دھیرے کم ہوتی گئی اوریہ ممکن ہوگیا کہ اسلام کی ایک ہی تعلیم اورایک ہی نظام حیات ساری انسانیت کے لیے بھیجا جائے ،کسی شاعرنے کیا خوب کہا ہے:
جب اپنی پوری جوانی پہ آگئی دنیا   

جہاں کے واسطے ایک آخری پیام آیا
جی ہاں ! یہ تھا آخری پیام پوری انسانیت کے نام ۔جواس وقت آیاجبکہ انسانیت اپنی پوری جوانی پہ آچکی تھی ،اب قیامت تک کوئی پیام آنے والا نہیں ہے ۔
جغرافیائی حیثیت سے آپ کی بعثت کے لیے سرزمین مکہ کاانتخاب
 سرزمین مکہ عالمی دعوت کے لیے نہایت موزوں تھی ، اس لیے کہ یہ ملک ایشیا اورافریقہ کے ٹھیک وسط میں واقع ہے، اوریورپ بھی یہاں سے بہت قریب ہے ، اورآج جغرافیائی تحقیق نے یہ ثابت کردیاہے کہ مکہ مکرمہ کرہ ارضی کے بری حصہ کے بالکل وسط میں واقع ہے ، اس تحقیق کاسہرا ایک مسلمان سائنس داں ڈاکٹرحسین کمال الدین کے سرجاتاہے ۔سن 1977عیسوی میں ڈاکٹرحسین کمال الدین نے سمت قبلہ کی تعیین کے لیے ایک کامپس تیارکرنے کے ارادہ سے کرہ ارضی کاایک جدید جغرافیائی نقشہ تیار کیا اورتحقیق شروع کی ، اپنی ابتدائی تحقیق میں پہلی لکیڑ کھینچا ، اوراس پر پانچ براعظموںکا نقشہ بنایاتو غیرارادی طورپر ان کے سامنے یہ تحقیق ظاہر ہوگئی کہ مکہ مکرمہ کرہ ارضی کے بالکل وسط میں واقع ہے ۔
 اورجب یہ بات ثابت ہوگئی کہ مکہ مکرمہ کرہ ارضی کے بری حصہ کے بالکل وسط میں واقع ہے تو اس ناحیہ سے ضرور ت تھی کہ مکہ مکرمہ جیسی مرکزی سرزمین ہی عالمی رسالت کاگہوارہ بنے تاکہ اس کاپیغام پوری دنیا میں بآسانی پھیل سکے ۔
سرزمین مکہ کی دوسری خصوصیت جس کی طرف مولانامودودی رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے کہ عرب ہر طرح کی برائیوں میں لت پت ہونے کے باوجود بہادر تھے ،نڈرتھے ،سخی اوردریادل تھے ،اورعالمی رسالت کی نشرواشاعت کے لیے ایسے ہی لوگوں کی ضرورت تھی، پھران کی زبان بھی عربی تھی جس کے اندر لطافت اور شیرینی کے ساتھ ساتھ ایسی جامعیت پائی جاتی ہے کہ مختلف معانی کوکم سے کم الفاظ میں سمولے ، اورآخری کتاب الہی کے لیے ایسی ہی زبان کی ضرورت تھی ۔
اس سرزمین کی تیسری خصوصیت جس کی طرف ڈاکٹر التفات احمد نے اشارہ کیا ہے کہ اس ملک میں کوئی حکومت نہیں تھی جودعوت اسلامی کی راہ میں مزاحم بنتی، کیوں کہ آپ سے پہلے انبیاءورسل کی تاریخ گواہ ہے کہ جس ملک میں بھی وہ بھیجے گئے ،سب سے پہلے اس ملک کے بادشاہوں نے ان کی مخالفت کی کہ مبادا ان کی حکومت چھن جائے یہاں تک کہ کسی کوقتل کردیاتو کسی کوجلاوطنی پرمجبوری کیا،جب کہ مکہ مکرمہ کی حالت اس کے بالکل برعکس تھی ،پورے مشرق وسطی میں عرب ہی وہ دیش تھا ،جہاںکوئی راجانہیں تھا ،وہاں ہرقبیلے کی اپنی اپنی سر داری تھی ،پھراللہ کی عنایت یہ بھی ہوئی کہ اس نے آپ کومکہ کے سب سے معزز قبیلہ قریش کے سردار عبدالمطلب کے گھر پیدافرمایا کہ اپنے پرائے کوئی آپ کی مخالفت کی جرأت نہ کرسکیں ،اس بنیادپرآخری نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کوپورا موقع مل گیا کہ محض 23سال کی مدت میں پورے عرب میں اسلامی حکومت کی تعمیر کرسکیں، غرضیکہ سرزمین مکہ سے دعوت محمد ی کاآغاز اس کی آفاقیت کی واضح دلیل ہے ۔
کتاب وسنت کی معجزانہ حفاظت
رسالت محمدی کی آفاقیت کی ایک دلیل کتاب وسنت کی معجزانہ حفاظت کااہتمام بھی ہے ،رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کاپیغام پوری انسانیت کے نام تھا ،اس لیے ضرورت تھی کہ آپ کی لائی ہوئی شریعت کی حفاظت کاپورابندوبست کیا جائے ،انبیاورسل کی تاریخ گواہ ہے کہ ان کے ماننے والوں نے ان کے مرنے کے بعد کلام الہی میں ردوبدل کردیا،خاتم النبیین کی بعثت کے وقت یہ بہت بڑا سوال تھا کہ آپ کے بعد کوئی نبی آنے والانہیں تھا ،اگر کلام الہی میں تبدیلی واقع ہوگئی تو قیامت تک دنیاتاریکی میں بھٹکتی رہے گی ،ظاہر ہے کہ اس کے لیے زبردست انتظامات کی ضرورت تھی ۔چنانچہ اللہ پاک نے اس سلسلے میں متعددانتظامات کیا:
پہلا انتظام : اب تک رسولوں پرجوکتابیں اتری تھیں وہ صحیفے کی شکل میں بیک وقت اتری تھیں ،لیکن آخری کتاب کے تعلق سے اللہ تعالی نے اس نظام کوبدل دیا اور23سال کی لمبی مدت میں موقع اورمناسبت سے آپ پرقرآن کواتاراتاکہ لوگ اسے بآسانی لکھ لیں ،سمجھ لیں اورسینوں میں محفوظ کرلیں ،اس طرح قرآن کریم حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پوری طرح سے محفوظ کرلیاگیا۔
دوسراانتظام : اس کتاب کی حفاظت انسانوں کے سرنہیں رکھا بلکہ اس کی ذمہ داری خود لے لی چنانچہ فرمایا : انانحن نزلناالذکروانالہ لحافظون (سورہ الحجر 9) ”ہم نے ہی ذکریعنی قرآن کریم کواتاراہے ،اورہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں “۔
تیسرا انتظام :اللہ تعالی نے قرآن کریم کو معجزہ بنادیا: یعنی اللہ تعالی نے اس کاایسااسلوب رکھا کے پوری انسانیت بھی مل کر اس کے اسلوب میں ایک آیت بھی بنانا چاہے تونہ بناسکے ۔
چوتھاانتظام: قرآن کریم کی حفاظت کے ساتھ ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اورآپ کی احادیث کی حفاظت کے لیے بھی ایسے جہابذہ کوپیدافرمایاجنہوں نے اس کام کوبحسن وخوبی انجام دیا، محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے بچپن سے لے کر آخری وقت تک جوکچھ کیا اوربولاان کے ساتھیوں نے اسے یادکیااورکچھ لوگوں نے اسے لکھا، پھربعد کی نسلوں تک پہنچایا ،جن کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے ،پھر سننے والوں نے دوسروں کو سنایا یہاں تک کہ اسے لکھ دیاگیامثلافلان نے فلاں سے کہااورفلاں نے فلاں سے کہاکہ میں نے اپنے کانوں سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سناہے ،جن لوگوں کے ذریعہ یہ حدیثیں دوسروں تک پہنچتی ہیں انہیں راوی کہتے ہیں ، مورخین نے ان راویوں کے پورے حالات لکھا ہے، اگران میں کوئی جھوٹا تھا یاان کی یاداشت کمزورتھی،ان کے ذریعہ سے بیان کی گئی احادیث کو ردکردیاگیا،اس اہتمام کی بنیاد ی وجہ یہی تھی کہ یہ دین عالم گیر دین تھا جسے قیامت کے دن تک انسانیت کی رہنمائی کافریضہ انجام دینا تھا۔
 مذہبی کتابوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدکی پیشین گوئیاں
رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی آفاقیت کی ایک بنیادی دلیل یہ بھی ہے کہ پچھلی کتابوں میں آپ کی آمدکی بشارت دی گئی ہے ،کہیں آپ کے نام کی صراحت کے ساتھ توکہیں آپ کے صفات کاذکرکرکے ۔قرآن کریم نے بھی تورات وانجیل میں آخری نبی کی بشارت کے وجود کی تائیدکی ہے، اللہ تعالی نے فرمایاہے : الذین یتبعون الرسول النبی الأمی الذی یجدونہ مکتوباعندھم فی التوراة والإنجیل ”وہ اس رسول کی اتباع کرتے ہیں ،جونبی امی ہیں جس کے اوصاف کووہ اپنے ہاں تورات وانجیل میں لکھا ہواپاتے ہیں “ بلکہ خود عیسی علیہ السلام نے آپ کی آمد کی خوش خبری سنائی اورپیشین گوئی کی ہے ،چمانچہ اللہ تعالی نے فرمایا: وإذ قال عیسی ابن مریم یا بنی اسرائیل إنی رسول اللہ إلیکم مصدقا لما بین یدی من التوراة ومبشرا برسول من بعدی اسمہ أحمد اورجب عیسی علیہ السلا م نے کہا ”اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کارسول ہوں “ میں تورات کی تصدیق کرتاہوں جومجھ سے پہلے تھی اورتمہیں ایک رسول کی بشارت دیتاہوں جومیرے بعد آئے گاجس کا احمد ہوگا ۔
(سورہ صف آیت نمبر7) یہی بشارت عیسی علیہ السلام انجیل یوحناباب 16درس 7میں کچھ یوں دیتے ہیں ''میں اب جارہا ہوں،اگرمیں نہیں جاؤں گا تووہ مددگاریعنی فارقلیط نہیں آئے گا، میں چلاگیا تو اسے تمہاری طرف بھیج دوں گا، جب وہ آے گا توسب جہاں والوں کوگناہ پرتنبیہ کرے گا " ۔ انجیل کے اس جملہ میں بالکل واضح اندازمیں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی آمدکی خوشخبری دی گئی ہے ،یونانی زبان میں مددگارکی جگہ فاقلیط لفظ کا استعمال ہواہے ،جس کامعنی ہوتاہے احمد یعنی بہت تعریف کیا ہوا، یاقابل تعریف ،اور آپ ہی نے شروفساد کے سمندرمیں تیرتی ہوئی انسانیت کوخدائے واحدپرجمع کیا ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدکی بشارت تورات وانجیل کے علاوہ دیگر قدیم مذہبی کتابوں میں بھی وارد ہوئی ہے ،اگرچہ ان کتابوں کے من عنداللہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں ملتی ۔چنانچہ گوتم بدھ نے موت کے وقت اپنے شاگرد ننداکوکان میں ایک نئے بدھ کے آنے کی خبردی تھی جس کانام میتری ہوگا۔ اورمیتری کامعنی ہوتاہے محمد-
ہندومذہب کی کتابوں میں بھی آپ کاذکرملتاہے ،چنانچہ ویدوں میں 31مقامات پرنراشنس کے نام سے نام سے آپ کاتذکرہ کیاگیا ہے ،
نراشنس لفظ نراورآشنس سے مل کربناہے ،نرکامطلب ہوتاہے انسان اورآشنس کامطلب ہوتاہے تعریف کیاہوا،یعنی وہ انسان جس کی تعریف کی گئی ہواوریہی معنی محمد کابھی ہوتاہے ۔
یہاں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ ہندومذہب میں کلکی اوتارکی آمدکاانتظارہورہاہے ،جوہندومذہب کے مطابق سب سے آخری اوتار ہوں گے ،ان کے صفات بھی مذہبی کتابوں میں بیان کئے گئے ہیں ،تحقیق سے پتہ چلتاہے کہ وہ آخری اوتاریانبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ،چنانچہ کلکی اوتارکی تاریخ ولادت کاذکر کلکی پران ادادھیائے 2شلوک 15میں اس طرح آیا ہے :”جس کے جنم لینے سے دکھی مانوتاکاکلیان ہوگا ،اس کاجنم مدھوماس کے شمبھل پکچھ اورربیع فصل میں چندرماکی بارہویں تیتھی کوہوگا ،اورصلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش بھی 12ربیع الاول کوہوئی ،اور آپ ہی نے سسکتی ہوئی انسانیت کوجام حیات پلایا ،اسی طرح شری مدبھگوت مہاپوران ادھیائے 12۔۔کھنڈ 2-۔اورشلوک 18 میں آپ کی جائے پیدائش اورماں باپ کانام بھی ذکرکیاگیاہے ،چنانچہ کلکی اوتارکی جائے پیدائش شمبھل بتایاگیاہے (شمبھل ) کالفظی معنی ہوتاہے امن وسکون کاگھریعنی دارالامن اورمکہ جہاں آپ کی پیدائش ہوئی اسے عربی میں دارالامن کہاجاتاہے ،۔
کلکی کے باپ کانام (وشنویش) بتایاگیاہے ،وشنویش دولفظوں سے مرکب ہے ،وشنواورویش وشنوکامعنی ہوتاہے اللہ اوریش کامعنی ہوتاہے بندہ یعنی اللہ کابندہ اورمحمدصلی اللہ علیہ وسلم کے باپ کانام بھی عبداللہ تھا جس کامطلب ہوتاہے اللہ کابندہ ۔کلکی ماں کانام سومتی بتایاگیاہے ،جس کامطلب ہوتاہے شانتی اورنرم طبیعت والی اورمحمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ماں کانام آمنہ تھا ،جس کامطلب ہے شانتی والی ۔
ڈاکٹروید پرکاش اپادھیائے نے اپنی کتاب ”کلکی اوتار محمدصلی اللہ علیہ وسلم “ اورڈاکٹر ایم اے شری واستونے اپنی کتاب میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوربھارتی دھرم گرنتھ میں،کلکی اوتار اورمحمدصلی اللہ علیہ وسلم کے صفات کاتقابلی مطالعہ کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ آج ہندودھرم میں جس کلکی اوتارکاانتظارکیاجا رہاہے ،وہ آچکے اور وہی محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔
بلکہ ہندو مذہبی کتابوں میں بعض جگہ پرآپ کانام کی صراحت کے ساتھ آپ کی اتباع کولازمی قرار دیاگیاہے ،چنانچہ یجرویدادھیائے 18اشلوک 31میں آیاہے:
" ویداحمدعظیم انسان ہیں ،سورج کے مثل اندھیرے کودورکرنے والے ،انہیں کوجان کرآخرت میں کامیاب ہواجاسکتاہے ،اس کے علاوہ کامیابی تک پہنچنے کاکوئی دوسراراستہ نہیں " ۔
سبحان اللہ ! کس قدرصراحت کے ساتھ آپ کے آنے کی خبردی گئی ہے ،اور آپ کی اطاعت کوہی نجات کاضامن بتایا گیا ہے،غرضیکہ مذہبی کتابوں میں آپ کی آمدکی پیشین گوئی کامطلب اس کے علاوہ اورکچھ نہیں کہ آپ کی بعثت پوری انسانیت کے لیے ہوئی تھی ، خود اللہ نے کہا:وما ارسلناک الارحمة للعالمین ”ہم نے آپ کوسارے جہاں کے لیے رحمت بناکربھیجاہے“ ۔

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔