بعض اہل قلم جب اس موضوع پر لکھتے ہیں تو بالعموم ”اسلام دین مساوات “ جیسے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں ،حالانکہ اسلام عدل وانصاف کا مذہب ہے ،مساوات کا قائل نہیں ،کیونکہ اس سے لازم آئے گا کہ مسلم اور کافر، مرد اورعورت سب کے احکام برابر ہوں، اور ان کے بیچ برابری اورمماثلت پائی جائے ،حالانکہ شریعت نے دونوں کے احکام میں تفریق کوملحوظ رکھا ہے ،ہاں! مسلم اورغیرمسلم ،مرداورعورت بعض احکام میں برابر ضرور ہیں تاہم اس لفظ کا استعمال علی الاطلاق نہیں ہوسکتا ۔ اس لیے ضروری ہے کہ”اسلام دین مساوات “ کی بجائے ”اسلام دین عدل “ کا استعمال کیاجائے۔
اس حوالے سے شیخ محمدبن صالح العثیمین رحمہ اللہ شرح العقیدہ الواسطیہ ( 1/180۔181) میں لکھتے ہیں :” کچھ لوگ ’عدل ‘ کی جگہ ’مساوات ‘ کا استعمال کرتے ہیں ، جوکہ غلط ہے ، مساوات نہیں کہا جاسکتا ،کیونکہ مساوات کا تقاضا ہے دوچیزوں کے بیچ برابری کر نا ، حالانکہ حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ دونوں کے بیچ تفریق ہو، اسی ظالمانہ پروپیگنڈہ کی بنیاد پر لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ مردوعورت کے درمیان کیا فرق ہے ؟ مردوخواتین کے درمیان مساوات کا نعرہ لگانے لگے ، یہاں تک کہ کمیونزم نے یہ کہاکہ حاکم اورمحکوم ،بادشاہ اوررعایا کے درمیان کوئی فرق نہیں ،کسی کی کسی پر حکومت نہیں چل سکتی ،حتی کہ باپ بیٹے پر حکومت نہیں چلا سکتا ۔ لیکن جب ہم عدل کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کا مفہوم ہوتا ہے ہرمستحق کو اس کا حق ادا کرنا ، اس سے کوئی ممانعت لازم نہیں آئے گی ، اورعبارت بھی صحیح ہوجائے گی ، اسی لیے قرآن کریم میں کسی جگہ نہیں آیا کہ إن اللہ یأمر بالتسویة کہ اللہ تعالی تم کو مساوات کا حکم دیتا ہے بلکہ یوں آیا ہے: إن اللہ یأمربالعدل ”اللہ تعالی تمہیں عدل وانصاف کا حکم دیتا ہے “۔ اس لیے جنہوں نے کہا کہ’ اسلام دین مساوات ہے‘ انہوں نے کذب بیانی کی بلکہ ’اسلام دین عدل وانصاف‘ ہے ۔ “
اس دنیا میں جوچیزیں قدیم
زمانے سے عالم گیر فساد کاباعث بنی ہیں ان میں ایک ہے رنگ ،نسل، زبان، وطن
اورقومیت کاتعصب وغیرہ ، ہردورمیں انسانوں نے اپنے گرد چھوٹے چھوٹے دائرے زبان کی
بنیاد پرکھینچے ہیں ،کبھی جغرافیائی خطے کی بنیاد پر کھینچے گئے ،توکبھی رنگ ونسل
کی بنیاد پرکھینچے گئے ،اوربات یہیں پرختم نہ ہوئی بلکہ غیروں کے ساتھ نفرت، عداوت
اورظلم وستم کی بدترین شکلیں بھی اپنائی گئیں ،اورصد حیف کہ آج بھی نسلی امتیاز ات
میں کمی نہ آئی ہے ،لیکن اسلام جوفطری مذہب ہے ، خالق کائنات کااتارا ہوا دین ہے
جوساری انسانیت کی ہدایت کاضامن ہے، اس نے کسی طرح کی لسانی یا نسلی تفریق کو برداشت
نہیں کیا، سارے مذاہب میں محض اسلام کوخصوصیت حاصل ہے کہ وہ اخوت با ہمى کا ایک عالمی تصور پیش کرتا ہے ،اسلامی اخوت کسی خاص
قوم یاکسی خاص علاقے کے لیے نہیں بلکہ وہ آزادی اور اخوت کاایک عالمگیر پیغام
ہے،اسلام نے زبان وقوم، رنگ ونسل اورعلاقائیت کے تمام نسلی امتیازات کو مٹادیا اورساری
انسانی برادری کوایک کنبہ قراردیا- اللہ تعالی کاارشادہے :
یا أیھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدة وخلق منھا زوجھا وبث منھما رجالا کثیرا ونساء (سورة النساء 1 )
”اے لوگوں ! اپنے رب سے ڈروجس نے تجھے ایک جان سے پیداکیااوراسی سے اس کاجوڑا پیدا
کرکے ان دونوں سے مرداورعورتیں کثرت سے پھیلادیئے“۔
اس آیت میں انسان کی
شروعات کی طرف اشارہ کیا گیاہے کہ انسان کی ابتداءصرف ایک آدمی سے ہوئی ہے ،اوراسی
سے اس کی شریک حیات بھی بنائی گئی ،یہ دنیاکے پہلے انسان ہیں جن کو کچھ لوگ آدم
اورحوا کہتے ہیں توکچھ لوگ منواورشتروپا اورکچھ لوگ ایڈم اورایو ۔ اب سوال یہ
پیداہوتاہے کہ جب انسان کی پیدائش ایک ہی ماں باپ سے ہوئی ہے تومختلف قبائل
اوربرادریوں میں بٹنے کی حکمت کیاہے ؟ تواس کاجواب اللہ تعالی نے سورہ حجرات میں
دے دیاہے :
یا أیھا الناس إناخلقناکم من ذکرو أنثی وجعلناکم شعوباوقبائل لتعارفوا إن أکرمکم عنداللہ أتقاکم (سورة الحجرات 11)
”اے لوگو ! ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے
پیداکیااورپھرتمہاری قومیں اوربرادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو،
درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے ،جوتمہارے اندرسب سے
زیادہ پرہیزگارہے ،یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا باخبر ہے “۔
یعنی اللہ نے تم کوکنبوں
اورقبیلوں میں اس لیے بانٹاہے تاکہ تم میں کابعض بعض کے خاندان کی پہچان کرسکے
اوراپنے آباءواجداد کے علاوہ دوسروں کی طرف اپنا انتساب نہ کرے، یہ مطلب نہیں ہے
کہ تم آپس میں ایک دوسرے پرفخرجتاؤ ،فرق وامتیاز کا دعوی کرو اور دوسروں پراپنی
برتری ثابت کرو ۔
مذكوره آیت کی تفسیر میں مولانا سیدابوالاعلی مودودی رحمہ اللہ نے
نہایت پتے کی بات کہی ہے: آپ لکھتے ہیں :
اس مختصرسی آیت میں اللہ تعالی نے تمام
انسانوں کومخاطب کرکے تین نہایت اہم اصولی حقیقتیں بیان فرمائی ہیں :
ایک یہ کہ تم سب کی اصل
ایک ہے،ایک ہی مرد ایک ہی عورت سے تمہاری پوری نوع وجود میں آئی ہے،ایک ہی الله
تمہارا خالق ہے ، ایسانہیں ہے کہ مختلف انسانوں کومختلف خداؤں نے پیداکیاہو،ایک ہی
مادہ تخلیق سے تم بنے ہو،ایسابھی نہیں ہے کہ کچھ انسان کسی پاک یا اچھے مادے سے
بنے ہوں اورکچھ دوسرے انسان کسی ناپاک یاگھٹیامادے سے بن گئے ہوں - ایک ہی طریقے
سے تم پیداہوئے ہو ، یہ بھی نہیں ہے کہ مختلف انسانوں کے طریق پیدائش الگ الگ ہوں۔
اور ایک ہی ماں باپ کی تم اولاد ہو یہ بھی نہیں ہواہے کہ ابتدائی انسانی جوڑے بہت
سے رہے ہوں ،جن سے دنیاکے مختلف خطوں کی آبادیاں الگ الگ پیداہوئی ہوں "۔
گویا کہ بنی نوع انسان
میں چارطرح کی یکسانیت پائی جاتی ہے ،ان کاپیداکرنے والاایک ہے ،ان کامادہ پیدائش
ایک ہی ہے اوران سب کانسب ایک ہی ماں باپ تک پہنچتاہے ، یہ تو پہلاوصول ہوا۔
دوسرے یہ کہ اپنی اصل کے
اعتبار سے تمہارا قوموں اورقبیلوں میں تقسیم ہوجانا ایک فطری امرتھا، ظاہر ہے کہ
پوری روئے زمین پرسارے انسانوں کاایک ہی خاندان تونہیں ہوسکتا تھا،نسل بڑھنے کے
ساتھ ناگزیرتھاکہ بے شمار خاندان بنیں اورپھرخاندانوں سے قبائل اوراقوا م وجود میں
آجائیں مگراس فطری فرق کاتقاضایہ ہرگزنہیں تھاکہ اس کی بنیاد پراونچ اورنیچ ،شریف
اورکمین ،برتر اورکمتر کے امتیازات قائم کئے جائیں بلکہ یہ توباہمی تعارف اورتعاون
کی فطری شکل تھی مگر یہ محض شیطانی جہالت تھی کہ جس چیزکواللہ کی بنائی ہوئی فطرت
نے تعارف کاذریعہ بنایاتھا ،اسے تفاخراورتنافرکاذریعہ بنالیاگیا،اورپھرنوبت ظلم
وعدوان تک پہنچادی گئی ۔
تیسرے یہ کہ انسان
اورانسان کے درمیان فضیلت اوربرتری کی بنیاد اگرکوئی ہے اورہوسکتی ہے تووہ صرف
اخلاقی فضیلت ہے ،کیوں کہ کسی شخص کاکسی خاص ملک قوم یا برادری میں پیدا ہوناایک
اتفاقی امرہے ،جس میں اس کے ارادہ وانتخاب کاکوئی دخل نہیں ہے، لہذاکوئی معقول وجہ
نہیں کہ اس لحاظ سے کسی کوکسی پرفضیلت حاصل ہو،اصل چیزجس کی بناپرایک شخص کودوسروں
پرفضیلت حاصل ہوتی ہے وہ ہے تقوی ،نیکی پرہیزگاری اورپاکیزگی وغیرہ- ایساآدمی خواہ
کسی نسل کسی قوم ،اورکسی ملک سے تعلق رکھتاہو،اپنی ذاتی خوبی کی بناپر قابل قدرہے
،اورجس کاحال اس کے برعکس ہووہ بہرحال کمتردرجے کاانسان ہے ،چاہے وہ
کالا ہو یا گورا، مشرق میں پیدا ہوا ہویامغرب میں ۔
عزیزقاری ! یہ توقرآن
کاتصوراخوت تھا،اب آئیے ہم آپ کے سامنے اس تصورکاعملی نمونہ پیش کرتے ہیں ،بعثت
نبوی سے پہلے عرب سماج بھی دوسرے ملکوں کے جیسے تین حصوں میں بٹا ہوا تھا،عربی
،عجمی،اورغلام ،آپ صلى الله عليہ وسلم نے جب انسانوں کوایک اللہ کاپیغام
سنایا،توحید کی دعوت دی ،اوربتایاکہ سب انسان ایک ہی ماں باپ کی اولادہیں،اس لیے
رنگ ،نسل اورقبیلے کی بنیادپرکسی طرح کی تفریق نہیں کی جاسکتی ، یہ فطرت کی
آوازتھی جوکانوں تک پہنچی تو فوراانہوں نے اس پکار پر لبیک کہا، صدیوں سے ذہن و دماغ
میں جمی ہوئی چھوت چھات کی لعنت ختم ہوگئی،عرب کاغلام جوآج کے شودھروں سے بھی
نیچاتھا،اسلامی سماج کا یہ اثرہواکہ وہ اسلامی سماج میں برابر کا ایک باشندہ بن گیا
،اورنسلی امتیازکے سارے تصورات مٹ گئے ۔
بندہ عشق شدی ترک نسب کن جامی
کہ دریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست۔
اس اسلامی معاشرے میں
ہرقوم اورہرنسل کے لوگ جمع ہوگئے ،اسلام نے سب کوآپس میں بھائی بھائی بنادیا،اونچ
نیچ اورچھوت چھات کا نام ونشان مٹ گیا-
یہ حضرت بلال رضى الله عنہ
ہیں، حبشہ کے تھے، شکل وصورت میں نہایت کالے تھے،ان کے پاس کوئی صنعت وحرف بھی
نہیں تھی،اسلام قبول کرنے سے پہلے انسانوں میں بھی ان کاشمارنہیں ہوتاتھا ،لیکن جب
اسلام قبول کرکے اسلامی معاشرہ میں ضم ہوتے ہیں توانہیں ایسامقام حاصل ہوتاہے کہ بڑے
بڑے شرفائے عرب ان کواپنی بیٹی دینا موجب عزت سمجھتے ہیں ، امیرالمؤمنین عمرفاروق
رضی اللہ عنہ انہیں سید کہہ کرپکارتے ہیں .
حضرت بلال رضی اللہ عنہ
جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کوپکارتے ہیں توآپ انہیں لبیک کے ساتھ جواب دیتے تھے
،جونہایت احترام کاکلمہ ہے-
اسی طرح حضرت زید رضی
اللہ عنہ کو دیکھئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزادکردہ غلام تھے ،لیکن آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے اس کی پرواہ کیے بغیران کی شادی اپنی پھوپھی زادبہن حضرت زینب
رضی اللہ عنہا سے کردی، ہجرت کے اولیں دور میں جب محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے انصار
ومہاجرین کے درمیان مواخاة کرائی توآپ کے آزاد کردہ غلام زید رضی اللہ عنہ ،اورآپ
کے چچا دونوں بھائی بھائی قرارپائے -
اس کے بعد رسول صلی اللہ
علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کوغزوہ موتہ میں فوج کاکمانڈر بناکربھیجا
پھران کے بیٹے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو روم کے محاذ پر جانے والے ایک ایسے لشکر
کاسپہ سالار بنایا جس میں مہاجرین وانصار کی اکثریت شامل تھی ،جن میں
ابوبکراورعمررضی اللہ عنہما بھی تھے ،جب حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم واصل بحق ہوئے
اور ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اس فوج کوروانہ کرنا چاہا توحضرت اسامہ رضی اللہ
عنہ کو کمانڈرباقی رکھا، جب فوج کوالوداع کرنے کے لیے مدینہ سے باہرنکلے تودنیانے
دیکھا کہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ پیدل چل رہے ہیں،اورحضرت اسامہ رضی اللہ عنہ
سواری پرسوارہیں ،حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ بھی جیش اسامہ میں شامل تھے،آپ
کوخیال آیاکہ اگروہ رک جاتے تواچھا تھا،اس لیے پوچھتے ہیں: ”اگرآپ مناسب سمجھیں
توعمرفاروق رضی اللہ عنہ کومیری مددکے لیے مدینہ ہی رہنے دیں “.
سبحان اللہ !ذراالفاظ
پرغورکریں ”اگرآپ منا سب سمجھیں توعمرفاروق کومیری مددکے لیے مدینہ ہی رہنے دیں “
یہ مقامات کتنے بلند ہیں ۔اتنے بلند کہ الفاظ ان تک پہنچنے سے قاصرہیں ۔
اسلامی اسٹیٹ میں سب سے
اونچامقام خلیفہ کو دیا جاتا ہے ،خلیفہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے مرتے وقت تک کہا تھا:
”اگرآج حذیفہ رضی اللہ عنہ کے غلام سالم رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے تو میں انہیں
کوخلیفہ بناتا“
سالم کی غلامی نے ان کے
احترام میں کوئی کمی نہیں آنے دیا، اوریہی عمرفاروق رضی اللہ عنہ ہیں ،جوعرب وعجم
کے بادشاہ ہیں ،بیت المقدس تشریف لے جارہے ہیں ،ان کے ساتھ ان کاغلام تھا اورسواری
ایک ہی تھی ،جس پرباری باری کبھی آپ سوارہوتے تھے اورکبھی آپ کاغلام ۔
لگایا تھا مالی نے ایک باغ ایسا
نہ تھاجس میں چھوٹابڑا کوئی پودا
عزیزقاری ! اسلام دین اخوت
، دين عدل ہے،اس کے مظاہرشریعت کے ایک ایک حکم میں دیکھے جا سکتے ہیں ، اسلام کے
ارکان اربعہ پرہی غور کرکے دیکھ لیں ۔نماز ،روزہ ،حج،اورزکاة ہرحکم میں آپ کواخوت
اور عدل کے نمایاں مظاہرملیں گے.
مساجد میں پانچ وقت کی
نمازوں کے اندر امیروغریب،کالے اورگورے ،مالک اورنوکرسب ایک ہی صف میں کھڑے
ہوکرنمازاداکرتے ہیں ۔
ایک ہی صف میں کھرے ہوگئے محمودوایاز
نہ کوئی بندہ رہانہ کوئی بندہ نواز
روزہ امیروغریب خاص وعام
ہرایک پریکساں فرض ہے ،شام کوہرامیروغریب ایک ہی دسترخوان پرجمع ہوتے ہیں
اورافطارکے ذریعہ برابرى کاعملی نمونہ پیش
کرتے ہیں ۔
زکاة ہرصاحب نصاب کے لیے
سال میں ایک مرتبہ اداکرنی ضروری ہے ،جس کے ذریعہ فقراءومساکین کے ساتھ مواسات
وغمخواری ہوتی ہے ،اوربرابرى کاعملی مظاہرہ دیکھنے کوملتاہے ۔
اسی طرح حج اخوت کاعالمی مظہرہے ،تمام دنیاکے مسلمان ایک ہی وقت
،ایک موسم ،ایک ہی حالت ،ایک ہی جگہ، ایک ہی لباس میں ،اورایک ہی خداکے دربار میں
،حاضرہوتے ہیں ،جہاں تمام امتیازی تفرقے مٹ جاتے ہیں ۔
امریکہ میں افریقی نسل کے
لوگوں کامشہورلیڈرمیلکم ایکس مسلمان ہونے کے بعد جب حج کوگیاتواس نے دیکھاکہ ایشیائى،یورپ
،افریقہ،امریکہ ہرجگہ،ہرنسل اورہررنگ کے مسلمان ایک ہی لباس میں ،ایک الله کے
گھرکی طرف جارہے ہیں،ایک ساتھ کعبے کاطواف کررہے ہیں،ایک ہی ساتھ نمازاداکررہے
ہیں،اورایک ہی زبان میں لبیک لبیک کہہ رہے ہیں ،ان میں کسی طرح کا کوئی بھید بھاؤ
نہیں ہے تووہ بول اٹھا:”یہ ہے رنگ اورنسل کے مسئلے کاحل“۔
عزیزقاری ! آج نسلی
امتیازات نے انسانیت کومختلف ٹولیوں میں بانٹ رکھاہے ،انسانیت سسک رہی ہے ،ظلم
وستم سے کراہ رہی ہے، اوراپنے مسیحا کوپکار رہی ہے ،ضرورت ہے کہ ہم اسلام کے نظام
مساوات کواپنے سماج اورمعاشرے میں عام کریں ،اورغیروں کو اس سے آگاہ کریں ،اللہ
تعالی ہمیں اس کی توفیق دے یارب العالمین
0 تبصرہ:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔