اتوار, جنوری 19, 2014

اسلام دین عدل ہے


اسلام عدل وانصاف کامذہب ہے ،اسلام ہر ایک کے ساتھ انصاف کامعاملہ کرنا چاہتا ہے چاہے مسلم ہو یاغیر مسلم ، مرد ہو یاعورت ،اپنا ہویا پرایا ،حاکم ہو یامحکوم ،ہرحال میں انصاف کاحکم دیتاہے:
 ان اللہ يأمربالعدل والإحسان ( سورة النحل 90 )
"بے شک اللہ تعالی عدل اور انصاف کرنے کا حکم دیتاہے "-  
واقسطوا إن اللہ یحب المقسطین (سورہ الحجرات آیت نمبر9)
”اورانصاف کرو بے شک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتاہے “-
بسااوقات ایسا ہوتاہے کہ اگرایک شخص کوکسی سے دشمنی ہوتی ہے تواس کے ساتھ جانبداری برتنے لگتا ہے اوراپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کربیٹھتا ہے ،اس موقع پر یہ تنبیہ فرمائی گئی کہ:
 ولایجرمن کم شنآن قوم علی أن لاتعد لوا اعدلوا ھوأقرب للتقوی (سورہ المائدہ آیت نمبر 8)
”دیکھو ! کسی قوم کی دشمنی تجھے اس بات پرآمادہ نہ کرے ،کہ تم عدل سے پھرجاؤ ،عدل کرویہی بات تقوی سے زیادہ قریب ہے “۔
عزیزقاری ! عدل وہ صف ہے جسے برتنا بہت مشکل ہے ،بالخصوص اس وقت جبکہ ذاتی مفادات سامنے آرہے ہوں، رشتہ داروں کے خلاف فیصلہ جارہا ہو ایسے وقت میں اگرایک شخص کے اندر خوف الہى نہ ہوتووہ بہرصورت جانبداری برت سکتا ہے ،تب ہی توانصاف کرنے والے محبوب ربانی بنتے ہیں،اورمختلف اعزازات وانعامات کے حقدار ٹھہر تے ہیں- اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 المقسطین عند اللہ علی منابرمن نورالذین یعدلون فی حکمھم وأھلیھم وماولوا (صحيح مسلم )
”انصاف کرنے والے اللہ کے نزدیک نورکے منبروں پرہونگے جواپنے اہل وعیال اورحکمرانی میں انصاف کرتے ہوں “۔
اور سات طرح کے لوگ قیامت کے دن عرش الہی کے سایہ میں ہوں گے جس دن اللہ کے سایہ کے علاوہ کوئی دوسراسایہ نہ ہوگا ان میں سب سے پہلے درجہ میں ہیں وہ امام جو انصاف پرورہوں ۔( بخارى و مسلم )

اگر فاطمہ بھی چوری کرتی تو اس کاہاتھ کاٹ ديتا:

تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے ہردور میں اس پرعمل کیا ،انصاف کے معاملے میں اپنوں اورغیر وں کی کوئی پرواه     نہ کی ۔ دامن انصاف ہاتھ سے جانے نہیں دیا ،خودجب آپ پیغمبر اسلام صلى الله عليہ وسلم کی زندگی میں جھانک کر دیکھیں گے تووہ ہرجگہ آپ کوپیکر انصاف دیکھائی دیں گے-
زمانہ نبوت میں قبیلہ بنومخزوم کی ایک خاتون چوری کرلیتی ہے،دربار رسالت سے حکم جاری ہوتاہے کہ چوری کے جرم میں خاتون کادایاں ہاتھ کاٹ دیاجائے ،خاتون معززگھرانے کی ہے،خاندان بنومخزوم کے لیے یہ فیصلہ شرم وندامت کاباعث تھا ،بنومخزوم کے ذمہ داروں نے آپس میں طے کیاکہ اگراس کی جگہ کوئی جرمانہ عائدہوجائے توجگ ہنسائی نہ ہو ۔ لیکن جرأت کسے تھی کہ سرورکونین سے بات کرے ، بالآخر قبیلہ کے معززلوگوں نے دربار رسالت کے چہیتے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ آپ جاکر سفارش کریں ،حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ حاضرہوئے اورعرض کیا: یارسول اللہ قبیلہ بنومخزوم بے قرار و اشک بار ہیں، وہ یہ چاہتے ہیں کہ فاطمہ بنومخزومیہ کاہاتھ نہ کٹے، اس کے عوض اورکوئی سزاتجویز فرمادیں ۔یہ سن کرسرکار دوعالم  صلى الله عليہ وسلم  کا چہرہ سرخ ہوگیا ارشاد فرمایا: یاأسامہ أتشفع فی حد من حدوداللہ "اے اسامہ ! یہ تیری جرأت ہے، میں تجھ سے پیار اورشفقت کابرتاؤ اس لیے نہیں کرتا کہ تواللہ کے کسی حد میں رکاوٹ بنے:
 والذی نفس محمد بیدہ لو سرقت فاطمہ بنت محمد لقطعت یدھا ( متفق عليه )
"سنو! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اس کاہاتھ کاٹنے سے بھی گریز نہ کرتا“ جواب سن کراسامہ سہم گئے اورعرض کیا: یا رسول اللہ میں اپنے الفاظ واپس لئے لیتا ہوں، ویساہی بہترہے جواللہ اوراس کے قانون کا تقاضا ہے ۔
جی ہاں ! یہ دربار رسالت ہے ،یہاں شریف اورکمین کے لیے الگ الگ حقوق نہیں ہیں ،یہاں حقوق سب کے لیے یکساں ہیں، نہ غریب کا حق مارا جائے گا اور نہ مالدارکے ساتھ جانب داری کامعاملہ ہوگا ، کیوں ؟اس لیے کہ اسلام دین عدل ہے، دین انصاف ہے، عدل کا پیغام ہے-

 ماروجس طرح اس نے تمہیں مارا تھا:

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں جب مسلمانوں نے مصرپرفتح پائی توحضرت عمروبن عاص رضی اللہ عنہما کو وہاں کاگورنربنایا گیا،ایک مرتبہ ان کا صاحب زاده ایک مصری سے الجھ گیااورغصہ سے مصری پرچند کوڑے برسادیا،مصری نے خلیفہ سے شکایت کی دھمکی دی ،صاحب زادے نے اپنے باپ کے اونچے عہدے کونظر میں رکھتے ہوئے سوچاکہ اس معمولی انسان کی شکایت سے اسے کیانقصان ہوگا ؟ اس نے کہہ دیا کہ تم جس سے چاہوشکایت کرو میراکوئی بال بیکا نہیں کرسکتا ،میں ایک شریف زادہ ہوں ،مصری نے اس واقعے کی شکایت حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے کردی ،حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے گورنرصاحب کو اوران کے صاحب زادہ دونوں کو اپنے پاس بلایااورللکارتے ہوئے کہا : تم نے لوگوں کوکب سے غلام بنا رکھاہے جبکہ ان کی ماؤں نے آزاد جنا تھا، اس کے بعد مصری کواپنا چابک دیتے ہوئے فرمایا: 
اضربہ کما ضربک وأخذله كما أخذلک
"ماروجس طرح اس نے تمہیں مارا تھا ،ذلیل کرو جیساکہ اس نے تمہیں ذلیل کیاتھا"-
قبطی نے اپنابدلہ چکاناشروع کردیا،بدلہ چکاتے ہی وہ اسلام کے عدل وانصاف کاایساقائل ہواکہ فورااسلام کے دامن میں پناہ لے لی ۔

عمر !تم نے انصاف کیا اس لیےاطمینان سے سورہے ہو:

جب فیصلہ میں عدل ملحوظ رکھاجاتا ہے تونفوس میں سکون واطمینان پھیلتاہے ،سماج اورمعاشرے میں ان کے اچھے نتائج سامنے آتے ہیں،امیرالمومنین عمرفاروق رضی اللہ عنہ کادورخلافت ہے،قیصربادشاہ روم آپ کے پاس اپنا ایک قاصد بھیجتاہے، وہ مدینہ میں آیا توپوچھا :تمہارابادشاہ کہاں ہے ؟ لوگوں نے کہا :ہمارابادشاہ نہیں ہے بلکہ ہمارا تو امیرہے اوروہ شہرسےباہرگیا ہواہے،چنانچہ وہ شخص تلاش میں نکلا : دیکھتاہے کہ مسلمانوں کاامیرریت پردرہ سرہانے رکھ کرسویا ہواہے ، قاصدنے جب امیرالمومنین کو اس حالت میں دیکھا تواس کے دل پررقت طاری ہوگئی ،اورکہنے لگا : یہ شخص کہ دنیاکے بادشاہ جس سے کانپ رہے ہیں ،اس اطمینان سے اکیلاسویا ہوا ہے ،عمر تم نے انصاف کیا اس لیے تم سکون واطمینان سے سورہے ہو ۔

اسی کے ذریعہ آسمان وزمین کی بادشاہت قائم ہے:

جب انصاف قائم ہوتاہے ،توسماج اورمعاشرہ امن وامان کاگہوارہ بن جاتاہے ،اسلام کے نظام عدل میں کبھی مسلم اور غیر مسلم کے بیچ تفریق نہیں کی گئی جس  پر پورى اسلامى تاریخ شاہد ہے ،کبھی اسلام میں مذہبی اختلافات کی بنیاد پر کسی کے ساتھ غلط برتاؤ نہیں ہوا، یہی وجہ ہے کہ اسلام کے نظام عدل کی گواہی دشمنوں نے بھی دی ،حضرت عبدا للہ بن رواحہ رضی اللہ عنہما یہودیوں کے پاس حکم بناکر خیبربھیجے گئے تھے، یہودخیبرنے آپ کو مال کی رشوت پیش کی کہ مبادا ہمارے اوپرزیادتی کربیٹھیں، یہ دیکھ کرآپ نے فرمایاتھا: 
لایمنعنی حبی لرسول اللہ وبغضی منکم أن أعدل فیکم
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میری محبت اورتجھ سے میرابغض اس بات سے مانع نہیں کہ میں تمہارے ساتھ عدل نہ کروں“ یہ سن کر یہودیوں نے کہا :
بھذا قامت السماوات والأرض
 "اسی کے ذریعہ آسمان وزمین کی بادشاہت قائم ہے – "
جی ہاں ! اسلامی عدالت کے سامنے نہ کوئی ہندو ہے نہ مسلمان ،نہ یہودی ہے نہ عیسائی ،اورنہ عربى  نہ عجمى سب کے لیے یکساں سلوک ،یکساں ضابطہ اور یکساں قانون کے تابع ہیں ، غرضیکہ اللہ والوں نے اسلام کے نظام عدل کو نافذکیا تو شیراوربکری ایک گھاٹ پرپانی پینے لگے -

محمودغزنوی نے شہوت پرست بھانجے کا سرقلم کیا :

بعد کے ادوارمیں بادشاہوں کی زندگی میں ہمیں عدل کا نمونہ ملتاہے، سلطان محمودغزنوی رحمہ اللہ کوہم سب جانتے ہیں ایک مرتبہ ایک شخص آپ کے دربارمیں انصاف حاصل کرنے کے لیے حاضرہوااورسلطان محمود سے تنہائی میں فریاد کی کہ میں ایک غریب انسان ہوں ، ایک مدت سے آپ کے بھانجا نے یہ طریقہ اختیارکررکھاہے کہ وہ ہررات ہتھیارسے لیس ہوکرمیرے گھرآتاہے اورمجھے چابک سے مارکر باہرنکال دیتاہے ،اورپھروہ تمام رات میری بیوی کے ساتھ ہوس پوری کرتاہے ۔
اس شخص کی آپ بیتی  سن کرسلطان محمود کے دانتوں تلے انگلی آگئی، وہ رونے لگا اورکہاکہ ”میری اس گفتگو کا کہیں ذکرنہ کرنا“ اورجب وہ بدبخت تمہارے گھرآئے اوراس جرم کاارتکاب کرے توہمیں بلاتاخیرخبرکرکردینا ۔درباریوں سے بھی تاکیدکردی کہ یہ شخص جب بھی میرے پاس آناچاہے، بلاروک ٹوک آنے دینا،بہرکیف جب تیسری رات سلطان کابھانجا عادت کے مطابق اس کے گھرآیا تواس نے سلطان کوخبرکی ، سلطان تلوار لیے فورا اس کے ساتھ آیاکیادیکھتاہے کہ بھانجا غریب کی بیوی کے ساتھ ہم آغوش ہے ،اورشمع اس کے پلنگ کے سرہانے جل رہی ہے ، سلطان نے شمع بجھایااورایک ہی وارمیں اس کاسرتن سے جداکردیا۔
اورمعا بعدپانی منگوا کر پیا اورکہا:
" جب تم نے روداد الم سنائی اسی وقت میں نے عہد کرلیاکہ جب تک تمہارے ساتھ پورا انصاف نہ ہوگا اس وقت تک نہ کھاناکھاؤں گا نہ پیاس بجھاؤں گا"-
ایسے ہی عظیم کارناموں سے آج زندہ ہے محمودغزنوی کانام ۔

قاضى نے اپنے قاتلبیٹے کے قصاص کا فيصله سنايا : 

حق کی خاطرخونی رشتہ کے پرواہ نہ کرنے کاہمیں ایک دوسرا واقعہ یاد آرہا ہے جوبصیرت افروزبھی ہے ، اورعبرت آموزبھی،بنوامیہ کے دورخلافت میں محمد بن علی ایک پایہ کے عالم گزرے ہیں ، یہ قرطبہ میں جج کے عہدہ پرفائزتھے، ان کاایک لڑکاتھا جس کانام عبداللہ تها،عبداللہ کوحکومت کی طرف سے کچھ جاگیردارملی تووہ قرطبہ سے نکل کر اسپین چلاگیا ،وہاں جاکروہ دنیوی عیش وعشرت کا شکار ہوگیااوراسپین کی ایک عیسائی خوبصورت دوشیزہ "عذرا"سے عشق کربیٹھا،لڑکی بھی اسے چاہتی تھی ، وہ اپنے خاندان والوں سے فرار ہوکرعبداللہ کے پاس آگئی،اس کا ساراخاندان عبداللہ کادشمن ہوگیا،انہوں نے یہ طے کیا کہ عبداللہ کوقتل کرڈالیں ،عبداللہ نادم ہونے کی بجائے ان کے مقابلہ کے لیے کمربستہ ہوگیا،اورایک دن موقع پاکر "عذرا"کے باپ کوقتل کر ڈالا ۔اس قتل پر سپاہیوں نے بہت شورہنگامہ کیا اورعبداللہ کوگرفتارکرکے حکومت کے اعلی جج محمدبن علی کے پاس فیصلے کے لیے بھیجا۔جوحقیقت میں قاتل کے باپ تھے ،مقدمہ کی سماعت کے لیے قاضی صاحب عدا لت میں بیٹھے ہوئے ہیں ،قاضی صاحب نے سراٹھایا اورعبداللہ سے پوچھا کہ تم اس مقدمہ کے بارے میں کیاکہنا چاہتے ہو ؟عبداللہ نے جواب دیا:محترم ابوجان !ابھی وہ اتنا ہی کہہ سکا تھا کہ قاضی صاحب نے نہایت گرجدار آواز میں ڈانٹا اورکہاکہ یہاں تم اپنے باپ سے باتیں کرنے کے لیے نہیں لائے گئے ہو، یہ کمرہ عدالت ہے یہاں قرابت کے الفاظ مت استعمال کرو ۔اس پرعبداللہ نے نہایت عاجزی سے کہا :قاضی صاحب میں عدالت سے رحم کی درخواست کرتا ہوں،جانتے ہیں : قاضی صاحب کا جواب کیاتھا؟ قاضی صاحب نے بلندآواز میں فرمایا:
 اسلام کے قانون چھوٹے بڑے سب کے لیے برابرہیں، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:  قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ،اگرمیری لاڈلی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تومیں اس کابھی ہاتھ کاٹ دیتا،پھر اپنی بات کوجاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں بھی اسی نبی کاادنی ترین خادم ہوں ،اگرچہ میرے دل میں میرے اکلوتے بیٹے کی بیحد محبت ہے ،لیکن میں انصاف کوپامال نہیں کرسکتا عبداللہ پرقتل کاحکم ثابت ہوچکاہے ،اس لیے اسے سزائے موت سناتا ہوں الایہ کہ مقتول کے اولیاء دیت لینے پرراضی ہوجائیں.
مقتول کے وارثوں نے دیت لینامنظورنہیں کیا لہذافیصلہ کے مطابق عبداللہ کوسزائے موت دے دی ۔
یہ ہے اسلام عدل وانصاف کاعلم بردار... جوحق کے معاملے میں نہ رشتے داروں کی پرواہ کرتاہے ،نہ اپنوں کاخیال ، ہاں! اگراس کو کسی چیز سے مطلب ہے توحق کی تائید اورصاحب حق کی حمایت خواہ اس کاتعلق کسی بھی نسل ،قوم اورفرقے سے ہو ۔
اخیرمیں اللہ تعالی سے دعاہے کہ وہ ہمیں عدل وانصاف کاپیکربنائے اوردین عدل پرثابت قدم رکھے ۔ آمین یارب العالمین 

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔