جمعرات, جون 27, 2013

نئی نسل کی اسلامی تربیت عصرحاضر کی ناگزیر ضرورت ہے


 آج امت مسلمہ نت نئے فتنے کا شکار ہوتی جا رہی ہے ، ہرطرف سے اس پر فکری یلغار ہورہاہے ، اس کی شناخت مٹانے کی کوششیں ہورہی ہےں، پچھلے چند سالوںسے صہیونی تحریکیں، عیسائی مشینریاں اورمتعصب ہندو تنظیمیں مسلمانوں کی نئی نسل پرخصوصی توجہ مرکوز کر رہی ہيں۔ کیوں کہ وہ بخوبی جانتی ہیں کہ بچے کا ذہن سادہ کاغذ کی مانند ہے اس پر جو کچھ بھی لکھ دیا جائے نقش ہوجاتا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے بعض کوردہ علاقے میں ہندوؤں کی متعصب تنظیمیں بعض دینی مدارس کی سرپرستی کر رہی ہیں اورہماری قوم اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ ہمارے بچے مفت میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ عیسائی مشینریوں نے دنیا کے چپہ چپہ میں اپنے تعلیمی ادارے قائم کر رکھے ہیں جہاں کا ماحول اورنصاب تعلیم کچھ ایسا رکھاگیا ہے کہ بچے اپنے اسلامی اقدار وروایات کو بالکل فراموش کرجاتے ہیں بلکہ کہیں کہیں پسماندہ علاقوں کے غریب بچوں کوعصری تعلیم کے نام پرعیسائیت کی کھلی تعلیم دی جاتی ہے ، یہ کسی ایک ملک کا حال نہیں بلکہ اکثر ممالک میں نئی نسلوں کے اندرارتدادی سرگرمیاں تیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہیں اور سادہ لوح مسلمانوں کو اس کا شعور تک نہیں ہے ۔ ابھی پچھلے دنوں مراکش سے مغربی ممالک کے بیس سے زائد پادریوں کو ملک بد رکیا گیا کیوں کہ ان پادریوں نے وہاں کے مسلم یتیم اور غریب بچوں کو پرسکون اور خوشحال زندگی کا جھانسا دے کر عیسائی بنایا تھا، بپتسمہ دے کر ان کے گلے میں صلیب ڈال دی تھی اوروہاں مقیم مغربی ممالک کے بے اولاد جوڑوں میں ان کی بولی لگائی گئی تھی اور کچھ کو یہ پادری زبردستی رسمِ عبادت بجالانے پر مجبورکررہے تھے کہ اسی اثناءحکومت کے اہلکاروںنے انہیں گرفت میں لے لیا اور مراکش کی وزارت خارجہ نے فوری طور پرانہیں ملک بدر کرکے وہاں کی عیسائی مشینریوں کوخبردار کیا کہ مراکش حکومت کسی کو بھی اسلام سے کھلواڑ کرنے کی اجازت نہیں دے گی ۔ (سہ روزہ دعوت7 مئی 2010م)

رپورٹ کے مطابق ایسا ہی کچھ حال عراقی بچوں کا ہورہا ہے ، عیسائی مشینریاں سارے عراق میں دندناتی پھر رہی ہیں ،جن بچوں کے والدین جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ایسے بچوں کو اغوا کرکے انہیں باضابطہ عیسائی مذہب میں داخل کرلیا جاتا ہے ۔ عیسائی مشینریوں کی یہ حالیہ رپورٹ ہے ورنہ خود اپنے وطن برصغیر پاک وہندکے بعض علاقوں اورامریکی تسلط کے بعد افغانستان کے حالات کا تجزیہ کریں تو کلیجہ منہ کو آتاہے، عیسائیوں نے خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والے مسلمانوں اور ان کے بچوں کو بُری طرح اپنا آلہ کار بنا لیا ہے اور بنارہے ہیں، کچھ علاقوں میں قادیانیت کا ارتدادی فتنہ بھی زوروں پر ہے ۔ رہے وہ علاقے جہاں اصلاحی کوششیں ہورہی ہیں وہاں گو ارتدادی فتنوں کو پنپنے کا موقع نہیں مل پا رہا ہے تاہم حکومت کی سرپرستی میں چل رہے اداروں کے نصاب تعلیم کا اسلامی عقائد سے متصادم ہونے کی وجہ سے ہماری نئی نسل غیرمحسوس طریقے سے اسلامی اقدار وروایات سے عاری ہوتی جا رہی ہے۔ یہ محض کہنے کی بات نہیں بلکہ زمینی حقائق ہیں کہ آج کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ الا من رحمہ اللہ دینی اعتبار سے مفلوج ہوتا جا رہا ہے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ امت کا درد رکھنے والے علماءاور اسلام کے جیالوں نے برصغیرپاک وہند میں دینی مدارس کا جال بچھایا جن کے زیراثر آج الحمدللہ اس خطہ میں اسلامی تشخص باقی ہے، اگر مسلمانوں میں دینی رجحانات نہ ہوتے اور اپنے بچوں کی اسلامی تربیت پر دھیان دینے کا جذبہ نہ ہوتا تو ہماری نئی نسل کا جو حال ہوتاوہ اللہ ہی پناہ ۔

ہمارا دشمن اس قدر جری ہوچکا ہے کہ ایک طرف تو مسلم بچوں کو ارتدادی فتنے میں مبتلا کررہاہے تودوسری طرف ان کی کوشش ہے کہ اپنی نئی نسل میں ایسے نصاب تعلیم کوفروغ دیا جائے جس میںاسلام اور مسلمانوں کودہشت گرد، بنیادپرست،رہزن اور قاتل گردانا گیا ہو ‘ تاکہ اسلام سےعداوت بچپن ہی سے ان کی گھٹی میں رچ بس جائے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ حالیہ دنوں امریکہ سے ایک بک سیریز ”ورلڈآف اسلام “ کے نام سے منظرعام پر آیا ہے جو دس چھوٹی چھوٹی رنگین کتابوں پر مشتمل ہے، جسے فارن پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے شائع کیا ہے ، عرب خبررساں ادارے ”اسلام آن لائن“ کے مطابق ان کتابوں کے مصنفین کٹّریہودی ہیںاور مذکورہ دس کتابیں امریکی سکولو ںکے ابتدائی دس درجات میں پڑھائی جائیں گی تاکہ امریکی بچوں کو کم عمری سے ہی اسلام اور مسلمانوں کے اصل کردار کی حقیقت کا اندازہ ہو سکے ۔

ان میں سے ایک کتاب ریڈیکل اسلام(بنیادپرست اسلام) کے عنوان سے لکھی گئی ہے جس کے سرورق پر مشین گن بنایا گیا ہے اور پورے ٹائٹل پرخون ہی خون نظر آرہا ہے ، اندرونِ کتاب بھی مسلمانوں کو دہشت گرد اور انتہا پسند ثابت کیا گیا ہے ۔ ”ہسٹری آف اسلام “ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کو چہاردانگ عالم میںاپنی طاقت اور تلوار کے زور سے پھیلایااور اپنی سلطنت کو وسیع کرنے کے لیے غیرمسلموں کو تہہ تیغ کیا ۔تقریباًیہ ساری کتابیں بچوںکے سامنے اسلام اور مسلمانوںکے تعلق سے بھیانک تصویر پیش کرتی ہیں،جب ایسی کتابیں بچوں کو پڑھائی جائیں گی تو ظاہر ہے کہ ان کے ذہن ودماغ میںاسلام اور مسلمانوں کے تئیں بچپن ہی سے ایک طرح کی نفرت بیٹھ جائے گی ۔

اس موقع سے ہمیں اپنے منصب اور مقام کو پہچاننا ہوگا ۔ ہم وہ قوم ہیں جنہیں دوسری قوموں کے لیے رہبر بنایا گیا تھا ،ہمارے سروں پر اقوام وملل کی امامت وقیادت کا تاج رکھا گیا تھا ، ہمارا کام تھا گم کردہ راہ انسانیت کو سوئے حرم لے جانا.... لیکن صدحیف آج ہم قائد بننے کی بجائے دست نگربن چکے ہیں، داعی بننے کی بجائے مدعو بن چکے ہیں۔ہماری ہمت پست ہوچکی ہے جس کا نتیجہ ہے کہ دین کے بازار میں ان کھوٹے سکوں کو مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔

بہرحال فی الوقت عرض مدعا یہ ہے کہ آج چونکہ ہمارے اکثر بچے اوربچیاں عصری درسگاہوں میں زیرتعلیم ہیں جن کا نصاب تعلیم مغربی طرز کا ہے یا کم ازکم اس کے ماحول پر مغربیت کی چھاپ ہے ۔ ایسے نازک حالات میں اگر ہم نئی نسل کی دینی تربیت میں غفلت برتتے ہیں تو مستقبل میں اس کے نہایت لرزہ خیز نتائج سامنے آئیں گے،لادینیت کے اس بڑھتے ہوئے سیلاب پر بندھ باندھنے کے لیے آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سکولوں اور کالجز میں زیرتعلیم مسلم بچوں کی طرف خصوصی دھیان دیں ۔ اپنی نئی نسل کو عصری تعلیم سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے بھی بہرہ ور کریں ، اسلام کی آفاقی تعلیمات سے انہیں روشناس کرائیں ، ویسے بھی دین کی بنیادی تعلیم ہرمسلمان مردوعورت پر فرض ہے، کم ازکم اس حد تک تو بچوں کو دین کی تعلیم سے آراستہ کرنا ہر والدین کا دینی واخلاقی فریضہ ہے ۔

ابھی گرمائی تعطیلات کا موسم آرہا ہے، یہ سکولوں میں زیرتعلیم بچوں کی دینی تربیت کا سنہراموقع ہے ، دوماہ میں دینیات پر مشتمل گرمائی کورسیز چلائے جا سکتے ہیں ، الحمدللہ کویت میں بعض مسلم کمیونٹیاں سمر کیمپ کا اہتمام کرتی بھی ہيں جس میں بچوں کے لیے مختلف ثقافتی پروگرامزکے ساتھ ساتھ دینی تربیت کا اچھا خاصا نظم ہوتا ہے،ایسے کیمپ سے بچوں کے اندر دینی شعور پیدا ہوگا،ان کے مزاج اور طبیعت میں تبدیلی آئے گی ،اچھی صحبت نصیب ہوگی اور وہ ہرطرح کی فضولیات سے بھی بچ جائیں گے ۔ امید کہ بچوں کے والدین ایسے کیمپ سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔
 صفات عالم محمد زبير التيمى

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔