جمعرات, جون 27, 2013

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے


آج سے تقریباً چارہزارسال پہلے بابل کی سرزمین پر‘ پروہت گھرانے میں ایک بچہ جنم لیتا ہے ، کفروشرک کی گھٹاٹوپ تاریکی میں آنکھیں کھولنے والے اس بچے نے سن شعورکوپہنچنے کے بعد قوم کی دیرینہ روایت کواپنا لیا ہوتا تو آج اس کا نام ونشان بھی باقی نہیں رہتا لیکن اس نے فطرت سے بے پناہ عزم وہمت اوربلند حوصلگی پائی تھی ۔ مخالفتوں کی پرواہ کیے بغیر معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ باپ کوسمجھایا، قوم کو سمجھایا، بادشاہ وقت تک توحید کا پیغام پہنچایا لیکن ان کا دل بنجر تھا، ان کا ضمیر مرچکاتھا، اس لیے خیرخواہ ہی کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑگئے، دہکتی ہوئی آگ میں جھونکا ، گھر سے بے گھر کیا، پوری زندگی سفراورہجرت میں گزاری لیکن معاشرے سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ معاشرتی زندگی میں جھانک کردیکھیں تو ایسی جاں نثاری وفداکاری کا مظاہرہ کیا کہ خالق کائنات کو اس کی ایک ایک ادا بھا گئی۔ پھر کیا تھا ؟ رب کائنات اسے اپنا خلیل بنا لیتاہے، سارے انسانوں کے ”امام “کا خطاب عطاکرتا ہے ، اوران کی ذریت میں نبوت ورسالت کاسلسلہ جاری کردیتاہے یہاںتک کہ آفاقی پیغام کے لیے خاتم النبیین صلى الله عليه وسلم کی بعثت انہیں کے نسل سے ہوتی ہے ۔ آج خانہ کعبہ، مقام ابراہیم، حج، قربانی، صفا ومردہ کی سعی، آب زمزم اوررمی جمرات امت مسلمہ کے لیے ابراہیمی یادگاریں ہیں۔
 اب سوال یہ ہے کہ آخر کیوں اللہ پاک نے ان کی یاد کو دوام بخشا اوران کوپوری دنیا والوں کے لیے صبح قیامت تک نمونہ بنادیا‘ یہ ایسا نکتہ ہے کہ جسے کسی صورت میں نظر انداز کرنا مناسب نہیں، بالخصوص اس وقت جبکہ آج دنیا کی اکثریت گو علمی ، تمدنی اورمادی اعتبار سے بہت آگے جا چکی ہے تاہم دینی ، اخلاقی اور روحانی اعتبار سے بہت پستی کی شکارہے ۔ ان گم کردہ راہوں کوراہ دکھانے کے لیے اب کوئی نبی یا رسول آنے والا نہیں، یہ ذمہ داری امت مسلمہ کے ہرفرد پر عائد ہوتی ہے کہ وہ انسانیت تک اس پیغام کو پہنچائے کیونکہ اسلام وراثتی مذہب نہیں بلکہ دعوتی مذہب ہے، اسلام نسبت کا نام نہیں بلکہ دل کے یقین کا نام ہے ۔
جی ہاں! ابراہیم عليه السلام  کی سبق آموززندگی میں آج کے نوجوانوں کویہ پیغام ملتا ہے کہ وہ اپنے اندر عقابی روح پیدا کریں، وہ شاہین صفت بنیں ، وہ اسلام کے علمبردار بنیں، ابراہیم عليه السلام نے عین شباب میں دعوت کی ذمہ داری اٹھائی تھی، آج بھی وقت کا تقاضا ہے کہ ہمارے نوجوان دین کی دعوت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں کہ دعوت کے اولیں مخاطب ہمارے نوجوان ہی ہیں۔
 یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی تحریک کی کامیابی میں اس کے نوجوانوں کا کلیدی رول ہوتاہے ، اسلام بھی اقصائے عالم میں نوجوانوں کے عزم راسخ ، یقیں محکم، عمل پیہم اور اعلی کردارکی بدولت پھیلا۔ کم عمری میں اسامہ بن زید رضى الله عنه  کا سپہ سالاربننا، زید بن ثابت رضى الله عنه کا جامع قرآن ہونا، مصعب بن عمیررضى الله عنه کا پہلا سفیربننا،بلال حبشی رضى الله عنه کا موذن رسول ہونا اور سلمان فارسی رضى الله عنه کامتلاشی حق بننا اسلام میں نوجوانوں کے گرانقدر کردار کوواضح کرتاہے۔ اسی طرح عقبہ بن نافع ، طارق بن زیاد ، موسی بن نصیر، اور محمدبن قاسم جیسے اسلام کے جیالے اورسورما نوجوان ہی تو تھے جنہوں نے گلش اسلام کی آبیاری کی اورچہاردانگ عالم میں اسلام کا جھنڈا لہرایا۔
عصرحاضرمیں اسلام دشمن عناصر نے اس نکتہ کو بخوبی سمجھا ہے اوراپنے اہداف کی تکمیل کے لیے نوجوانوں کوتیار کررہے ہیں، آج ہندوازم کی مختلف تنظیمیں نوجوانوںکی رہنمائی میں اسلام کے خلاف سرگرم ہیں ،آرایس ایس ، شیوسینا، بجرنگ دل اوروشوہندپریشد نے اپنے نوجوانوں کی ایسی ذہن سازی کی ہے کہ اسلام کی مخالفت ان کی رگ وریشے میں پیوست ہوچکی ہے، عیسائی مشینریاں نوجوانوں کو خصوصی تربیت دے کر میدان میں اتار رہی ہیں ، وہ جس میدان میں کام کررہے ہوں عیسائیت کی تبلیغ اپنی اولیں ذمہ داری سمجھتے ہیں ، الحمدللہ چند دہائیوں سے نوجوانان ملت میں بھی یہ شعور پیدا ہوا ہے اورجن مسلم نوجوانوں کی صحیح خطوط میں تربیت ہوئی ہے وہ اسلام کی خدمت میں رات دن ایک کررہے ہیں، ایسے نوجوانوں کو دیکھ کریقیناً آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں لیکن جس حد تک اس سمت میں توجہ دینے کی ضرورت تھی تاہنوز نہیں دی گئی ہے، نتیجہ ظاہر ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی اکثریت پست ہمت ،کاہل اور کام چور بنتی جا رہی ہے ، ان کی قوت فکر وعمل سلب ہوتی جا رہی ہے ۔
آج ضرورت ہے کہ ہم نوجوانوں کی صحیح سمت میں تربیت کریں،چاہے وہ جس میدان میں ہوں پہلے انہیں اسلام کا داعی بنائیں، اس طوفان بلاخیز میں اسلام کی سچی اور خالص تعلیمات انسانیت تک پہنچانے کے لیے یہ وقت کی پہلی پکار اوراولیں ضرورت ہے ۔ جب تک ہمارے نوجوان کوہساروں کا سا عزم لے کر میدان عمل میں نہ اتریں گے تب تک ہم اپنی عظمت رفتہ کی بازیافت نہیں کرسکتے۔ امید کہ میری آواز صدا بصحرا ثابت نہ ہو گی اور دعوت وتربیت کے  ذمہ داران اور نوجوانان ملت ان گزارشات پر کان دھریں گے۔رہے نام اللہ کا
صفات عالم محمدزبیرتیمی
safatalam12@yahoo.co.in

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔