اتوار, نومبر 15, 2009

آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا

جس وقت یہ شمارہ آپ کے ہاتھوں میں پہنچے گا آپ عید قرباں کی عظیم یادگار منا نے کی تیاری کررہے ہوں گے ، ہرسال حجِ بیت اللہ اورعید قرباں کی مناسبت سے روایتی اندازمیں سنتِ ابراہیمی کا اعادہ توضرور ہوتاہے تاہم اس تابناک اور درخشندہ زندگی میں ملک وقوم ، فرد ومعاشرہ اور خاندان کے ليے عبرت ونصیحت کا جوجامع پیغام دیاگیا ہے اس کی طرف ہمارا دھیان بہت کم جاتا ہے ....
وہ ابراہيم جنہوں نے کفروشرک سے اٹے سماج کو توحيد خالص کا پيغام سنايا تو آتشِ نمرود میں ڈالے   گئے ، توحيد کا پيغام سنانے کے جرم ميں باپ نے رشتہ کاٹ ليا اور گھر سے بے گھر کر ديا، سالوں تک جلا وطنی کی زندگی گذاری ، مصر ميں پہنچے تو کمبخت بادشاہ نے عزت پر حملہ کرنے کی کوشش کی، بڑی تمناؤں کے بعد دل کی کلیاں کھلیں توننھے اسماعيل کوماں کے ساتھ مکہ کی بے آب وگيا ہ سرزمين ميں بسانے آنے کا حکم آیا ، جب بچہ چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو آخری آزمائش ہوئی کہ اپنے نورنظر کو راہِ خدا میں قربان کردو، چنانچہ بلاپس وپیش بڑھاپے کی لاٹھی کو توڑنے کے ليے ازخود تیار ہوگيے۔ غرضیکہ ابراہیم عليه السلام کوطاقت سے زیادہ آزمایا گیا لیکن ہرجگہ ایثار وقربانی ، تسلیم ورضا اور فداکاری کا نمونہ بنے رہے ۔

آج جبکہ ہم سنت ابراہیمی منانے جارہے ہیں حق تو یہ تھاکہ ہم اسوہ ابراہیمی کے درخشاں نقوش، ان کی ایثار وقربانی اور ایمان وعمل سے سبق حاصل کرتے جیسا کہ شمع رسالت کے پروانوں نے اس کردار کو اپناکر انسانیت کی خزاں رسیدہ بستی کو شاداب کیا تھا لیکن افسوس کہ آج ہم پرہرسال یہ موسم سایہ فگن ہوتا ہے اور گذر جاتا ہے تاہم ہماری عملی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ۔ انبیائے کرام کی زندگی کے عبرت آموز واقعات کوئی طفل تسلی نہیں بلکہ انسانیت کے ليے مشعل راہ ہیں ، انہیں کی روشنی میں انسانیت کاقافلہ رواں دواں رہنا چاہيے ۔

آج کے اس پرآشوب دور میں سنت ابراہیمی سے عبرت حاصل کرنے کی کس قدرضرورت ہے ‘ اس کاصحیح اندازہ لگانا چاہتے ہوں تو انسانی سماج پرایک نظرڈال کردیکھ لیجیے، لگتا ہے وہی ابراہیمی دورایک بار پھر عود کر آیاہے ، بت پرستی ، شمس پرستی ،قمرپرستی، بادشاہ پرستی ، رجال پرستی اور نہ جانے کون کو ن سی پرستیاں انسانی سماج میں رائج ہیں ، اس پر مستزاد یہ کہ ابراہیمی دور کے جیسے کفر کی علمبردار عالمی تنظیمیں اسلام اور اہل اسلام کو نیست ونابود کرنے کے ليے گویا ادھار کھائی بیٹھی ہیں ، ایک طرف مادی وسائل اور خوفناک ہتھیاروں سے لیس دشمنان اسلام ہیں تو دوسری طرف فکری جنگ پر مشتمل مغرب سے درآمد اخلاق باختہ تہذیب وتمدن جو مسلم معاشرے کے ليے زہرہلاہل سے کم نہیں۔

یہ سنگین حالات امت مسلمہ کے ليے بڑا حوصلہ شکن نظر آرہے ہیں ، اور مایوسی وقنوطیت طاری کررہے ہیں بالخصوص اس وقت جبکہ ایک طرف ہم عید قرباں منانے جارہے ہیں اور لاکھوں حجاج کرام دیارحرم کے چپہ چپہ میں نعرہ توحید بلند کررہے ہیں تو دوسری طرف ہمارا قبلہ بیت المقدس صہیونیت کے نرغے میں ہے ، مغربی قوتوں کی ملی بھگت سے عالمی صہیونیت نے مسجد اقصیٰ کی طرف عملی طور پر اپنا قدم بڑھانا شروع کردیا ہے ۔ یہ ایسے وقت ہو رہا ہے جب کہ انہیں یقین ہوگیا ہے کہ اب اس امت میں ابراہیمی ایمان نہیں رہا ، صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی جیسے سورما نہیں بچے ۔
اب شاید وہ وقت آگیا ہے کہ عالمی صہیونیت جو خواب برسہا برس سے دیکھتی آرہی ہے شرمندہ تعبیر ہوجاے ۔
اس جانب انہوں نے پہلا قدم بڑھاتے ہوے مسجد اقصیٰ کے صحن میں ہیکل سلیمانی کے نام پر شیطانی معابد کا دیوہیکل ماڈل نصب کردیا ہے ۔ لیکن حالات جس قدر بھی ناگفتہ بہ ہوں بندہ مومن حالات کی سنگینی سے نہیں گھبراتا ، اس کا دل ہرحال میں امید سے معمور رہتا ہے ، اس کا یقین وایمان اس کے دل کی کھیتی کو ہمہ وقت شاداب وشگفتہ رکھتا ہے ۔

تاریخ شاہد ہے کہ اللہ تعالی نے ہردور میں ایمان ویقین کی بنیاد پر ہی فتح وکامرانی نصیب کی ہے ، اور ایمان کے زوال سے ہی امت مسلمہ کو ذلت ورسوائی اورتخلف وادبارکا سامنا کرنا پڑا ہے ، آج اگر ہمارے اندر وہی ابراہیمی ایمان پیدا ہوجائے تو آج بھی نارِ نمرود گل گلزار بن سکتا ہے ، آج بھی ہماری مدد کے ليے فرشتے قطار اندر قطار اترسکتے ہیں ، البتہ شرط یہی ہے کہ سیرت ابراہیمی کی روشنی میں ملک وقوم، فرد ومعاشرہ اور خاندان کی تربیت کی جائے ۔ اور اس کی شروعات اپنے گھر سے ہونی چاہيے ۔ آخرکہاں تربیت ہوئی تھی اماں ہاجرہ علیھاالسلام کی‘ کہ جب ابراہیم ں بے آب وگیاہ سرزمین میں انہیں اکلوتے فرزندکے ساتھ چھوڑکران سے اوجھل ہوناچاہتے ہیں توفطری طور پرایک لمحہ کے ليے پریشان ہوجاتی ہیں کہ چٹیل میدان میں جہاں ہو کا عالم ہے تن تنہا کیسے رہ سکیں گی‘ تاہم جب ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہی حکم الہی ہے توساری بے چینی دور ہوجاتی ہے اور صبروتوکل کی پیکر بنی بولتی ہیں ” تب تو اللہ تعالی ہميں ضائع نہ ہونے دے گا“ سبحان اللہ ! کيسا يقين تھا ہاجرہ علیھاالسلام کا اللہ پر ، اور کيسی تربيت کی تھی ابراہيم  عليه السلام نے اپنی بيوی کی کہ جب اللہ کاواسطہ ديا جاتا ہے توایک سنسان جگہ پر ہونے کے باوجود سارا قلق واضطراب دور ہوجاتاہے حالانکہ یہ وہی خاتون ہیں جو چند دنوں پہلے ظالم وجابر بادشاہ کے گھر میں تھیں جہاں نہ کوئی دین تھا نہ کوئی نظامِ حیات۔
پھر ننھے اسماعیل کا کردار دیکھيے کہ جب ابراہیم عليه السلام ںحکم الہیٰ پاکر اپنی آنکھوں کے تارا اوربڑھاپے کے سہارا کو اللہ کی راہ ميں قربان کرنے کے ليےتیار ہوجاتے ہیں ، اورننھے اسماعیل سے عندیہ لیناچاہتے ہیں تو پاکيزہ ذريت کی پاکیزگی تسلیم ورضا کی صورت میں یوں ظاہر ہوتی ہے : ” ابوجان ! آپ کو جس کام کا حکم ملا ہے کر گذرئيے ، اس ميں پس وپيش نہ کيجئے ، ہم پراعتماد کيجئے، ہميں ان شاءاللہ آپ صبر کرنے والوں ميں سے پائيں گے“ ۔ اللہ اکبر
 یہ فیضان نظرتھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی        
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
عزیزقاری ! یہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم خواب غفلت سے بیدارہوں،اسوہ ابراہیمی کی روشنی میں فردومعاشرہ کی تربیت کریں، اپنی اولاد کو اسماعیل عليه السلام اور اپنی بیوی کو ہاجرہ علیھاالسلام کا نمونہ بنائیں اورثابت کردیں کہ ہردورمیں نمرودی غرورکو توڑا جا سکتا ہے، وما ذلک علی اللہ بعزیز -  اللہ تعالی ہم سب کا حامی وناصر ہو.... رہے نام اللہ کا

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔