اتوار, اکتوبر 25, 2009

امام کعبہ کا پیغام ضیوف الرحمن کے نام

شیخ عبدالرحمن بن عبدالعزیز السدیس امام وخطیب ”مسجد حرام “ مکہ مکرمہ
اللہ کے بندو! ہرسال ان ایام میں امت مسلمہ ایسی عظیم الشان مناسبت کا استقبال کرتی ہے،جس کے لیے مومن کا دل بیتاب رہتا ہے ۔ جس کی طرف نگاہیں مرکوزاورگردنیں دراز رہتی ہیں، جس کی آمد پرمسلمانوں کے دلوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ یہ دراصل خانہ کعبہ میں فریضہ حج کی ادائیگی ہے، جہاں مقامات مقدسہ ہیں، مشاعر مشرفہ ہیں،جو مہبط وحی ہے، منبع رسالت ہے، جہاں سے ساری دنیا میں ایمان کا نورجگمگایا، جہاں پر آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں، رحمتیں اترتی ہیں، لغزشوں سے درگذرکیا جاتاہے،درجات بلند کیے جاتے ہیں، گناہوں کومٹادیا جاتا ہے، اور رب دو جہاں کی سخاوت عام ہوتی ہے۔
جیساکہ بخاری ومسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه کابیان ہے کہ اللہ کے رسول صلی الله علیه وسلم نے فرمایا”حج مبرور کابدلہ جنت ہی ہے “ ۔ اور بخاری ومسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی الله عنه کی ایک دوسری روایت ہے، اللہ کے رسول صلی الله علیه وسلم نے فرمایا ”جس نے حج کیا اور دوران حج اس سے نہ کوئی شہوانی فعل سرزد ہوا اور نہ ہی اس نے فسق وفجور کا ارتکاب کیا وہ گناہوں سے اس طرح پاک و صاف ہو کر لوٹا گویاآج ہی اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہے “۔ بیت اللہ کے حاجیو! خانہ کعبہ کا قصد کرنے والے اگرحج کے فوائد اور اس کے اثرات سے مستفید ہوناچاہتے ہیں اوراللہ تعالی نے حاجیوں کے لیے جو اجروثواب اور فضل وانعام طے کررکھا ہے اس سے بہرہ ور ہونے کے خواہاں ہیں توان کے لیے ضروری ہے کہ اس عظیم فریضے کی ادائیگی میں شرعی منہج اور نبوی طریقہ کا التزام کریں ۔ حج کے چند شروط اور ارکان ہیں ، چند واجبات اور مستحبات ہیں، چند اصول وآداب ہیں جن کی رعایت نہایت ناگزیر ہے ۔
اے اللہ کے بندو! اے عازمین حج ! اے وہ لوگو !جنہوں نے جنگلات اور بے آب وگیاہ مقامات کو پار کیا ہے ، مختلف فضاوں اورسمندروں کی خاک چھانی ہے، مشکلات کاسامنا کیا ہے ، مشقتیں برداشت کی ہیں ، اپنے اموال واولاد اور وطن کو خیرباد کیا ہے آپ کی خدمت میں یہ جامع نصیحتیں ہیں، نفع بخش مختصرکلمات ہیں، بالخصوص ایسے وقت میں جب کہ آپ اس عظیم عبادت کی تیاری کر رہے ہیں ۔
پہلی نصیحت: اُس اساس کواپنائیں جس پر حج اور دیگرتمام عبادات کا دار ومدارہے یعنی توحید باری تعالی ، عبادت کے سارے اعمال کواسی کے لیے خالص کرنا ، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا ہے۔ جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا :آپ فرما دیجیے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا مرنا ، یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہاں کا مالک ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں سے پہلا ہوں“ ( الانعام ) حج کے مقاصد وفوائد میں سب سے عظیم مقصد وفائدہ توحید باری تعالی کا اقرار اور شرک سے اجتناب ہے۔ ارشاد ربانی ہے :”اور جبکہ ہم نے ابراہیم کو کعبہ کے مکان کی جگہ مقررکردی ، اس شرط پر کہ میرے ساتھ کسی کوشریک نہ کرنا “ ( الحج 26) لہذا بندے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی ضروریات کی تکمیل ، مشکلات سے نجات ، اور مریضوں کی شفا کے لیے صرف اور صرف اللہ رب العالمین کی پناہ طلب کرے جو معاملات کی تدبیر، شروروفتن کو دور کرنے اور زمانوں کو بدلنے کا مالک ہے ۔ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اللہ رب العالمین بےزار ہے اس شرک سے جو مشرکین اس کے ساتھ ٹھہراتے ہیں۔
دوسری نصیحت: اپنے سارے اعمال خالص اللہ تعالی کی رضا کے لیے انجام دیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :” خبردار! اللہ تعالی ہی کے لیے خالص عبادت کرنا ہے “(الزمر3) نہ ریاکاری ہونی چاہئے اور نہ نام ونمود اور نہ ہی اللہ سے ہٹ کر غیراللہ کی طرف توجہ خواہ وہ اشخاص ہوں، یا بینرز یا اصول ومناہج جو اس اصل کے منافی ہوں۔
تیسری نصیحت: رسول پاک صلی الله علیه وسلم کی اطاعت وتابعداری کولازم پکڑیں۔ اللہ تعالی کے اوامر کو بجا لائیں اور آپ کی سنت کو حرزجاں بنالیں کیونکہ آپ صلی الله علیه وسلم کا خود ارشاد ہے ”جس نے کوئی ایسا کام کیا جو ہماری سنت کے مطابق نہیں وہ مردود ہے“ (مسلم) اور حج کے تعلق سے فرمایا : ”ہم سے حج کے مناسک سیکھ لو“ (مسلم)
چوتھی نصیحت : اللہ تعالی کا تقوی اختیار کریں، اس کی اطاعت کے اعمال بجا لائیں، اور عمل صالح کے ذریعہ اس کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کریں بالخصوص اس وقت جب کہ افضل ترین زمان ومکان اکٹھا ہوجائے” اور اپنے ساتھ زاد سفر رکھ لیا کرو‘ سب سے بہترزادِ راہ اللہ تعالی کا ڈر ہے “ ( البقرة 197) ذکر ، دعاء، تلاوت قرآن ، تلبیہ ، نماز، اور نیکی واحسان کا بکثرت اہتمام ہونا چاہیے۔
پانچویں نصیحت: فریضہ حج کی عظمت کا احساس دل ودماغ پر طاری رکھیں: نہ تو یہ کوئی بری سیاحت ہے ، نہ کوئی فضائی تفریح ، اور نہ ہی اسے تقلید وعادت اور نقل کے طور پر انجام دیا جاتا ہے بلکہ یہ ایمانی سیاحت ہے جس کی فضا بلند معانی اور نیک مقاصد سے لبریز ہوتی ہے ، یہ ایمانی و فکری آلودگیوں اور منہجی واخلاقی مخالفتوں سے دور رہ کر توبہ وانابت ، رجوع الی اللہ اور صراط مستقیم کے التزام کا سنہری موقع ہے-
چھٹی نصیحت : اس بیت عتیق اور مبارک سرزمین کی عظمت وشان کا دل میں احساس ہو، یہاں خون نہیں بہایا جا سکتا،اس کے درخت اکھاڑے نہیں جا سکتے، یہاں کے شکار بھگائے نہیں جا سکتے، یہاں کی گمشدہ اشیاء اٹھائی نہیں جا سکتیں سوائے اس کے جو اس کا اعلان کرنا چاہتاہو۔ (بخاری ومسلم ) يہاں درخت،شکار،انسان،اور حيوان خوف اور اذيت سے بالکل محفوظ ہوتا ہے ”اس میں جو آجاے امن والا ہوجاتا ہے“ (آل عمران 97) ۔ اس جگہ ايسے اعمال انجام ديناجائز نہيں جومقاصد شريعت اور منہج اسلام کے منافی ہوں،يہاں صرف اللہ تعالی ہی کی طرف دعوت دی جا سکتی ہے، يہاں صرف توحيد کا شعار ہی بلند کيا جا سکتاہے، يہاں اللہ اور يوم آخرت پر ايمان رکھنے والوں کے ليے جائز نہيں کہ مسلمانوں کو تکليف دے، يا امن وامان سے رہنے والوں کو خوفزدہ کرے،يا حج کے اعمال سنت نبوی کے خلاف بجالائے ارشاد باری تعالی ہے: ”جوبھی ظلم کے ساتھ وہاں الحاد کا ارادہ کرے ہم اُسے دردناک عذاب چکھائیں گے“ (الحج 25)
ساتويں نصيحت : مسائل حج سے آگاہی حاصل کرکے حج کی تياری کریں، اور جس مسئلے ميں اشکال پيدا ہو اس کی بابت اہل علم سے دریافت کرلیں،کيونکہ جہالت کی بنياد پر اللہ تعالی کی عبادت کرنی يا سنت ِنبوی کے خلاف حج کے اعمال بجا لانا جائز نہيں۔ يہ ايسا معاملہ ہے جس کا حاجيوں کو کافی اہتمام کرنے کی ضرورت ہے ۔
آٹھويں نصيحت: گناہوں اور معاصی سے کلی اجتناب کریں: اللہ تعالی نے فرمايا: ”حج میں اپنی بیوی سے میل ملاپ کرنے ،گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑے کرنے سے بچتا رہے“ ۔ (البقرہ 197) طاعات کی انجام دہی پر نفس کو آمادہ کریں،اور منکرات سے خود کو دور رکھیں خواہ ان کی نوعيت جيسی بھی ہو۔
نويں نصيحت : حج کو خالص کرنے اور ان تمام امور کو بجا لا نے کی سعی کریں جن سے آپ کے حسنات زیادہ ہوں، اور حج کے مناسک مکمل ہوسکیں۔ جن میں سرفہرست نیک دوست کا انتخاب اور پاکیزہ وحلال کمائی ہے جوکہ قبولیت حج کا سبب ہے
دسویں نصیحت : مکا رم اخلاق ، اور شرعی آداب سے مزین ہوں اور گفتار وکردار، ہاتھ یا زبان سے بندگانِ خداکو اذیت نہ پہنچائیں۔ کیونکہ حج ایک ایسا مدرسہ ہے جو صبروتحمل ، تعاون باہمی اورایثار وقربانی جیسے پاکیزہ اخلاق ، عمدہ خصائل، نیک عادات اوراعلی اوصاف کی تعلیم دیتا ہے۔
امت کے پاسبانو! یہ نہایت ناگزیر ہے کہ خانہ کعبہ کے حجاج اس عظیم فریضے کو سمجھیں ، اپنے دلوں میں اِن وصیتوں کو اُتاریں، اور اپنے کردار کے ذریعہ اِن کا عملی نمونہ پیش کریں۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ملت اسلامیہ ایمان وعمل ،اتحاد واتفاق، صبر وشکر ،آپسی تعاون وبھائی چارگی ، اور اجتماعیت وبالادستی کے اسباق کو دہرائے اور یہ سب کے سب اس عظیم فریضے کے آثار وثمرات ہیں جنہیں اللہ تعالی نے اپنے فرمان لِیَشہَدُوا مَنَافِعَ لَہُم میں جمع کردیا ہے ۔

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔