ہفتہ, اکتوبر 03, 2009

افسوس گیا نورچراغِ سحری کا

ابھی چند ايام قبل ہم نے ماہ رمضان کے بابرکت دنوں اور اُس کی نورانی راتوں کو الوداع کيا ہے ، يہ دراصل ايک ماہ کا ريفريشر کورس تھا جس کے اثرات گيارہ مہينوں تک ہم پر باقی رہنے تھے ، رمضان ہمارے احوال کی اصلاح کے ليے آیا تھا  روزہ ہمارے اندر تقوی کی صفت پیدا کرنے کے ليے آیا تھا ،لیکن کیا ایسا ہوسکا ؟.... کیا ہم نے رمضان سے کچھ سبق سیکھا ؟ واقعی کچھ پاک طینت نفوس نے رمضان سے خوب خوب فائدہ اٹھایا، نیکیوں سے اپنا دامن مراد بھرا اور اب تک نیکی کی راہ پر گامزن ہیں ۔
 اللہ تعالی انہیں مزید توفیق عطافرمائے ۔آمین تاہم مسلم معاشرے میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو رمضان کے پيغام کو سمجھ نہیں پاتے، رمضان میں روزہ رکھتے ہیں ،شب بیداری کرتے ہیں،قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں،صدقہ وخیرات کرتے ہیں اور رمضان کے جاتے ہی اپنی سابقہ روش پر لوٹ آتے ہیں، ادھرہلالِ عيد طلوع ہوا اور ادھر محارم کی بے حرمتی ہونے لگی ، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ وہ مسجدیںجو نمازیوں کی کثرت سے تنگ دامانی کا شکوہ کر رہیں تھیں آج اس کی کشادہ عمارتیں انہیں دیکھنے کے ليے ترس رہی ہیں، قرآن کريم جس میں ان کے رات ودن بسر ہوتے تھے آج طاقوں کی زينت بن چکاہے ،سحری کے وقت کی چہک پہک خوابیدگی کی نظر ہوچکی ہے ، فلمی نغمے اور موسيقی کے رسيا اپنی پہلی حالت پر لوٹ چکے ہیں ۔
 ایسے لوگوں پر مکہ کی ریطہ بنت سعد نامی پاگل عورت کا قصہ صادق آتا ہے جو دن بھر محنت کرکے سوت کاتتی ،جب سوت بالکل مضبوط ہوجاتا تو شام ہوتے ہی اُسے چھری سے ٹکڑے ٹکڑے کردیتی تھی ....لیکن چونکہ وہ ماووف العقل تھی اس ليے ایسا کر گذرتی تھی ....اللہ تعالی نے سورہ نحل میں اہل ایمان کے ليے يہی مثال بیان کی ہے کہ " ولا تكونوا كالتي نقضت غزلها من بعد قوة أنكاثا" یعنی اس عورت کی طرح مت بنو جس نے اپنا مضبوط سوت کاتنے کے بعد اُسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ۔ ظاہر ہے جس نے راتوں کی نیند اور دن کے سکون کو خیرباد کیا اور مسلسل ایک مہینہ تک عبادت وریاضت میں لگا رہا، مہینہ ختم ہوتے ہی اپنے کيے دھرے پر پانی پھیر دے تو کیا اُسے عقل مند کا نام دیا جائے گا؟ اور کیا اس کی مثال اس عورت کی سی نہ ہوگی جو روزانہ مضبوط سوت کاتتی اور شام میں ٹکڑے ٹکڑے کردیتی تھی ؟
اب ذرا ہم دل کوٹٹولیں اور من سے پوچھیں! ہم نے روزے کیوں رکھے ؟ ہم نے تراوییح کا اہتمام کیوں کیا ؟ ہم نے قرآن کریم کی تلاوت کیوں کی ؟ ہم نے صدقات وخیرات میں حصہ کیوں لیا ؟ اسی ليے نا تاکہ ہمارا خالق ومالک اور مربی ہم نے راضی ہوجائے ۔ جب ہم نے یہ سب کام اُسی ذات کو راضی کرنے کے ليے کیا تو رمضان کے بعد اس کے احکام کی پامالی کیوں ؟ ہم سب اپنے مالک کے بندہ اور اس کے نوکر ہیں اور ایک وفادار نوکر اپنے مالک کے حکموں کو ہمیشہ سرآنکھوں پر رکھتا ہے ۔ فرض کیجئے ! ایک مالک اپنے نوکرکو ہر سال کسی خاص مہينے میں اس کی تنخواہ سے زیادہ مشاہرہ دیتا ہے ، قیمتی انعامات اور بیش قیمت تحائف سے نوازتا ہے تو کیا عقل اس بات کی تائیدکرتی ہے کہ غلام صرف اس مہینے میں مالک کی تابعداری کرے اور اس کے اشارہ پر ناچتا رہے اور بقیہ گیارہ مہینے اس کی اطاعت کا قلادہ گردن سے نکال پھینکے ؟ بلکہ نوکر ہونے کے ناطے اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پورے سال اپنے مالک کی خدمت بجا لاتا رہے‘ خواہ اُسے بخششیں ملیں یا نہ ملیں ۔ ہاں! اگر اُسے بخششیں ملتی ہیں تو اُن بخششوں کا تقاضا ہے کہ اُس کی اطاعت وتابعداری میں مزید نکھار پیدا ہو اور سال بھر اپنے مالک کا وفادار نوکر بنا رہے ۔ توپھر ہم بھی تو اپنے خالق ومالک کے غلام اور اس کے بندہ ہیں ،ہم کبھی کچھ نہیں تھے جس ذات پاک نے ہمیں قطرہ آب سے پیدا کیا اور ہرطرح کی نعمتوں سے مالامال کیا ان احسانات کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم ہر وقت ، ہرآن اور ہرلمحہ اپنے محسن حقیقی کی تعمیل میں لگے رہیں ، البتہ اگر سال کے کسی خاص مہینے میں رحمت ورضوان کی بارش ہوتی ہے تواس سے خوب فیضیاب ہولیں تاہم یہ ہرگز نہ سمجھیں کہ ہم نے حقِ عبدیت ادا کردیا ۔ صدحیف آج اسلام کے سپوتو ںنے اسلامی تعلیمات کو اپنے ذہن ورجحان کے مطابق ڈھال رکھا ہے ، امت مسلمہ کا يہ عجيب الميہ ہے کہ اس کے بعض افراد کے ذہن و دماغ ميں دين کا نہايت غلط تصور بيٹھ گيا ہے ، بعض اوقات اور مناسبات ميں عبادات کی ادائيگی کو ہی اپنے ليے ذريعہ نجات سمجھتے ہيں۔جسطرح عیسائی ہفتہ میں ایک دن چرچ کو جاتے ہیں ویسے ہی کچھ فرزندان اسلام ہفتہ میں ایک دن مسجد چلے جاتے ہیں اور اسپر طرہ یہ کہ خودکو پکا مسلمان باور کراتے ہیں۔ کسی اللہ والے سے پوچھا گيا کہ جو لوگ محض رمضان ميں عبادت کرتے ہيں اور رمضان کے ختم ہوتے ہی اپنی روش پر لوٹ آتے ہيں ان کی بابت آپ کيا کہتے ہيں....؟ تو انہوں نے فرمايا : بِئسَ القَومُ لَا يعرِفُونَ اللّٰہَ اِلَّا فِی رَمَضَانَ ”نہايت بُری قوم ہے وہ جو اللہ کو صرف رمضان ميں پہچانتی ہے“۔ جی ہاں! ہم نے رمضان کی عبادت نہیں کی بلکہ رمضان کے رب کی عبادت کی ہے جوہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ،ایک مسلمان اللہ کی عبادت دن اور مہینے کی تخصیص کے ساتھ نہیں کرتابلکہ اس کی پوری زندگی عبادت میں بسرہوتی ہے ،اس کا اٹھنا بیٹھنا،سونا جاگنا،کھانا پینا،چلنا پھرنا سب اسلامی تعلیمات کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔اس ليے ہمیں بھی چاہيے کہ ہروقت،ہرآن اور ہرلمحہ اپنے خالق ومالک کے احکامات کو سرآنکھوںپر رکھیں، ہماری زندگی کا مقصد دین الہی کی سرفرازی ہو،اِسی کے ليے مریں اور اسی کے ليے زندہ رہیں
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی میں اِسی ليے مسلماں میں اسی ليے نمازی

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔