اتوار, نومبر 15, 2009

حج كى فرضيت

وَلِلّہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ البَیتِ مَنِ استَطَاعَ اِلَیہِ سَبِیلاً وَمَن کَفَرَ فاِنَّ اللہ غَنِیّ عَنِ العَالَمِینَ (سورہ آل عمران ۷۹)

ترجمہ : اللہ تعالی نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راہ پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کر دیا ہے اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ تعالی ( اُس سے بلکہ ) تمام دنیا سے بے پرواہ ہے “۔

تشریح : حج اسلام کے ارکانِ خمسہ میں سے بنیادی رکن ہے جس کی فرضیت ۹ھ میں ہوی، اور اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے 10 ھ میں ایک ہی حج (حجة الوداع) کیا جبکہ چار عمرے کيے۔
حج کن پر فرض ہے ؟  اس کے شرائط کیا ہیں ؟ مذکورہ آیت میں اسی کا بیان ہے ۔شیخ صالح الفوزان اس ضمن میں لکھتے ہیں:
”اس آیت کریمہ سے کلمہ  عَلَی سے حج کی فرضیت واضح ہوتی ہے ۔ نیز آیت کے آخری کلمات وَمَن کَفَرَ فَانَّ اللہ غَنِیّ عَنِ العَالَمِینَ میں تارک حج کو کافر قرار دیا گیا ہے ۔ اس سے بھی حج کی فرضیت اور اس کی تاکید خوب واضح ہوتی ہے ....بنا بریں جو شخص حج کی فرضیت کا عقیدہ نہیں رکھتا وہ بالاجماع کافر ہے “ (فقہی احکام ومسائل (الملخص الفقہی  )
آیت کریمہ میں فرضیت حج کے لےے استطاعت کی شرط رکھی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ :
٭مسلمان آزاد،عاقل اور بالغ ہو ۔
٭آدمی کے پاس اتنا مال ہو کہ وہ بیت اللہ تک آنے جانے کا اور وہاں کے قیام وطعام کا خرچ برداشت کرسکے ۔ حضرت انس رضى الله عنه کا بیان ہے کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم سے پوچھا گیا کہ استطاعت کا کیا مفہوم ہے تو آپ نے فرمایا: ”سفرخرچ اور سواری “ (دارقطنی)
٭راستہ پُرامن ہو اور جان ومال کا خطرہ نہ ہو ۔ (الفتح الربانی ۱۱۲۴۔۳۴)
٭عورت کے ليے ضروری ہے کہ اس کے ساتھ اس کا کوئی محرم ہو مثلاً شوہر ، باپ،بیٹا،چچا،ماموں وغیرہ۔ ”کسی مومنہ عورت کے ليے جائز نہیں کہ وہ محرم کے بغیر ایک دن رات کا سفر کرے “(مسلم)
جس شخص کے اندر مذکورہ بالا شرائط پائے جارہے ہوں اس پرزندگی میں ایک مرتبہ حج فرض ہے ۔
اگر کسی کو مالی استطاعت تو حاصل ہو البتہ جسمانی طور پر مجبور ہو تو اُس کے لےے ضروری ہے کہ کسی کو اپنی طرف سے حج کرنے کے لےے روانہ کرے ، اِسی کو حجِ بدل کہتے ہیں۔سیدنا ابن عباس ص کا بیان ہے کہ حجة الوداع کے موقع سے قبیلہ خثعم کی ایک خاتون نے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم سے کہا : اے اللہ کے رسول ! میرے باپ پر حج فرض ہوچکا ہے لیکن وہ اس قدر بوڑھا ہے کہ سواری پر جم کر بیٹھ نہیں سکتا کیا میں اس کی طرف سے حج کروں ؟ آپ ا نے فرمایا: ”ہاں“۔(بخاری مسلم)
اور جب قدرت حاصل ہوجائے تو حج فوراً کرلینا چاہےے اس میں تاخیر نہیں کرنی چاہےے ۔ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے :
  جس شخص کا حج کرنے کا ارادہ ہو وہ جلدی حج کرلے ‘کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ بیمار پڑجائے یا اس کی کوئی چیز گم ہوجاے “ (مسنداحمد)
جس نے استطاعت کے باوجود حج نہیں کیا اس کے تعلق سے بہت سخت وعیدیں آئی ہیں ۔ حضرت علی رضى الله عنه فرماتے ہیں کہ:
” جس نے قدرت رکھنے کے باوجود حج نہیں کیا اس کے لےے برابر ہے کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا عیسائی ہوکر“ ۔ (مناسک الحج لابن باز)

اور حضرت عمر رضى الله عنه کہاکرتے تھے کہ:
”   میں نے ارادہ کیا کہ ان شہروں میں اپنے آدمی بھیجوں جو پتہ لگائیں کہ جن لوگوں پر حج فرض ہے اور انہوں نے حج نہیں کیا ہے اُن پرغیرمسلموں سے لیاجانے والاٹیکس ( جزیہ) نافذ کردوں، وہ مسلمان نہیں، وہ مسلمان نہیں“ ۔ (سنن سعیدبن منصور)

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔