اتوار, نومبر 15, 2009

قربانی كے مسائل و احكام

قربانی دینے والا بال مونڈ لے تو؟

سوال:
مجھے قربانی دينی ہے اور ميں نے بھول کربال مونڈ ليا ہے کيا مجھ پر کوئی کفارہ لاز م ہے ؟
جواب :
جو قربانی کرنا چاہے اس کے لئے ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد اپنے بال اور ناخن اور جلد مےں سے کوئی بھی چےز کاٹنی جائز نہےں ہے کےونکہ نبی اکرم ا نے اےسا کرنے سے منع فرماےا ہے ام سلمہ ؓ بےان کرتی ہےں کہ رسول اکرم ا نے فرماےا ”جب عشرہ ذی الحجہ شروع ہوجائے اور تم مےں کسی اےک کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو وہ اپنے بال اور جلد مےں سے کچھ بھی نہ کاٹے (مسلم)
اور جو کوئی قربانی کرنے کا عزم رکھتا ہو اور بھول کر ےا غلطی اور جہالت سے اپنے بال ےا ناخن ےا جلد وغےرہ مےں سے کچھ کاٹ لے تو اس پر کچھ نہيں اسلئے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں سے بھول چوک اور خطا معاف کردی ہے ۔ اور جو شخص عمدا اورجان بوجھ کر ايسا کرتا ہے اسے اللہ تعالی کے ہاں توبہ واستغفارکرنی چاہيے، اِس کے علاوہ اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے ۔

عورت کے ليے حج میں محرم کا ہونا شرط ہے

سوال: ميری والدہ بوڑھی ہوچکی ہيں اور حج کرنا چاہتی ہيں ليکن ان کے شہر ميں ان کا کوئی محرم نہيں ہے ،محرم کی تلاش ميں بڑی رقم خرچ ہونے کا انديشہ ہے اس لئے وہ کيا کريں گی؟

جواب : آپ کی والدہ پر حج نہيں ہے اسلئے کہ عورت کے لئے خواہ وہ جوان ہو يا بوڑھی بغير محرم کے حج کرنا جائز نہيں ہے ، اگران کو محرم مل جائے تو وہ حج کرے گی اوراگروہ حج کئے بغيرفوت کرجاتی ہے تواس کے مال سے حج بدل کراديا جائے، اور اگرکوئی شخص خود اپناخرچ کرکے اس کی طرف سے حج کردے تويہ بھی اچھی بات ہے ۔

میت کے ترکہ سے حجِ بدل کرادینا واجب ہے

سوال: ايک شخص بغير حج کئے مرگيااس نے يہ وصيت کی کہ اس کے مال سے حج کراديا جائے توکيا يہ حج بدل صحيح ہوگا؟

جواب : اگرکوئی ايسا مسلمان جس پر حج واجب تھا اور وہ بغيرحج کئے دنيا سے چلا گيا تواس کے مالِ متروک سے حج بدل کرادينا واجب ہے خواہ اس نے حج کی وصيت کی ہويا نہيں۔ اور دوسرے کی طرف سے حج کرنے کے ليے شرط يہ ہے کہ حج بدل کرنے والا خود اپنا حج کرچکا ہو تبھی اس شخص کا بھی حج صحيح ہوگا اور اس ميت سے وجوب حج ساقط ہوگا۔

زیارت مسجدِ نبوی
سوال: بعض حاجيوں کاخيال ہے کہ اگر ان ميں سے کوئی مسجد نبوی کی زيارت سے محروم رہ جائے تو اس کاحج ناقص رہ جاتاہے، کيا يہ خيال صحيح ہے؟

جواب :مسجد نبوی کی زيارت فقط سنت ہے واجب نہيں ہے، نہ ہی حج سے اس کا کوئی تعلق ہے ، بلکہ مسجد نبوی کی زيارت عام دنوں ميں بھی سنت ہے ايام حج کی کوئی خصوصيت نہيں۔ آپ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے:  ”تين مسجدوں کے علاوہ کسی دوسری مسجد کا سفرزيارت درست نہيں ،مسجد حرام، ميری مسجد اور مسجد اقصی“ (متفق عليہ)
دوسری جگہ ارشاد ہے ”مسجد حرام کے علاوہ ميری اس مسجد ميں ادا کی گئی ايک نماز (دوسری کسی بھی مسجد ميں ادا کی جانے والی) ہزارنمازوں سے بہتر ہے “ (متفق عليہ)

قربانی کے جانوروں کی عمریں

سوال: کتنی عمر کے جانور کی قربانی جائز ہے ؟

جواب :قربانی اور ہدی کے جانور کے ليے شرط يہ ہے کہ ايک سال کا بھيڑيا، دو دانت کا بکرا ہو اور ہرقسم کے عيوب سے پاک ہو ۔ نبی صلى الله عليه وسلم  کے فرمان کے مطابق ” چار قسم کے جانوروں کی قربانی جائز نہيں ہے ، ايسا کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو ، اور ايسا لنگڑا جانور جس کا لنگڑاپن ظاہر ہو اور ايسا بيمار جانور جس کی بیماری عياں ہواور اتنا لاغر کہ اس کی ہڈی نماياں ہوجائے “ (اس حديث کو اصحاب السنن نے صحيح سند کے ساتھ روايت کی ہے ) رہا سوال اندھے جانور کا تو بدرجہ اولی جائز نہيں ہے ۔
اسی طرح عضباء ( يعنی سينگ ٹوٹے ہوئے اور کان کٹے ہوئے ) جانور کی قربانی جائز نہيں ہے ،اس ليے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے اس کی قربانی کرنے سے منع فرمايا ہے ۔

مُردوں کی طرف سے قربانی جائز ہے

سوال: کيا قربانی کرنے والا اپنی قربانی ميں مردہ کو شريک کر سکتا ہے ؟

جواب :قربانی کرنے والے کے لئے قربانی کے جانور ميں اپنے زندہ اور مردہ والدين يا اپنی بيوی يا بچوں کوشريک کرنا جائز ہے، چونکہ نبی صلى الله عليه وسلم دومينڈھا قربانی کرتے تھے ايک اپنی طرف سے اور دوسرا اپنی آل کی طرف سے اور آل کے مفہوم ميں بيوی اور اولاد شامل ہيں۔

عورت قربانی کا جانور ذبح کرسکتی ہے

سوال: کيا عورت کے ليے قربانی کاجانورذبح کرنا جائز ہے ؟

جواب : عورت مرد کی طرح قربانی کا جانور ذبح کرسکتی ہے ، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے يہ صحيح سند کے ساتھ ثابت ہے، مرد کی موجودگی ميں بھی عورت ذبح کر سکتی ہے ، اس کے ليے مرد کا نہ ہونا شرط نہيں ہے ۔

حاجی کے ليے حدود حرم میں ہی قربانی دینا ضروری ہے

سوال: میرے والد محترم حج پر گئے ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ میں نے وہاں قربانی نہیں کرنا تم نے میری طرف سے ادھر پاکستان میں قربانی کرنا ہے۔ کیا ایسا کرنا درست ہے ؟

جواب : باہر سے جو لوگ حج کرنے کے ليے جاتے ہیں وہ حج تمتع کرتے ہیں، یعنی عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول دیا جاتا ہے پھر آٹھ ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھا جاتا ہے ، اس درمیانی عرصہ میں جو احرام کی پابندیوں سے آزادی ملتی ہے‘ اس کے عوض قربانی دی جاتی ہے۔
یہ قربانی ہماری اس قربانی سے مختلف ہوتی ہے جو لوگ عیدالاضحی کے موقع پر کرتے ہیں۔ صورت مسولہ میں حج کرنے والے کو وہاں حدود حرم میں ہی قربانی کرنا ہو گی ۔

غیرمستطیع بھی قربانی کا ثواب حاصل کرسکتا ہے

سوال:جو شخص قربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہوں ، کیا کسی طریقہ سے وہ قربانی کا ثواب حاصل کر سکتا ہے ؟

جواب :جس شخص کا قربانی دینے کا ارادہ نہ ہو ، اس کے ليے بال یا ناخن کاٹنے کی ممانعت کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ ہاں اگر وہ قربانی کا ثواب لینا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ عید کے دن بال اور ناخن کاٹ لے اور زیر ناف کے بال صاف کر لے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا تھا : ” تم عید کے دن اپنے بال اور ناخن تراش لو ، اپنی مونچھیں کاٹ لو اور زیر ناف کے بال صاف کر لو اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ تیری مکمل قربانی ہو جائے گی۔ “ ( مستدرک حاکم 223 ج 4 ) اگرچہ اس روایت کے متعلق کچھ محدثین نے کلام کی ہے تاہم یہ حسن درجہ کی حدیث ہے اور قابل استدلال ہے۔

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔