ہفتہ, نومبر 14, 2009

وجود باری تعالی کے دلائل

زندگی اور کائنات کی سب سے اہم حقیقت اللہ تعالیٰ کا وجود ہے۔ اس کے ہونے یا نہ ہونے سے ہر چیز کے معنیٰ بدل جاتے ہیں۔ اگر اللہ ہے تو زندگی اور کائنات کی ہر چیز بامعنی اور بامقصد ہے‘ اور اگر اللہ موجود ہی نہیں تو پھر کائنات کی ہر چیزبے معنی اور بے مقصد ہے۔ لیکن اسلام میں اہمیت اللہ کے ہونے یا نہ ہونے کو حاصل نہیں‘ بلکہ اللہ کی الوہیت کو حاصل ہے ۔ تاہم دین بیزاری اور الحاد کے اس دور میں کچھ ایسے کورچشم بھی ہیں جو آفاق وانفس کے بے شمار دلائل سے آنکھیں موند کروجود باری تعالیٰ کا انکار کربیٹھتے ہیں ‘ ایسے لوگوں کو ہم کیسے مطمئن کرسکتے ہیں ؟ اسی مقصد کے تحت یہ مضمون پیش خدمت ہے : یہ زمین ،یہ آسمان، یہ سورج، یہ چاند، یہ ستارے ، یہ کہکشاں،یہ ندی، یہ پہاڑ،یہ رات اور یہ دن،بلکہ کائنات کا ہر ایک ذرہ اللہ کے وجود پر دلیل ہے۔

آب دوزکشتی
امام ابو حنیفہ کی خدمت میں کچھ منکرین خدا نے اس مسئلہ پر بحث کرنا چاہی تو آپ نے نہایت حکیمانہ انداز میں ان کی تشفی فرمائی۔ آپ نے فرمایا : مجھے ذرا چھوڑو ‘ کیونکہ میں ایک بات میں فکر مند ہوں جس کا مجھ سے امتحان لیا گیاہے ‘ مجھ سے لوگوںنے بیان کیا ہے کہ دریا میں سامان بھری ہوئی ایک بوجھل کشتی ہے ‘ اس میں طرح طرح کے تجارتی سامان ہیں ‘ کوئی اس کشتی کی نگرانی نہیں کرتاہے اور نہ اس کو چلانے والا کوئی ہے ‘ اس کے باوجود کشتی اپنے آپ آتی جاتی اور چلتی پھرتی ہے ‘ بڑی بڑی موجوں کو چیر پھاڑکر نکل جاتی ہے‘ کسی ناخدا کے بغیر اپنے آپ چلتی پھرتی رہتی ہے ‘ لوگوںنے کہا : یہ بات کوئی عقل والا نہیں کہے گا‘ تب امام صاحب نے فرمایا : افسوس ہے تمہاری عقلوں پرکہ ایک کشتی کے متعلق تمہارا گمان ایساہے تو یہ موجودات جن میں آسمان و زمین اور دوسری مستحکم اشیاءہیں ‘ کیا ان کا کوئی صانع نہیں ہے؟ یہ سن کر قوم لا جواب ہوگئی ‘ حق کی طرف رجوع کیا اور امام صاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔

زبانوں کا اختلاف
امام مالک سے خلیفہ ہارون الرشید نے پوچھا کہ اللہ کے وجود پر کیا دلیل ہے؟ آپ نے فرمایا: زبانوں کا مختلف ہونا، نغموں کا الگ ہونا اور آوازوں کا جدا ہونا ثابت کرتا ہے کہ اللہ ہے۔

توت کے پتے
امام شافعی  سے کسی نے وجود باری تعالی پر دلیل مانگی تو انہوںنے کہا : ” توت کے پتے کو دیکھو! اس کا ایک ہی مزا ہے‘ اسکو کیڑا کھاتاہے تو اس سے ریشم نکلتاہے‘ شہد کی مکھی کھاتی ہے تو شہد بنتاہے‘ بکری گائے چوپائے کھاتے ہیں تو مینگنی اور گوبر نکلتاہے ‘ اس کو ہرن کھاتے ہیں تو مشک بنتاہے ‘ حالانکہ چیز ایک ہی ہے ‘ یہ سب کس کی کاریگری ہے؟۔

انڈا
امام احمد بن حنبل سے ایک مرتبہ وجود ِباری تعالیٰ پر دلیل طلب کی گئی تو آپ نے فرمایا: سنو‘ یہاں ایک مضبوط قلعہ ہے جس میں نہ کوئی دروازہ ہے نہ کوئی راستہ‘ بلکہ سوراخ تک نہیں۔ یہ قلعہ باہر سے چاندی کی طرح چمک رہا ہے اور اندر سے سونے کی طرح دمک رہا ہے۔ یہ قلعہ ہر طرف سے بند ہے۔ ہوا تک کا اس میں سے گزر نہیں۔ اچانک اس قلعے کی ایک دیوار گرتی ہے اور ایک جاندار آنکھوں کانوں والا، نہایت خوبصورت‘ پیاری بولی والا چلتا ہوا باہر نکل آتا ہے۔
بتاؤ ! اس بند اور محفوظ مکان میں اسے پیدا کرنے والا کوئی ہے یا نہیں؟ اور وہ ہستی انسانی ہستیوں سے بالاتر‘ اور اس کی قدرت غیر محدود ہے یا نہیں؟
اس مثال کا مطلب یہ تھا کہ انڈے کو دیکھو‘ چاروں طرف سے بند ہوتا ہے‘ مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ اس میں چوزہ پیدا کردیتا ہے۔
جی ہاں ! اللہ کے وجود کی نشانیاں انسان کے اپنے نفس اور کائنات کے ذرے ذرے میں پائی جاتی ہیں:
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ”عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیںگے اور انکے نفس میں بھی، یہاںتک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی بر حق ہے“۔(حم السجدہ ۳۵)
جمادات ، نباتات،حیوانات، اور تخلیق انسانی میں نظم وترتیب، کمال خلاقی اور حسن وجمال کی تصویر کشی یہ سب خالق کائنات کے وجود کی نشانیاں ہیں۔

تلخ وشور سمندرکے بیچ آب شیریں
یہ سمندر جس کے تلخ وشور پانی کے بیچ میٹھے پانی کا چشمہ پایاجاتاہے اور تلخ پانی کے درمیان بھی اپنی مٹھاس پر قائم رہتاہے۔ یہ خالق کائنات کا تخلیقی شاہکار نہیں تو اور کیا ہے قرآن مجید میں ہے:
” اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھا ہے، ایک لذیذ شیریںاور دوسرا تلخ وشور اور دونوںکے درمیان ایک پردہ حائل ہے،ایک رکاوٹ ہے جو انہیں گڈمڈہونے سے روکے ہوئے ہے“۔ ( الفرقان : ۳۵)
سبحان اللہ! کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ ایک ہی سمندر میں لذیذ اور شور پانی بھی ہو اور دونوں آپس میں مل نہ سکے۔کبھی سوچا کہ کس ذات نے تلخ پانی کے بیچ میٹھے پانی کا چشمہ جاری کیا اور دونوں کے بیچ ایسی رکاوٹ ڈال دی کہ دونوں ملنے نہ پائے....؟

آب باراں
بارش کے اس پانی پر غور کیجےے! جو مختلف جگہوںپر نہایت توازن کے ساتھ برستاہے۔ کون ہے جو سمندر کے اس تلخ وشور پانی میں سے انتہائی احتیاط کے ساتھ پانی کشید کرتاہے اور بادلوںکے پیٹھ پر سوار کرکے بالائی علاقوں تک پہنچادیتا ہے....؟
فرمان باری تعالی ہے :” اچھا یہ بتاﺅ کہ جس پانی کو تم پیتے ہو ۔کیا تم نے اسے بادلوںسے اتارا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں اگر ہم چاہیں تو اس میٹھے پانی کو کھاری بنادیں۔پھر تم ہماری شکر گزاری کیوں نہیں کرتے ؟ “۔ ( الواقعہ : ۸۶۔ ۰۷ )

شمس وقمر
محمد اسحاق صدیقی اپنی کتاب” قدرت کے بھید“ میں لکھتے ہیں: ’یہ چاند ہماری زمین کا سب سے قریب ترین سیارہ ہے کیونکہ اس کا فاصلہ ہماری زمین سے صرف دو لاکھ چالیس ہزار میل ہے‘
مزید لکھتے ہیں ” سائنس دانوںکا بیان ہے کہ یہ سورج ہماری زمین سے نو کروڑ تیس لاکھ میل بلندی پر ہے ‘ وہاںتک خلائی راکٹ سے سفر کریں تو مستقل پرواز میں سات سال کی مدت درکار ہوگی“ ۔
آگے عرض کرتے ہیں: ” سائنس دانوںکا بیان ہے کہ سورج کا حجم اتنا زیادہ ہے کہ اگر وہ کھوکھلا ہوتا تو اس میں موجودہ زمین جیسی تیرہ لاکھ زمینیں سماجاتیں “۔
سبحان اللہ ! ذرا سور ج کا حجم دیکھیںکہ اگر وہ کھوکھلا ہوتا تو اس میں موجودہ زمین جیسی تیرہ لاکھ زمینیں سماجاتیں۔ دنیا کا قاعدہ ہے کہ صانع اپنی صنعت سے پہچاناجاتاہے۔اب آپ خودہی فیصلہ کریں کہ ایسی بھاری بھر کم چیز خلامیں کس کے کنٹرول سے قائم ہے ؟ آخر کس نے سورج کو زمین سے نو کروڑ تیرہ لاکھ کی بلندی پر پہنچایا ؟ کس کی قدرت سے سورج خلا میں معلق ہے ؟ اللہ تعالی نے سورہ حج میں اس کا جواب دے دیا ہے :
”اللہ تعالی سماوی کائنات کو روکے ہوے ہے اور اپنے کنٹرول میں لےے ہوے ہے کہ وہ زمین پر گرنہ جائیں مگر جب اس کی اجازت ہوجاے گی تو زمین وآسمان باہم ٹکرا جائیں گے، بیشک اللہ تعالی اپنے اس کنٹرول کے ذریعہ لوگوںپر رحمت وشفقت فرمارہاہے“۔ (سورة الحج ۵۶)

تخم
ایک جگہ اللہ تعالی نے انسان کو یاد دلایا: ” کیا تم نے دیکھاہے جو تم کاشت کرتے ہو کیا تم اگاتے ہو یا اسے اگانے والے ہم ہیں ؟ اگر ہم چاہیں تو اسے خاک کرڈالیں، اور تم ہاتھ ملتے رہ جاﺅ، اور یوں کہو کہ ہم پہ تو تاوان پڑگیا بلکہ ہم تو محروم ہیں۔ (سورہ الواقعہ ۳۶)
پتہ یہ چلا کہ کاشت کرنا انسان کے بس میں ہے لیکن کھیتی کا اگانا اور پودے کی افزائش انسان کے بس میں نہیں۔

دود ھ کی تخلیق
حیوانات کی زندگی میں عقلمندوںکے لےے وجود باری تعالی کی بے شمار نشانیاں ہیں اگر دودھ کی پیدائش پر ہی غور کیا جائے تو انسان شسدر رہ جاتاہے۔ پیٹ میں ایک طرف ناپاک اور غلیظ گوبر، اور دوسری طرف بدبودار خون لیکن ان دونوں کے درمیان جو چیز پیداہورہی ہے وہ انتہائی صاف اور انسانی جسم کے لےے نہایت ضروری ہے۔قرآن مجید میں ہے :
” یقینا تمہارے لےے چوپایوں میں عبرت ہے ان کے پیٹوں میں گوبراور خون کے درمیان سے خالص دودھ ہم تجھے پلاتے ہیں جو پینے والوںکے لےے خوشگوار ہے“ ۔ (النحل:۶۶)
یہ سب کس ذات کی کاریگری ہے ؟ انسان کی بساط تو اتنی ہے کہ وہ ایک مکھی تک پیدا نہیں کرسکتا، پیدا تو کیا کرے گا اگر مکھی اس کے کھانے میں سے چھین لے جاے تو وہ بھی واپس نہیں لا سکتا :
” اے لوگو ! ایک مثال دی جاتی ہے ذرا غوسے سنو !جنہیں تم اللہ کے علاوہ دوسروں کو پکارتے ہو ‘ وہ مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے چاہے سارے اس کام کے لےے اکٹھے کیوںنہ ہوجائیں اور اگر کوئی مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو وہ واپس بھی نہیں لے سکتے۔طلب کرنے والے اور طلب کےے جانے والے یعنی عابد ومعبود سب کمزور ہیں“۔ ( الحج : ۲۷)

کائنات کا تنوع

اللہ کے وجود کی ایک عظیم نشانی کائنات کی تمام چیزوں میں تنوع کا پایاجاناہے دنیا کی ہر چیز چاہے وہ جمادات ہو ںیا نباتات ہوں یا حیوانات۔ ان میں سے ہر ایک اپنا ذاتی حسن لےے ہوئے ہے۔ جو اس سے پہلے کسی دوسری کو نصیب نہ ہوا۔ نباتات ہی کولیجئے ! ایک ہی زمین ہے، ایک ہی آب وہوا، ایک ہی موسم لیکن مختلف رنگوں،مختلف ذائقوںاور مختلف شکلوںکی نباتات اُگ رہی ہیں۔ یہی حال حیوانات کا ہے ہر علاقے میں مختلف قسم کے حیوانات پائے جاتے ہیں، لیکن ہر حیوان کی شکل ایک دوسرے سے الگ ہوتی ہے یہاںتک کہ ایک ہی حیوان سے پیداہونے والے بچے سب الگ الگ رنگ وروپ اور شکل کے ہوتے ہیں ۔
خود انسان کے وجود پر ہی نگاہ ڈال کر دیکھ لیجئے ! دنیا میں ہزاروں سال سے انسان پیدا ہوتے آرہے ہیں جن کامادہ تخلیق ایک ہی قسم کا ہے، بناوٹ میں بھی ترتیب پائی جاتی ہے اسکے باوجود ہر انسان الگ الگ رنگ وروپ لے کر پیدا ہوتاہے۔ آواز مختلف، بولیاںمختلف،زبانیںمختلف،گفتگوکاانداز مختلف ۔
پوری دنیا کی خا ک چھان ڈالیں لیکن ایک شکل وصورت کا انسان نہیں پاسکتے٬ آج فنگر پرنٹ(finger print) انسان کی پہچان بنی ہوئی ہے ۔کیوںکہ پورے کائنات میں اس کے مشابہ کوئی انسان نہیں پایاجاتا ۔ آج انسان بڑی سی بڑی فیکٹری کا مالک ہو پھر بھی اس کی مصنوعات کے ڈیزائن محدود تعداد میں ہوتے ہیں، اور بار بار انہیں ڈیزائن پر مصنوعات سانچے میں ڈھل کر تیار ہوتی ہیں....ذرا سوچیں کہ آپ کے پاس جس نوعیت کا موبائل ہے اگر سروے کریں تو ہزاروں انسانوں کے پاس بالکل ویساہی موبائل پائیں گے۔ ایسی دو چیزوں کو نشان لگائے بغیر ایک ساتھ رکھ دیں تو ان میں پہچان کرنا مشکل ہے۔ لیکن قدرت کی فیکٹری کا کمال دیکھےے کہ اس کے سانچے میں ڈھلنے والی مصنوعات ایک دوسری سے بالکل الگ الگ ہیں۔ یہ اس ذات کی وجودکی نشانی نہیں تو اور کیا ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے:
” اور اس کی نشانیوں میں آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور زبانوں اور رنگوں کا اختلاف بھی ہے‘ بے شک اس میں جاننے والوں کے لےے اللہ کے وجود کی نشانیاں ہیں “ ( الروم : ۲۲) یعنی زبانوں اور رنگوں کا اختلاف یونہی نہیں بلکہ اس میں قدرت کے وجود کی نشانی ہے۔فتبارک اللہ احسن الخالقین پس نہایت شان والاہے وہ اللہ جو تمام صناعوں سے بڑھ کر صناع ہے۔

تربیت ونشوونما
کسی ماں سے پوچھئے جس کے پیٹ میں بچہ ہے کیا اس کی غذا اور زندگی کی نشونما کا انتظام خود وہ کررہی ہے یا کوئی اور ذات کی یہ کاریگری ہے ....؟ پھر جب بچہ پیدا ہوتاہے٬ تو پیدا ہونے سے پہلے ماں کے پستان میں اس کی غذا پیدا کردی گئی ، ماں کے دل میں محبت ورحمت ڈال دی گئی، جس نے اسے اپنے سینے سے چمٹایا اور اس کی تربیت شروع کردی۔
انسان تو در کنار جانوروں کی زندگی میں بھی اسی تربیت کو وجود بخشا چنانچہ بچہ پیدا ہوتے ہی ماں کے پستانوںکو چوسنا شروع کردیتاہے۔ اسی طرح اللہ تعالی نے ہر جانور کو اس کی ضرورت کے مطابق ہدایت فرمائی چیونٹی کو سونگھنے کی دور رس قوت بخشی تاکہ وہ دور دور جاکر اپنی غذا حاصل کرسے۔ چیل اور عقارب کو تیز نگاہ عطا فرمائی تاکہ بلندی پر اڑتے ہوئے اپنا شکار دیکھ سکے۔ پھر شہد کی مکھیوں کو ایک خاص قسم کا گھر بنانے کی تربیت دی‘ ایسا گھر کہ جسے دیکھ کر انسان عش عش کرنے لگتاہے‘پھر اسے ہزاروں میل دور جاجاکر شہد تلاشنے کی قوت عطا فرمائی ۔ سبحان اللہ یہ سب کس نے کیا ؟
ہائے تعجب کیسے لوگ اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں اور کیسے منکرین اس کا انکار کرتے ہیں‘جبکہ ہر حرکت وسکون میں اللہ کی ہستی پر کوئی نہ کوئی دلیل موجود ہے‘ ہر چیز میں اللہ کے وجود پر نشانی ہے جو اس کے ایک ہونے کا پتا دیتی ہے ۔
” اے لوگو ! اللہ نے جو نعمتیں دی ہیں انہیں یاد تو کرو....کیا اللہ کے علاوہ کوئی اور پیدا کرنے والابھی ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق پہنچارہاہے؟ اس کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں۔پس تم کہاں الٹے پھرے جاتے ہو ؟“۔

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔