اتوار, جنوری 12, 2014

اسلام دین رحمت ہے


’رحمت‘ ایک ایسا گرانمایہ وصف ہے جسے سن کر دل کو یک گو نہ سکون ملتا ہے، جو ہرانسان کومحبوب ہے اورجس کے لیے ہرمخلوق بے تاب رہتی ہے-اسلام دین فطرت ہے، اوراس کے احکام انسانی طبیعت سے بالکل ہم آہنگ ہیں، اس لیے اسلام کااس صفت سے متصف ہونا نہایت ناگزیر تھا، یہ دین توایک آفاقی اورعالم گیردین تھا جسے ساری انسانیت کی رہبری کرنی تھی، اگریہ دین ’دین رحمت‘ نہ ہوتا توپوری دنیامیں اس کافروغ پانا کیوں کرممکن تھا ؟
جی ہاں ! اسلام دین رحمت ہے، ساری مخلوق کے لیے رحمت ورأفت کاپیغام ہے، چاہے جنات ہوں، یا انسان،مسلم ہوں یا کافر،حیوانات ہوں یا نباتات غرضیکہ ہر ذی روح کے لیے رحمت بن کرآیا ہے، اور کیوں نہ آئے کہ یہ دین اس ذات کا اتارا ہوا ہے ،جس کی صفت ہی ”الرحمن “ اور”الرحیم“ہے، جو اپنے بندوں سے ایسی رحمت اورشفقت کا معاملہ کرتا ہے کہ ویسا معاملہ ایک ماں بھی اپنے شیرخواربچے سے نہیں کرپاتی ۔ یہ دین آخر دین رحمت کیوں نہ ہو کہ اس کے پیغمبر ساری مخلوق کے لیے رحمت بناکربھیجے گئے تھے ،جس کی گواہی خود اللہ تعالی نے دی :
 وما أرسلناک إلا رحمة للعالمین (سورہ الانبیاء107)
”(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے آپ کوتمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجاہے “۔
جی ہاں! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سراپا رحمت تھے ،آخراس شخص سے بڑھ کررحیم وشفیق کون ہوسکتا ہے ،جسے ایک دوسال نہیں بلکہ مسلسل اکیس سال تک اذیت پہنچائی گئی ہو،جس کے راستے میں کانٹے بیچھائے گئے ہوں ،جس کے سر پراونٹ کی اوجھڑیاں ڈالی گئی ہوں، جسے پاگل مجنون اوردیوانہ کہہ کرمطعون کیاگیاہو،جس کامعاشرتی بائیکاٹ کیاگیا ہو ،جس پر پتھروں کی بارش برسائی گئی ہو، جس کے ماننے والوں کوروح فرسا تکلیفیں دی گئی ہوں،جس کے قتل کی سازشیں کی گئی ہوں ، جسے گھرسے بے گھرکیا گیا ہو، جسے وطن عزیز کو خیرباد کہنے پربھی چین وسکون سے رہنے نہ دیا گیا ہو، اورلگاتار آٹھ سال تک انہیں مشق ستم بنایا گیا ہو،لیکن وہی انسان جب اکیس سال کے بعد اپنے دشمنوں پرغلبہ پاتا ہے،تو ہرایک کی عام معافی کا اعلان کردیتا ہے، کیا تاریخ عالم کوئی مثال پیش کرسکتی ہے کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں ہوں، جس نے پتھر کھاکر گلدستہ پیش کیا ہو ،جس نے خون کے پیاسوں کو جام حیات پلایا ہو ۔ اگر وہ مثال اورنمونہ مل سکتا ہے تورحمت عالم ،فخر موجودات اور تاجدار مدینہ کی ذات میں مل سکتاہے ۔
اسلام کی نظر میں رحمت كى اس قدر اہميت ہے کہ اس نے اس صفت سے متصف ہونے کی بارہا ترغیب دلائی ہے، اورباہمی ہمدردی اورمہربانی کرنے والوں کو بے پناہ بشارتوں سے نوزاہے، چنانچہ فرمان نبوی ہے :
إرحمو ا من فی الأرض یرحمکم من فی السماء (مستدرک حاکم )
 ”تم زمین والوں پررحم کروآسمان والاتم پررحم کرے گا “ اورصحیح بخاری کی روایت میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
 إنما یرحم اللہ من عبادہ الرحماء (بخارى)
”اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے ان پررحم کرتاہے جودوسروں پررحم کرتے ہیں“ اورایک دوسری رویت میں ہے :
 من لایرحم لایرحم (بخاری)
 ”جورحم نہیں کرتا اس پررحم نہیں کیاجاتا“ شرط رکھ دی گئی کہ اگر تم رحم کروگے توتم پربھی رحم کیاجائے گا اوراگر رحم نہیں کروگے توتم بھی رحم وکرم سے محروم کردیئے جاؤگے، حالی مرحوم نے کہاتھا:
 خدا رحم کرتا نہیں اس بشر پر    

 نہ ہو درد کی چوٹ جس کے جگرپر
 کسی کے گر آفت گزرجائے سرپر  
  پڑے غم کا سایہ نہ اس بے اثر پر
  کرو مہربانی تم اہل زمین پر     
خدا مہربان ہوگا عرش بریں پر
اسلام دین رحمت ہے ،اورجس کے اندر رحمت نہیں وہ بدبخت ہے ، تب ہی تو فرمایا گیا:
لاتنزع الرحمة إلا من شقی ( أبوداؤد ، ترمذی )
 ”بدبخت سے ہی رحمت چھینی جاتی ہے“ کیامطلب ؟ تنگ دل ،سخت طبیعت ، زودغضب اورترش رو انسان رحمت سے محروم کردیا جاتا ہے ،کیوں کہ مسلمان کی شان تو یہ ہوتی ہے کہ وہ ر حم دل ہوتاہے، رحم کرنا ا س کی عادت ہوتی ہے، اور کیوں نہ ہو جب کہ اس کی مثال ہی ایک جسم کی سی ہے کہ اگراس کا ایک عضو بیمار ہو جائے تو سارا جسم بیماری سے بے چین رہتا ہے ، سچ فرمایا صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے :
 مثل المؤمنین فی توادہم وتراحمہم و تعاطفہم کمثل الجسد الواحد اذا اشتکی منہ عضوتداعی لہ سائر الجسد بالسہروالحمی (بخاری ومسلم)
” باہمی محبت ،ایک دوسرے پررحم اورنرمی کرنے میں اہل ایمان كى مثال ایک جسم کی سی ہے کہ اگر اس کا ایک عضوبیمار ہوجائے تو ساراجسم بیماری اوربخارمحسوس کرتاہے “-
یہ ہے اسلام کی رحمت کہ ایک شخص اپنے بھائی کی مصیبت کواپنی مصیبت سمجھے اوراس کی خوشی کواپنی خوشی سمجھے ،اورجس کے اندر یہ صفت پیداہوگئی اللہ بھی اس کے لیے کافی ہوگیا۔صحیح مسلم کی روایت کے مطابق اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 واللہ فی عون العبد ما کان العبد فی عون أخیہ (مسلم)
” بندہ جب تک اپنے بھائی کی مددمیں رہتا ہے، اللہ تعالی بھی اس کی مددفرماتا رہتا ہے ۔“
رشتہ داروں میں والدین پہلے نمبر پر آتے ہیں، چاہے وہ مسلمان ہو ں یا غیرمسلم ‘ ان کے ساتھ حسن سلوک ہونا چاہئے، اورعام انسانی برادری میں پہلا رتبہ پڑوسی کاہے ،جن کے حقوق کی بے انتہا تاکید واردہوئی ہے ،سنن ترمذی کی روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 "اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہے ،اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہے ،صحابہ کرام رضوان الله عليهم اجمعين نے پوچھا :کون یارسول اللہ! رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من لایأمن جارہ بوائقہ ”جس کی شرارتوں سے اس کاپڑوسی محفوظ نہ ہو‘’۔ (مسلم )
ملازمین اورنوکروں کے ساتھ رحم وکرم دیکھنا ہوتو اسلامی تعلیمات میں دیکھو ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم مر ض الموت کے عالم میں ہیں ،لیکن آپ کوفکرہے نوکروں کے ساتھ حسن سلوک اورنرمی کی ،چنانچہ فرماتے جارہے ہیں :
 الصلاة الصلاة وماملکت أیمانکم (ابوداؤد)
”نمازپرمحافظت برتنا،نمازپر محافظت برتنا اوراپنے نوکروں کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھنا“۔
بڑوں اور چھوٹوں کاحق بتاتے ہوئے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
لیس منا من لم یوقر کبیرنا ویرحم صغیرنا (مسند ابویعلی )
”جوبڑوں کی عزت اورچھوٹوں پرشفقت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے “۔
یتیموں اور بیواؤں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرتے ہوئے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 أنا وکافل الیتیم فی الجنة کھاتین (ترمذی )
 ”یتیم بچوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا جنت میں مجھ سے اتنا قریب ہوگا جیسے دو انگلیاں"۔
 اوربخاری کی روایت کے مطابق نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 الساعی علی الأرملة والمسکین کالمجاھد فی سبیل اللہ ( بخاری )
”بیوہ اورمسکین کے لیے دوڑدھوپ کرنے والااس شخص کی طرح ہے،جواللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے“ ۔
 غریب اورمصیبت زدہ انسانوں سے حسن سلوک کا حکم دیتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أفضل الصدقة أن تشبع کبدا جائعا ( البیہقی فی شعب الایمان )
 ”بہتر ین صدقہ کسی خالی پیٹ بھوکے کوکھاناکھلاناہے“۔
اس دین رحمت کی شان ہے کہ اس نے مومن کی دولت کواللہ کا عطیہ قراردیاہے ، جس پرصرف اس کا حق نہیں ہے بلکہ ہرضرو رت مند کا حق ہے، اللہ تعالی نے فرمایا:
وفی أموالہم حق للسائل والمحروم (الذاریات 19)
”اور ان کے اموال میں سائل اورمحروم کاحق ہے “۔ اور ابن ماجہ کی روایت کے مطابق رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من عاد مریضا أو زار أخا لہ فی اللہ ناداہ مناد، أن طبت وطاب ممشاک وتبوأت من الجنة منزلا (ترمذی ، ابن ماجہ )
”جوشخص مریض کی عیادت یا اپنے کسی اسلامی بھائی کی زیارت کے لیے جاتا ہے تو آسمان سے فرشتہ پکارکرکہتاہے ،اللہ تجھے خوش رکھے، تیراچل کرآنامبارک ہو، اور اللہ تجھے جنت میں بہترین جگہ دے ۔“
اسلام کی رحمت جہاں ساری مخلوق کوشامل ہے وہیں بچوں کے ساتھ بھی رحمت وشفقت کاحکم دیتاہے ، اورنبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے لیے بھی سب سے زیادہ شفیق ورحیم تھے ،چھوٹے بچوں کوگودمیں رکھتے، ان کوبوسہ دیتے ، اور بسا اوقات ننھے بچوں سے خوش طبعی بھی فرماتے تھے، بخاری ومسلم کی روایت کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکہتی ہیں کہ ایک اعرابی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اس نے آپ کودیکھاکہ بچے کو لاڈپیار کر رہے ہیں تو اسے بہت تعجب ہوا ،آپ سے عرض کیاکہ آپ لوگ اپنے بچوں کوچومتے ہیں ،ہم توان کوکبھی نہیں چومتے، یہ سن کرنبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أو أملک لک إن نزع اللہ من قلبک الرحمة (صحیح البخاری 5998)
"اگر اللہ تمہارے دل سے محبت نکال دی ہے تومیں کیاکروں" ۔
اورصحیحین کی روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دونوں بیٹوں حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو چوما، اس وقت اقرع بن حابس وہاں موجود تھے، انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا :
میرے دس بیٹے ہیں لیکن میں نے کبھی کسی کو نہیں چوما ،اقرع بن حابس کی یہ بات رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کوناگوارلگی، آپ نے ان کی طرف دیکھا اورفرمایا: من لا یرحم لایرحم (بخاری ومسلم) ”جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیاجاتا “
آج حقوق اطفال کی دعویدار تنظیمیں بچوں پرہورہی ظلم وزیادتی کاسدباب کرناچاہتی ہیں توانہیں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان پاکیزہ تعلیمات کواپنانا ہوگا، تب ہی وہ بچوں کوان کا کھویا ہواحق دلانے میں کامیاب ہوسکتی ہیں ۔
اسلام کی رحمت کادائرہ صرف انسانوں تک محدود نہیں بلکہ اسلام حیوانات ، نباتات اور جمادات کے ساتھ بھی شفقت ،مروت اورشرافت کے ساتھ معاملہ کرنے کاحکم دیاگیاہے ۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے سایہ دار درخت کو کاٹنے یا اس کے نیچے گندگی پھیلانے والے کولعنت کامستحق بتایا، اورخاردار درخت جوراستہ چلنے والوں کو اذیت پہنچاتاہے،اس کوکاٹ دینے والے کونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی نعمتوں سے مالامال ہوتے ہوئے دیکھا- (مسلم)
دین رحمت نے جانوروں کے ساتھ حسن سلوک پربھی بے پناہ اجروثواب کی بشارت دی ہے ، صحیح بخاری کی روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 ایک شخص بہت پیاسا تھا، کنویں میں سے سیراب ہوکر جب باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتے کی بھی پیاس سے بری حالت ہے ،اور وہ کیچڑکوچاٹ کراپنی پیاس بجھانے کی کوشش کر رہا ہے ،وہ شخص کنویں میں اترا، اپنے موزے میں پانی بھرکر لایا اور کتے کوسیراب کردیا، اللہ تعالی کو اس کی یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ اللہ تعالی نے اس کی مغفرت فرمادی ۔لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول  کیا ہمیں چوپایوںمیں بھی اجر ملتا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” ہر جاندارپرترس کھانے میں اجر ہے“۔(بخاری ومسلم )
ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اونٹ نے دیکھا تو آپ پرنظر پڑتے ہی بلبلا اٹھا ،اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ،آپ نے شفقت سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو وہ پرسکون ہوگیا ۔آپ نے اس کے مالک کو بلایااوراس سے فرمایا:
 أفلا تتقی اللہ فی ھذہ البھیمة التی ملکک اللہ إياھا فانہ شکا إلی أنک تجیعہ وتدئبہ (سنن ابی داؤد ، 2549)
 ”کیا تم اس جانورکے ساتھ بدسلوکی کرتے ہوئے اللہ سے نہیں ڈرتے جس نے تجھے اس کا مالک بنایاہے ،اس نے میرے سامنے تمہاری شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہواورکام زیادہ لیتے ہو۔“
اسی طرح ایک سفر میں کسی صحابی نے چڑیا کے گھونسلے سے اس کے بچے اٹھالیے ،چڑیا نے سروں پر آکر پھرپھرانا شروع کیا ، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
من فجع ھذہ بولدھا ردوا ولدھا إلیھا ( سنن أبی داؤد 2675)
”اس کے بچے کو اٹھا کر اسے کس نے تکلیف پہنچائی ہے ، اس کے بچے فورا اس کے حوالے کردو ۔ “
جانوروں کے ساتھ سنگ دلی کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے ایک عورت جہنم کی حقدار ٹھہری ،صحیح مسلم کی روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 ”ایک عورت ایک بلی وجہ سے جہنم میں ڈالی گئی اس نے اسے باندھ رکھا تھا،نہ تو اس نے اسے کچھ کھانے کودیااورنہ اسے آزاد کیاکہ وہ چل پھرکرحشرات الارض میں سے کچھ کھالیتی یہاں تک کہ مرگئی ۔“ (بخاری ومسلم )
اسلام کی رحمت نے یہ بھی برداشت نہ کیا کہ جانوروں کوآپس میں لڑا کرتفریح طبع کا ذریعہ بنایا جائے ،یا جانوروں کو نشانہ بازی کے لیے ہی استعمال کیا جائے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تتخذوا شیئا فیہ الروح غرضا (صحیح مسلم)
 ”تم کسی جانورکوہرگزنشانہ مت بناؤ ۔“
 جی ہاں ! حقوق حیوانات سے متعلق کمیٹیاں تشکیل پانے سے بہت پہلے جانوروں کے ساتھ نرمی برتنا دین رحمت کا شعارتھا ، اورنبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرمسلمان کے لیے یہی وصیت تھی ۔

یہ ہیں دین رحمت کی واضح تعلیمات جن کی روشنی میں ہرشخص خودبخود فیصلہ کرسکتاہے کہ اسلام انسانیت کے لیے کس قدر رحمت ورأفت کاپیغام ہے ،بقول مولاناسیدسلمان ندوی ”ان تعلیمات سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ اسلام کے سینہ میں جودل ہے وہ کتنانرم اورکس قدر رحم وکرم سے بھرا ہوا ہے “۔
غرضیکہ ” اسلامی تعلیمات کاخلاصہ بس اتناہے کہ ہماری بات سے ،ذات سے،حرکت سے یہاں تک کہ عبادت سے بھی کسی کو ہلکی تکلیف اور اذیت نہ پہنچے ،اسلام کایہی امتیاز ہے اوراس کی پہچان اسی وصف سے ہوتی ہے “۔(مولاناحفیظ الرحمن اعظمی )
وہ لوگ اسلام کو دہشت گردی سے مطعون کرتے ہیں حقیقت میں وہ اسلامی تعلیمات سے آگاہ نہیں ہیں ؟ آج ضرورت ہے کہ اسلام کے نام لیوااسلام کی پاکیزہ تعلیمات سے دوسروں کوروشناس کرائیں تاکہ اسلام کے تعلق سے غلط فہمیاں دور ہوسکیں ۔

1 تبصرہ:

Unknown نے لکھا ہے کہ

بہت خوب۔ ماشاء اللہ

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔