منگل, دسمبر 03, 2013

برادرعزیز ثناء اللہ محمد صادق تیمی کے نام

برادرعزیزشيخ ثناءاللہ محمدصادق تیمی حفظہ اللہ
 السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ 
ہم بخیر ہيں اور امید کہ آپ کے حالات بهى شگفتہ ہوں گے ۔
ہر انسان کے پاس مثبت يا منفى  جذبات ہوتے ہیں جنہیں اگلنے میں ہی وہ عافیت سمجھتا ہے، آج اچانک آپ کی یاد آئی سوچا کہ اپنے جذبات آپ سے بھی شیئر کرلوں،آج دینی مدارس کے طلبہ جب عصری درسگاہوںمیں داخلہ لیتے ہیں تو مرعوبیت کا شکار ہوکر خود کو سیکولر باور کرانا چاہتے ہیں، اس طرح اپنی شناخت تک کھو بیٹھتے ہیں،آپ جے این یو کے آزادانہ ماحول میں رہ کر اپنے اسلامی شعار کو برقرا رکھے ہوئے ہیں،اوردعوتی کاموںمیں بھی سرگرم رہتے ہیں جس کی رپورٹ روزناموںمیں پڑھنے کو ملتی رہتی ہے، اس کے لیے دل کی گہرائی سے آپ کومبارکباد پیش کرتے ہیں، اللہ پاک آپ کو دین پر ثابت قدمی عطا فرمائے اوردینی مزاج بحال رکھے۔آمين
اللہ پاک نے آپ کوتخلیقی صلاحیت سے نواز رکھاہے ،کئی زبانوں پر عبور رکھتے ہیں ،عربی اورانگریزی میں مہارت رکھنے کے ساتھ آپ کی اردو ادب میں منثور اورمنظوم تخلیقات کلاسیکی حیثیت رکھتی ہیں،جن لوگوں کی تخلیقات میں دلچسپی سے پڑھتا ہوں ان میں سرفہرست آپ ہیں،ظاہر ہے کہ یہ آپ کی وسعت مطالعہ ، لگن،تندہی اورجہدمسلسل کا نتیجہ ہے، ایسی نعمتیں سب کو نہیں ملا کرتیں ،اورجن کو ملتی ہیں بسااوقات صحیح رہنمائی نہ ملنے یا معاون وسائل کے فقدان کی وجہ سے وہ قوم کوکچھ دینے سے عاجز رہ جاتے ہیں ، میں اس بات کا قائل ہوں کہ ہمارے جو بچے باصلاحیت ہیں ان کی صلاحیت سے قوم کو فائدہ ہو،ان کی صلاحیت مثبت رخ اختیار کرے ،آج قحط الرجال کا دورہے ایسے حالات میں آپ جیسے نوجوانوں کو دیکھ کر آنکھوں سے خوشی کے آنسو چھلکتے ہیں۔بہرکیف اپنے ذوق اوررجحان کے مطابق منظم پلاننگ کے ساتھ کام کریں ،آج ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ کتنے لوگوں کی صلاحیتوں کا استحصال ہورہا ہے ،ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے کام کرنے کی بیحد ضرورت ہے ۔ بات سے بات نکلتی ہے:

  •  دعوتی میدان میں اگر آپ اصلاحی کتابوں کا جائزہ لیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اب تک جوکتابیں اردو میں شائع ہوئی ہیں وہ معلوماتی کہی جاسکتی ہیں دعوتی نہیں ، یا اگر انہیں دعوتی مقصد کے تحت تیار کیابھی گیا ہے تواس میں مدعو کی نفسیات کا لحاظ نہیں ركها گیا، اکثرکتابوں کا آغاز منفی اسلوب میں ہوتا ہے،جارحانہ انداز ہوتا ہے،آخرانہیں ہم دعوتی مواد میں شمار کیسے کرسکتے ہیں، ہم نے جن عربی کتابوں کا اردومیں ترجمہ کیا ہے ان میں جارحانہ مقدمہ کا اضافہ کرکے کتاب کی افادیت کو کم کردی ہے ، بلکہ ہم نے اب تک چند فروعی مسائل کو ہی اصل دین سمجھ رکھا ہے اور اپنے مخالف سے انہیں مسائل کو چھیڑکر بحث شروع کرتے ہیں،  حالانکہ مثبت انداز میں عقائد کی اصلاح پر دھیان دینے کی ضرورت تھی، اصلاح معاشرہ سے متعلق کتابچے ،لٹریچرز، آڈیوز اور ویڈیوز تیار کرنے کی ضرورت تھی ، اگرعقائد اوراعمال کی اصلاح کے لیے چھوٹے چھوٹے فولڈرس بھی تیار کیے گئے ہوتے تو بہت حدتک اصلاح ہوسکتی تھی.
  • نوبت بایں جا رسید کہ ہم اپنے منصب کو بھلا کر آپسی خانہ جنگی کے شکار ہو چکے ہیں  اور وہ جن کو علمی قیادت کرنی تھی آج کرسی اور منصب کے بھوکے بن کر اپنی صلاحیت کا استحصال کر رہے ہیں نتیجہ ظاہر ہے کہ پہلے دوسرے ہماری صرف سیاسی نمایندگى کر تے تھے اب علمی نمائندگی بھی کر نے لگے ہیں.حالاں کہ ہمارے بیچ ایسے ماہر علماء اور دعاة کی ضرورت تھی جو عالمی سطح پر برصغیر کی نمایندگی کر سکیں، ظاہر ہے اس کے ليے افراد سازی کی ضرورت تھی، جن کا جو تخصص ہے ان كے تخصص کے مطابق ان کو فارغ کرنے کی ضرورت تھی، ان کو پرسکون ماحول فراہم کرنے کی ضرورت تھی... واللہ بہت افسوس ہوتا ہے اپنی قوم پر-
  •  کیا ہمیں اس بات کا احساس نہیں کہ اس قدر تقریریں ہورہی ہیں، کانفرنسیں منعقد کی جارہی ہیں لیکن ان کے نتائج خاطرخواہ حاصل نہیں ہو رہے ہیں، ہم کانفرنسوں کے مقاصدطے نہیں کرتے یا ان کے نتائج پر ہمارا دھیان نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اتنے سارے اخراجات کے باوجود عوام پر اس کا کوئی گہرا اثر دکھائی نہیں دیتا ہے، اگر ان کے اہداف طے کئے گئے ہوتے اورانہیں حاصل کرنے کی پہلے سے پلاننگ کی گئی ہوتی تو کم ازکم حاضرین تک اپنا مثبت پیغام پہنچانے میں ضرورکامیاب ہوسکتے تھے ۔
  • اللہ پاک نے معروف کی طرف بلانے اورمنکر سے روکنے کا حکم یکساں طورپردیا ہے ،اگر ایک حصے کو اپنائیں اوردوسرے حصے کو نظر انداز کردیں تو یہ عمل حکمت دعوت کے منافی ہوگا ، آج عجیب صورت حال ہے کہ کچھ لوگ معروف کا حکم دینے پر اکتفا کرتے ہیں اور کچھ لوگ منکر کے ازالے میں اپنی پوری کوششیں صرف کررہے ہیں یہاں تک کہ دونوں فریق کی اسی سے پہچان ہونے لگی ہے ، اگرمعروف کی دعوت دی بھی جاتی ہے تو اسلوب جارحانہ اورمنفی ہوتا ہے ۔ معروف کا حکم اورمنکر کی تردیدمثبت اندازمیں ایک ساتھ ہوتی رہنی چاہیے ،یہ المیہ ہے کہ آج ہم اسلام کا تعارف کم کراتے ہیں ، صحیح عقیدے کو مثبت انداز میں کم پیش کرتے ہیں بلکہ صحیح عقیدے کوپیش کرتے وقت حکمت کوملحوظ رکھتے ہی نہیں ،ہاں! اعتراض زیادہ کرتے ہیں ۔ ہمیں یہ احساس ہونا چاہیے کہ ہم داعی ہیں مدعو نہیں ۔ ہمارے اکثر اوقات مخالفین کی تردید میں گذر رہے ہیں ،اگر آپ صحیح منہج کا حکمت کے ساتھ تعارف نہ کرائیں گے اورگمراہ جماعتوں کی تردیدمیں لگے رہیں گے تو مخالفین کا ہمارے تئیں کیا نظریہ بنے ہوگا اس کا اندازہ موجودہ صورتحال کو دیکھ کر اچھی طرح لگایاجاسکتا ہے ۔ ہم اپنے احباب سے مودبانہ گذارش کریں گے کہ گمراہ فرقے اگرباطل کے پرچار میں سرگرم ہیں توہم حق کے پرچارمیں سرگرم بنیں ۔انداز میں نرمی ہو ، جذبات خیرخواہانہ ہوں اوراسلوب سنجیدہ اوردل کو اپیل کرنے والا ہو۔ہمیں ایک ساتھ مل بیٹھ کر سنجیدگی سے مسئلے کی نزاکت کو سمجھنا ہوگا ، مدعوکو دینے کے لیے ہمارے پاس موا د کم پائے جاتے ہیں ان کے عقائد کا پوسٹ مارٹم کرنے والے موادبہت زیادہ ہیں ۔ 
  • آج لوگ حق کے پیاسے ہیں، دین کے بازارمیں کھوٹے سکوں کوفروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہیں،ہمیں اپنی ذمہ داری کوسمجھنا ہوگا ،اپنے اندر زیاں کا حساس پیدا کرنا ہوگا اورمنظم پلاننگ کے ساتھ کام شروع کرنا ہوگا۔
بات ذرا طول کھینچ گئی ،ہم عرض یہ کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کی صلاحیت سے قوم کو فائدہ ہونا چاہیے، آپ سے ہماری بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں، کوئی بھی کام کریں،ترجیحات کو سامنے رکھ کر پلاننگ کے ساتھ کریں،چاہے کام نثر كى شكل  میں ہو يا نظم كى شكل میں، ۔دعاؤں میں یاد رکھیں گے -
اللہ آپ کو اچھا بدلہ عنایت کرے،اور اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔

والسلام

3 تبصرہ:

Sanaullah Sadique Taimi نے لکھا ہے کہ

و علیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ ۔ اللہ آپ کے علم و عمل اور صحت و عافیت کے ساتھ عمر میں برکت عطا کرے ۔ آپ کے یہ الفاظ میرے لیے قیمتی جواہر پارے ہیں ۔ الحمد للہ ہم لوگ جے این یو سے لے کر پورے دہلی میں ممکنہ طور پر دعوتی میدانوں میں سرگرم ہیں ۔ دعا دیں کہ اللہ عمل و شعور کی دولت سے نوازے اور ہدایت کے راستے پر گامزن رکھے ۔ آپ بڑے بھائیوں کی حوصلہ افزائی بڑے انعام و اکرام کا کام کرتی ہے ۔ آپ کے ناصحانہ اور نہایت باریک بیں تبصرے میرے شعور کو جلا بخشتے ہیں ۔ امید کرتا ہوں کہ آگے بھی نشاندہی فرماتے رہیں گے ۔ وجزاکم اللہ احسن الجزاء ۔ والسلام

Unknown نے لکھا ہے کہ

Safat Alam Taimi نے لکھا ہے کہ

عزیزی رحمت کلیم تیمی نے اپنے تبصرہ میں شیخ ثناءاللہ تیمی کے تئیں اپنے نیک جذبات کا اظہار کیا تھا ، مجھے افسوس ہے کہ غلطی سے وہ تبصرہ پوسٹ ہونے کی بجائے ڈیلیٹ ہوگیا، میں اس کے لیے رحمت کلیم تیمی سے معذرت خواہ ہوں، اوردوبارہ ان سے گذارش ہوگی کہ ممکن ہو تو اپنے جذبات کا اظہار کریں ۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔