پیر, نومبر 18, 2013

اللہ پر مكمل بھروسہ كا نام توكل ہے


توکل کيا ہے ؟ توکل دراصل اللہ تعالی پر اعتماد اور بھوسہ کرنے کا نام ہے ۔ اپنے تمام معاملات ميں خواہ ان کا تعلق حصول منفعت سے ہو يا دفع مضرت سے اللہ تعالی پر بالکل يہ اعتماد کرنا ۔
توکل عظيم عبادت ہے جسے اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف پھيرنا جائز نہيں، مومن صادق اپنے سارے معاملات ميں محض اللہ تعالی پر بھروسہ کرتا ہے ، چاہے رزق کی طلب ہو ، مدد کی طلب ہو، شفا وعافيت کی طلب ہو ، يا مشکلات سے نجات کی خواہش ۔ وہ اس بات کا اعتقاد رکھتا ہے کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی رازق نہيں ، وہی ذات عطا کرنے والی ہے ، اور وہی ذات چھيننے والی بھی ہے ۔
اسی ليے اللہ تعالی نے ہميں اپنی کتاب ميں بے شمار جگہوں پر توکل کا حکم ديا ہے چنانچہ فرمايا:
وتوکل علی اللہ وکفی باللہ وکيلا (الاحزاب 28
اور اللہ تعالی پر بھروسہ کيے رہيے اور کافی ہے اللہ تعالی کام بنانے والا ۔
اور سورہ فرقان ميں اللہ تعالی نے فرمايا:
 وتوکل علی الحی الذی لا يموت (الفرقان 58) 
"اس ہميشہ زندہ زندہ رہنے والی ذات اللہ تعالی پر توکل کرو جسے کبھی موت نہيں" ۔ آيت کا مفہوم يہ ہے کہ تم انسان پر توکل مت کرو، اس سے اميديں مت باندھوکيوں کہ وہ فانی ہے اس ذات سے تعلق مضبوط کرو جو ہميشہ رہنے والی ہے اور جسے کبھی موت نہيں آتی ۔ اللہ تعالی نے ايک جگہ توکل کو صحت ايمان کی شرط قرار ديا ہے چنانچہ فرمايا:
 وعلی اللہ فتوکلوا إن کنتم مومنين (المائدہ23
" اگر تم مومن ہو تو صرف اللہ تعالی پر بھروسہ کرو"۔
 حقيقت تو يہ ہے کہ ايک بندے کا تعلق اپنے رب سے اس طرح ہونا چاہيے جيسا تعلق ايک شيرخوار بچے کا اپنی کی چھاتی سے ہوتا ہے ، کہ دنيا ميں اس کے علاوہ  وہ اور کچھ نہيں جانتا ۔ بھوک کا احساس ہوا فورا ً فورا ماں کی گود سے چمٹ گيا ۔ يہی حال بندہ مومن کا ہونا چاہيے کہ ہر تکليف اور پريشانی ميں محض اللہ رب العالمين سے لو لگائے ، اسی کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھے ۔
اللہ تعالی پر توکل واعتماد ، اسکی طرف اپنے معاملات کی سپردگی، اور قلوب واذہان کا اس سے متعلق ہونا يہ وہ عظيم اسباب ہيں جن سے مطلوب حاصل ہوتا ہے اور تمنائں بر آتی ہيں ، اور جس قدر توکل کا مفہوم دل ميں پيوست ہوتا ہے اسی تناسب سے مطلوبہ نتائج بھی سامنے آتے ہيں ۔آج ہمارے سارے مسائل کا حل توکل ميں ہے ، توکل ہمارے سارے اختلاف کو ختم کر ديتا ہے ، توکل عروج وترقی کی کنجی ہے ، توکل سے دشمنوں پر غلبہ حاصل ہوتا ہے تب ہی تو اللہ تعالی نے نہايت جامع انداز ميں فرمايا:
 ومن يتوکل علی اللہ فھو حسبہ (الطلاق 3
"جو شخص اللہ تعالی پر توکل کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کے لئے کافی ہے" ۔
يہی حال انبياء و رسل کا تھا چنانچہ جب حضرت ابراہيم عليہ السلام کو دہکتی ہوئی آگ ميں ڈال ديا گيا توآپ نے اس وقت پکار لگائی:
 حسبی اللہ ونعم الوكيل
" اللہ تعالی ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترين کارساز اور محافظ ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالی کے حکم سے آگ گل گلزار بن گئی ۔
حضرت موسی عليہ السلام جب بنو اسرائيل کو لے کر مصر سے نکلے تو فرعون نے اپنے لاولشکر سميت ان کا تعاقب کيا ، دشمن پيچھے ہے اور سمندر سامنے ہے ، يعنی ہلاکت يقينی تھی جس سے بنو اسرائيل پريشان ہوگئے ليکن موسی عليہ السلام نے توکل واعتماد کا پيکر بن کر جواب ديا :
کلا إن معی ربی سيھدين
ہرگز نہيں ہميں وہ اپنی گرفت ميں نہيں لے سکتا اللہ تعالی ہماری رہنمائی کے لئے کافی ہے چنانچہ بحکم الہی سمندر ميں لاٹھی مارا اوربيچ سمندر سے راستے بن گئے ۔
توکل ہر انسان سے مطلوب ہے چاہے مرد ہو يا عورت چھوٹا ہو يا بڑا ۔
کہتے ہيں کہ ايک آدمی مسجد نبوی ميں داخل ہوا تو ديکھا کہ ايک لڑکا نہايت  خشوع و خضوع سے طويل نمازيں پڑھ  رہا ہے ۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو اس نے لڑکے سے پوچھا : تم کس کے فرزندہو ؟ لڑکے نے جواب ديا : ميں يتيم ہوں ميرے ماں باپ دونوں فوت پا چکے ہيں ۔ اس آدمی نے کہا : کيا تم مجھے اپنا باپ بنا سکتے ہو ؟ لڑکے نے کہا : اگر ميں بھوکا ہوں تو کھانا کھلائيں گے ؟ اس آدمی نے کہا : ہاں ۔ لڑکے نے کہا : اگر ميں ننگا ہو ں کپڑے پہنائيں گے ؟ اس نے کہا : ہاں ۔ لڑکے نے کہا : اگر ميں بيمار پڑوں تو مجھے شفا ديں گے ؟ اس آدمی نے کہا : يہ تو ميرے اختيار ميں نہيں ہے ۔ لڑکے نے کہا : اگر ميں مر جاؤں تو مجھے زندہ کر ديں گے ؟ اس آدمی نے کہا : يہ اختيار تو مخلوق ميں کسی کو حاصل نہيں ۔

 تب لڑکے نے جواب ديا : تو پھر مجھيں بھروسہ کر نے ديجيے اس ذات پر جس نے مجھے پيدا کيا ہے ، وہی مجھے ہدايت دے گا ، جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے ، بيمار پڑوں تو شفا ديتا ہے ، اور جس کی ذات سے مجھے پوری اميد ہے کہ کل قيامت کے کل ميرے گناہوں کو بخش دے گا ۔ توکل کے پيکر لڑکے کا يہ جواب سن کر اس آدمی نے کہا : آمنت باللہ من توکل علی اللہ کفا ۔ ميں اللہ تعالی پر ايمان لے آيا ‘ جس نے اللہ تعالی پر توکل کيا اللہ تعالی اس کے لئے کافی ہے" ۔
 رزق کا مسئلہ ان مسائل ميں سے ايک ہے جس نے آج لوگوں کی نيند حرام کر رکھی ہے حالاں کہ اللہ تعالی نے اس کی ذمہ داری اپنے سر لے رکھا ہے:
 وما من دابة فی الأرض إلا علی اللہ رزقھا .
"زمين پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہيں سب کی روزياں اللہ تعالی پر ہيں ۔ زمانہ جاہليت ميں لوگ فقر وفاقہ کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل کر ديا کرتے تھے اللہ تعالی نے انہيں اس گندی حرکت پر تنبيہ فرمائی:
ولا تقتلوا أولادکم خشية أملاق نحن نرزقھم وإياکم .
کہ اپنی اولاد کو غربت کے ڈر سے قتل مت کرو ہم انہيں اور تمہيں رزق ديتے ہيں ۔ ليکن آج کی اکيسويں صدی عيسوی ميں وہی جاہلی رواج پھر عود کر آيا اور مہذب اور ترقی يافتہ ممالک فقر وفاقہ کے خوف سے فيملی پلاننگ کی پاليسياں وضع کر رہے ہيں ، اور لوگوں کو اسقاط حمل کی ترغيب دی جا رہی ہے ۔ اللہ والے رزق کے معاملہ ميں کلی طور پر اللہ تعالی پر بھروسہ کرتے تھے ۔ تب ہی تو سيدنا ابوبکر صديق رضي الله عنه  غزوہ تبوک کے موقع سے گھر کا سارا اثاثہ لاکر کاشانہ نبوت ميں ڈال ديتے ہيں اور جب پوچھا جاتا ہے کہ اہل خانہ کے لئے کيا چھوڑآئے ہو تو جواب ديتے ہيں اللہ اور اس کے رسول کو باقی رکھ آيا ہو ں۔
کسی اللہ والے مجاہد کی بيوی سے ايک شخص نے کہا :
تيرے شوہر کے جانے کے بعد تم اور تيرے بچے کہاں سے لقمہ زندگی حاصل کر سکوگی ؟ اس مومنہ خاتون نے پورے يقين کے ساتھ جواب   ديا: زوجی منذ أن تزوجتہ وعرفتہ ‘ عرفتہ أکالا وما عرفتہ رزاقا، فلئن ذھب الأکال بقی الرزاق ۔ جب سے ميں نے ان سے شادی کی ہے ‘ اور پہچانا ہے‘ تب سے ميں نے انہيں کھانے والا ہی پايا ہے ، اگر کھانے والا چلا گيا تو رزق دينے والا بہرحال باقی ہے ۔
رزق کی اہميت مسلم ہونے کے باوجود کتنے ايسے لوگ ہوتے ہيں جن کی اوليں ترجيح رزق نہيں ہوتی بلکہ دوسری کوئی چيز ہوتی ہے چنانچہ کوئی نيک بيوی کا متمنی ہوتا ہے ، کسی کو نيک اولاد کی خواہش ستاتی ہے ، کوئی شفايابی کا طلبگار ہوتا ہے ، کوئی اپنے ظالم دشمن پر فتح کا خواہاں ہوتا ہے ۔ يہ سب دنياوی زندگی کے تقاضے ہيں جن کی حصوليابی محض توکل کے ذريعہ ہی ممکن ہے ۔

کيا توکل اسباب کے منافی ہے:

 يعنی کيا توکل کا مفہوم يہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی پر اعتماد کيا جائے اور اسباب کو بالائے طاق رکھ ديا جائے ۔ ؟ يہ صحيح ہے کہ بسااوقات توکل واعتماد کرنے والوں کے ليے اسباب کی بندھنيں ٹوٹ جاتی ہے اور بغير اسباب اختيار کيے اللہ تعالی کی طرف سے مدد آجاتی ہے جيسے ابراہيم عليہ السلام کے لئے آگ گل گلزار بن گئی اور موسی عليہ السلام کے ليے موجزن سمندر ميں راستے بن گيے ۔ ليکن اس سے يہ قطعا مفہوم نہيں نکلتا کہ اسباب کو بالائے طاق رکھ ديا جائے يا محض اساب ہی کو بنياد بنا ليا جائے ۔ بلکہ توکل کامفہوم يہ ہے کہ اسباب اختيار کرنے کے بعد نتيجہ اللہ کے حوالے کرديا جائے ۔
اسی لئے علماء نے توکل کی تعريف ميں کہا ہے کہ تمہارا عمل يہاں ہونا چاہيے البتہ تمہاری نگاہ آسمان پرٹکی ہونی چاہيے يہی طريقہ رحمت دو عالم صلى الله عليه وسلم کا تھا، جو سيد المتوکلين تھے ، يعنی توکل اختيار کرنے والوں کے سردار تھے ،چنانچہ جب آپ واقعہ ہجرت پر غور کريں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ اپنے رب پرکامل بھروسہ اور اس کی مدد کا پورایقین رکھتے تھے اور جانتے تھے کہ اللہ آپ کے لیے کافی ہے لیکن اس کے باوجو د آپ نے ظاہری اسباب کو اختیار کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہيں رکھی ۔ اس کے لیے ایک منظم پروگرام ترتیب دیا، پھر اسے پوری رازداری کے ساتھ نافذ بھی کیا ۔ قائد : محمد صلى الله عليه وسلم ہیں، مددگار : ابوبکر صدیق رضي الله عنه ہیں، فدائی : علی بن ابی طالب رضي الله عنه ہیں ، توشہ فراہم کرنے والے : اسماء بنت ابی بکر رضي الله عنها ہیں ، غارثور میں قریش کی خبریں پہنچانے والے : عبداللہ بن ابی بکر رضي الله عنه ہیں، بکریوں کے ریوڑ کے ذریعہ عبداللہ کے نشان قدم کو مٹاکر دشمن کو دھوکے میں رکھنے کے لیے : عامر بن فہیرہ ہیں۔ صحرائی راستوں کا ماہررہنما: بے دین لیکن امانت دار عبداللہ بن اریقط ہے ، آپ کی عارضی قیام گاہ : غار ثور ہے۔ سفر کا وقت : تین دن بعد ۔ مدینہ کا راستہ : جنوب کا ساحلی راستہ ۔ آخر منظم طريقے سے يہ اسباب کيوں اختيار کيے گيے اسی ليے نا تاکہ امت محمديہ کو يہ درس مل جائے کہ توکل اسباب کے منافی نہيں يہی وجہ ہے کہ جب قريش کا دستہ غار کے دہانے پر پہنچتا ہے توابوبکر رضي الله عنه پريشان ہوجاتے ہيں ليکن آپ  صلى الله عليه وسلم اتنے سارے اسباب اختيار کرنے کے بعدا ب فرما رہے ہيں لاتحزن ان اللہ معنا گھبراومت! اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہے ۔                 
سنن ترمذی کی روايت ہے ايک شخص اونٹنی پر سوار ہوکر اللہ کے رسول  صلى الله عليه وسلم کے پاس آيا ‘ اس نے آپ  صلى الله عليه وسلم سے عرض کيا :
يا رسول اللہ ! ميں اسے باندھ دو اور اللہ پر توکل کروں يا چھوڑ دو ں ‘ پھر اللہ پر توکل کروں ؟ آپ  صلى الله عليه وسلم نے فرمايا : اعقلھا وتوکل اسے باندھ دو پھر اللہ تعالی پر توکل کرو۔
پتہ يہ چلا کہ کوشش نہ کرنا اور اسباب اختيار کيے بغير توکل کا دعوی کرنا شريعت کے منافی ہے مسند احمد اور ترمذی کی روايت ہے اللہ کے رسول نے فرمايا :
 لو أنکم توکلتم علی اللہ حق توکلہ لرزقکم کما يرزق الطير تغدو خماصا وتروح بطانا 
اگر تم اللہ تعالی پر توکل کرتے جيسا توکل کرنے کا حق ہے و اللہ تعالی تجھے اس طرح کھلاتا جيسے پرندوں کو کھلاتا ہے کہ صبح سويرے اپنے گھونسلوں سے خالی پيٹ نکلتا ہے اور شام ميں پيٹ بھر کر آجاتا ہے ۔
اس حديث پر ذرا غور کيجيے ! اللہ تعالی پرندے کوکب کھلاتا ہے ؟ جب وہ اپنے گھونسلے سے نکلتا ہے ، روزی کی تلاش کرتا ہے ، مختلف جگہوں پر پھرتاہے ‘ تب جاکر اللہ تعالی پرندے کو شکم سير کرتا ہے ، اگر پرندہ اپنے گھونسلے ميں بيٹھا رہ جائے تو کيا اسے کھانا مل جائے گا ؟ ظاہر ہے نہيں ۔ بالکل يہی مثال اللہ کے نبی  صلى الله عليه وسلم نے انسان کے لئے بتائی کہ صبح سويرے زمين ميں پھيل جاؤمحنت سے کام کرو ، اور اللہ پر نتيجہ کو سپرد کر دو اللہ تعالی تجھے ضرور کھلائے گا ۔
يہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول  صلى الله عليه وسلم نے غار ميں پناہ ليا ، غزوہ احد کے دن دو زرہ پہنا ، آپ  صلى الله عليه وسلم نے علاج کيا اور بتايا کہ اللہ تعالی نے جوبيماری بھی پيدا کی ہے اس کا علاج بھی بتايا ہے لہذا اللہ کے بندو ! علاج کيا کرو ۔ اسی طرح اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے تجارت کيا ،مدينہ ميں مارکٹ کھولا ،اس کا نظام بنايا ، صحابہ کرام کو کار بارکی ترغيب دی ، چنانچہ صحابہ کرام ميں کوئی کاشت کارتھا، تو کوئی باغبان تھا ، تو کوئی تاجر تھا۔ ۔۔۔ امام اعظم ابوحنيفہ ؒ کپڑے کی تجارت کرتے تھے ، امام بخاری ؒ بھی کپڑوں کی تجارت کرتے تھے ، امام خالد الحذاء جوتے فروخت کرتے تھے ، امام قدوری ؒ برتنوں کی تجارت کرتے تھے ۔ يہ اس وجہ سے کہ آپ نے فرمايا تھا کہ بہترين کمائی اپنے ہاتھ کی کمائی ہے ۔
عمربن خطاب رضي الله عنه کی بابت آتا ہے کہ آپ جب کسی نوجوان کو ديکھتے اور وہ بھلا معلوم ہوتا تو اس سے پوچھتے کہ کيا وہ کوئی پيشہ اختيار کيے ہوا ہے اگر جواب نفی ميں ملتا تو وہ آپ کی نظر سے گرجاتا تھا ۔
ان تفصيلات سے پتہ يہ چلا کہ توکل اسباب کے منافی نہيں بلکہ توکل يہ ہے کہ اسباب اختيار کيے جائيں تاہم تنائج کواللہ تعالی کے سپرد کر ديا جائے
امام احمد بن حنبل ؒ سے پوچھا گيا کہ آپ اس شخص کی بابت کيا فرماتے ہيں جو گھر ميں بيٹھ جاتا ہے يا مسجد ميں بيٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ميں کچھ بھی کام نہ کروں گا يہاں تک کہ ميرا رزق ميرے پاس پہنچ جائے ۔۔ تو امام احمد بن حنبل ؒ نے فرمايا : ھذا رجل جھل العلم يہ آدمی علم سے نابلد ہے اور آپ نے اس حديث سے استدلال کيا جسے ميں نے ابھی عرض کيا ہے کہ پرندہ صبح سويرے خالی پيٹ اپنے گھونسلے سے نکلتا ہے اور شام ميں پيٹ بھر کر لوٹتا ہے اگر وہ اپنے گھونسلے ميں بيٹھا رہتا تو کيا اس کے پاس رزق آجاتا ؟ 
غرضيکہ توکل  ترک عمل اور تعطل کا نام نہيں توكل کا مفہوم يہ نہيں ہے کہ ہم کام ترک کر ديں، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بيٹھے رہيں اور اللہ پر بھروسہ رکھيں ۔ توکل يہ ہے کہ ہم دل کے سکون اور اطمينان کے ساتھ کام ميں لگے رہيں اور نتيجہ اللہ کے حوالے کرديں اور يقين کامل رکھيں کہ اللہ جو چاہے گا وہی ہوگا ۔

ايک بندہ اللہ پر توکل کرنے والا کب کہلائے گا ؟

ايک بندہ اللہ پر توکل کرنے والا اُسی وقت قرارپائے گاجبکہ وہ اس بات پر يقين رکھے کہ دنيا وآخرت کا کوئی فائدہ يا نقصان اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور سے حاصل نہيں ہوسکتا۔ اس کے دل ميں يہ بات بيٹھ چکی ہو کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی ذرہ برابر نہ نفع پہنچاسکتا ہے ، اور نہ نقصان پہنچا سکتا ہے............ذرا سوچيے توسہی کہ ايسا شخص جسے يقين کامل ہو کہ نفع اور نقصان کا مالک صرف اللہ تعالی ہے ، اس کے علاوہ کوئی ايسی ذات نہيں جس سے اميد باندھی جا سکتی ہے ۔ اور نہ ہی اللہ کے علاوہ کوئی ايسی ذات ہے جو اللہ کی طرف سے ملنے والی نعمتوں کو روک سکتی ہے ۔۔۔۔ جب ايسا ايمان ايک انسان کے دل ميں پيدا ہوجاتا ہے تو کيا وہ پريشان ہوگا ؟ کيا اس کے اندر بے چينی پيدا ہوگی ؟ کيا وہ در در کی ٹھوکريں کھائے گا ؟ نہيں اور ہرگز نہيں ۔۔۔۔ اس نے اپنے سارے معاملات کو اللہ کے سپرد کر ديا ہوا ہے ۔ اس ليے اسے کسی کا خوف نہيں ،کسی طرح کا ڈر نہيں ۔
آپ مسلمانوں اور غيرقوموں کی زندگی ميں يہی فرق پائيں گے چنانچہ جو لوگ اللہ پر ايمان نہيں رکھتے‘ جب اُن پرکسی طرح کی پريشانی آتی ہے ،يا وہ کسی طرح کی مصيبت ميں گھرجاتے ہيں تواُن کے اندرعجيب طرح کی بيچينی آجاتی ہے ،کبھی اِس بھگوان کی پوجا کی تو کبھی تو اُس بھگوان کے سامنے سرٹيکا کہ کہيں مسئلے کا حل نکل جائے ۔۔ ليکن ايک مسلمان جانتا ہے کہ نفع اور نقصان محض اللہ کے ہاتھ ميں ہے اس ليے وہ مصيبت ميں بھی اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے ، اور اس کے فيصلے سے راضی رہتا ہے ۔

توکل کے انفرادی واجتماعی زندگی پر اثرات:


اب سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ توکل کے انفرادی واجتماعی زندگی پرکيا اثرات مرتب ہوتے ہيں؟  
 توکل کی بنياد پربندہ مومن کی زندگی ميں عجيب طرح کی تبديلی رونماہوتی ہے ، اور اس کی زندگی پر توکل کے نہايت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہيں ۔ آئيے ذرا ہم اس نکتے پر بھی غور کرليں:

سکون واطمينان حاصل ہوتا ہے: 

توکل کا سب سے پہلا فائدہ يہ ہے کہ اس سے سکون واطمينان حاصل ہوتا ہے  ايسا سکون کہ اُس کا تصور تک نہيں کيا جا سکتا چنانچہ ايسے لوگ اس وقت بھی بے خوف ہوتے ہيں جبکہ لوگوں پر خوف وہراس کی فضا چھائی ہوتی ہے اس وقت بھی سکون پاتے ہيں جبکہ لوگ پريشان ہوتے ہيں، اس وقت بھی يقين کامل رکھتے ہيں جبکہ لوگ شکوک وشبہات کی واديوں ميں گھرے رہتے ہيں ۔ حضرت ابراہيم عليہ السلام دہکتی ہوئی آگ ميں ڈال دئيے جاچکے ہيں ايسی کشيدہ حالت ميں بھی فرمارہے ہيں حسبی اللہ ونعم اللہ اللہ تعالی ہمارے ليے کافی ہے اور وہ بہترين کارساز اور محافظ ہے ۔
حضرت موسی عليہ السلام جب بنو اسرائيل کو لے کر مصر سے نکلے تو فرعون نے اپنے لاؤلشکر سميت ان کا تعاقب کيا ، دشمن پيچھے ہے اور سمندر سامنے ، يعنی ہلاکت يقينی تھی جس سے بنو اسرائيل پريشان ہوگيے ليکن ايسے نازک وقت ميں بھی موسی عليہ السلام کا جواب تھا : کلا ان معی ربی سيھدين ہرگز نہيں اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہے جوہماری رہنمائی کے ليے کافی ہے۔

غير معمولى نفسياتی اور روحانی قوت حاصل  ہوتى ہے:

توکل کا دوسرا فائدہ يہ ہے کہ اس سے ايسی نفسياتی اور روحانی قوت ملتی ہے جس کے سامنے ساری مادی قوتيں شکست کھاجاتی ہيں ۔چاہے يہ قوتيں اسلحہ جاتی ہوں،يا مالی ہوں يا فوجی ۔ اس سلسلے ميں انبياء کرام کی زندگی واضح مثال ہے کہ اُن کی قوموں نے اُن کو طعنہ ديا ، پاگل ، مجنون اورديوانہ بنايا، مال و دولت کی لالچ دی ،دھمکياں دی ، شدائد وتکاليف کا آلہ کار بنايا ، قتل کے درپے ہوئے ليکن اُن کی قوتوں ميں ذرہ برابر اضمحلال نہ آيا اور اپنے دعوتی کاز کوفروغ ديتے ميں کوشا ں وسرگرداں رہے ۔

نا اميدی نہيں آتی:

توکل کا تيسرا فائدہ يہ ہے کہ جولوگ اللہ پر بھروسہ کرتے ہيں ان کے اندرنا اميدی نہيں آتی، وہ ياس وقنوط کے شکار نہيں ہوتے ۔ کيوں کہ نااميدی گمراہی کے لوازم ہيں ۔۔۔ ذرا غور کيجئے کہ حضرت يوسف عليہ السلام حضرت يعقوب عليہ السلام سے ايک لمبی مدت تک جدا رہے ،دس سال کا عرصہ گذر چکاہے ‘ ليکن اب تک اميديں بندھی ہوئی ہيں عسی اللہ ان ياتينی بھم جميعا

قناعت کی صفت پيدا ہوتی ہے 

توکل کا چوتھا فائدہ يہ ہے کہ اس سے بندے کے اندر قناعت کی صفت پيدا ہوتی ہے کہ اللہ تعالی نے اس کے ليے جو اور جتنی روزی عطا فرما رکھی ہے اس پر راضی رہے، جو صلاحيت اور قوت عمل دے رکھی ہے اس پرقناعت کرے ۔ اور جو کچھ اللہ تعالی نے اپنے لطف وکرم سے مقدر فرمايا ہے اس پر شکرگزار رہے ۔
جی ہاں!توکل کے پيکربندہ مومن ہميشہ امن وسکون کی زندگی گزارتے ہيں، روحانی ونفسياتی قوت سے مالامال ہوتے ہيں، اُن کا دل اميدوں کی کليوں سے کھلا ہوتا ہے ، وہ ياس وقنوط سے کوسوں دور رہتے ہيں، اور وہ قناعت پسند وشکر گزار ہوتے ہيں ۔۔اگر آپ بھی اپنی زندگی ميں سکون چاہتے ہيں،روحانی قوت کے خواہاں ہيں، ياس وقنوط سے دوری اور قناعت پسندی چاہتے ہيں تو اپنے اندر توکل کے صفات پيدا کرنے ہوں گے ۔

توکل کا پيکر كيسے بنيں؟:

اب سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ توکل کی يہ صفت ہمارے اندر کيسے پيدا ہوگی ؟ توآئيے چند معاون وسائل کی جانکاری حاصل کرتے ہيں

الله كا عرفان حاصل کرنا ہوگا:

اگر ہم توکل کے پيکر بننا چاہتے ہيں تو جس ذات پر توکل کرنا ہے اُس کا عرفان حاصل کرنا ہوگا ۔اللہ تعالی کے اسماء و صفات پر غور کرنا ہوگا ۔ اللہ تعالی کے صفات کی معرفت حاصل کرنی ہوگی ۔ جوشخص يہ جان لے گا کہ اللہ تعالی رحمن ورحيم ہے بندوں پر رحم کرتا ہے ، عزيز ہے عزت وغلبہ کا مالک ہے ، سميع وبصير ہے سننے والا اور ديکھنے والا ہے ، ڈھکی چھپی ساری باتوں کو سنتا اور دلی ارادوں سے بھی آگاہ ہے ۔ رزاق ہے ساری مخلوق کو رزق پہنچارہاہے، غفار وستار ہے گناہوں کو بخشنے والا اور گناہوں پر پردہ ڈالنے والا ہے ۔ ظاہر ہے ايسے انسان کا تعلق اللہ رب العالمين سے بندھ جائے گا ۔اور اسی کو وہ اپنا ملجا وماوی تصور کرے گا ۔ ہم مسلمانوں کا عقيدہ ہے کہ ہر طرح کی ملکيت اللہ تعالی کے ہاتھ ميں ہے ، وہی نوازتا ہے اور وہی روک بھی ليتا ہے ۔ وہی بلندی عطا کرتا ہے اور وہی پستی سے دوچار کرتا ہے ، وہی مارتا ہے اور وہی جلاتا ہے ۔ اُسے کوئی چيز عاجز نہيں کرسکتی ، جو چاہے کرسکتا ہے۔ جو چاہے وہی ہوگا اور جو نہ چاہے وہ نہيں ہو سکتا ۔
اور جس قدر بندے کو ذات باری تعالی کا عرفان حاصل ہوتا ہے اسی قدر بندے کا اللہ تعالی سے تعلق مضبوط ہوتا ہے اور اللہ تعالی سے اعتماد بندھتا ہے ۔ کيسا اعتماد ؟
٭اس بات پر اعتماد کہ اللہ تعالی ہر چيز کو ديکھ رہاہے،وہ کامل حکمت اور عظيم قدرت کا مالک ہے ، جس قدر ماں اپنے بچوں پر رحم کھاتی ہے اس سے زيادہ اللہ تعالی اپنے بندوں پر رحم کرتا ہے ۔ جتنا بندے اپنا خيال نہيں کرتے اُتنا اللہ تعالی بندے کا خيال کرتا ہے ۔ اور جس قدر وہ اپنی مصلحتوں سے آگاہ نہيں اُس سے زيادہ اللہ تعالی ان کی مصلحتوں سے آگاہ ہے، ’’إلايعلم من خلق وھواللطيف الخبير‘‘ کيا وہی نہ جانے جس نے پيدا کيا اور وہ باريک بيں بھی ہے ٭اسی طرح اس بات پر اعتماد بندھتا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے وليوں اور نيک بندوں کی مدد کا وعدہ کيا ہے کہ وہ انہيں ان کے دشمنوں پرغلبہ عطا کر ے گا اور اللہ تعالی ظالموں کو ڈھيل ديتا ہے ليکن جب اُن کی گرفت فرماتاہے توچھٹی کا دودھ ياد کراديتاہے۔
٭اسی طرح اللہ تعالی کی ذات وصفات کے عرفان سے اس بات کا اعتماد بندھتاہے کہ اللہ تعالی نے ساری مخلوق کے رزق کی ضمانت لی ہے ، ومامن دابة فی الارض الا علی اللہ رزقھا ، زمين ميں جتنے چلنے پھرنے والے جاندار ہيں سب کی روزی اللہ تعالی پر ہے ۔۔۔ چنانچہ ايک بندہ مومن روزی کے کٹنے سے نہيں ڈرتا کيوں کہ وہ جانتا ہے کہ کوئی دوسرا اُس کا رزق نہيں چھين سکتا  
جب يہ باتيں ايک بندے کے دل ميں گھر کر جائيں گی تو کيا تصور کيا جا سکتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کے علاوہ کسی دوسرے کے سامنے ہاتھ  پھےلائے ۔ يا اللہ تعالی کے علاوہ کسی دوسرے کو حاجت روا ومشکل کشا سمجھے ۔ نہيں اور ہرگز نہيں ۔

انسان کو اپنے نفس کى کمزوری پر دھيان رکھنا هوگا:

دوسرا وسيلہ جس سے انسان کے اندر اللہ پر توکل واعتماد پيدا ہوتا ہے وہ ہے انسان کا اپنے نفس کے عجز وکمزوری پر دھيان رکھنا ۔ جب بندہ اپنی فطری کمزوری پر غور کرتا ہے کہ اللہ تعالی نے اُسے معمولی قطرہ آب سے پيدا کيا ، نو مہينے تک ماں کے پيٹ ميں رکھا ، جبکہ وہ کچھ نہيں جانتا تھا ، سننے ، ديکھنے، سوچنے اور بولنے کی صلاحيت عطا فرمائی ۔ اس کا وجود اس کی زندگی ، اس کا علم ، اس کی ساخت و پرداخت سب کچھ اس کے خالق و مالک کی رہين منت ہے ۔ يہيں پر اس کے ذہن و دماغ ميں يہ بات بيٹھ جاتی ہے کہ اعتماد و بھروسہ کے لائق صرف اللہ تعالی کی ذات ہے ۔ اس کے بغير نہ ہمارے پاس کوئی طاقت ہے نہ قوت ۔ چنانچہ اس کا پورا تعلق اللہ تعالی سے بندھ جاتا ہے ۔ اسی ليے کسی عارف نے کہا تھا من عرف نفسہ عرف ربہ جس نے اپنے نفس کو پہچان ليا اس نے اپنے پروردگار کاعرفان حاصل کرليا ۔ اسی ليے توکل سے وہ لوگ کوسوں دور ہوتے ہيں جنہيں اپنے علم پر فخر ہوتا ہے ، يا اپنے مال پر گھمنڈ ہوتا ہے،يا اپنی طاقت وقوت پرناز ہوتاہے۔

توکل کی راہ ميں حائل چند  رکاوٹيں:

توکل کی راہ ميں کچھ ايسی رکاوٹيں بھی حائل ہوجاتی ہيں جوانسان کو توکل سے پھيرنے کا سبب بنتی  ہيں، مثلا:

ذات باری تعالی سے ناواقفيت:

 توكل كى راه ميں پہلی رکاوٹ ذات باری تعالی سے ناواقفيت ہے، يعنی اللہ تعالی کی عظمت وکبريائی ، اس کے علو شان اور اس کی قدرت کاملہ کا صحيح تصور نہ ہونا ہے ۔۔۔ آپ خود سوچيے کہ ايک شخص غيراللہ سے تعلق کيوں رکھتا ہے ؟ اگر وہ سمجھتا کہ اللہ تعالی ہی پروردگار ہے ، وہی خالق و مالک ہے ، اسی کے ہاتھ ميں ہر چيز کی بادشاہت ہے ، وہ جو چاہے وہی ہوگا، جو نہ چاہے وہ ہو نہيں سکتا ، اگر يہ عقيدہ ايک انسان کے ذہن ودماغ ميں رچ بس جائے تو کيا تصور کيا جا سکتا ہے کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی دوسرے سے لو لگائے گا ؟ ۔اللہ تعالی کے علاوہ کسی دوسرے کی دہائی دے گا ؟ جوشخص نہيں جانے گا کہ اللہ تعالی ہی کے ہاتھ ميں تمام خزانوں کی کنجی ہے آخر وہ اللہ تعالی پر توکل واعتماد کيسے کرسکتاہے؟ جو شخص نہيں جانے گا کہ اللہ تعالی ہرچيز پر قادر ہے، جب کسی چيز کوکہتا ہے کہ ہو جا تو ہوجاتی ہے آخر وہ اللہ تعالی پر توکل کيسے کرے گا؟ ايسا شخص ضرور مصيبت ميں پريشان ہوجائے گا، مصيبت سے چھٹکارے کے ليے در در ٹھوکريں کھائے گا ۔ اپنے ہی جيسی مخلوق کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھے گا- اسی ليے اللہ تعالی نے انسانوں کی عقل اور ضمير کو مخاطب کرتے ہوئےفرمايا:

إن الذين تدعون من دون اللہ عباد أمثالکم.

 بھئی خدارا سوچو تو سہی ! اللہ کے علاوہ تم جن کی عبادت کرتے ہو وہ بھی تم ہی جيسے بندے ہيں، لہذا تم اُن کو پکارو ، پھر اللہ تعالی نے فرمايا کہ ٹھيک ہے تم اپنے ہی ابنائے نوع کو پکارتے ہو تو پکارو:

فأدعوھم فليستجيبوا لکم إن کنتم صادقين.

جاؤپکارو! پھر اُن کو چاہيے کہ وہ تمہارا کہنا پورا کر ديں اگرتم اپنے دعوی ميں سچے ہو کہ واقعی وہ تمہاری سنتے اور ضرورت پوری کرتے ہيں ۔
پھر اللہ تعالی نے بطور استفہام فرمايا:
ألھم أرجل يمشون بھا...
کيا اُن معبودوں کے پاس پير ہے کہ وہ ان سے چل سکتے ہوں؟ يعنی جب وہ زندہ تھے تو چل سکتے تھے ، اب وہ چل بھی نہيں سکتے جبکہ تم چل سکتے ہو گويا تم اُن سے افضل ہوئے:

 أم لھم أيد يبطشون بھا ، أم لھم أعين يبصرون بھا أم لھم آذان يسمعون بھا

يعنی، تم تو اس سے زيادہ کامل ہو اب وہ ديکھ نہيں سکتے تم ديکھتے ہو، وہ سن نہيں سکتے تم سنتے ہو، وہ کسی کی بات سمجھ نہيں سکتے تم سمجھتے ہو ، وہ جواب نہيں دے سکتے تم جواب ديتے ہو۔ اب بتاوافضل تم ہوئے يا بت؟ اسی سورہ ميں دو آيت کے بعد اللہ تعالی نے فرمايا:

والذين تدعون من دونہ لايستطيعون نصرکم ولا أنفسھم ينصرون.

 تم جن لوگوں کی اللہ کے علاوہ عبادت کرتے ہو وہ تمہاری کچھ  مدد نہيں کرسکتے اور نہ وہ خود اپنی مدد کر سکتے ہيں بھلا بتائيں جو اپنی مدد آپ کرنے پر قادر نہ ہو ں وہ  دوسروں کی مدد کيا خاک کريں گے.
جوخود محتاج ہوئے دوسروں کا  
بھلا اس سے مدد کا مانگنا کيا 
بہرکيف عرض يہ کر رہا تھا کہ ذات باری تعالی کی صحيح آگہی نہ ہونے کی وجہ سے ہی ايک بندہ کے توکل ميں خلل آتا ہے.

دنيا ميں دل كا انہماک: 

اسی طرح توکل کی راہ ميں حائل رکاوٹوں ميں ايک اہم رکاوٹ دنيا اور اس کی متاع فانی سے دل کا متعلق ہونا ہے ۔
اس ليے اگر ہم توکل کے پيکر بننا چاہتے ہيں تو ہميں ذات باری تعالی کا صحيح عرفان حاصل کرنا ہوگا اور دنيا اور اس کی دل فريبيوں ميں انہماک کے اندرکمی لانی ہوگی ۔ 

1 تبصرہ:

گمنام نے لکھا ہے کہ

بہت ہی اچھا مضمون ہے جزا کم اللہ خیرا

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔