پیر, نومبر 18, 2013

تواضع شاه كليد

 تواضع ، خاکساری، انکساری اور فروتنی مقبول انسان کا ايسا اعلی و صف ہے جس کے ذريعہ ايک شخص دلوں پر قابو پا ليتا ہے، دلوں کا مالک بن جاتاہے ، لوگ اس سے قريب ہوتے ہيں، اس کے پاس بيٹھنے ميں فخر محسوس کرتے ہيں، اس کی عزت کرتے ہيں، اس کوپاکر خوش ہوتے ہيں،ہميشہ اس کی ياديں دل ميں تازہ رہتی ہيں ۔ اس طرح وہ دنيا ميں منظور عقيدت بن جاتا ہے ۔
غالبا آپ کوبھی اس کا تجربہ ہوگا کہ جب آپ کسی سے ملتے ہيں اور وہ آپ کے ساتھ نہايت عاجزی وانکساری سے پيش آتا ہے ، خندہ پيشانی سے بات کرتا ہے توفورا آپ کا دل گواہی ديتا ہے کہ يہ انسان بہت اچھا ہے ،اس کی محبت آپ کے دل ميں بيٹھ جاتی ہے ، اورآپ دوسروں کے سامنے اس کی خوبياں بيان کرنے لگتے ہيں ۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص آپ کے ساتھ برتری کا مظاہرہ کرتا ہے ، گھمنڈ اور تکبر سے پيش آتا ہے توآپ کا دل اس سے بدک جاتا ہے ، آپ اس سے نفرت کرنے لگتے ہيں، دوبارہ اس سے ملنے يا بات کرنے کے ليے آپ کی طبيعت آمادہ نہيں ہوتی ۔ خواہ وہ کتنا بڑا مالدار، کتنا بڑا تاجر، يا عالم وفاضل ہی کيوں نہ ہو ۔ اسلام ايک فطری مذہب ہے، اورانسانی طبائع اور رجحانات سے ہم آہنگ ہے اس ليے اس نے بندہ مومن کی صفت يہ بتائی کہ وہ متواضع ہوتا ہے، منکسرالمزاج ہوتا ہے، اس کے اندر فروتنی اور خاکساری ہوتی ہے ، مومن متکبر اور گھمنڈ نہيں ہو سکتا اور يہ صفت انسان کے اندر اس وقت پيدا ہوتی ہے جب وہ اللہ تعالی کے اسماء وصفات کی جانکاری حاصل کرليتا، اوراس کے علو شان وعظمت وجلال سے واقف ہوجاتا ہے، پھر اس کے بعد اپنے نفس پر غور کرتا ہے ، اس کی کميوں، کوتاہيوں اور کمزوريوں پر دھيان ديتا ہے تواسے اپنی حقيقت کا احساس ہوتا ہے کہ اس عظيم ہستی کے سامنے ہم جيسے قطرہ آب سے پيدا ہونے والے انسان کی آخر کيا حيثيت .... چنانچہ اس کے اندرخودبخود تواضع وانکساری پيدا ہوجاتی ہے ، اس طرح وہ کسی پر اپنے کو افضل نہيں سمجھتا ، بلکہ ہر شخص کو اپنے سے افضل سمجھتا ہے۔ ظاہر ہے انسان بلندی کی چوٹی پر ہی کيوں نہ پہنچ جائے ليکن وہ پيدا تو ہوا ہے ايک حقير قطرے سے اس ليے اسے اپنی حقيقت واصليت کو نہيں بھولنا چاہيے ۔
ايک مرتبہ اللہ کے رسول صلي الله عليه وسلم اصحابہ کرام کے بيچ بيٹھے تھے ،آپ نے سوچا کہ اپنے اصحاب کواسی حقيقت کی ياد دہانی کرائيں.... ذرا توجہ ديجيے سنن ابن ماجہ کی روايت ہے۔ آپ صلي الله عليه وسلم نے لوگوں کوسمجھانے کے ليے عملى اور تطبيقی اسلوب اختيارکيا، اپنی ہتھيلی پر تھوکا ، اور اس تھوک پر اپنی انگلی رکھی ، پھر فرمايا: اللہ تعالی فرماتا ہے:
 ياابنَ آدم اَتعجزنی وقد خلقتک مِن مثل ھذا (ابن ماجہ)
" اے ابن آدم تو اکرفو بنتا ہے اور فخر کرتا ہے ‘ کيا تو اس بات کی ہمت رکھتا ہے کہ جب ميں تجھے دوبارہ زندہ کرکے سڑا دوں تو تومجھ کو عاجز اور بے بس کردے ۔ ؟ حالاں کہ ميں نے تجھے اس تھوک جيسی گھٹيا چيز سے پيدا کيا ہے" ۔
جی ہاں ! تھوک جيسی گھٹيا چيز سے پيدا ہونے والے انسان کويہ کيسے زيب ديتاہے کہ اپنے ہی ابناء نوع پر اپنی انا ظاہرکرے، ان پراپنی ساکھ  بٹھانے کی کوشش کرے، اگرآپ کے پاس عاليشان محل ہے ، لذيذ کھانا کھاتے ہيں، نفيس لباس پہنتے ہيں، فراٹے بھرتی کارميں بيٹھتے ہيں، آپ کے پاس اچھا کاروبار ہے ، لاکھوں کے املاک ہيں تواس کا يہ مطلب ہرگز نہيں کہ آپ دوسروں کو حقير سمجھنے لگيں۔
سنن ترمذی ميں ہے نبی اکرم صلي الله عليه وسلم نے فرمايا:
" لوگ اپنے آباء پر فخر کرنا چھوڑ ديں، ورنہ وہ اللہ تعالی کے نزديک اس گندگی کے کيڑے سے بھی ذليل ہوں گے جو اپنے ناک سے گندگی کو ادھر ادھر کرتا ہے۔ جاہليت کا تکبراور آباء پر فخر کرنا  ترک  کر دو‘ سب کا باپ آدم ہے اور آدم مٹی سے بنے" ۔
حقيقت يہ ہے کہ تکبرانسان کو زيب نہيں ديتا کيوں کہ ساری کبريائی تومحض اللہ تعالی کے لئے ہے ۔ اللہ تعالی نے ايک حديث قدسی ميں ارشاد فرمايا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
 الکبرياء ردائی ،والعظمة ازاری، فمن نازعنی واحدا منهما قذفتہ فی النار.
 " تکبر ميری چادر ہے اور عظمت ميری ازار ہے، جس کسی نے ان دونوں ميں سے کسی ايک کے لئے ہم سے نزاع کيا ‘ہم اُسے جہنم ميں ڈال ديں گے" ۔

 تکبر کی شناعت کے ليے محض يہ جان لينا کافی ہے کہ يہ سب سے پہلا گناہ ہے جس کے ذريعہ اللہ تعالی کی نافرمانی کی گئی ۔ ابليس لعين وہ پہلا شخص ہے جس نے انانيت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت آدم عليہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کيا تھا اور يہ حجت پيش کی تھی:
 أنا خيرمنہ خلقتنی من نار وخلقتہ من طين .
ميں آدم سے بہتر ہوں، ميری پيدائش آگ سے ہوئی ہے، اور آدم کی پيدائش مٹی سے ہوئی ہے ، ميں ناری ہوں، وہ خاکی ہے، آگ کی صفت ہے اوپر اٹھنا اور خاک کی صفت ہے نيچے رہنا آخر ميں اسے سجدہ کروں تو کيسے؟ چنانچہ ابليس کا يہ قياس باطل اسے رحمت خداوندی سے ہميشہ کے لئے دور کرديتا ہے ۔

تواضع اور انکساری ذہنی سکون اور صحت مند زندگی کے ليے بہت ضروری ہے،اس کے برعکس تکبر کی وجہ سے انسان اخلاقی انحراف کا شکارہوجاتا ہے، راہِ حق سے بہت دورجا بيٹھتا ہے ،اب وہ حق کو ناحق اور ناحق کو حق سمجھنے لگتا ہے، کيوں کہ انانيت کا ديو جو اس کے سرپر سوار ہے اسے عجيب جنونی کيفيت ميں مبتلا کرديتا ہے ۔ بلکہ تکبرکرنے والا اللہ تعالی کی نظروں سے گرجاتا ہے:
 وکذلک يطبع اللہ علی کل قلب متکبر جبار(المومن 35)
"اسی طرح اللہ تعالی ہر متکبر سرکش کے دل پر مہر کرديتا ہے" ۔  
اور فرمايا: 
ساصرف عن آياتی الذين يتکبرون فی الارض بغيرالحق (الاعراف 126) 
"جو لوگ زمين ميں ناحق تکبرکرتے ہيں‘ميں انہيں اپنی آيتوں سے پھير دوں گا" ۔
صحيح مسلم ميں ہے:
 لاينظر اللہ إلی من جر إزارہ خيلاء (مسلم)
"جو شخص تکبر سے اپنا تہبند گھسيٹتا ہوا چلے اللہ تعالی اس کی طرف ديکھتا بھی نہيں"
 بخاری ومسلم ميں ہے:
 بينما رجل يجرإزارہ من الخيلاء خسف بہ فھو يتجلجل فی الأرض إلی يوم القيامة.
" ايک دفعہ کوئی آدمی تکبر سے اپنی تہبند کو گھسيٹتا ہوا چلا جا ہا تھا کہ اسے زمين ميں دھنسا ديا گيا تو وہ قيامت تک اس ميں دھنستا چلا جا رہا ہے" ۔

تکبر کرنے والوں پر جنت بھی حرام کردی گئی ہے، حديث ميں آتا ہے کہ:
 جس کے دل ميں رائی کے دانہ کے برابر بھی ايمان ہو وہ جہنم ميں نہيں جائے گا ، اور جس کے دل ميں رائی بھر بھی تکبر ہو وہ جنت ميں نہيں جاسکے گا".
کيوں کہ جنت کی پيدائش ہی خاکسار اور فروتنی برتنے والوں کے لئے ہوئی ہے جبکہ جہنم کی پيدائش سرکشوں اور گھمنڈوں کے لئے ہوئی ہے ۔ قيامت کے دن يہ لوگ چيونٹيوں کی طرح اکٹھے کيے جائيں گے کہ لوگ انہيں رونديں گے ،آگ ان پر چڑھ جائے گی ، يہ جہنميوں کی پيپ اور ان کے جسموں کا نچوڑ پئيں گے ۔ کيوں ؟ اسلئے کہ وہ دنيا ميں اکرفو بنے تھے ، مال ودولت کے نشہ ميں غريبوں کو حقير سمجھا تھا
  جس طرح تکبر تمام ذلتوں، رسوائيوں، ہلاکتوں، اور برباديوں کی بنياد ہے اسی طرح تواضع تمام رفعتوں، سربلنديوں، کاميابيوں اور کامرانيوں کی کليد ہے-
 ابن عطا ؒ کہتے ہيں آدمی کی عزت تواضع ميں ہے لہذا جس نے تکبر ميں عزت تلاش کيا، وہ گويا کہ آگ سے پانی چاہتا ہے.
 اور سنن بيہقی کی ايک حديث ميں آتا ہے:
 من تواضع للہ رفعہ اللہ فھوفی نفسہ صغير وفی أعين الناس عظيم ومن تکبر وضعہ اللہ فھوفی أعين الناس صغير وفی نفسہ کبير حتی لھو أھون عليہم من کلب وخنزير.
 " جو شخص اللہ کے ليے تواضع اختيار کرے تو اللہ تعالی اسے بلند کرتا ہے چنانچہ وہ اپنی نگاہ ميں تو چھوٹا دکھائی ديتا ہے ليکن لوگوں کی نگاہ ميں بڑا ہوتا ہے ۔ اور جو شخص تکبر کرے تو اللہ تعالی اس کو پست کرديتا ہے تووہ لوگوں کی نگاہ ميں چھوٹا اور اپنی نگاہ ميں بڑا ہوتا ہے ۔ يہاں تک کہ وہ لوگوں کی نگاہ ميں کتوں اور خنزير سے بھی گھٹيا سمجھا جاتا ہے" ۔
 ذرا حديث پر غور کريں يہ حديث واقعی انسانی طبيعت کی ترجمانی کرتی ہے خاکسار انسان اپنی خاکساری کے باعث عزت پاتا ہے ،اور متکبر انسان اپنے تکبر کے باعث لوگوں کی نظر ميں نہايت گھٹيا سمجھا جاتاہے ۔ 
سرکار دوعالم ساری انسانيت ميں سب سے افضل تھے ،آپ کے جيسا انسان نہ اس دھرتی پر پيدا ہوا نہ ہو سکتا ہے ليکن پھربھی آپ عاجزی وانکساری کے پيکر تھے ، آپ کی پوری زندگی سراپا تواضع تھی آپ اہل خانہ کے کام کاج ميں ہاتھ بٹاتے ، بکرياں دوہتے، جوتا سيتے، کپڑے پر پيوند لگاتے، بازاروں سے چيزيں خريدتے، آپ سے جو بھی ملتا اسے سلام کرنے ميں پہل کرتے، بچوں تک کو سلام کرتے، زمين پر بيٹھ کر کھانا کھاتے، موٹا پہنتے، گدہے پر سواری کرتے، اپنے غلام کو سواری پر پيچھے بيٹھا ليتے، اپنے جانوروں کو اپنے ہاتھ سے چارہ کھلاتے ، اپنے اصحاب کے ساتھ گھل مل کر رہتے اور ہرچھوٹے بڑے کام ميں ان کا ساتھ ديتے تھے۔
 يہی شان آپ کے تمام اصحاب ، اور ہر زمانے ميں اللہ والوں کی بھی تھی ۔ خليفہ وقت ابوبکر صديق رضي الله عنه کو ديکھو کہ مسلمانوں کو روزانہ فجر کی نماز پڑھاکر جب نکلتے ہيں تو چھپ کر مدينہ کی ايک ايسی خاتو ن کے گھر داخل ہوتے ہيں جو نہايت عمردراز ہے اور بينائی سے محروم ہے ، اس کا سارا کام کر ديتے ہيں،اور اسے کھلا پلاکر نکلتے ہيں ۔روزانہ کا يہی معمول ہے ۔
 اوريہ عمر فاروق رضي الله عنه  ہيں کہ اپنے زمانہ خلافت ميں ايک دن لوگوں کو اکٹھا کرکے منبر سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہيں :
”لوگو! تم نے مجھے ديکھا ہے‘ميں بنو مخزوم ميں سے اپنی خالاؤں کی ديکھ ريکھ  کرتا جس کے بدلہ ميں وہ مجھے ايک مٹھی کھجور يا کشمش ديا کرتی تھیں، ميں پورا دن اسی پر گذربسر کرتا‘ وہ ميرے ليے کتنا سخت دن تھا‘ اتنا کہہ کر منبر سے اُترگئے  حضرت عبدالرحمن بن عوف رضي الله عنه  نے کہا :اميرالمومنين ! يہ بات کہہ کر آپ نے صرف اپنی بے عزتی کی ہے ۔ حضرت عمر فاروق رضي الله عنه  نے کہا : ابن عوف تم پر افسوس ہے .... ميں تنہائی ميں تھااتنے ميں ميرے دل ميں يہ خيال آيا کہ تم تواميرالمؤمنين ہو، تم سے افضل کون ہے ؟ چنانچہ ميں نے سوچا کہ ميں اپنے نفس کو اس کی اوقات بتادوں ۔
 حضرت عمرفاروق رضي الله عنه  کے تواضع سے متعلق ايک دوسرا واقعہ ہے:
شاہ فارس کسری نے خليفہ ثانی عمرفاروق رضي الله عنه  کے نام ايک پيغام بھيجا ،قاصد جب پيغام لے کر مدينہ پہنچا تولوگوں سے پوچھا کہ خليفہ کا محل سرا کہا ں ہے ؟ لوگوں نے بتايا کہ ان کے پاس کوئی محل سرانہيں ، قاصد کويہ بات سن کربڑی حيرت ہوئی ،پھرايک صاحب اس کو لے کر گيے تاکہ اميرالمومنين سے اس کی ملاقات ہوسکے ، اميرالمومنين ايک درخت کے نيچے سو رہے تھے ،انہوں نے قاصد کو اشارہ سے بتاديا کہ وہ ديکھو اميرالمومنين سورہے ہيں۔ قاصد يہ ديکھ کر انگشت بدنداں رہ گيا کہ جس بادشاہ کے نام سے قيصر وکسری کی حکومتيں لرزہ براندام ہيں وہ بادشاہ معمولی مٹی پر سو رہا ہے ۔
قريش کے چند افراد ايک دن حضرت سلمان فارسی رضي الله عنه  کے ساتھ بيٹھے تھے، اس وقت آپ مدائن کے گورنرتھے ، لوگ آپ کے سامنے اپنے اپنے حسب و نسب ، جاہ ومرتبہ، اور مال ودولت کا فخريہ انداز ميں ذکر کرنے لگے‘ تب سلمان فارسی رضي الله عنه  نے ان سے کہا : جہاں تک ميری بات ہے توميں شروع ميں تو حقير نطفہ تھا ،پھر بدبودار لاش ہوجاؤں گا، پھر ايک دن ميزان کے پاس آؤں گا ، اگر ميزان پر ميرے نيک اعمال بھاري رہے توشريف ہوں ، اور اگر ہلکے پڑگيے تو رذيل ہوں۔
حضرت عمربن عبدالعزيز رحمه الله کے اندر بھی بڑی سادگی ، اور انکساری تھی:
ايک دن ان کے پاس ايک مہمان آيا ، مہمان کی موجودگی ميں اچانک چراغ بجھ ہوگيا ، عمربن عبدالعزيز رحمه الله فورا کھڑے ہوئے اور اپنے ہاتھ سے چراغ کو درست کيا‘ مہمان نے کہا: آپ کوتکليف اٹھانے کی کيا ضرورت تھی، ہميں حکم ديا ہوتا يا نوکر کو آواز دے ديتے۔ عمربن عبدالعزيز رحمه الله  نے فرمايا: ميں کھڑا ہوا تو عمرہی تھا اور لوٹ کر آيا تو عمر ہی ہوں، ہمارے اندر کوئی کمی واقع نہ ہوئی ،اور اللہ تعالی کے پاس بہتر وہ ہے جو متواضع اور خاکسارہو۔
بہرکيف تواضع ، اور خاکساری ايک مومن کی صفت ہے جس کا بدلہ جنت ہے اور تکبر وگھمنڈ سرکشوں ،ظالموں اور اللہ کے نافرمانوں کا وصف ہے جس کا بدلہ جہنم ہے تب ہی تو فرمايا گيا لايدخل الجنة من کان فی قلبہ مثقال ذرة من کبر جس کے دل ميں ذرا برابر بھی گھمنڈ ہوگا وہ جنت ميں داخل نہيں ہو سکتا ۔ اللہ تعالی ہم سب کو متواضع بنائے اور کبر وغرور سے دور رکھے آمين يا رب العالمين


0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔