علم زندگی کی حفاظت کا سامان اور شرافت کی کلید ہے، اس سے انسان کے
اندراخلاقی قدریں پیدا ہوتی ہیں اوراسے جینے کا سلیقہ آتا ہے ،انسان نے اس دنیا میں
جوبھی تخلیق پیش کی ہے علم کی بنیاد پرکی ہے ،ہردورمیں قوموں کی امامت انہیں
لوگوںکے ہاتھوںمیں رہی ہے جو علم کے تاجدار سمجھے گئے ہیں،جبکہ جہالت گنوارپن کی
علامت ہے اورجاہل قومیں ہمیشہ غلامانہ سوچ کی حامل رہی ہیں ،علم وفن سے محروم قوم
کی حیثیت مٹی کے ڈھیر کی ہے جسے قدموںکے نیچے بچھایاجاتا اورہمیشہ پاؤں سے رونداجاتاہے، جہالت ہر برائی کا سرچشمہ اورعلم ہر بھلائی کا
منبع ہے ،معاشرے میں جو برائیاں سراٹھاتیںاورپنپتی ہیں ان کے پیچھے جہالت کی
کارفرمائی ہوتی ہے اورمعاشرے سے جن برائیوںکا خاتمہ ہوتا ہے ان کے پیچھے علم کی
بالادستی ہوتی ہے ۔آپ تصورکریںکہ آ ج سے ساڑھے چودہ سوسال پہلے جب رحمت عالم صلی
اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے سرفراز فرمایاگیا اورآپ پر غارحرامیں پہلی وحی اتری تو
اس وقت جزیرة العرب میں شرک عام تھا، بے حیائی کا غلبہ تھا ،ظلم وزیادتی سرچڑھ
کربول رہی تھی اورلوگ انسانیت کی سطح سے بہت نیچے جاچکے تھے،حق تویہ تھاکہ پہلی وحی
میں شرک کی تردید کی گئی ہوتی ، ظلم وزیادتی اوربے حیائی سے روکاگیاہوتا لیکن پہلی
وحی کا آغاز’اقرأ ‘سے ہوتاہے جس میں علم
پرابھاراگیاتھا ،لکھنے اورپڑھنے کی ترغیب دلائی گئی تھی، کیونکہ علم روشنی ہے جس
سے جہالت کی تاریکی دور ہوتی ہے ، جب علم کی روشنی پھیلے گی تو جہالت کی اندھیر
گھٹائیں خود بخود چھٹ جائیں گی ۔
علم کی اہمیت کا احساس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنازیادہ تھا کہ آپ
نے مدینہ پہنچتے ہی مسجد نبوی کی تعمیرکی تواس کے ایک حصے میں تعلیم گاہ بھی بنائی
جس میںاصحاب صفہ کی تعلیم اوررہائش کا بندوبست تھا ،غزوہ بدر کے موقع سے اسیران
بدرمیںجوپڑھے لکھے لوگ تھے ان کی رہائی کا فدیہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
نے یہ طے کیاکہ دس مسلمانوںکو لکھنا پڑھنا سکھادیں ۔
اسلام دین فطرت ہے جوعلم کی حوصلہ افزائی اورجہالت کی حوصلہ شکنی
کرتا ہے،اوردین کے بنیادی علم کے حصول کوہرمسلمان مرداورعورت کا واجبی فریضہ
ٹھہراتا ہے۔کیوںکہ اسی کے ذریعہ انسان اپنے خالق ومالک کا عرفان حاصل کرتا ہے
اوراس کے حق کی کماحقہ ادائیگی کرسکتا ہے ،اللہ کی ایک صفت العلیم ہے ،یعنی سب کچھ
جاننے والی ذات ،آدم علیہ السلام کوفرشتوںپر علم کی بدولت برتری حاصل ہوئی ، یہ
علم ہے جسے سیکھنے کے لیے آدمی نکلتا ہے تواس کے لیے جنت کا راستہ آسان کردیاجاتاہے
، فرشتے اس کے راستے میں پر بچھاتے ہیں ،عالم کے لیے زمین وآسمان کی ساری مخلوق یہاں
تک کہ سمندر کی مچھلیاں بھی دعا کرتی ہیں ۔اس سے بڑھ کر عظمت ،فضیلت اوربرتری اورکیاہوگی
کہ ہمارے لیے فرشتے جو نورانی مخلوق ہیں پر بچھادیں اور سمندرکی مچھلیاں بھی دعا
گوہوں۔علم کی اسی اہمیت کی بنیادپر اللہ پاک نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ اس میں
اضافہ کی دعا کرتے رہیں، اسلام قول وعمل سے پہلے علم سیکھنے کا حکم دیتا ہے ،
اورمعبودبرحق کی گواہی دینے سے پہلے اس کا عرفان حاصل کرنا لازمی ٹھہراتا ہے جس سے
پتہ چلتا ہے کہ ایک مسلمان جاہل نہیں ہوسکتا ۔
اسلام نے دینی اوردنیاوی علم میں تفریق نہیں کی ،اسلام اپنے ماننے
والوں کوہر نفع بخش علم سیکھنے پر ابھارتا ہے، قرآن کریم میں آفاق وانفس پر
باربارتدبر اورتفکر کرنے اورکائنات کے سربستہ اسرارکو معلوم کرنے کی دعوت دی گئی
ہے، علم کی یہی اہمیت تھی کہ مسلمانوں نے اسے سیکھنے اورسکھانے میں ریکارڈ قائم
کردیا۔دین اوردنیا کے سارے علوم میں درک حاصل کیا ، مسلمانوں نے دینی اوردنیوی
دونوں میدانوںمیں انسانیت کی رہنمائی کاشرف حاصل کیا، جہاں تاریخ میںامام ابن تیمیہ
،امام ذہبی ،اورامام بخاری کی دینی خدمات ناقابل فراموش ہیں توجابربن حیان ،ابن ہیثم
اورابن سینا کی سائنسی اورطبی خدمات درخشاںاورتابندہ ہیں۔تاریخ شاہد ہے کہ جب امریکہ
اپنے تاریک دورسے گذررہا تھا اس وقت غرناطہ ، اسپین اور بغداد میںمسلمانوں کے علم
کی طوطی بولتی تھی۔یورپ کا ایک تاریک دوروہ گذراہے جس میں مذہب کی بالادستی تھی،عیسائی
راہبوںاورپادریوں نے جدیدعلوم کی سخت مخالفت کی تھی اورجن لوگوں نے سائنسی تحقیق کی
جرأت کی انہیں عبرتناک سزائیں دی گئیں، لیکن اسلام اورمسلمانوں نے کبھی علم کو
مذہب کے خلاف نہیں سمجھا ،دنیا کی تاریخ میں مسلمانوں نے علم کے میدان میں جس
قدرمحنت کی کسی قوم نے نہیں کیا ،آج یورپ میں جو سائنسی سیلاب آیا ہے،یہ دراصل
مسلمانوں کے سائنسی ارتقاءکی رہین منت ہے ۔ اسی طرح اسلامی لائبریریوںمیںاسلامی
کتابوں کے جو حیرت انگیز ذخیرے پائے جاتے ہیں یہ انہیں علماءکی کوششوں کا نتیجہ ہے
۔
لیکن افسوس کہ جس قوم کوپڑھنے کی سب سے زیادہ تاکید کی گئی تھی ،جس
قوم کے ہاتھوںمیںقلم تھمایاگیاتھا ،جس قوم کے مذہب نے اپنے ماننے والوںکو ہر نفع
بخش علم پر ابھاراتھا،جس قوم کی پہچان علم سے ہوتی تھی آج وہ قوم علم کے میدان میں
ساری دنیا سے پیچھے ہے ۔لیکن جس قوم کا دین اس کی تحقیق کی راہ میں مزاحم ہوا ، اس
نے اپنے دھرم کی پرواہ کیے بغیرجرأت تحقیق کی اورمسلم سائنس دانوں کے علم سے خوشہ چینی
کرکے اپنی پہچان بنائی اورپوری دنیا پراپنی سیاسی اوراقتصادی بالادستی حاصل کرنے میں
بالآخرکامیابی حاصل کرلی ۔یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ہمارے آباءنے علم کے موتی چنے
تھے لیکن آج وہ اغیارکی جھولی میں چلے گئے ،صدیاں گذرگئیں اورہم سائنس وطب کے میدان
میں کوئی سنجیدہ کام نہ کرسکے ،اس علمی افلاس پر جتنا سردھنا جائے کم ہے،اقبال نے
اسی کا رونا رویاتھا
یہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباءکی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
سائنس
اورٹکنالوجی کے میدان میں مسلمان ادبار کا شکارتو ہیں ہی دینی علوم میں میں بھی ان
کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں ہے ،آج قوم کے تین چارفیصد بچے جو دینی مدارس میں زیر
تعلیم ہیں،ہرسال ہزاروں کی تعداد میں فارغ ہوتے ہیں لیکن نہ جانے انہیں زمین نگل
جاتی ہے یا آسمان اچک لیتی ہے ، مساجدکے منبرومحراب کے لیے قابل ائمہ وخطباءنہیں
ملتے، مسندتدریس سنبھالنے کے لیے لائق اساتذہ نہیں ملتے ، دعوتی کام کے لیے تجربہ
کاردعاة کی کمی ہے ۔قوم کے خواص کی جب یہ صورتحال ہوگی توعوام کی حالت کا اندازہ
لگانا کوئی مشکل نہیں ہے ۔ہمارے بیچ جولوگ تعلیم یافتہ سمجھے جاتے ہیںان کا علم سے
لگاؤ بہت کم دکھائی دیتا ہے ،جس ملازمت سے جڑے ہوتے ہیں ان میںآگے بڑھنے اورجدت
لانے کے لیے فکرمندنہیں ہوتے ، ان کے نزدیک علم میں اضافہ کے لیے کسی طرح کی سنجیدہ
کوشش بیکار معلوم ہوتی ہے۔جب صورتحال ایسی ہوگی تو اس قوم کا مقدرزوال کے علاوہ
اور کیا ہوسکتاہے ۔ اللہ تعالی ہمارا حامی وناصر ہو۔
0 تبصرہ:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔