ايک مرتبہ ايک ديہاتی کسی ٹيلے پربيٹھا بکريوں کی رکھوالی کر رہا تھا، اتنے ميں ايک بندر ايک بندريا کے ساتھ آيا اور اس کے ہاتھ پر اپنا سر رکھ کر سو گيا، جوآپس ميں مياں بيوی تھے۔ تھوڑی دير کے بعد ايک چھوٹے قد کا دوسرا بندر آيا ، اس نے بندريا کو اپنی آنکھوں سے اشارہ کيا ، بندريا نے پہلے بندر کے سرکے نيچے سے اپنا ہاتھ کھينچا اور آہستہ سے دوسرے بندر کے ساتھ چل نکلی ، ذرا دور جاکر يہ چھوٹے قد کا بندر بندريا سے زنا کرنے لگا۔ ادھرديہاتی ٹيلہ پر بيٹھا يہ سارا منظر ديکھ رہا تھا ، پھر وہ بندريا واپس آئی اور چپکے سے آہستہ آہستہ سوئے ہوئے بندر کے رخسار کے نيچے اپنا ہاتھ گھسانے لگی ( تاکہ اُسے باور کرايا جا سکے کہ اب تک وہ بھی سو رہی ہے) ، اچانک وہ بندر گھراہٹ کی حالت ميں بيدار ہوا ، اور بندريا کی بو سونگھ کر زور زور سے چلانے لگا، يعنی اُسے يقين ہوچکا تھا کہ اس نے خيانت کی ہے۔ اس کی آواز سن کر دوسرے بہت سے بندر اس جگہ جمع ہو گيے ، اکٹھا ہونے والے بندر( اس کی بات سمجھ کر زانی بندر کی تلاش ميں) دائيں بائيں پھيل گيے ، ذرا ہی دير ميں وہ بندر يرغمال بناکر لايا گيا ۔ پھر سب بندروں نے مل کر اُن دونوں کے ليے ايک گڑھا کھودا اورسب نے مل کر دونوں کو سنگسار کرديا ۔
اس
قصے کو حافظ ابن حجر رحمه الله نے فتح الباری ميں بيان کيا ہے جس کے راوی مخضرم تابعی عمروبن ميمون رحمہ اللہ ہيں ، صحيح بخاری ميں بھی اجمالاً اس کا بيان
ہوا ہے:
رأيت فی الجاہليہ قردة زنت فاجتمع عليہا قردة فرجموھا ورجمتھا معھم.
ميں نے زمانہ جاہليت ميں ايک بندريا کو ديکھا جس
نے زنا کا ارتکاب کيا تھا تو دوسرے بندر اس کے پاس اکٹھا ہوئے اور اس کو سنگسار کيا
اور ميں نے بھی ان کے ساتھ اسے پتھر مارا ۔
اس قصے ميں حيوانات کی غيرت بيان کی گئی ہے ،کہ
جانوروں کی دنيا ميں بھی غيرت پائی جاتی ہے ، يہاں تک کہ بندر اور بندريا نے جب
زنا کيا تو ان دونوں کو جان سے ہاتھ دهونا
پڑا۔ گويا بندروں کی دنيا ميں بھی زنا کاروں کی سزا سنگسارہے ۔ ميں نے يہ قصہ اس ليے
بيان کيا تاکہ ہم جان سکيں کہ وہ غيرت وحميت جو فطرت کی آواز تھی جس کا وجود انسان
تو کجا جانوروں کی دنيا ميں بھی پايا جاتا ہے آج مغربی تہذب کے زير اثرہمارے بيچ
اجنبی ہوتی جا رہی ہے ۔ دوستو!جب حيوانات کی غيرت کا يہ عالم ہے تو آپ خود بخود
اندازہ لگا سکتے ہيں کہ انسان کی غيرت کيسی ہونی چاہيے ؟ جو اشرف المخلوقات ہے ،
جسے اللہ تعالی نے عقل وشعور سے نوازا ہے ۔
جب
لوگ فطرت پر تھے تو ان کے اندر کوٹ کوٹ کر غيرت پائی جاتی تھی کيوں
کہ اللہ تعالی نے انسانی فطرت کے اندر غيرت رکھی ہے ليکن جب سے فکری جنگ شروع ہوئی، آلات جديدہ ريڈيو، ٹيليويزن، ڈش، اور انٹرنيت وغيرہ منظرعام پر آئے تب سے ہماری غيرت
کا جنازہ نکلنا شروع ہوا ، دشمنوں نے سوچی سمجھی اسکيم کے تحت ہم پر شب خون مارا
اور ہماری فکر کوپوری طرح اپنے قبضے ميں کرليا۔ آئيے ذرا ہم اس کھوئی ہوئی نعمت کی
حقيقت کو جانيں اور ديکھيں کہ جب لوگ فطرت پر تھے توکيسی غيرت ان کے اندر پائی جاتی
تھی اور جب سے لوگوں نے فطرت سے بغاوت کيا توکہاں جاکر ان کی غيرت نے دم ليا؟ ۔
زمانہ جاہليت جس وقت کا حال يہ تھا کہ لوگ
جانوروں کی سی زندگی گذار رہے تھے، ايسے بدترين زمانے ميں بھی اُن کی غيرت زندہ تھی
۔ ان کے ہاں يہ شعر بہت مشہور تھا اصون عرضی بمالی لا ادنسہ لا بارک اللہ بعد
العرض فی المال يعنی ميں اپنے مال سے زيادہ اپنی عزت کی حفاظت کرتاہوں، کيوں کہ
اپنی عزت پر دھبہ لگتے ديکھ نہيں سکتا ، عزت و آبرو کے لٹنے کے بعد اللہ مال و
دولت ميں برکت نہ دے ۔ يعنی عزت ہی نہ رہی تو مال و دولت کا کيا فائدہ ۔ ان کے بيچ
يہ محاورہ بھی بہت مشہور تھا:
تجوع الحرة ولا تأکل بثدييھا
يعنی شريف عورت بھوکی رہ
سکتی ہے ليکن قحبہ گری کی کمائی نہيں کھا سکتی ۔يعنی جاہلی لوگوں کے اندر يہ تصور
تک نہيں تھا کہ آزاد عورت اپنی عزت بھی بيچ سکتی ہے، يہی وجہ ہے کہ فتح مکہ کے سال
جب ہند رضي الله عنها نے اسلام قبول کيا اور وہ دوسری عورتوں کے ساتھ نبی اکرم صلي الله عليه وسلم سے بيعت کرنے کے ليے
آئيں تو آپ صلي الله عليه وسلم نے جن چيزوں پر بيعت ليا ان ميں ايک زنا کی ممانعت
کا ذکرکيا ۔ يہ سنتے ہی ہند رضي الله عنها نے تعجب سے کہا :
أو تزنی الحرة يا رسول اللہ؟
"اے اللہ کے رسول ! کيا آزاد عورت بھی کہيں زنا کا ارتکاب کرتی ہے؟ "
جب
نبی پاک صلي الله عليه وسلم کی بعثت ہوئی، توآپ نے نہ صرف صفت غيرت کو باقی رکھا
بلکہ مزيد دوآتشہ کرديا ليکن اسلامی حدود ميں رہتے ہوئے ، اعتدال کے ساتھ آپ نے
عورتوں کو ان کا کھويا ہوا حق عطا کيا ۔ فطری خواہش کی تکميل کے ليے شادی کے پاکيزہ
رشتہ کو رواج ديا ، اور مرد و عورت دونوں کا اپنا اپنا دائرہ کار متعين کيا تاکہ
کسی طرح عزت وآبرو پر آنچ نہ آنے پائے ، چنانچہ اسلام کے تابناک ادوار ميں اس پر
عمل ہوتا رہا ،اور اللہ والے حوا کی بيٹيوں پر غيرت کھاتے رہے ۔
حضرت علی رضي الله
عنه نے اپنے زمانہ کی مسلم خواتين پر غيرت کھاتے ہوئے کہا تھا:
بلغنی أن نساءکم ليزاحمن العلوج فی الأسواق، أما تغارون ؟ إنہ لا خير فيمن لا يغار
"مجھے خبر ملی ہے کہ
تمہاری عورتيں اب بازاروں ميں مردوں کے ازدحام ميں نکلنے لگی ہيں ، کيا تمہيں ان
عورتوں کے بازاروں کی طرف نکلنے سے غيرت نہيں آتی ؟ جس کے اندر غيرت نہيں اس کے اندر
کوئی بھلائی نہيں" ۔
اگرآج چوتھے خليفہ زندہ ہوتے اور ہماری مائيں اور
بہنيں جس کيفيت ميں بازاروں کی سير کررہی ہيں اُسے ديکھتے تونہ جانے کيا کہتے ۔ آپ
کہيں گے يہ تو سنہرے ادوار کی بات ہے جبکہ لوگ اللہ والے تھے ، آج وہ زمانہ نہيں
رہا تو آئيے ذراہم آگے بڑھ کر تيسری صدی ہجری ميں داخل ہوتے ہيں.
علامہ
ابن جوزی رحمه الله المنتظم ميں لکھتے ہيں :
قاضی موسی بن اسحاق مقام ری ميں
جج کے عہدے پر فائز تھے ۔ ان کی عدالت ميں ايک مسلم خاتون آئی اور مقدمہ دائرکيا
کہ ميرے شوہر نے ميرے مہر کی رقم ہڑپ کر رکھا ہے جس کی مقدار پانچ سو دينار ہے ، ليکن
شوہر نے عدالت ميں جاکرجج کے سامنے صراحت سے انکار کرگيا کہ اس کی بيوی کا کوئی حق
اس کے اوپر ہے قاضی نے شوہر سے اپنے دعوی کی صداقت پرگواہ پيش کرنے کو کہا : شوہر
نے عدالت ميں گواہ پيش کردئيے۔ جج نے کہا گواہی دينے سے پہلے ضروری ہے کہ گواہ
تمہاری بيوی کا چہرہ ديکھ لے تاکہ پہچان ميں کسی قسم کے شبہ کی گنجائش نہ رہے ۔
شوہر نے جب جج کا فيصلہ سنا تو اس کی غيرت جاگ اٹھی اس نے بھری عدالت ميں کہا : يہ
ہو نہيں سکتا کہ ميری بيوی کا چہرہ کوئی غيرمحرم عورت ديکھے اور ہاں ميں جج کے
سامنے اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ ميری بيوی اپنے دعوی ميں برحق ہے اور واقعی ميں
نے اس کے مہر کی رقم ہڑپ کر رکھی ہے ۔ جب بيوی نے اپنے شوہر کی يہ غيرت کا يہ
حال ديکھا تو اس نے بھی جج کے سامنے اعلان کرديا کہ ميں اپنے مہرکی رقم اپنے شوہر
کو ہبہ کرتی ہوں اور ميں نے دنيا وآخرت ميں انہيں اس سے بری کرديا ۔ جج نے يہ سن
کرکہا : يہ بات مکارم اخلاق ميں لکھے جانے کے قابل ہے ۔
ديکھا
آپ نے ابتدائے اسلام کے مسلمانوں ميں کيسی غيرت وحميت تھی ؟ ليکن يہ غيرت محض اپنی
بيوی بچيوں تک محدود نہ تھی ،بلکہ ساری مسلم ماوں اور بہنوں کو شامل تھی ، آئيے
ذرا جگرتھام کر يہ واقعہ بھی سماعت فرمائيے اور ان کی غيرت کے مقابلہ ميں اپنی غيرت
کا موازنہ کيجيے.
خليفہ معتصم کے زمانے ميں عراق کے شہر عموريہ کی ايک مسلمان عورت
کو ايک رومی فوجی نے برہنہ کرديا ۔خاتون انتہائی غيرت کے عالم ميں يہ کہتے ہوئے
زوردار آواز لگائی:
”وامعتصماہ“(اے معتصم !ميری عزت وآبرو کو بچالو)
عورت کی درد
انگيز آواز کو ايک مسلمان نے سنا تواس نے عراق پہنچ کر معتصم کوحقيقت حال سے آگاہ
کيا ۔يہ سنتے ہی خليفہ معتصم کی غيرت جاگ اٹھی اور وہ اپنی کسی سے يہ تاريخی جملہ
کہتے ہوئے اٹھا واللہ لايمس شعری غسلا من جنابة حتی آخذ الحق لتلک المراة من ذلک
الکافرقسم اللہ کی جنابت کی وجہ سے ميرے بال کواس وقت تک پانی نہيں چھو سکتا جب تک
کہ اس کافرسے مسلمان عورت کا حق نہ دلا دوں ۔ خليفہ معتصم نے فورا لشکر کشی کی اور
عموريہ کی اينٹ سے اينٹ اور اس رومی مجرم کو گرفتا رکرکے عورت کے قدموں ميں ڈال ديا
کہ جو چاہے فيصلہ دے ۔
مسلم معاشرے ميں فقدان غيرت کی چند جھلکياں:
جب انسان کے اندر سے غيرت نکل جاتی ہے تووہ
انسانيت کی سطح سے نيچے گرنے لگتا ہے ، غيرت کے فقدان کی وجہ سے آج مسلم معاشرے
اور غيرمسلم معاشرے ميں تميز مشکل ہوچکی ہے ، اس مناسبت سے ہم مسلم معاشرے ميں
فقدان غيرت کی چند جھلکياں پيش کرنا چاہيں گے:
٭آج
فقدان غيرت کا نتيجہ ہے کہ ہمارے سماج ميں قريبی رشتے داروں سے بے احتياطی پائی
جاتی ہے ، مشترکہ طرز رہائش نے تواس مسئلے کو اور نازک بنا ديا ہے ، ايک گھرميں دوتين
بھائيوں کے رہنے کی وجہ سے پردے کا اہتمام بالکل نہيں ہوتا، ديور يعنی شوہرکا بھائی
جسے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے عورت کے حق ميں
موت بتايا ہے اس سے پردہ کرنا تو دقيانوسيت خيال کيا جاتا ہے ۔ حالاں کہ بخاری
ومسلم کی حديث ہے ايک موقع سے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے
فرمايا:
إياکم والدخول علی النساء"تم تنہائی ميں عورتوں کے پاس جانے سے بچو"۔
يہ
ارشاد سن کر ايک انصاری صحابی نے عرض کيا : اے اللہ کے رسول : عورت کے پاس جانے سے
متعلق ديور کے بارے ميں کيا حکم ہے ؟ آپ نے فرمايا : الحمو الموت ديور تو عورت کے
حق ميں موت ہے ۔
٭ہمارے
معاشرے ميں فقدان غيرت کی ايک مثال يہ بھی ہے کہ سالياں بہنوئی سے پردہ نہيں کرتيں،
بہنوئی سالی سے ہنسی مذاق اپنا حق سمجھتا ہے اسی طرح سالياں بہنوئی سے بے تکلف بات
چيت اور ہنسی مذاق اپنا حق سمجھتی ہيں ، حالاں کہ شريعت نے ہميں اس کی قطعاً اجازت
نہيں دی ۔
٭ہمارے
معاشرے ميں دوستوں يا تعلقاتی لوگوں کو اپنے گھروں ميں آنے جانے کی کھلی آزادی دے
دينا بھی فقدان غيرت کی ايک واضح مثال ہے ۔ دوستی اچھی چيز ہے ، ليکن گھر سے باہر،
اجنبی مرد چاہے دوست ہو يا کوئی اور اُس کا بے تکلف گھرميں آنا جانا فتنے سے خالی
نہيں۔الا يہ کہ پردے کا اہتمام کيا جائے ۔ لہذا ہمارے ايمان کا تقاضا ہے کہ ہم
دوستی کريں ضرورليکن اسے اپنے گھر کے ليے فتنہ نہ بنائيں۔دوستی ہو گھر سے باہر.
معاشرے
سے غيرت کے فقدان ميں سب سے نماياں کردار اليکٹرانک اور پرنٹ ميڈيا نے انجام ديا ہے
۔ ريڈيو ، ٹيليويژن ، ڈش اور انٹرنيٹ نے امت مسلمہ کی نئی نسل کوبہت آسانی سے ذہنی
عياشی کا شکار بنا ديا ہے ۔ ڈش اور انٹرنٹ نے فحش پروگراموں کو نشر کرکے نئی نسلوں
کو جنسی ہوس کی آگ ميں جھونک ديا ہے ۔ فحش لٹريچر، گندے ناول، مخرب اخلاق مجلات ،
او رعرياں تصويروں سے مزين روزنامے،ہفت روزے، اور ماہنامے معاشرے ميں فحاشی پھيلانے
ميں نماياں کردار ادا کر رہے ہيں ۔
اس
کے اسباب کيا ہو سکتے ہيں ؟ ظاہر ہے ايمان کی کمزوری، قرآن وسنت کی تعليمات سے دوری،
او رنئی نسل کی دينی تربيت سے بے توجہی ہے ۔ اور سب پہلے فکری جنگ کی کاميابی ہے ۔
يہ بات نوٹ کرليں کہ جب يہوديوں کو صليبی جنگوں ميں منہ کی کھانا پڑی ، توانہوں نے
سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت عسکری جنگ کی بجائے فکری جنگ شروع کی، چوں کہ اسلام اور
مسلمانوں سے اُن کا بغض وحسد روزاول سے ہے اس ليے ان کی نظر عنايت مسلم ممالک
پرکچھ زيادہ ہی رہی ۔انہوں نے ہماری غفلت سے فائدہ اٹھايا اور ہماری نئی نسل کو
اخلاقی بحران ميں مبتلا کرنے ميں بہت حد تک کاميابی حاصل کرلی ۔ ( تفصيل کے ليے مولانا رضوان الله رياضى كى كتاب " غيرت كا فقدان" كا مطالعه بہت مفيد ر ہے گا)
لہذا
آج ضرورت ہے کہ ہم اپنے دشمن کو پہچانيں ، اس فکری جنگ کا جم کر مقابلہ کريں، مسلم
معاشرہ کو خالص اسلامی معاشرہ بنائيں، قرآن وحديث کی تعليم وتربيت سے نٹی نسلوں کو
آراستہ کريں۔ جب تک ہم اپنے اندر عزم وحوصلہ پيدا نہ کريں گے يہ کام ممکن نہيں
خدا نے آج تک اس قوم کی
حالت نہيں بدلی
نہ
ہوجس کوخيال آپ اپنی حالت کے بدلنےکا
0 تبصرہ:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔