ہجرت
کے دسويں سال اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم فريضہ حج کی ادائيگی کے لئے نکلے تاکہ ارکان اسلام کی عملی شکل ميں تکميل ہوجائے
اور لوگ آپ سے مناسک حج کا طريقہ سيکھ ليں ۔ اب تک لوگ آپ سے نماز روزہ اور زکاة کا
طريقہ سيکھ چکے تھے اور حج کا طريقہ سيکھنا باقی تھا چنانچہ ذی القعدہ ميں اعلان
کرديا گيا کہ امسال اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم حج کے لئے نکلنے والے ہيں ،يہ خبر پورے ملک ميں پھيل گئی اورکيا صحرا کيا ديہات
ہرطرف سے لوگ جوق در جوق مدينہ اکٹھا ہوگئے جن کی تعداد تقريبا ايک لاکھ چاليس
ہزار تھی حالانکہ يہی وہ لوگ ہيں جو چند سال پہلے آپ صلى الله عليه وسلم کے خون کے پياسے تھے ليکن آج آپ کی صحبت ميں حج کرنا اپنے لئے سعادت سمجھ رہے ہيں
۔ 29 ذی القعدہ کو صحابہ کرام کا يہ عظيم قافلہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کی معيت ميں مدينہ سے مکہ کے لئے روانہ ہوا اور نو دن ميں مکہ پہنچ گيا ۔
آج
ذی الحجہ کی نويں تاريخ ہے ، اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم اپنے اصحاب کے ہمراہ سورج ڈھلنے کے بعد مقام عرفہ ميں پہنچ چکے ہيں ، يہاں آپ نے ايک
لاکھ چاليس ہزاراہل ايمان کے مجمع ميں اپنی اونٹني پر سوار ہوکر ايک خطبہ ارشاد
فرمايا جسے ہم خطبہ حجة الوداع کے نام سے جانتے ہيں ۔ آج کے حلقے ميں ہم اسی خطبے
پر ايک نظر ڈالنے کی کوشش کريں گے ۔
محترم
قارئين ! خطبہ حجة الوداع اسلام کے انفرادی واجتماعی اخلاقيات اور اصول شريعت کا ايک
جامع نصب العين ہے،آپ صلى الله عليه وسلم کی تئيس سالہ جد وجہد کا حاصل اور اسلامی تعليمات کا لب لباب ہے ۔اگر کوئی اسلام
کا تعارف چاہتا ہے تو اس کے لئے اس خطبہ کا مطالعہ کافی ہے، اگر کوئی اسلام کی
ترجمانی چاہتا ہے تو يہ خطبہ اس کے لئے رہبر ہے اور سب سے بڑھ کر يہ کہ خطبہ حجة
الوداع حقوق انسانی کا عالمی منشوراور ہيومن چارٹر کی حيثيت رکھتا ہے ۔ آج مغرب کا
دعوی ہے کہ وہی حقوق انسان کے حقيقی علمبردار ہيں۔ کاش انہوں نے سيرت مصطفی صلى الله عليه وسلم کا مطالعہ کيا ہوتا اور خطبہ حجة الوداع کے مشتملات پر غور کيا ہوتا تو انہيں پتہ
چل جاتا کہ آج سے چودہ سوسال پہلے رسول رحمت صلى الله عليه وسلم نے انسانی حقوق کا چارٹر نافذ کيا تھا -
آپ صلى الله عليه وسلم نے اللہ تعالی کی حمد وثنا کے بعد خطبے کی ابتداء يوں فرمائی :۔ ”الله کے سوا کوئی
معبود برحق نہيں وہ يکتا ہے ،کوئی اس کا ساجھی نہيں،خدا نے اپنا وعدہ پورا کيا ، اس
نے اپنے بندہ کی مدد فرمائی اور تنہا اسی کی ذات نے باطل کی ساری مجتمع قوتوں کو زيرکيا
“ لوگو!ميری بات سنو! ميں نہيں سمجھتا کہ آئندہ کبھی ہم اس طرح کسی مجلس ميں يکجا
ہوسکيں گے( اور غالبا اس سال کے بعد ميں حج نہ کر سکوں گا )
چنانچہ آپ صلى الله عليه وسلم نے سب سے پہلے رنگ و نسل کی تفريق مٹاتے ہوئے فرمايا: لوگو! اللہ تعالی کا ارشاد
ہے:
’’يا أيھاالناس إنا خلقناکم من ذکر وأنثی وجعلناکم شعوبا وقبائل لتعارفوا إن أکرمکم عنداللہ أتقاکم‘‘
"انسانو!ہم نے تم سب کو
ايک ہی مرد وعورت سے پيدا کيا ہے اور تمہيں جماعتوں اور قبيلہ ميں بانٹ ديا کہ تم
الگ الگ پہچانے جا سکو تم ميں زيادہ عزت وکرامت والا اللہ کی نظروں ميں وہی ہے جو
اللہ تعالی سے زيادہ ڈرنے والا ہے "“
نہ
کسی عرب کو عجمی پر کوئی فوقيت حاصل ہے اور نہ کسی عجمی کو کسی عرب پر، نہ کالا
گورے سے افضل ہے اور نہ گورا کالے سے ، ہاں بزرگی اور
فضيلت کا کوئی معيار ہے تو وہ تقوی ہے “۔
انسان سارے ہی آدم
کی اولاد ہيں اور آدم کی حقيقت اس کے سوا کيا ہے کہ وہ مٹی سے بنائے گئے ۔ اب فضيلت
وبرتری کے سارے دعوے ميرے پاؤ ں تلے روندے
جاچکے ہيں “
جان
ومال اور عزت وآبرو کے احترام کی تاکيد کرتے ہوئے فرمايا :
إن دماءکم وأموالکم وأعراضکم عليکم حرام کحرمة يومکم ھذا فی بلدکم ھذا فی شھرکم ھذا (بخاری)
"
يقينا تمہارے خون مال اورعزت آپس ميں اس طرح قابل احترام ہيں جيسے تمہارا يہ دن
،تمہارا يہ شہر،اورتمہارا يہ مہينہ محترم ہے "
ان
مختصرليکن جامع کلمات ميں جان کی حرمت کا اعلان کيا ، مال کی حرمت کا اعلان کيا
اور عزت وآبرو کی حرمت کا اعلان کيا ۔ انسان کی جان اسلام کی نظرميں اسقدر محترم
ہے کہ اس نے ايک انسان کے قتل ناحق کو ساری انسانيت کا قتل قرار ديا ، خودکشی سے
منع فرمايا اور اس کی سخت وعيديں بيان کی ،قاتل کے لئے يہ سزا متعين کی کہ اس کے
بدلے قاتل کو قتل کياجائے تاکہ سماج ميں ايسے عناصر پنپنے نہ پائيں،اسلام نے جان
کےاحترام کی خاطر ايسی ان ساری چيزوں کوناجائزٹھہرايا جو انسانی جان کی ہلاکت
وبربادی کا سبب بنتی ہوں جيسے شراب اور ديگر نشہ آور چيزوں کا استعمال وغيرہ ۔
جان
ہی کی طرح اسلام کے نزديک مال کا بڑا احترام اور قدر ومنزلت ہے چنانچہ اسلام نے
حصول مال کی ترغيب دی اور اس کی حفاظت کا حکم ديا يہاں تک کہ اگر کوئی اس کی حفاظت
کرتے ہوئے قتل کرديا جائے تو اسے شہادت کا درجہ ديا:
’’من قتل دون مالہ فھو شہيد‘‘ (ترمذی)"جو اپنے مال کی حفاظت کے سلسلے ميں قتل کرديا جائے وہ شہيد ہے "۔
صحيح
مسلم کی روايت ميں ہے کہ ايک شخص نے نبی اکرم صلى الله عليه وسلم سے سوال کيا : اے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم!
اگرکوئی ميرا مال مجھ سے زبردستی لينا چاہے توميں کيا کروں ؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمايا : تم اپنا مال اس کے حوالے نہ کرو ،اس نے کہا : اگر وہ مرنے مارنے پر آ
مادہ ہوجائے توکيا کيا جائے ؟ آپ نے فرمايا: مقابلہ کرو ۔ اس نے کہا : اگر وہ غالب
آجائے اورمجھے قتل کردے تو ؟ آپ نے فرمايا : اس وقت تُو شہيد ہوگا ۔
اسی
طرح اسلام نے حصول مال کے ان سارے راستوں کو بند کرديا جن سے کسی کی حق تلفی ہوتی
ہو چنانچہ چوری، ڈکيتی ، غصب ، رشوت ، اور سود وغيرہ کے ذريعہ مال حاصل کرنے سے
منع فرمايا اوراس کی سخت وعيديں بيان فرمائیں۔
مال
کے احترام ہی کی خاطر اسے غلط راستوں ميں خرچ کرنے سے منع کيا اور ضرورت سے زيادہ
خرچ کرنے والوں کو شيطان کا بھائی قرار ديا، ارشاد ربانی ہے:
ولا تبذر تبذيرا إن المبذرين کانوا إخوان الشياطين... (بنی اسرائيل 72)
"اسراف
اور بيجا خرچ سے بچو، بيجا خرچ کرنے والے شيطانوں کے بھائی ہيں"۔
عزت
وآبروکی حرمت پر بھی اسلام نے خاص دھيان ديا ، جنس کو نہ بے لگام کيا کہ بہيميت پيدا
ہو جائے اور نہ ہی اس کا دروازہ بند کيا کہ رہبانيت آجائے بلکہ شادی کے پاکيزہ
رشتے سے اسے جوڑ ديا ۔ زنا جس سے عزت وآبرو نيلام ہوجاتا ہے اسلام نے نہ صرف اس پر
روک لگايا بلکہ اس ميں ملوث ہونے والوں کے لئے سخت سزا بھی متعين کی کہ اگر اس جرم
کا ارتکاب شادی شدہ کرے تواسے رجم کيا جائے اور غيرشادی شدہ کرے تو اسے سو کوڑے
لگائے جائيں اور ايک سال کے لئے شہر بدر کرديا جائے ۔۔ عزت وعصمت کی حفاظت کی خاطر
ہی اسلام نے اس شخص کی سزا اسی کوڑے متعين کيا جو کسی پاکدامن مرد يا عورت پر زنا کا
الزام لگايا پھر چارگواہ نہ پيش کرسکا۔
پھر
آپ صلى الله عليه وسلم نے جاہلی طور طريقوں پر تيشہ زنی کرتے ہوئے
فرمايا کہ ”زمانہ جاہليت کا سب کچھ ميں نے اپنے پيروں سے روند ديا ، زمانہ جاہليت
کے خون کے سارے انتقام اب کالعدم ہيں ۔ پہلا انتقام جسے ميں کالعدم قرار ديتا ہوں
ميرے اپنے خاندان کا ہے ،ربيعہ بن الحارث کے دودھ پيتے بيٹے کا خون جسے بنو ہذيل
نے مار ڈالا تھا اورجو اب تک فيصلہ طلب تھا اب ميں معاف کرتا ہوں۔
اسی طرح سودی کاروبارپر نقد کرتے ہوئے فرمايا کہ
دور جاہليت کا سود اب کوئی حيثيت نہيں رکھتا پہلا سود جسے ميں ترک کرتا ہوں عباس
بن عبدالمطلب کے خاندان کا سود ہے ، اب يہ ختم ہو گيا ۔
آج
کے قانون ساز اور حکمراں جب قانون بناتے ہيں تو سب سے پہلے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ
اس سے اپنے قرابت داروں کو مستثنی کرليں ليکن ذرا نبی رحمت صلى الله عليه وسلم کا انصاف ديکھو کہ جب قانون بناتے ہيں توسب سے پہلے اپنے خاندان کے لوگوں پر اسے
نافذ کرتے ہيں۔
اس کے بعد آپ صلى الله عليه وسلم نے معاشرتی زندگی کے استحکام کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمايا :
فاتقوا اللہ فی النساء فإنکم أخذتموھن بأمان اللہ واستحللتم فروجھن بکلمة اللہ ولکم عليھن أن لا يوطئن فرشکم أحد تکرھونہ۔فان فعلن ذلک فاضربوھن ضربا غيرمبرح ولھن رزقھن وکسوتھن بالمعروف.
"
ديکھو!عورتوں کے سلسلے ميں اللہ کا ڈر رکھنا ، کيونکہ تم نے انہيں اللہ تعالی کی
امان کے ساتھ حاصل کيا ہے، اور تم نے اللہ کے کلمہ کے ذريعہ ان کی عزت وناموس کو
اپنے لئے حلال کيا ہے ۔ اورعورتوں پربھی تمہارا يہ حق ہے کہ وہ اپنے پاس کسی ايسے
شخص کو نہ بلائيں جسے تم پسند نہيں کرتے اور وہ کوئی خيانت نہ کريں، کوئی کام کھلی
بے حيائی کا نہ کريں اور اگر وہ ايسا کريں تو اللہ تعالی کی جانب سے اس کی اجازت
ہے کہ تم انہيں معمولی جسمانی سزا دواور وہ باز آجائيں ۔اور ان کا تم پر يہ حق ہے
کہ تم انہيں بھلائی کے ساتھ کھلاؤاور پہناؤ"۔
ازدواجی
زندگی ہی وہ اکائی ہے جس سے معاشرے کی تشکيل ہوتی ہے اگر يہاں اختلاف در آيا تو
زندگی اجيرن بن جاتی ہے ، خاندانی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے اور بچوں پر بھی اس کے
بُرے اثرات مرتب ہوتے ہيں چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ
نے مياں بيوی دونوں کے حقوق وفرائض بيان فرمايا تاکہ لوگ ان
تعليمات کی روشنی ميں خوشگوار ازدواجی زندگی
گذار سکيں ۔
آپ صلى الله عليه وسلم نے امانت کی اہميت پر زور ديتے ہوئے فرمايا :
فمن کان عندہ أمانة فليؤدھا إلی من ائتمن عليہا" اگر کسی کے پاس امانت رکھوائی جائے تو وہ اس بات کا پابند ہے کہ امانت رکھوانے والے کو امانت پہنچا دے" ۔۔ کيا آپ نے سنا نہيں کہ ہجرت مدينہ کے موقع سے کفار قريش آپ صلى الله عليه وسلم کے قتل کا ناپاک ارادہ کئے آپ کے گھرکی گھيرابندی کر چکے ہيں اور سب تلواريں بے نيام کئے آپ کے نکلنے کا انتظار کر رہے ہيں ليکن آپ کو ايسے کشيدہ حالات ميں بھی امانت کی فکر ستا رہی ہے ۔ اور امانت بھی دشمنوں کی ہی تھی ، ايک طرف دشمن خون کے پياسے ہيں تو دوسری طرف آپ کو انہيں کی امانت کی فکر کھائے جا رہی ہے يہاں تک کہ اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی رضى الله عنه کو اپنے بستر پر سلا کر انہيں بتا ديتے ہيں کہ فلاں فلاں کی امانتيں ہمارے پاس ہيں انہيں صبح ميں انکے حوالے کردينا پھر وہاں سے نکلتے ہيں -
اس
کے علاوہ بھی آپ نے بہت ساری باتوں کی نصيحت فرمائی چنانچہ فرمايا :
” لوگو! ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس ميں بھائی بھائی ہيں ، اپنے غلاموں کا خيال رکھو، ہاں! غلاموں کا خيال رکھو،انہيں وہی کھلاؤ جو تم کھاتے ہو، ايسا ہی پہناؤجيسا تم پہنتے ہو “ -
لوگو! اللہ نے ہر حقدار کو اس کا حق خود دے ديا اب کوئی کسی وارث کے حق کے لئے وصيت نہ کرے “ بچہ اسی کی طرف منسوب کيا جائے گا جس کے بستر پر وہ پيدا ہوا ، اور جس پر حرام کاری ثابت ہو اس کی سزا پتھر ہے۔ حساب وکتاب اللہ کے ہاں ہوگا ” جو کوئی اپنا نسب بدلے گا، اس پر خدا کی لعنت ہے “
”قرض قابل ادائيگی ہے ، عاريتاً لی ہوئی چيز واپس کرنی چاہيے، تحفے کا بدلہ دينا چاہئے ، اور جو کوئی کسی کا ضامن بنے وہ تاوان ادا کرے “ ” کسی کے لئے جائز نہيں کہ وہ اپنے بھائی سے کچھ لے ، سوائے اس کے جس پر اس کا بھائی راضی ہو اور خوشی خوشی دے ۔ خود پر اور ايک دوسرے پر زيادتی نہ کرو “ –
اس
کے بعد آپ نے امت محمديہ يعنی صحابہ کرام کے سامنے وہ لائحہ عمل پيش کيا جس پر
کاربند ہوکر وہ دنيا وآخرت دونوں ميں سربلند و سرخرو ہوسکتے ہيں چنانچہ آپ نے فرمايا
:
وقد ترکت فيکم ما لن تضلوا بعدہ ، أن اعتصمتم بہ کتاب اللہ –
"ميں
تمہارے درميان ايک چيز چھوڑے جاتا ہوں کہ تم کبھی گمراہ نہ ہو سکوگے اگر اس پر
قائم رہے اور وہ اللہ کی کتاب ہے "-
"اور ہاں ! ديکھو دينی معاملات ميں غلو سے بچنا کہ تم سے پہلے کے لوگ انہيں باتو ں کے سبب ہلاک کر ديئے گئے“ ۔” شيطان کو اب اس بات کی کوئی توقع نہيں رہ گئی ہے کہ اب اس کی اس شہر ميں عبادت کی جائے گی ،ليکن اس کا امکان ہے کہ ايسے معاملات ميں جنہيں تم کم اہميت ديتے ہو اس کی بات مان لی جائے اور وہ اِسی پر راضی ہے اسلئے تم اس سے اپنے دين وايمان کی حفاظت کرنا ۔ “"لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو ، پانچ وقت کی نماز ادا کرو ، مہينے بھر کے روزے رکھو، اپنے مالوں کی زکاة خوش دلی کے ساتھ ديتے رہو ، اپنے رب کے گھر کا حج کرو اور اپنے اہل امر کی اطاعت کرو تواپنے رب کی جنت ميں داخل ہو جاؤگے “
"اب مجرم خود ہی اپنے جرم کا ذمے دار ہوگا اور اب نہ باپ کے بدلے بيٹا پکڑا جائے گا ، نہ بيٹے کا بدلہ باپ سے ليا جائے گا ۔ سنو! جو لوگ يہاں موجود ہيں انہيں چاہئے کہ يہ احکام اور يہ باتيں ان لوگوں کو بتاديں جو يہاں نہيں ہيں ۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی غيرموجود تم سے زيادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والا ہو"-
خطبے
کے بعد آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمايا : ’’وأنتم
تسألون عنی فما أنتم قائلون؟ "لوگو! تم سے ميرے بارے ميں پروردگار کے ہاں سوال
کيا جائے گا، بتاؤتم کيا جواب دوگے ؟ لوگوں نے جواب ديا: ’’نشھد أنک قد بلغت وأديت
ونصحت‘‘ ہم اس بات کی شہادت ديں گے کہ آپ نے امانت (دين) پہنچا دی، اور آپ نے حق
رسالت ادا فرما ديا، اور ہماری خيرخواہی فرمائی ۔ يہ سن کر آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنی انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھائی اور لوگوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تين
مرتبہ فرمايا : اللھم اشہد ، اللھم اشہد ، اللھم اشہد ،اے الله گواہ رہنا ، اے
الله گواہ رہنا ، اے الله گواہ رہنا ۔
1 تبصرہ:
مذکورہ مضمون 5 دسمبر2008 کو ریڈیو کویت کی اردو سروس سے نشر ہوا تھا۔
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔