پیر, اکتوبر 14, 2013

حج ميں توحيد کے مظاہر قدم بقدم


دين کی ايک بنياد ايسی ہے جس پر دنيا وآخرت کی بھلائی قائم ہے ،جس کے ليے اللہ تعالی نے زمين وآسمان کی تخليق فرمائی،انبياءورسل کو بھيجا ، کتابيں اتاری ، دنيا وآخرت بنائی ،جن وانس کو پيدا کيا ، اور جنت و جہنم بنايا ۔ يہ وہ عظيم بنياد ہے کہ جس نے اسے قائم کيا دنيا وآخرت ميں کامياب وکامران رہا ، اور جس نے اسے ضائع کر ديا دنيا وآخرت ميں ناکام ونامراد رہا ۔ جانتے ہيں يہ بنياد کيا ہے ؟ اسے ہم توحيد کہتے ہيں ، ايمان کہتے ہيں ، يقين کہتے ہيں، احسان کہتے ہيں ، يہ دراصل کلمہ لا الہ الا اللہ ہے، آج ایمانیات کے باب کو اس قدرمعمولی سمجھ لیا گیا ہے کہ جس کسی نے کلمہ شہادت کی گواہی دے لی ،سمجھو‘کہ وہ مومن کامل بن گیا۔ اب اُسے اِس کی طرف ادنی التفات کی ضرورت نہیں رہی ‘ حالانکہ يہ ہر چيز کی بنياد ہے ،ہرفضيلت کا سرچشمہ ہے ، جس کا ايک غيرمسلم جب زبان ودل سے اقرار کرتا ہے تووہ فوراً اہل ايمان کے زمرے ميں داخل ہوجاتا ہے ۔دنيا کی ہرچيزميں اس کلمے کی جلوہ گری ہے ، رات ودن کا آنا جانا، صبح وشام کی آمد ورفت،سورج اورچاند کا طلوع وغروب اس کلمے کی تصديق کرتاہے،زمين وآسمان، اشجار واحجار، جنگل وپہاڑ، اور حيوانات ونباتات سب اس کلمے پر گواہ ہيں۔
اسلام کے ارکان اربعہ کا دار ومدار بھی اسی کلمے پر ہے ۔ نماز تکبير تحريمہ سے لے کر سلام پھيرنے تک کلمہ توحيد کے ارد گرد گھومتی ہے ،قيام،قعود ،رکوع ،سجدہ ،اور تشہدہرجگہ ايک اللہ کی حمد ثنا بيان کی جاتی اور ايک اللہ سے مانگا جاتا ہے ۔ زکاة ميں بھی اس کلمے کی بالا دستی پائی جاتی ہے کيوں کہ زکاة نکالنے والے کے ذہن ودماغ ميں يہ بات رچی بسی ہوتی ہے کہ مال اللہ تعالی کا عطيہ ہے ، اللہ تعالی نے آج اسے اس کا مالک بنايا ہے ، اور بے نيازی عطا کی ہے تو دوسرے غريب و مسکين کو بھی اس ميں سے ملنا چاہيے اس طرح وہ زکا ة نکال کر اللہ کی وحدانيت کو ثابت کرتا ہے ۔
روزہ ميں بھی کلمہ شہادت کا پورا عکس دکھائی ديتا ہے ۔ آخر ايک انسان سامان خوردونوش رکھتے ہوئے بھوک اور پياس کيوں برداشت کرتا ہے ؟ دن بھرجائز شہوت پر بھی کنٹرول کيوں رکھتا ہے ؟ يہ اللہ کی عظمت اور اس کی توحيد کا احساس نہيں تو اور کيا ہے ؟
اب آئيے حج کی طرف جسے اللہ تعالی نے بندہ مومن پر زندگی ميں ايک مرتبہ فرض کيا ہے ۔ اس فريضے کی بنياد ہی توحيد پر ہے ، حج شروع سے اخير تک کلمہ توحيد کے اردگرد گھومتا ہے ۔اس کے ايک ايک قدم پر توحيد کا جلوہ دکھائی ديتا ہے۔چوں کہ ابھی ہم حج کے ايام سے گذر رہے ہيں ، دنيا کے کونے کونے سے حجاج کرام کا قافلہ فريضہ حج کی ادائيگی کے ليے جماعت در جماعت اور فوج در فوج خانہ کعبہ پہنچ رہاہے ۔ اس مناسبت سے ضرورت محسوس ہوئی کہ عازمين حج اور ديگر سامعين کے سامنے حج ميں وحدانيت کے کچھ مظاہر پيش کروں تاکہ غيرقوموں کے حج اور اسلامی حج کے بيچ جوبنيادی فرق ہے وہ روز روشن کی طرح عياں ہوجائے ۔

وطن سے نکلتے وقت :

جب عازمين حج اپنے گھر سے نکلتے ہيں،اپنے وطن اور اہل خانہ سے جدا ہوتے ہيں،توان کے سامنے بچوں کی محبت آرے آتی ہے،بيوی کی محبت آرے آتی ہے، وطن اور جائدادواملاک کی محبت آرے آتی ہے ليکن وہ کسی کی پرواہ نہيں کرتے ،اپنا قيمتی مال خرچ کرتے ہيں ، سفرکی صعوبتيں برداشت کرتے ہيں، ان ميں نحيف ولاغر اور کمزور مردوخواتين بھی ہوتے ہيں جن کا جسم توکمزور ہوتا ہے ليکن ہمتيں بلند ہوتی ہيں ، کتنے مالدار اور صاحب حيثيت جنہوں نے کبھی اجنبيت اختيار نہيں کی ليکن حج کے نشہ ميں وطن اور اہل وعيال کو خيرباد کررہے ہيں ۔ کيوں ؟ ظاہر ہے اس کا حقيقی محرک دراصل ايمان ہے ، توحيد ہے ، اللہ کی سچی محبت ہے جس کے سامنے ساری محبتيں ہيچ ہيں ۔

لباس احرام زيب تن کرتے وقت:

جب حاجی ميقات پہنچنے کے بعد حج کے منسک ميں داخل ہونے کے ليے اپنے عام کپڑے اتار کر غسل کرتا ہے، اور بغير سلا ہوا دوکپڑا ايک چادر اور ايک تہبند زيب تن کرتا ہے تواس کے ذہن ودماغ ميں موت کی ياد تازہ ہو جاتی ہے کہ ايک دن ہميں مرنا ہے،موت کا جام پينا ہے ۔ لوگ ہمارے کپڑے اتار کر اسی طرح نہلائيں گے اور ايسے ہی کپڑے ميں لپيٹ کر قبر کے حوالے کر ديں گے ۔

تلبيہ:

جب حاجی حج کے احرام ميں داخل ہونے کے ليے تلبيہ بولتا ہے تو اس ميں پوری طرح توحيد کا اعلان کرتا اور شرک سے براءت کا اظہار کرتا ہے:
 لبيک اللھم لبيک لبيک لا شريک لک لبيک ان الحمد والنعمة لک والملک لاشريک لک.
"ميں حاضرہوں، اے اللہ ميں حاضرہوں، ميں حاضرہوں، تيراکوئی شريک نہيں، ميں حاضر ہوں، بيشک ہرقسم کی تعريف تيرے ليےاور ہرنعمت تيری دی ہوئی ہے اور تيری ہی بادشاہی ہے، تيرا کوئی شريک نہيں ہے" ۔
اسے وہ ہانکے پکارے بولتا ہے اور اس کے مفہوم کو اپنے ذہن ودماغ ميں بيٹھائے رہتا ہے کہ اے اللہ ہم حاضر ہيں ، تيری پکار پر لبيک کہتے ہيں، جس طرح توبخشش وعنايت، احسان وکرم، اور ملکيت وبادشاہت ميں يکتا ہے اسی طرح عبادت ميں بھی يکتا ہے، تيراکوئی ساجھی نہيں، تيرے علاوہ ہم کسی کو نہيں پکارتے، تيرے علاوہ ہم کسی پر اعتماد نہيں کرتے، تيرے علاوہ ہم کسی کو حاجت روا ومشکل کشا نہيں سمجھتے ۔
غرضيکہ ايک حاجی ہر وقت اور ہرآن مئے توحيد ميں مست رہتا ہے اورمحض اللہ تعالی کونفع ونقصان کا مالک سمجھتاہے ۔
يہ تلبيہ ہمارے سرکار نے اپنی امت کوسکھايا ہے جس کے لفظ لفظ سے توحيد خالص کی بو ٹپکتی ہے کيوں کہ آپ کی بعثت کا مقصد ہی توحيد کی طرف دعوت اور شرک سے بيزاری کا اعلان تھا ورنہ بعثت سے پہلے بھی کفار ومشرکين حج کيا کرتے تھے اور تلبيہ بھی پکارا کرتے تھے ۔ ان کا تلبيہ کيا تھا ؟سنئے ان کا   تلبيہ :
لبيک لا شريک لک إلا شريکاً ھو لک تملکہ وما ملک
" اے اللہ ! ميں حاضر ہوں، تيرا کوئی شريک نہيں،سوائے اس شريک کے جس کا تو مالک ہے وہ مالک نہيں" ۔
يعنی وہ بھی مانتے تھے کہ اللہ تعالی ہی خالق ومالک ہے ، وہی روزی ديتا ہے ، وہی مارتا اور جلاتا ہے ، وہی ساری کائنات پر حکمرانی کر رہا ہے اور يہ بھی سمجھتے تھے کہ يہ شرکاء بھی پورا اختيار نہيں رکھتے ،ان کا بھی مالک اللہ تعالی ہی ہے ، ليکن چوں کہ وہ اللہ کے قريبی ہيں ،اللہ ان سے راضی ہے ،ہم گنہگار ہيں ،عاصی ہيں لہذا ان کی کچھ عبادتيں کرلينے سے ہميں بروزقيامت ان کی سفارش نصيب ہوگی، وہ ہمارے سفارشی بن جائيں گے:
 ما نعبدھم الا ليقربونا إلی اللہ زلفا (الزمر3
" ہم ان کی عبادت صرف اس ليے کرتے ہيں تاکہ وہ ہميں اللہ کے زيادہ قريب کرديں "۔
اور اللہ تعالی نے (سورہ يونس آيت نمبر 18 ميں ان کی زبانی فرمايا ﴾ ھؤلاء شفعاءنا عند اللہ . " يہ تو اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہيں"۔
چنانچہ وہ حج وعمرہ ميں کچھ اسی طرح کا تلبيہ پکارا کرتے تھے کہ اے اللہ ! ميں حاضر ہوں، تيرا کوئی شريک نہيں، سوائے اس شريک کے جس کا تو مالک ہے وہ مالک نہيں۔ 
صحيح مسلم کی روايت ہے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم جب کفارومشرکين کو تلبيہ ميں لاشريک لک الا شريکا ھو لک تملکہ وما ملک يعنی تيرا کوئی شريک نہيں، سوائے اس شريک کے جس کا تو مالک ہے وہ مالک نہيں کا اضافہ کرتے ہوئے سنتے تو کہتے :
ويلکم قد قد تيری ہلاکت ہو بس کرو بس کرو
 يعنی لاشريک لک پر غيراللہ کااضافہ کيوں کرتے ہو؟ جب تم اللہ تعالی ہی کو خالق ومالک اور رازق مانتے ہو تو خالص اسی کی عبادت کيوں نہيں کرتے ؟ اس کے ساتھ غيروں کو شريک کيوں ٹھہراتے ہو ؟ پتہ يہ چلا کہ ايمان کے ليے ضروری ہے کہ ايک بندہ صرف اللہ تعالی کے ليے عبادت کے سارے اقسام بجا لائے ، نماز ،روزے ،حج ،قربانی،دعا، نذر ونياز، رکوع اور سجدہ سب خالص اللہ کے ليے ہونے چاہئے ۔
اور يہی تلبيہ کا پيغام ہے ، تلبيہ محض الفاظ کا باربار اعادہ نہيں بلکہ اس کے معانی بھی حاجی کے ذہن ودماغ ميں رچے بسے ہونے چاہئے تاکہ جس چيز کی وہ بار بار گواہی دے رہا ہے عمل بھی اس کے مطابق ڈھل جائے ۔چنانچہ اللہ کے علاوہ کسی سے نہ مانگے ، اللہ کے علاوہ کسی سے مدد طلب نہ کرے ، اللہ کے علاوہ کسی کو مشکل کشا اور حاجت روا نہ سمجھے ۔ جب ايک حاجی کہتا ہے ” لا شريک لک “ کہ اے اللہ تيرا کوئی شريک نہيں ۔ تو اسے چاہيے کہ وہ شرک کی حقيقت کو جانتا ہو، اس کی خطرناکی سے آگاہ ہو ، کيوں کہ اسلام  ميں سب سے عظيم گناہ يہی ہے ۔ يہ وہ عمل ہے جو انسان کے تمام اعمال کو اکارت کر ديتاہے۔ سورہ انعام کے دسويں رکوع ميں اللہ تعالی نے اٹھارہ جليل القدرانبياء کرام کے نام لے لے کر ان کے مقام و مرتبہ کو بيان فرمايا اس کے بعد آيت نمبر89 ميں سبہوں کو ملاکر فرمايا :
 ولو أشرکوا لحبط عنھم ما کانوا يعملون.
اگر ان انبياء نے بھی شرک کيا ہوتا تو ان کے بھی اعمال اکارت و ضائع ہو جاتے ۔ اور سورہ زمر آيت نمبر 65 ميں اللہ تعالی نے سيد الرسل ، سرکار دوعالم صلى الله عليه وسلم کو خطاب کرتے ہوئے فرمايا:
لئن اشرکت ليحبطن عملک ولتکونن من الخاسرين.
" اگر آپ بھی شرک کريں تو يقينا آپ کا سارا عمل بھی ضائع ہو جائے گا اور آپ خسارہ پانے والوں ميں سے ہو جائيں گے"۔ 

ذرا غور کيجئے! شرک کے معاملہ ميں جب انبياء ورسل کو اس طرح خطاب کيا گيا تو ان کے سامنے ہم کس کھيت کی مولی ہيں، ہميں تواور زيادہ شرک کی خطرناکی سے آگاہ رہنا چاہئے ايسا نہ ہو کہ ہمارے اعمال اکارت ہو جائيں بالخصوص حجاج کرام کو اس کی طرف خاص دھيان دينے کی ضرورت ہے جو نہايت غطيم منسک کی ادائيگی کے ليے حرمين کی زيار ت کرتے ہيں ۔ يہ موحدين کے پيشوا ابراہيم خليل اللہ ہيں جو شرک سے اللہ کی پناہ مانگتے ہيں واجنبنی وبنی ان نعبدالاصنام اے اللہ مجھے اور ميری اولاد کو بت پرستی سے بچائے رکھنا ۔ جب ابراہيم عليہ السلام اپنے اور اپنی اولاد پر بت پرستی کا خوف کھاتے ہيں تو ہميں کس قدر خوف کھانا چاہئے اس کا اندازہ آپ خو د لگا سکتے ہيں ۔ اسی ليے ابراہيم التيمی ؒ کہتے ہيں:
 ومن يأمن من البلاء بعد ابراہيم
" آخر ابراہيم عليہ السلام کے بعد ابتلا سے کون محفوظ رہ سکتا ہے؟" ۔

اللہ تعالی نے آيات حج کے سياق ميں يہ آيت بھی ذکر کی ہے: 
 ومن يشرک باللہ فکأنما خر من السماءفتخطفہ الطير أو تھوی بہ الريح فی مکان سحيق (الحج 31)
اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے توگويا وہ آسمان سے گر پڑا (يعنی اب اس کی کوئی حيثيت نہيں رہی ) پھر اسے پرندے اچک لے جائيں يا ہوا اسے کسی دور دراز جگہ لے جاکر پھينک دے ۔ ہاں! توميں عرض يہ کر رہا تھا کہ تلبيہ ميں جو توحيد کا اعلان اور شرک سے برات کا اظہار ہے ضرورت ہے اسے سمجھنے اور اس کے مفہوم کو ذہن ميں بيٹھانے کی ضروت ہے ۔

بيت اللہ کا طواف :

 جب حاجی مکہ مکرمہ پہنچتا ہے اور حرم پاک کی سرزمين پر قدم رکھنے کے بعد خانہ کعبہ پر اس کی پہلی نظر پڑتی ہے تو وہ دنيا وما فيہا سے بے خبر ہو جاتا ہے ،مقصد کی برآری پر اس کی آنکھيں ڈبڈبا اٹھتی ہيں ۔ يہ ايک فطری جذبہ اور والہانہ تعلق ہے جو ہر مسلمان کے دل ميں پيدا ہوتا ہے
اس اہم فطری لگاؤکے ساتھ  ساتھ  حاجی کو چاہئے کہ جب وہ خانہ کعبہ کے پاس آئے تو اس کے ذہن ودماغ ميں اللہ کی عظمت وجلال کے نقوش بيٹھ جائيں اورموسس کعبہ ابراہيم عليہ السلام کی سيرت اس کے ذہن کے پر دے پر مرتسم ہوجائے جو موحدين کے پيشوا تھے ، جنہوں خالص توحيد پر اس کی بنياد ڈالی تھی ، تاکہ اس ميں صرف ايک اللہ کی عبادت کی جائے اور تعمير مکمل ہونے کے بعد نہايت عاجزی و انکساری سے دعا کی تھی واجنبنی وبنی ان نعبد الاصنام بارالہا ! مجھے اور ميری اولاد کو بت پرستی سے بچانا ۔۔۔ ايک مسلمان خانہ کعبہ کی عبادت اسليے نہيں کرتا کہ يہ دھرتی کی کوئی قديم تعمير ہے يا يہ تاريخی يادگار ہے،يا اسے ابراہيم واسماعيل عليہما السلام نے تعمير کيا تھا ، يا وہ نفع ونقصان کا مالک ہے خانہ کعبہ کے طواف ميں ايسی کوئی بات نہيں پائی جاتی بلکہ مسلمان اس کا طواف اسليے کرتے ہيں کہ اللہ تعالی نے انہيں ايسا کرنے کا حکم ديا ہے اور اسے حج وعمرہ کا رکن ٹھہرايا ہے وليطوفوا بالبيت العتيق اور چاہئے کہ بيت اللہ کا طواف کريں ،اسی طرح رکن يمانی کا استلام کرنے اور حجر اسود کو بوسہ دينے ميں بھی متابعت واطاعت ہی کا جذبہ پايا جاتا ہے ورنہ ايک مسلمان کا ايمان ہے کہ اس کے اندر نہ نفع پہنچانے کی طاقت ہے اور نہ نقصان پہنچانے کی صلاحيت ۔ اسی مفہوم کو خليفہ ثانی عمر فاروق رضي الله عنه نے بيان کيا تھا جب کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دے رہے تھے:
 إنی أعلم أنک حجرلاتضر ولا تنفع ولولا أنی رأيت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم يقبلک ما قبلتک.
" ميں جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان ،اگر ميں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو بوسہ ليتے ہوئے نہ ديکھا ہوتا توميں تجھے بوسہ نہ ديتا" ۔
جہاں تک ابو سعيد کے طريق سے يہ جو روايت بيان کی جاتی ہے کہ جب خليفہ ثانی نے يہ بات کہی تو حضرت علی رضي الله عنه نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ”اميرالمومنين يہ تو نفع ونقصان کا مالک ہے “ تو يہ روايت حضرت علی رضي الله عنه سے ثابت نہيں کيوں کہ اس روايت ميں ابو ہارون العبدی ہے جسے محدثين نے کذاب اور متروک الحديث کہا ہے حماد بن زيد کہتے ہيں ”ابوہارون العبدی کذاب تھا صبح ميں کچھ بولتا اور شام ميں کچھ اور“ اور جوزجانی نے کہا کہ” وہ نہايت جھوٹا اور بہتان باز تھا“ ۔
يہاں پر ايک مسلمان کو سب سے بڑا سبق يہ ملتا ہے کہ خانہ کعبہ کے طواف ،حجراسود کے بوسہ اوررکن يمانی کے استلام کے علاوہ کسی دوسرے مقام کانہ طواف ہوسکتا ہے ،نہ کسی دوسرے مقام کو بوسہ ليا جاسکتا ہے اور نہ کسی دوسرے مقام کا استلام کيا جا سکتا ہے ۔ کيوں کہ شريعت نے ہميں ان مقامات کے علاوہ کسی دوسرے مقام کا طواف کرنے، بوسہ لينے يا استلام کرنے کی اجازت نہيں دی اور يہاں بھی ايک مسلمان محض اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے جذبہ سے ايسا کرتا ہے نفع کی اميديانقصان کے ڈر سے نہيں۔ گوياکہ خانہ کعبہ ،حجر اسود اور رکن يمانی کے علاوہ دنيا کے کسی بھی جگہ کا طواف کرنا،يا بوسہ لينا يا استلام کرنا صحيح نہيں بلکہ خود خانہ کعبہ کی چادر کو چومنا، يا مقام ابراہيم کا بوسہ لينا ، يا روضہ اقدس کو چومنا،يا مسجد نبوی کے در ديوار کا بوسہ لينايہ سب کے سب غلط ہے۔
مولانا احمد رضا خان بريلوی عفااللہ عنہ نے بھی ان امور سے منع کيا ہے چنانچہ وہ انوار البشارات فی مسائل الحج والزيارات (مطبوعہ مکتبہ رضويہ اکرام باغ کراچی ) ص 29 پر فرماتے ہيں خبردار جالی شريف کو بوسہ دينے ہاتھ لگانے سے بچو کيوں کہ خلاف ادب ہے بلکہ چار ہاتھ فاصلہ سے زيادہ قريب نہ جاؤاور احکام شريعت حصہ سوم ميں فرماتے ہيں” بلاشبہ غير کعبہ معظمہ کا طواف تعظيمی ناجائز ہے اور غيرخدا کو سجدہ ہماری شريعت ميں حرام ہے “ (بحوالہ تعليمات شاہ احمد رضا خان بريلوی ص 19 ازمولانا محمد حنيف يزدانی ، طبع مکتبہ نذيريہ ،لاہور)

طواف کی دو رکعات:

جب حاجی طواف مکمل کرلے تو اسے حکم ہے کہ مقام ابراہيم کے پاس طواف کی دو رکعت ادا کرے پہلی رکعت ميں سورہ فاتحہ کے بعدسورہ الکافرون اور دوسری رکعت ميں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ اخلاص کی تلاوت کرے ۔ ان آيات پر غور کرنے سے بھی ہميں حج ميں توحيد کے واضح مظاہر ديکھنے کو ملتے ہيں يہ تين سورتيں دراصل توحيد کا خلاصہ ہيں ، سورہ فاتحہ ميں توحيد کے تينوں اقسام ربوبيت ، الوہيت اور اسماءو صفات شامل ہيں ۔ اور سورہ الکافرون ميں شرک سے برات کا اظہار اور توحيد خالص کا اعلان ہے اور سورہ اخلاص ميں اللہ تعالی کو صفات کاملہ سے متصف کيا گيا ہے اور شرکت وہمسری اور اولاد وغيرہ سے اس کی ذات کو منزہ رکھا گيا ہے ۔ چنانچہ سنن ابی داؤد ميں حضرت جابر رضي الله عنه کا بيان ہے کہ فقرافيھما بالتوحيد يعنی آپ صلى الله عليه وسلم نے ان دو رکعتوں ميں توحيد کی آيتيں تلاوت فرمائی ۔

صفا ومروہ کی سعی :

جب حاجی صفا و مروہ کی سعی کرنے جاتا ہے تو وہاں وحدانيت کے مظاہر کھل کر سامنے آتے ہيں ، ايک حاجی کا دھيان فوراً ابراہيم اور ہاجرہ عليہما السلام کے قصے کی طرف چلا جاتا ہے جس ميں توکل ہے ، حسن ظن ہے اور اللہ تعالی سے استعانت ہے جب حاجی اس قصے پر غور کرتا ہے تو اس کا تعلق اللہ تعالی سے مضبوط ہونے لگتا ہے اور وہ توکل واعتماد کا چٹان بن جاتا ہے ۔
آئيے ذرا قصے پر غور کرتے ہيں ۔جب حضرت ہاجرہ عليہا السلام کے بطن سے اسماعيل عليہ السلام کی ولادت ہوئی، واللہ تعالی نے حضرت ابراہيم عليہ السلام کی دوسری آزمائش شروع کردی ،حکم ہوا کہ اپنی شريک حيات اور اپنے بيٹے کو مکہ چھوڑ آو۔ وہ مکہ جو چٹيل ميدان تھا ،بے آب وگياہ سرزمين تھی ، جہاں آدمی اور آدم زاد کا دور دور تک پتہ نہ تھا ، حکم کی تعميل ميں ہاجرہ اور اسماعيل کو مکہ لاتے ہيں اور خانہ کعبہ کے قريب ٹھہراتے ہيں ،کچھ کھجور اور پانی رکھ ديتے ہيں اور پيچھے کی طرف چلنے کے ليے مڑتے ہيں ۔عجيب ماجرا ہے ايک عورت اپنے ننھے بچے کے ساتھ بے آب وگياہ سرزمين ميں جہاں ہو کا عالم ہے تن تنہا رہے ، شوہر کا پيچھا کرنے لگتی ہيں ابراہيم ! ہم ماں بيٹے کو اس سنسان وادی ميں چھوڑکر آپ کدھر جا رہے ہيں ؟ بار بار کہتی جا رہی ہيں اور ابراہيم ہيں کہ لوٹ کر ديکھ نہيں رہے ہيں ، جدائی کے غم سے دل توپھٹا جا رہا تھا ليکن حکم تھا اللہ تھا مڑکرديکھيں تو کيسے ديکھيں ؟ بالآخر پوچھتی ہيں : کيا يہ اللہ کا حکم ہے ؟ آپ نے فرمايا : ہاں ۔ تب ہاجرہ توکل واعتماد اور صبر کی پيکر بن کر گويا ہوتی ہيں : اذن لا يضيعنا تب تو اللہ تعالی ہميں ضائع نہ ہونے دے گا ۔ سبحان اللہ ! کيسا يقين تھا ہاجرہ کا اللہ پر ، اور کيسی تربيت کی تھی ابراہيم عليہ السلام نے اپنی بيوی کی کہ جب اللہ کاواسطہ ديا جاتا ہے توساری بے چينی جاتی رہتی ہے ۔ حاجی بھائيو! حج ميں ہميں يہی سبق ملتا ہے کہ اللہ پر ہمارا پختہ يقين ہوجائے ، اس کے د امن ميں پناہ لی ہے تو دنيا کی کوئی طاقت ہميں نقصان نہيں پہنچا سکتی ۔ اس طرح حضرت ہاجرہ عليہا السلام اسماعيل عليہ السلام کے ساتھ مکہ کی اس غيرآباد اور سنسان جگہ پر رہنے لگیں، کچھ دن بيتا ہی تھا کہ کھجور اور پانی ختم ہو گيا ،پياس سے ہونٹ خشک ہونے لگا ، ننھا اسماعيل بھی پياس کی شدت سے بلکنے لگا ، دوڑکر کر سامنے کے قريبی پہاڑ صفا پر چڑھتی ہيں کہ کہيں کوئی چشمہ دکھائی دے يا کوئی انسان مل جائے ليکن ہر طرف ہو کا عالم ہے دوڑ کر مروہ کی طرف جاتی ہيں ، بدحواسی کا عالم ہے ، کبھی بچہ کی طرف ديکھتی ہيں، کبھی صفا پر چڑھتی ہيں ،اور کبھی مروہ پر چڑھتی ہيں اس طرح سات چکر لگ جاتا ہے اور انہيں ہوش نہيں ۔اسی وقت بحکم الہی جبريل امين آتے ہيں ،اور اپنی پنڈلی زمين پر مارتے ہيں جس سے پانی کا چشمہ جاری ہو جاتا ہے خود پيتی ہيں اور ننھے اسماعيل کو پلاتی ہيں ۔

يوم عرفہ کی دعاء:

حج ميں توحيد کے مظاہر ميں سے ايک مظہر يوم عرفہ کی وہ مشہور دعا ہے جس کا حاجی عرفہ کے دن بکثرت اہتمام کرتے ہيں ۔ ترمذی کی روايت کے مطابق حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہما کا بيان ہے کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمايا :
" بہترين دعا وہ ہے جو يوم عرفہ ميں مانگی جائے ، ميں نے اور مجھ سے پہلے انبياء نے جو دعائيں کی ہيں ان ميں سے افضل دعا يہ ہے لا الہ الا اللہ وحدہ لا شريک لہ ،لہ الملک ولہ الحمدوھوعلی کل شيیءقدير اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہيں اور اس کا کوئی شريک نہيں ،سارے جہاں کی بادشاہی اور ہر قسم کی تعريف اسی کے ليے ہے اور وہ ہر چيز پر قدرت رکھتا ہے" ۔
اس دعا کی شروعات کلمہ طيبہ لا الہ الا اللہ سے ہوتی ہے ، جس کو زبان سے بولے بغير ايک انسان مسلمان نہيں ہو سکتا ليکن افسوس کہ سارے مسلمان اس کلمہ کا ورد کرتے ہيں تاہم کتنے لوگ اس کے معنی سے بھی ناواقف ہےںاور کچھ لوگ اس کے معنی سے واقف توہيں پراس کے مطابق ان کی زندگی گذر نہيں رہی ہے کلمہ طيبہ کا سيدھا سادھا مطلب ہوتا ہے اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہيں،يعنی عبادت کی حقدارصرف اللہ رب العالمين کی ذات ہے ، عبادت کيا ہے ؟ نماز ،روزہ ،حج ،قربانی، دعا، نذر ونياز ، رکوع اور سجدہ يہ سب عبادات کے زمرے ميں آتے ہيں جواللہ رب العالمين کے ليے خاص ہونے چاہيے  

دعا ميں توحيد کے مظاہر :

سفرحج ميں حجاج کرام جس چيز کا سب سے زيادہ اہتمام کرتے ہيں وہ دعا ہے ۔ ذرا اللہ کے ان مہمانوں پرنظر دوراؤجو دنيا کے مختلف خطے سے آئے ہيں، مختلف بولياں بولنے والے ہيں،مختلف لہجے استعمال کرنے والے ہيں،ليکن جب سب ايک ہی وقت ميں اللہ تعالی کے سامنے ہاتھ اٹھاتے ہيں تو اللہ تعالی سب کی زبان بيک وقت سن ليتا ہے،اس پر زبانيں مختلف نہيں ہوتيں ،مانگنے والے مختلف ہوتے ہيں ،سوالات بھی مختلف ہوتے ہيں ، اورزبانيں بھی مختلف ہوتی ہيں ليکن وہ سب کی سنتا اور سب کو عنايت کرتا ہے ۔ تاريک رات ميں چيونٹی کی آہٹ کو سنتا ہے ۔ جنگل ميں ايک پتے گرتے ہيں ان سے بھی و ہ واقف ہے ، سمندر کی تاريکی ميں چھوٹی سی چھوٹی مچھلی کو وہی خوراک پہنچا رہا ہے ۔ سيدہ عائشہ صديقہ رضي الله عنها کہتی ہيں :خولہ بنت صامت دربار نبوت ميں اپنے شوہر کے تعلق سے کچھ بحث وتکرار کر رہی تھيں ، ميں پردے کی اوٹ ميں تھی ہميں اس کی بعض باتيں سننے ميں نہيں آرہی تھیںليکن اللہ تعالی نے فورا ساتوں آسمان کے اوپر سے خولہ کی بات سن لی اور يہ آيت نازل فرمائی قد سمع اللہ قول التی تجادلک فی زوجھا (المجادلة ۱) يقينا اللہ تعالی نے اس عورت کی بات سن لی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے ميں تکرار کر رہی تھی ۔
يہ تويہ ہے اللہ تعالی دلوں کے بھيد کو بھی جانتا ہے ، ہميں ضرورت پيش آنے سے پہلے ہماری ضرورت کو جان ليتا ہے ، جب ہم مانگنے کا ارادہ کرتے ہيں تو وہ ہمارے ارادے سے واقف ہوجاتا ہے ۔ اور حج کا سفر ہميں يہی پيغام ديتا ہے کہ ہميں جو کچھ مانگنا ہو اللہ تعالی سے مانگيں، مدد طلب کرنی ہوتو اللہ تعالی سے مدد طلب کريں: قل من بيدہ ملکوت کل شيئیا(المومنون88
اے (محمد صلى الله عليه وسلم) آپ کہہ ديجئے کس کے ہاتھ ميں ہرچيز کی بادشاہت ہے"  
فسبحان الذی بيدہ ملکوت کل شئيی (يسن 83) 
"پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ ميں ہر چيز کی بادشاہت ہے" ۔

رحمت باری تعالی مظاہرہ

ايک حاجی منسک حج ميں اللہ تعالی کی بے پناہ رحمتوں کا بھی مشاہدہ کرتا ہے ۔ايک انسان زندگی بھر گناہوں ميں ڈوبا رہا ،ساٹھ اور ستر سال کی عمر ہو گئی ہے اب جبکہ اسے اللہ کی عظمت کااحساس ہوا ، اس کی گرفت کاڈر لاحق ہوا توتوبہ کی اور حج کو چلا گيا ذرا غور کرو ايسے شخص کو کيسا انعام ربانی حاصل ہوتا ہے:
 من حج فلم يرفث ولم يفسق رجع کيوم ولدتہ أمہ (بخاری مسلم)
" جس نے حج کيا اور دوران حج اس سے نہ کوئی شہوانی فعل سرزد ہوا اور نہ ہی اس نے فسق وفجور کا ارتکاب کيا وہ گناہوں سے اس طرح پاک و صاف ہو کر لوٹا گويا آج ہی اس کی ماں نے اسے جنم ديا ہے" ۔
بلکہ عرفہ کا دن آتا ہے تو اللہ تعالی سماء دنيا پر اترتا ہے اور فرشتوں کو فخريہ کہتا ہے:
 أنظروا إلی عبادی أتونی شعثا غبرا ضاجين من کل فج عميق أشھدکم أنی قد غفرت لهم (ابن خزيمہ).
" ميرے بندوں کو ديکھو وہ کس طرح گرد آلود وپراگندہ بال ہوکر مجھے پکارتے ہوئے دوردراز سے ميرے ليے آئے ہيں ميں تمہيں گواہ بناکر کہتا ہوں کہ ميں نے ان سب کو بخش ديا" ۔
اس کی رحمت ديکھو کہ وہ گناہوں کو معاف ہی نہيں کرتا بلکہ انہيں نےکيوں ميں تبديل کرديتا ہے ۔

يوم النحرکی يادگار:

10ذی الحجہ يعنی يوم النحر کو جو عام لوگوں کے ليے عيد کا دن ہوتا ہے حجاج کرام وحدانيت کے بے پناہ مظاہرکا مشاہدہ کرتے ہيں آج کے دن حجا ج کرام جمرات کو کنکرياں مارنے کے ليے منی آتے ہيں، ان کے ساتھ سات کنکرياں ہوتی ہيں، يہيں ہدی کا جانور بھی ذبح کرتے ہيں ايسے لمحات ميں ان کا ذہن توحيد کے پيشوا ابراہيم عليہ السلام کی موحدانہ زندگی کی طرف چلا جاتاچاہئے۔ وہ ابراہيم جنہوں نے کفروشرک سے اٹے سماج کو توحيد خالص کا پيغام سنايا ، جس کے پاداش ميں دہکتی ہوئی آگ ميں ڈالے گيے ليکن آگ ابراہيم کے ليے گل گلزار بن گئی، توحيد کا پيغام سنانے کے جرم ميں باپ نے رشتہ کاٹ ليا اور گھر سے بے گھر کر ديا ، سالوں تک جلاوطنی کی زندگی گذاری، مصر ميں پہنچے تو وہاں کمبخت بادشاہ نے آپ کی عزت پر حملہ کرنے کی کوشش کی ليکن وہ خائب وخاسر رہا اور ہاجرہ کی شکل ميں ايک لونڈی بھی نوازا، ابراہيم عليہ السلام اب تک اولاد کی نعمت سے محروم تھے، دعا کی ، اللہ تعالی نے اسے قبوليت بخشی اور حضرت ہاجرہ کے بطن سے ننھا اسماعيل پيدا ہوا ،يہاں بھی ايک آزمائش ہوئی کہ ہاجرہ اور ننھے اسماعيل کو مکہ کی بے آب وگيا ہ سرزمين ميں بساآوچنانچہ حکم کی تعميل کی گئی اوريہيں اللہ تعالی نے ہاجرہ واسماعيل کے ليے آب زمزم جاری کيا ، مرور ايام کے ساتھ جب اسماعيل چلنے پھرنے کے قابل ہوئے تو اللہ تعالی کی طرف سے آخری آزمائش آئی کہ اپنے لخت جگر کو اللہ کی راہ ميں قربان کردو ، بيٹے کے پاس آتے ہيں اور خواب کاتذکرہ کرتے ہيں يا بنی انی اری فی المنام انی اذبحک فانظر ماذا تری بيٹے ! ميں نے خواب ميں ديکھا ہے کہ تجھے ذبح کر رہاہوں بتاوتيری کيا رائے ہے ۔ ديکھئے پاکيزہ ذريت کيسی ہوتی ہے ؟ اللہ تعالی توحيد پرستوں کی ذريت کو کس قدر نيک اور صالح بناتا ہے ۔ وفاشعار بيٹا جواب ديتا ہے يا ابت افعل ما تومر ابوجان ! آپ کو جس کام کا حکم ملا ہے کر گذرئيے ۔ اس ميں پس وپيش نہ کيجئے ، ہم پراعتماد کيجئے:
ستجدنی إن شاءللہ من الصابرين.
 " ہميں ان شاءاللہ آپ صبر کرنے والوں ميں سے پائيں گے"۔

آج ذی الحجہ کی دسويں تاريخ ہے ابراہيم عليہ السلام اسماعيل کوليے منی کی سرزمين ميں پہنچتے ہيں ، شيطان آج کے دن متحرک اور فعال ہوجا رہا ہے ، کبھی ابراہيم کو ورغلاتا ہے، کبھی ہاجرہ کو ورغلاتا ہے، اور کبھی اسماعيل کے ذہن ميں شبہ ڈالتا ہے جب ہر طرف سے منہ کی کھانا پڑتی ہے تو زبردستی شيطان جمرات کے پاس کھڑا ہوکر رکاوٹ بن جاتا ہے، جبريل امين آتے ہيں اور ابراہيم عليہ السلام کو بتاتے ہيں کہ سات کنکرياں اٹھائيے اور شيطان کو مارئيے چنانچہ ابراہيم عليہ السلام ايسا ہی کرتے ہيں اور شيطان ذليل وخوار ہوکر بھاگتا ہے ۔چنانچہ حجاج کرام جمرات کوکنکرياں مار کراسی سنت کو تازہ کرتے ہيں ۔
 بہرکيف جب ابراہيم عليہ السلام منی کی سرزمين ميں پہنچ جاتے ہيں تو وفاشعار بيٹا عرض کرتا ہے، ابوجان! آپ ذبح کرنے سے پہلے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ ليجئے ايسا نہ ہوکہ شفقت پدری کا غلبہ آجائے اورآپ حکم الہی کی تعميل ميں ناکام ہوجائيں چنانچہ ابراہيم عليہ السلام پوری تياری کے ساتھ چھری ہاتھ ميں ليتے ہيں اور اسماعيل کو لٹاکر گردن پر چھری پھيرديتے ہيں ليکن چھری بھی تو اللہ کے حکم کے تابع ہے گردن پرحرف آئے تو کيسے ؟ پکار آئی:
 فلما أسلما وتلہ للجبين وناديناہ أن يا ابراہيم قد صدقت الرؤيا إنا کذلک نجزی المحسنين (الصافات 105-103)
غرض جب دونوں مطيع ہوگيے اورباپ نے بيٹے کو پيشانی کے بل گراديا تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہيم ! يقينا تونے اپنے خواب کو سچا کر دکھايا بيشک ہم نيکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا ديتے ہيں ۔ بہرکيف حجاج کرام کوچاہئے کہ جمرات کو کنکرياں مارتے اور ہدی کے جانور ذبح کرتے ہوئے اس قصے کواپنے ذہن ودماغ ميں تازہ رکھيں۔

قربانی:

آج کے دن يعنی دسويں ذی الحجہ کو حجاج کرام جمرہ عقبہ کو کنکری مارنے کے بعد قربانی کريں گے ، قربانی کے اندر بھی وحدانيت کے مظاہر کھل کر سامنے آتے ہيں ، يہ خون بھی خالق ارض وسما کے نام پر بہانا ہے، کسی درخت ،پتھر،بت ، ولی ، يا فقير کے نام پر نہيں چنانچہ جب بندہ اللہ کا نام ليکر جانور کے گردن پر چھری پھيرتا ہے تو خون گرنے سے پہلے اللہ رب العزت کی بارگاہ ميں قبوليت حاصل کر ليتا ہے:
 قل ان صلاتی ونسکی ومحيای ومماتی للہ رب العالمين (الانعام 162)
" آپ فرماديجئے کہ باليقين ميری نماز اور ميری قربانی،اور ميراجينا اور ميرا مرنا يہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جوسارے جہاں کا مالک ہے"-

فصل لربک وانحر (الکوثر2) " پس اپنے رب کےليے نماز پڑھ اور قربانی کر"۔

پتہ يہ چلا کہ ذبح ايک عبادت ہے جو خالص اللہ رب العالمين کے نام سے ہونی چاہئے صحيح مسلم ميں حضرت علی رضي الله عنه سے روايت ہے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمايا:
 لعن اللہ من ذبح لغيراللہ.
 ”اللہ کی لعنت ہے اس شخص پر جس نے اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کے نام پر جانور ذبح کيا “۔
غيراللہ کے نام سے جوبھی خون بہايا جائے يہ شرک ہے خواہ ايک مکھی کا بھينٹ چڑھانا ہی کيوں نہ ہو چنانچہ امام احمد نے کتاب الزھد ميں اور ابونعيم نے حليہ الاولياء ميں سلمان فارسی سے موقوفا روايت کيا ہے کہ
” ايک شخص ايک مکھی کے سبب جنت ميں داخل ہوا اور ايک شخص مکھی کے سبب جہنم رسيد ہوا “ لوگوں نے پوچھا : يہ کيسے ہوا ؟ فرمايا : تمہارے پہلے لوگوں ميں سے دو شخص کا گذر ايسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے پاس ايک بت تھاجو کوئی وہاں سے گذرتا ان کے بت کے ليے کچھ نہ کچھ بھينٹ چڑھا۔ چنانچہ لوگوں نے ان ميں سے ايک سے کہا : کچھ بھينٹ چڑھاؤ، اس نے جواب ديا : ميرے پاس کچھ بھی نہيں ہے ۔ لوگوں نے کہا : کچھ نہ کچھ چڑھا ايک مکھی ہی سہی ۔ چنانچہ اس نے ايک مکھی چڑھا دی اور گذرگيا جس کے باعث وہ جہنم رسيد ہوا اور دوسرے شخص سے لوگوں نے کہا : کچھ بھينٹ چڑھاؤ۔ اس نے جواب ديا : ميں اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کے نام پر کوئی چيز قطعا بھينٹ نہيں چڑھا سکتے جس سے انہوں نے ان کا سرقلم کرديا چنانچہ وہ جنت ميں گيا. ( يہ روايت ضعيف  ہے) 
بہرکيف حج ميں وحدانيت کی يہ چند مثاليں تھيں جنہيں ہم نے اختصار سے پيش کيا ہے اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہيں کہ حج کا يہ عظيم منسک بھی ہميں ہر ہر قدم پر وحدانيت کی تعليم ديتا ہے اور کيوں نہ دے جبکہ يہی ہماری تخليق کا مقصد ہے ۔ لہذا ضرورت ہے کہ ہم حج اورديگر عبادات ميں اس پہلو کو ہمہ وقت سامنے رکھيں کيوں کہ يہی وہ بنيادی نکتہ ہے جو ہماری عبادات کو غيرقوموں کی عبادات سے مميز کرتا ہے ۔

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔