سوال:
زمانہ بہت بُرا ہوگیا ہے، دنیا میں طرح طرح کے
فتنے پیدا ہو رہے ہیں، ایسے حالات میں بچوں کو دین پر قائم کیسے رکھا جاسکتا ہے ۔
جواب:
سوال بہت اچھا ہے، اس سے آپ
کی دینی حمیت جھلکتی ہے، اوراس بات کا اندازہ لگتا ہے کہ آپ اپنے بچوں کی تربیت کے
معاملے میں فکرمند ہیں، اورہرمسلمان کے اندر ایسی فکرمندی ہونی چاہیے۔ لیکن آپ نے
جو یہ کہا کہ زمانہ بہت بُرا ہوگیا ہے، عقیدے کے ناحیہ سے جب ہم اس لفظ پر غورکرتے
ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایسا نہیں کہنا چاہیے ۔ زمانہ برا نہیں ہوتا لوگ برے ہوتے ہیں،چونکہ
جوکام بھی زمانہ میں ہورہا ہے، اورجو تبدیلی بھی آرہی ہے اسے پیدا کرنے والا اللہ
تعالی ہے، اب اگر ہم نے زمانہ کو برا کہا تو گویا ہم نے اللہ تعالی کو برا کہا، زمانہ
کو گالی دی تو گویا ہم نے اللہ تعالی کو گالی دی، اسی لیے صحیح بخاری اورمسلم کی
روایت میں ایک حدیث قدسی آئی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ
اللہ تعالی فرماتاہے :
یوذینی ابن آدم یسب ألدھر وأنا الدھر بیدی إلامر أقلب اللیل والنھار
ابن آدم مجھے اذیت دیتا ہے، وہ زمانے کو گالیاں دیتا ہے اورمیں ہی صاحب
زمانہ ہوں، میرے ہاتھ میں معاملات ہیں، میں رات اوردن کو بدلتا ہوں۔ “
اس لیے عام طورپر جو یہ کہہ دیاجاتا ہے کہ زمانہ برا
ہوگیا ہے، وقت خراب ہوگیا ہے، یہ سب غلط ہے ایسا نہیں کہنا چاہیے ۔ ہاں ! اللہ کے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف احادیث میں لوگوں کے حالات کے اندر تبدیلی کی خبر
دی ہے، قیامت کی نشانیاں بیان کی ہیں، تو اصل میں یہ لوگوں کے حالات میں تبدیلی کی
خبر ہے، زمانے کو برا بھلا کہنا نہیں ہے ۔ یہ رہی پہلی بات ….رہا بھائی کا سوال کہ
شہوات اور شبہات کے اس ماحول میں بچوں کودین پر کیسے قائم رکھا جائے ؟
اس تعلق سے چند گزارشات پیش کی جارہی ہیں اگر ان کو
سامنے رکھاجائے تو ہمارے بچے ان شاءاللہ ہرطرح کے فتنے سے محفوظ رہیں گے ۔
گھر میں دینی ماحول ہو:
سب سے پہلی بات تو یہ کہ گھر میں دینی ماحول ہو، بچے ماں
باپ کو وہ اسلام کا نمونہ دیکھتے ہوں، اگر گھرمیں ایمانیات کاماحول نہیں ہے، گھروں
سے ہروقت موسیقی اورگانے کی آواز آتی رہتی ہے تو ظاہر ہے ایسے گھر کے بچے کسی صورت
میں دینی جذبہ رکھنے والے نہیں بن سکتے ۔
گھر میں ایک اسلامی لائبریری ہو:
جس میں بچوں کے لیے
دینی کتابیں، کیسٹیں اورویڈیوز رکھے گئے ہوں، ماں باپ بچوں کو انہیں دیکھنے،سننے
اورپڑھنے پرابھارتے ہوں، بلکہ خود بیٹھ کر ان کے ساتھ کچھ باتیں سنتے، دیکھتے
اورپڑھتے ہوں۔
گھرمیں نیک لوگوں اورعلماء کو دعوت دی جاتی ہو:
بچوں کو
ان سے استفادہ کرنے پر ابھارا جاتا ہو، بچوں کو قرآن سکھانے کا اہتمام کیاجاتا ہو۔
دینی کتابوں خاص کر قرآن اور حدیث اور سیرت رسول سے سوالات کرکے ان کی معلومات میں
اضافہ کرنے کی کوشش ہوتی ہو۔
ماں باپ بچوں کے احوال پر نظر رکھتے ہوں:
مائیں اپنی بچیوں کے ساتھ نماز ادا کرتی ہوں اور باپ بچوں کو لے کر مسجد
میں نماز ادا کرنے کے لیے جاتے ہوں۔ ماں باپ بچوں کے احوال پر باریکی سے نظر رکھتے ہوں، ان
کے دوست یا ان کی سہیلیاں کون ہیں، ماں باپ کو ان کے بارے میں پوری معلومات ہونی
چاہیے ،ان کے بچے کن کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اورکھیلتے ہیں اس کی پوری خبر
ہونی چاہیے والدین کے پاس ….ان کے بستوں، الماریوں، بستروں اورتکیہ کے نیچے کیا ہے
….ایسا تو نہیں کہ ان کی ملاقات بد کردار بچوں سے ہورہی ہے، ایسا تو نہیں کہ مخرب
اخلاق فلموں اور سگریٹ نوشی کے وہ عادی ہوتے جارہے ہیں ۔ جب ماں باپ بچوں سے قریب
ہوں گے تو ان کی نفسیات کو سمجھ سکیں گے ۔
0 تبصرہ:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔