منگل, نومبر 05, 2013

حقیقت خرافات میں کھوگئی


حقیقت اور خرافات دوالگ الگ اورمتضاد چیزیں ہیں جن کا بیک وقت ایک ساتھ اکٹھا ہونا اجتماع ضدین ہے ۔ البتہ حق وباطل کی معرکہ آرائی میں وقتی طورپر حقیقت خرافات میں کھوجاتی ہے ۔ ایسا ہردورمیں ہوتا آیا ہے اور آج بھی ہورہا ہے ، اسلام سب سے پہلا مذہب ہے اوراس کی سب سے پہلی دعوت توحید ہے اس کے باوجود شیاطین جن وانس نے ہردورمیں انسانوں کو شرک کا آلہ کاربنائے رکھا اورحقیقت خرافات میں کھوتی رہی، اسی حقیقت کی دبیز تہہ سے پردہ اٹھانے کے لیے ہردورمیں انبیائے کرام مبعوث کئے گئے ۔لاکھوں انبیائے کرام کی دعوت کے باوجود رحمت عالم صلى الله عليه وسلم کی بعثت کے وقت ساراعالم کفروبت پرستی سے جوجھ رہا تھا محض اس بنیاد پر کہ حقیقت خرافات میں کھوچکی تھی ،ہمارے آقا نے اپنی نبوت کی23سالہ زندگی میں حقیقت اورخرافات کا ایسا واضح تصور پیش کردیا کہ اس کی رات بھی دن کی مانند ہوگئی لیکن بُرا ہوجہالت اورہوائے نفس کا کہ مرورایام کے ساتھ یہ امت اپنے نبی کی تعلیمات سے دور ہوتی گئی ، امت کا ایک بڑاطبقہ گمراہی کا شکار ہوگیا پھر حقیقت کی جگہ پر خرافات کوفروغ ملنے لگا اورروایات کی گرم بازاری ہوگئی۔ آج برصغیرپاک وہند میں ایسے بے شمار اعمال وتصورات پائے جاتے ہیں جوحقیقت میں ایجاد بندہ ہیں لیکن دین کے نام پر مسلم معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں۔
 محرم الحرام کا یہ مہینہ جس سے ابھی ہم گذر رہے ہیں ،بے انتہا اہمیت کاحامل مہینہ ہے،یہ مہینہ ان چارحرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جس میں بالخصوص اللہ پاک نے اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے منع کیا ہے ،سورة التوبةآیت نمبر36 میں اللہ پاک نے فرمایا: فلاتظلموا فیہن أنفسکم ”ان( چارمہینوں:ذوالقعدہ ،ذوالحجہ ،محرم اوررجب )میں اپنے نفس پر ظلم مت کرو“۔ظلم توویسے بھی سال کے بارہ مہینوںمیں حرام ہے ، لیکن ان چارمہینوںمیں ظلم کی حرمت مزید بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ ان چارمہینوں کی حرمت کا خیال رکھتے تھے اوراِن میں قتل وقتال سے بچتے تھے ۔اس لیے محرم کے مہینے میں خاص طورپر گناہوں سے بچنا چاہیے اورنیکیوں کے کام زیادہ سے زیادہ کرنے چاہئیں ۔خاص طورپر ان دنوںمیں روزوں کا اہتمام زیادہ کرنا چاہیے کیوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أفضل الصیام بعدرمضان شھر اللہ المحرم (مسلم 1136) رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہ محرم کے روزے ہیں ۔ پتہ یہ چلا کہ اس مہینے میں نفلی روزوں کا اہتمام زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے ۔ خاص طورپر عاشوراءکے دن یعنی دس محرم کو روزہ ضرور رکھنا چاہیے ۔کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب تک مکہ میں رہے اس دن کا روزہ رکھتے رہے ،جب مدینہ آئے تو خود رکھا اورصحابہ کرام کو بھی رکھنے کا حکم دیا ،لیکن جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اختیار دے دیا کہ جو چاہے رکھے جوچاہے نہ رکھے ۔ (صحیح بخاری 2001،2003 صحیح مسلم : 1125) 
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اس دن کا روزہ کیوں رکھاجاتا ہے ؟ تو اس سلسلے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی یوم عاشوراءکا روزہ رکھتے ہیں،آپ نے ان سے پوچھا: تم اس دن کاروزہ کیوں رکھتے ہو؟انہوں نے کہا: ھذا یوم عظیم أنجی اللہ فیہ موسی وقومہ وأغرق فرعون وقومہ فصامہ موسی شکرا فنحن نصومہ ”یہ عظیم دن ہے ،اس میں اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام اوران کی قوم کو نجات دی اورفرعون اوراس کی قوم کو غرق کیا چنانچہ موسی علیہ السلام نے شکرانے کے طورپر اس دن کاروزہ رکھا اس لیے ہم بھی اس دن کاروزہ رکھتے ہیں ۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فنحن أحق وأولی بموسی منکم '' تب تو ہم موسی علیہ السلام کا زیادہ حق رکھتے ہیں اورہم ان سے تمہاری نسبت زیادہ قریب ہیں ۔" پھر آپ نے خود اس دن کا روزہ رکھا اورصحابہ کرام کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔(صحیح بخاری : 2004 صحیح مسلم 1130) اورجب اس کی اہمیت کی بابت پوچھا گیا توآپ نے فرمایا: یکفر السنة الماضیة ( صحیح مسلم 1162)کہ پچھلے ایک سال کا گناہ معاف کردیاجاتا ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اخیر وقت تک عاشورہ کا روزہ رکھتے رہے ،البتہ وفات سے ایک سال پہلے آپ سے کہا گیاکہ اسی دن یہودونصاری بھی روزہ رکھتے ہیں توآپ نے فرمایا: فاذا کان العام المقبل ان شاءاللہ صمنا الیوم التاسع (صحیح مسلم1134 ) جب آئندہ سال آئے گا تو ہم ( دس محرم کے ساتھ) نو محرم کا بھی روزہ رکھیں گے ۔لیکن محرم تک آپ باحیات نہ رہ سکے ،اورربیع الاول ہی میں دنیا سے چلے گئے ۔اس لیے دس محرم کے ساتھ نو محرم کا روزہ بھی رکھنا چاہیے ۔ 
غرضیکہ ماہ محرم میں ہمارے حبیب کی سنت یہ ہے کہ بکثرت روزے کا اہتما م کیاجائے خاص طورپر عاشوراءکے دن اس تاریخی واقعے کو تازہ کرتے ہوئے روزے رکھے جائیں جس دن اہل حق فتح وکامرانی سے سرخروہوئے اوراہل باطل کی شب تاریک کا خاتمہ ہوا، جس دن موسی علیہ السلام کوفرعون کے چنگل سے نجات ملی تھی اورفرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت دریائے نیل میں غرقاب ہوکرہمیشہ کے لیے عبرت کاسامان بنا تھا ، چنانچہ ہردورمیں اللہ والوں نے اس دن روزہ رکھنے کا اہتمام کیا یہی حقیقت ہے عاشورہ کی اوربس۔ 
لیکن اللہ کی مشیت ہوئی کہ سن 61 ھ میں عاشورہ ہی کے دن ایک جگرخراش اوردل دوز حادثہ پیش آیا یعنی جگرگوشہ بتول اورنواسہ رسول سیدنا حسین  رضى الله عنه میدان کربلا میں شہید ہوکر زندہ وجاوید بن گئے ۔  یہیں سے تاریخ نے ایسا رخ بدلا کہ پچھلی ساری حقیقتیں ذہنوں سے اوجھل ہوگئیں اوراس امت کا ایک طبقہ روایات میں کھوکر رہ گیا ، چنانچہ اگرایک طرف قاتلان حسین رضى الله عنه نے اچھے ملبوسات زیب تن کرنے ، اچھے کھانے پکانے اورسرمہ لگانے کی بدعت ایجاد کی تودوسری طرف سیدناحسین رضى الله عنه سے محبت کا دعوی کرنے والوں نے اس دن کو رنج والم کا دن قرار دیا ۔ بدقسمتی سے اہل سنت کے جاہل عوام میں یہ تصورات نفوذ کرگئے ، اب ان میں کا ایک طبقہ عاشورہ کے سلسلے میں نبوی طریقہ کو فراموش کرکے بدعی طریقہ کا قائل اورعامل ہے حالانکہ سنت کا طریقہ یہ تھا کہ اس دن روزے رکھے جائیں
حقیقت خرافات میں کھوگئی     یہ امت روایات میں کھوگئی
اہل بیت سے محبت ایمان کی علامت ہے ، اورشہادت حسین  رضى الله عنه کے دردناک اورکربناک واقعے کوسن کرامت مسلمہ کا ہرفرد بے چین اورمضطرب ہوجاتا ہے ، آنکھیں اشک بار اور دل بے قرار ہوجاتا ہے لیکن ایک مسلم پر لاکھ پریشانیاں آجائیں وہ شرعی حدود کو تجاوز نہیں کرسکتا ،شریعت نے مصیبت کے وقت صبر کرنے کا حکم دیا ہے اورسینہ کوبی اورماتم وشیون سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے- اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لیس منا من لطم الخدودوشق الجیوب ودعا بدعوی الجاھلیة (صحیح البخاری 1294) ” وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے رخساروں پر طمانچے مارے ،گریبانوںکو چاک کرے اورجاہلیت کی پکار پکارے ،یعنی واویلا کرے اورمصیبت میں موت کوپکارے “  پھرشریعت نے میت پر سوگ منانے کی مدت تین دن ہی رکھی ہے ، سوائے اس عورت کے جس کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہو، کیونکہ وہ چارمہینے اوردس دن سوگ منائے گی ۔(بخاری ومسلم) حالانکہ شہادت حسین کوایک زمانہ بیت گیا آخر اب تک نوحہ کرنا اورماتم منایا کیوں کر درست ہوسکتا ہے ؟ اورتاریخ میں محض شہادت حسین کا ہی واقعہ پیش نہیں آیا بلکہ ان سے پہلے بھی سیدنا حسین رضى الله عنه کے ابّاشیرخدا علی رضى الله عنه نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کردئے گئے جوسب کے نزدیک حضرت حسین رضى الله عنه سے افضل تھے ، ان سے پہلے تیسرے خلیفہ عثمان ذوالنورین رضى الله عنه کی شہادت کا المناک واقعہ پیش آیا جو حضرت علی رضى الله عنه سے بہرحال افضل تھے، ان سے پہلے خسر رسول حضرت عمرفاروق رضى الله عنه کی شہادت کا عظیم سانحہ اسی محرم کی یکم تاریخ کوپیش آیا لیکن ان سب کے یوم شہادت کوماتم کا دن نہیں بنایاگیا ۔
زندہ قومیں ہمیشہ اپنے نئے سال کا استقبال عزم اورحوصلہ کے ساتھ کرتی ہیں، اپنی غلطیوں پر رونے اورماتم کرنے کی بجائے ہمت اور استقلال کے ساتھ آنے والے سال کے لیے پلاننگ کرتی ہیں۔ یہی دانشمندانہ قدم ہے ورنہ ماضی کی غلطیوں پر آنسو بہانا اورسال کا آغاز ہی نوحہ وماتم سے کرنا شکست خوردہ قوموں کی پہچان ہے ۔ افسوس کہ اہل سنت کی ایک اچھی خاصی تعداد اس دن روزہ رکھنے کی بجائے تعزیہ داری اورنوحہ خوانی کرتی اوراس طرح کے جلوسوں میں تماشہ بیں کی حیثیت سے شریک ہوتی ہے۔ آج ضرورت ہے کہ ہمارے خطباء اور واعظین عوام الناس کے سامنے اس مناسبت سے موسیٰ علیہ السلام اورفرعون کا واقعہ بیان کریں، ہجرت مصطفی اوراس سے حاصل ہونے والے اسباق پر گفتگوکریں، محرم الحرام کی فضیلت پر روشنی ڈالیں اورواقعہ کربلا میں جو رنگ آمیزی کی گئی ہے اس کی حقیقت سے لوگوں کوآگاہ کریں تاکہ حقیقت بے غبار ہوکرسب کے سامنے آسکے۔
 صفات عالم محمدزبیرتیمی
safatalam12@yahoo.co.in

2 تبصرہ:

जीवन का उद्देश نے لکھا ہے کہ

ما شاء الله. بارك الله فيكم من جوانب حياتكم المختلفة. وزاد شرفا ومنزلا في الدنيا والآخرة.

Safat Alam Taimi نے لکھا ہے کہ

جزاكم الله خيرا

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔