منگل, نومبر 05, 2013

کیا درگاہ جاکر فاتحہ پڑھ سکتے ہیں ؟

سوال:

کیا درگاہ جاکر فاتحہ پڑھ سکتے ہیں ؟ (خلیفہ شيخ ، كويت)

جواب:

اسلام میں قبرو ں کی زیارت مسنون کی گئی ہے،درگاہ کی نہیں اور قبروں کی زیارت سے بھی شروع اسلام میں منع کردیاگیاتھا کیونکہ اندیشہ تھا کہ ایسا نہ ہوکہ نئے نئے اسلام میں داخل ہونے والے لوگ مردے سے مددمانگنے لگیں۔ان کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھنے لگیں ۔ جب اللہ پر ان کاایمان پختہ اورمضبوط ہوگیا تو اللہ کے نبی صلى الله عليہ وسلم نے زیارت قبور کی اجازت ديتے  ہوئے اس كى حكمت كى بهى وضاحت كردى ، آپ صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا:
كنت نهيتكم عن زيارة القبور فزوروها فانها تذكركم الموت  رواه مسلم 
"میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے منع کردیا تھا اب تم قبروں کی زیارت کیا کروکیونکہ یہ آخرت کی یاد دلاتی ہے" ۔( مسلم)
 اس حدیث میں زیارت قبورکی حکمت یہ بتائی گئی ہے کہ وہاں جانے سے بندے کوآخرت کی یاد آتی ہے ،وہ سوچتاہے کہ کل تک یہ لوگ ہمارے ہی جیسے زمین پر چلتے پھرتے تھے لیکن آج قبروں میں مدفون ہیں ایک دن ہمیں بھی اِسی جگہ آنا ہے اس طرح وہ آخرت کے لیے تیاری کرتاہے،اور ایک دوسری حکمت جو قبرمیں مدفون مردے سے متعلق ہےاس کا تعلق چونکہ دنیا سے کٹ چکا ہے، اب وہ ایک ایک نیکی کا محتاج ہے ، اس لیے مناسب ہے کہ اس کے لیے دعائے مغفرت کی جائے۔
ان دو حکمتوں كے پيش نظرقبروں کی زیارت مسنون کی گئی ہے ،اب  درگاہوں كودیکھیں تووہاں پر لوگ قبرمیں مدفون مردےسے مانگتے ہیں اوردنیا میں شرک کی شروعات اولیائے کرام کی شان میں غلو کرنے کی وجہ سے ہوئی ہے ۔ صحیح بخاری کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ نوح علیہ السلام کی قوم میں پانچ نیک لوگ تھے- ود ،سواع ،یغوث ،یعوق اور نسر ۔شیطان نے ان کے سامنے ان اولیائے کرام کی اہمیت جتلائی یہاں تک کہ ان لوگوں نے ان کے  مجسمے  بنالیا ۔ پھر بعد میں ان کی عبادت کی جانے لگی ۔اورام سلمہ اور ام حبیبہ رضى الله عنهما  نے جب اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم سے ان مجسموں کا تذکرہ کیا جو انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا تو آپ نے فرمایا:
 أولئک قوم اذا مات فیھم الرجل الصالح بنو علی قبرہ مسجدا وصوروا فیہ تلک الصور أولئک شرار الخلق عند اللہ
"جب ان کے بیچ کوئی نیک بندہ یا نیک آدمی مرجاتاتھا تواُن کی قبروں کو عبادتگاہ بنالیتے تھے ۔اور اس کے اندر اُن کی تصویریں بنادیتے تھے ۔ وہ لوگ اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق ہیں ۔
اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم کو انديشہ تھا کہ مبادا میری امت میں اس طرح کی چیزیں پیدا ہوجائیں، اسی لیے اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم نے اپنی امت کو کئی طریقے سے روکا:
پہلی بات یہ کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے قبروں کو چراغاں کرنے سے منع کیا مسنداحمد کی روایت ہے ابن عباس رضى الله عنهما  فرماتے ہیں:
 لعن زائرات القبور والمتخذین علیھا المساجد والسرج ( مسند احمد)
" اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں اور ان پر مسجدیں بنانے والیوں اور دیاجلانے والیوں پر لعنت بھیجی "۔
دوسری بات یہ کہ اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم نے قبروں کو چونہ گچ کرنے اور اُن کو پختہ کرنے سے بھی منع کردی ۔ ابوداود کی روایت ہے حضرت جابررضى الله عنه فرماتے ہیں کہ:
 نھی عن تجصیص القبور وأن یکتب علیھا (ابوداؤد)
"اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم نے قبروں کو چونہ گچ کرنے اور ان پر کچھ لکھنے سے منع کردیا "۔
تیسری بات یہ کہ قبروں کے پاس آپ صلى الله عليه وسلم نے نمازاداکرنے سے بھی منع کردیا صحیح مسلم کی روایت ہے ابومرثد الغنوی فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا:
 الأرض کلھا مسجد الا المقبرة والحمام
"سوائے قبرستان اور حمام کے ساری زمین نماز ادا کرنے کی جگہ ہے "۔
اور سب سے اہم بات یہ کہ آپ نے قبروں کو عبادتگاہ بنانے سے منع کیا کہ وہاں پر سجدے کئے جائیں،قربانی کی جائے یا نذر ونیاز دیا جائے ۔ صحیح مسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول صلى الله عليہ وسلم نے اپنی وفات سے پانچ دن پہلے فرمایا تھا :
ألا وإن من کان قبلکم کانوا یتخذون قبورأنبیاءھم مساجد ،ألا فلاتتخذوا القبور مساجد، فإنی أنھاکم عن ذلک . ( رواه مسلم)
"تم سے پہلے لوگ قبروں کو عباد تگاہ بنالیتے تھے ۔اس لیے تم قبروں کوعبادتگاہ مت بنانا ۔ میں تم کو اس سے منع كرتاہوں"۔
بلکہ آپصلى الله عليہ وسلماللہ پاک سے دعا کرتے تھے:
 اللھم لاتجعل قبری وثناً ( مسند احمد )
" اے اللہ! میری قبر کو عبادت گاہ مت بنانا۔" یہی وہ اندیشہ تھا جس کی وجہ سے آپ کو مائی عائشہ رضى الله عنها  کے گھر میں دفن کیا گیا ورنہ آپ کو جنت البقیع میں تمام صحابہ کرام کے ساتھ دفن کیا جاتا ،خود عائشہ رضى الله عنها  فرماتی ہیں:
 لولا ذلک لأبرز قبرہ غير أنه خشى أن يتخذ مسجدا  ۔ ( بخارى ومسلم) 
"اگر آپ کو اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ آپ کی قبر کوبھی عبادتگاہ بنالیں گے تو آپ کی قبر کھلی جگہ رکھی جاتی "۔
 اِن ساری تفصیلات سے آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ آج جس شکل میں درگاہ ہے وہ پیارے نبی صلى الله عليہ وسلم کی تعلیمات کے بالکل منافی ہے ۔ وہاں کھلم کھلا شرک ہورہا ہے ۔

رہا وہاں فاتحہ پڑھنے كا مسئلہ تو قبرستان کی زیارت کرتے وقت بھی نہیں پڑھنا چاہیے،چہ جائیکہ درگاہ پر پڑھا جاے ۔ قبرستان کی زیارت کا مقصد عبرت حاصل کرنا بتایا گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ قرآن کی تلاوت میں مشغول ہونے سے عبرت حاصل کرنے کاجو مفہوم بتایا گیا ہے وہ مفہوم حاصل نہیں ہوسکتا ۔

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔