اسی اثناءمولانا عقیل احمد السلفی مدرسہ میں بحیثیت استاد
داخل کئے گئے چناچہ ہم سب ان کے درس میں چلے آئے اس وقت تک ہمیں اردواملا نویسی کا
اچھاخاصا تجربہ ہوگیا تھا، اس لیے عربی اورفارسی کی ابتدائی کتابیں شروع کیں اورپوری
کتاب انہیں کی زیرنگرانی ختم کیا ، نیزدوسری کتابیں بھی پڑھیں ،اس وقت تک میں بہت بڑاہوگیا
تھا استاد محترم صدرمدرس تھے ،انہوں نے میری عمر کی رعایت کی اور ایک درجہ اوپرکردیا،اب
ہم سب عربی ادب کے ساتھ ساتھ میزان الصرف ،میزان النحو اور تاریخ کی کتابیں بھی پڑھ
رہے تھے ۔
اس
وقت مدرسہ کا تعلیمی نظام بڑااچھا تھا اورمزید اسمیں جدت لانے کی کوشش ہورہی تھی اسلئے
ایک کہنہ مشق اورتجربہ کار استاد محترم جناب مصطفے القاسمی مدرسہ میں بحال کئے گئے
جو غالباً کٹیہار کے تھے ،انہیںصدر مدرس نامزد کیا گیاتھا،ان کا آناتھا کہ تعلیمی نظام
میں چار چاند لگ گیا اور اساتذہ میں بھی جذبہ تدریس دوآتشہ ہوگیا،یوں توان کا قیام
مدرسہ میں بہت کم ہی دنوںرہا تاہم اس قلیل عرصے میں ہمیں خاصی معلومات حاصل ہوئی ،ان
کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ بچوں سے بالکل بے تکلف ہوکر گفتگو کرتے تھے،انکی توجہ
اور ذاتی لگن کا ثمرہ تھا کہ تعلیمی نشاطات میں سرگرمی آئی ،بچوں میں طلب علم کا سلیقہ
آیا،انہوں نے صرف تعلیم پر ہی زورنہیں دیا بلکہ بچوں کی تربیت پر خاصا وقت لگایا ،قرآن
کو بالتجو ید پڑھانے کی ہر ممکن کوشش کی ،بچوں سے ہرروزنمازکی پابندی کراتے، ظہر اورعصر
کی نمازباضابطہ باجماعت مدرسے میں ہواکرتی تھی جس میں بچوں کی شرکت ضروری تھی،اوردیگراوقات
میں گھر پر نمازوں کی پابندی کی تلقین کرتے پھر کل ہوکر نمازمیں سستی برتنے والے بچوں
کی سرزنش بھی کرتے تھے ۔
مولانا موصوف نے اپنی تادیبی بھٹی میں تپا کر ہم سبہوں کو
نمازکا پابند بنادیا تھا، ہم سب میں نمازوں کی ادائیگی کا اچھا خاصاجذبہ پیدا ہوگیاتھا
،پہلے وقت میں وضو کرکے مسجد چلے جاتے تھے ،اور سنتیں پڑھ کر مسجد میں نماز کا انتظار
کرتے رہتے تھے ۔
ایک واقعہ :
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک روز میں پہلی صف میں بڑے لوگوں کے ساتھ مل کر نماز ادا
کررہا تھا ،میری عمر اس وقت دس سال سے کم نہ رہی ہوگی ،ایک صاحب آئے اورمجھے کھینچ
کر پیچھے کی طرف دھکیل دیا اوروہاں پر خود کھڑے ہوگئے ،انہوں نے ایسا غالبا علاقہ کی
روایت کے مطابق کیاتھا اوراسے بہتر سمجھا تھاکہ بچوں کوبڑوں کے ساتھ کھڑا نہیں ہوناچاہیے
۔ لیکن میرے لیے یہ ایسا ماجرا تھا جسے میں شاید زندگی بھر بھول نہ سکوں ، اورمجھے
ان صاحب سے دلی طور پر نفرت سی ہوگئی تھی،اس کے بعد میں کبھی بھی ان صاحب سے کھل کر
نہ مل سکا کہ بچپن کی دشمنی جو دل میں بیٹھ گئی تھی ۔ اب وہ صاحب وفات پاچکے ہیں اللہ
ان کی مغفرت فرمائے ۔
ایک لطیفہ :
انہیں دنوں کا ایک واقعہ ہے جو اب تک ذہن میں تازہ ہے گویا آج ہی پیش آیا ہو،واقعہ
کی تفصیل كچه یوں ہے: ہم سب بچے تھے ،طفلانہ ذہن تھا ،اوربزرگوں سے سن رکھا تھا کہ
بروزقیامت جنتی لوگ اعضائے وضو کی سفیدی سے پہچانے جائیں گے، چنانچہ ایک تویہ شوق اوردوسرا
رونمائی کا جذبہ(اللہ بچائے ایسی عادت سے) ہم نے اپنے ساتھیوں سے مقابلہ شروع کردیا
کہ دیکھتے ہیں کس کی پیشانی پر نمازکانشان ظاہر ہوتا ہے ۔اس جذبہ نے سجدہ کی حالت میں
ہمیں اپنی پیشانیوں کوفرش پر رگڑنے پر مجبور کردیا ، ہم لوگوں نے ریاکاری اور استاد
محترم کودکھانے کی خاطر فرش پر اپنی پیشانی کوخو ب خوب رگڑایہاں تک کہ چہرے پر زخم
کے نشانات بھی عیاں ہوگئے
ایک
روزاستادمحترم نے ایک لڑکے کے چہرے پریہ نشان دیکھ کر پوچھ دیا: ارے تم نے یہ کیا کر
رکھا ہے ؟جی جی جی ........مولوی صاحب ! فلاں بھی ڑگررہا تھا اسلئے میں نے بھی ڑگر
لیا ،اب کیاتھا .... مولانانے ہم سب کوبلایا اورسمجھایا کہ دیکھو ”نماز کے اندر ایسا
عمل نہیں کرتے ،نماز اللہ کے لیے ادا کی جاتی ہے ،اس میں ریاکاری اوردکھلاوا نہیں ہونا
چاہیے ۔ “ اس کے بعد سے ہم سب نے ایسی حرکت پھرکبھی نہیں کی ۔
استاذمحترم کی دوسری خوبی جو میں نے محسوس کی وہ بچوں کی
نفسیات کا بہت خیال رکھتے تھے ، جب کبھی کسی طالب کو کاغذ قلم اورکتاب وغیرہ کی خریداری
میں سستی کرتے پاتے تو فوراً اسے ڈانٹ نہیں پلاتے بلکہ بلاکر تنہائی میں ان کی معاشی
حالت کی بابت دریافت کرتے، ایک روزہم سے بھی مولانانے ہماری نجی زندگی کے سلسلے میں
پوچھا ،میں نے من وعن جوہماری حالت تھی استاد محترم کے گوش گزار کردی، میں نے اپنی
اقتصادی بدحالی کاایک سبب ان کویہ بھی بتلایا کہ ہمارے دو بڑے بھائی ہیں لیکن دونوں
معقول مشاہرہ پانے کے باوجود اپنے گھر سے بالکل بے خبر رہتے ہیں بلکہ منجھلے بھائی
کااب تک تو پتہ ہی نہیں چلتا ،میں اپنے جذبات بیان کررہا تھا اور ادھر میرا چہرہ روہانسی
بناجارہا تھا ،انہوں نے میری زبان سے نکلی ہوئی آہ کو میری دلی آہ تصور کیا اور بڑی
شفقت بھرے لہجے میں سمجھایا :
”بیٹا
شکستہ خاطر مت ہو ،تم یقین رکھو کہ اللہ سبحانہ تعالی ایک نہ ایک روز تمہاری مصیبت
کودور کردیں گے اور آج جوتمہارے سروں پر قلاشی کے بادل منڈلارہے ہیں ان شاءاللہ ایک
روزکافور ہوجائیں گے “
ایک
روزمجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے پاس کاپی نہیں تھی اور شرم کی وجہ سے نانی جان سے
بھی میں عرض نہ کیا تھا چنانچہ ہم مدرسہ گئے استاد محترم نے املاءلکھوانا شروع کیا
، میں اپنی جگہ برساکت وصامت بیٹھارہا، اچانک مولانا کی نظر میری طرف پڑی، پوچھا: ارے
تم کیوں نہیں لکھ رہے ہو۔ میں اب بھی خاموش رہا ،میری پیشانی دیکھ کر تاڑ گئے کہ کوئی
پریشانی اس کے ساتھ ضرور ہے ، فوراً وہاں سے اٹھے اورمجھے اپنے کمرے میں بلاکر لے گئے
اورپوچھا ”بیٹا شرم مت کرنا، بتاﺅ
تم کیو ں تم غم زدہ لگ رہے ہو ،میں نے اپنے درد کو چھپاتے ہوے ان سے کہا : مولانا بات
دراصل یہ ہے کہ دکاندار کے ہاں کاپی نہیں ملی لہذا آپ کے خوف کی وجہ سے ہماری یہ حالت
ہو رہی ہے اوردوسری کوئی بات نہیں ہے “
مولانا
نے تسلی دیتے ہوئے کہا :کوئی بات نہیں بیٹھو کل خرید لينا، کل بھی ہوگیا لیکن میرے
پاس پیسہ کہاں کا تھاکہ کاپی خریدتا؟کل صبح ہوتے ہی پھرمدرسہ حاضرہوا، اب مولانانے
دوبارہ کل والی بات چھیڑدی ،مزید یہ کہ ساتھیوں کے بستوں میں کاپیو ں کاطومار دیکھا
اورمیرابستہ کاپی سے بالکل خالی، میں اس دن شرم سے پانی پانی ہورہا تھا کہ اگر آج مولانا
نے پوچھا تو انہیں کیا جواب دوں گا ،یہ سوچتے سوچتے میری آنکھیں بہہ پڑیں، مولانابوریہ
پر ہلکے سے فاصلے میں بیٹھے تھے، وجہ دریافت کی، میں نے اب کی بار بالکل صحیح صحیح
بتادیا، ہمیں روم میں لائے اوریہ کہتے ہوئے زبردستی پانچ روپیہ میرے حوالے کیا کہ جاؤ اس
سے کاپی خرید لینا ،مجھے استادمحترم کے شدیداصرارپر اسے لینا پڑا۔
گھر
آکر نانی سے اس سلسلے میں کوئی بات نہ کی کیونکہ اگر وہ یہ سرگزشت سن لیتیں تولامحالہ
رودیتیں چونکہ وہ ہم سبھوں پر پیسہ خرچ کرنے میں کوئی دریغ نہیں کرتی تھیں ، جب کوئی
ضرورت پڑی قرض لے کر بھی اسکی تکمیل کردیتیں لیکن خود مجھے ہی پیسے مانگنے میں شرم
محسوس ہوتی تھی۔خلاصہ یہ کہ مولانا خاص طور پر میرے لئے سرتاہا شفقت تھے لیکن صدحیف
کہ وہ وہاں طویل عرصہ نہ رہ سکے اورانتظامیہ اوران کے بیچ کچھ آویزش ہونے کی وجہ سے
تقریباًایک ڈیڑھ سال ہی میں ہم سبھوں کو داغ مفارقت دے گئے ،انکی جدائی کا اثر تو مجھ
پر ذاتی طور پر بہت گہراپڑاکہ ایک اچھے استاذاورمربی کے سایہ سے محروم ہونا پڑا تھا
۔
ان
کے جانے کے بعد چونکہ ہمارا وہ آخری سال تھا اورمیں وہاں چوتھے سال میں قدم رکھا تھا
یعنی جب سے میں نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغازکیاتھااب تک چار سال مکمل ہونے کوتھے
،اس لئے کچھ دن کے لئے پھرمولاناعقیل احمدالسلفی کے زیردرس آگئے، رمضان کی آمدآمد تھی
،ہم ساتھیوں کے ذہن ودماغ میں جامعہ ابن تیمیہ چندنبارہ میں داخلہ لینے کی تمنائیں
اٹھکھیلیاں لے رہی تھیں ، جب رمضان کے کچھ دن باقی رہ گئے تو استاد محترم نے ہم ساتھیوں
کو وہاں کے لئے کچھ تیاری کرائی،فضیلتہ الشیخ ابوالقیس المدنی جواس وقت جامعہ ابن تیمیہ
ہی میں تدریسی فرائض انجام دیتے تھے (اورآج بھی یہ سلسلہ جاری ہے )ان سے ملنے کی تاکید
کی ،ہم تمام ساتھی ان سے ملے ،انہوں نے درخواست لکھ کرجمع کرنے کاحکم دیا، چنانچہ استادمحترم
نے عربی کی پہلی جماعت میں داخلہ کے لئے ہم سب کی درخواست لکھ دی ، اسے لاکر ہم سبہوں
نے مولاناابوالقیس مدنی کے حوالے کر دیا، ابھی دس رمضان گزرابھی نہ تھا کہ ہم سبھوں
کامنظوری کارڈبھی آگیاجسے پڑھ کربڑی خوشی ہوئی۔مرورایام کے ساتھ بالآخروہ میعاد بھی
آگیا جس کے ہم سب بصداستیاق چشم براہ تھے،میرے ابا جان مجھے سائیکل پر بٹھا کراپنے
ضروریاتی سامان کے ساتھ مقررہ دن پر جامعہ ابن تیمیہ لے کر پہنچ گئے۔ (جاری ہے )
0 تبصرہ:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔