قمری تقويم کے مطابق نيا ہجری سال شروع ہوچکا ہے۔جوحقيقت ميں پيارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت کی يادگار ہے ۔ وہ ہجرت جو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی23 سالہ زندگی ميں ايک عظيم انقلابی اقدام ہے ۔وہ ہجرت جسکے بعداسلام کی شان وشوکت قائم ہوئی اور الفت ومحبت کی بنياد پراسلامی معاشرہ کی تشکيل عمل ميں آئی۔ وہ ہجرت جوفتح مکہ کی تمہيد ثابت ہوئی اور اسلام ايک عالمگير قوت کی حيثيت سے دنيا کے سامنے آيا۔
لفظ ہجرت سے شايد آپ نامانوس نہ ہونگے؟ دین وایمان کو بچانے کے لئے اپنے محبوب وطن کو خيرباد کہہ کر دوسری جگہ منتقل ہوجانے کا نام ہجرت ہے ۔ ليکن آج ہم جس ہجرت کی بات کريں گے وہ اس نبی کی ہجرت ہے جن سے افضل انسان اس دھرتی پر پيدا نہيں ہوا ، جو تاريخ انسانی کا سب سے بڑا مخلص ، ہمدرد ، اور غمگسارتھا، جس نے انسانوں کو جينے کا سليقہ سکھايا۔ جس نے رنگ ونسل کے بھيدبھاؤ کومٹايا ، جس نے سارے انسانوں کو ايک دين ،ايک الله،اور ايک نظام حيات پر جمع کرديا اور محض 23سال کی مختصرمدت ميں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس ماحول ميں آنکھيں کھولی اس وقت پوری دنيا بالخصوص عرب اخلاقی اور دينی اعتبارسے ديواليہ ہوچکا تھا ۔ اہل وطن کے بيچ ايسی پاکيزہ اور بے داغ زندگی گذاری کہ تاريکيوں ميں روشن چراغ بنے رہے ۔ سچائی اور امانت داری ايسی کہ امين وصادق کے لقب سے پکارے گئے۔
آج عمر کی چاليس بہاريں ديکھ چکے ہيں ۔غارحراميں جبريل امين آتے ہيں اور آپ کو منصب نبوت پر فائز کرديا جاتا ہے ۔۔شروع ميں تين سال تک لوگوں کو رازداری کے ساتھ ، چھپ چھپاکر دعوت ديتے رہے ۔ پھرحکم آياکہ اے نبی ! دين حق کا اعلان کرديجئے ۔ اب کيا تھا ؟ دعوت کے ليے کمر کس ليتے ہيں ، رات ودن آپ کا يہی مشغلہ ہے ، پہاڑی پر ، منڈيوں ميں ، ميلوں ميں ہرجگہ جاتے ہيں ، لوگوں کو ايک اللہ کی طرف بلاتے ہيں ۔
ليکن ذرا سوچئے تو سہی وہ قوم جو 260 بتوں کے سامنے سر ٹيکتی تھی، انہيں کب بھاتا کہ لوگ بت پرستی ترک کرديں۔ چنانچہ دشمن آپ کے پيچھے لگ گئے، آپ کو پاگل اور ديوانہ کہا، اور آپ کی بات سننے سے لوگوں کو روکنے لگے ۔ پھرجولوگ آپ پر ايمان لائے تھے ان کو ايسی ايسی تکليفيں دی گئيں جنہيں سنکرکليجہ پھٹنے لگتاہے۔ چلچلاتی دھوپ ميں لٹاکر چھاتی پر بھاری پتھر رکھ دياجاتا ، لوہے کو آگ پر گرم کرکے اس سے داغاجاتا ۔ دہکتے کوئلے پر چت لٹاکران کی چھاتی پر پاؤں رکھ ديتے کہ کروٹ نہ بدلنے پائيں۔ کسی کو لوہے کی زرہ پہناکر گلے ميں باندھ ديتے اور لفنگوں کے حوالے کرديتے جوانہيں گليوں ميں گھسيٹتے پھرتے تھے ۔ کتنے ہی اس عذاب کی تاب نہ لاکر شہيد ہوگئے ۔ اور کتنوں کی آنکھيں ضائع ہوگئيں ۔ ليکن کيا مجال کہ کسی ايک نے بھی کلمہ کفر زبان پر لايا ہو۔
جب پانی سر سے اونچا ہوگيا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے صحابہ کرام کی ايک جماعت ملک حبشہ کی طرف ہجرت کرگئی۔ جہاں کا بادشاہ نيک دل تھا۔ البتہ آپ اپنے کام ميں مسلسل لگے رہے ۔ مشرکين نے جب ديکھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کام سے رکنے والے نہيں ہيں ۔۔۔ تو نبوت کے ساتويں سال آپ کا سماجی بائيکاٹ کرديا ، تين سال تک ابو طالب کی گھاٹی ميں محصور رہے ،جہاں بھوک کی شدت سے پتوں اور درختوں کی چھا ل تک چبانے کی نوبت آگئی ۔
بعثت کے دسويں سال قريش اور ڈھيٹ ہوگئے، کيونکہ آپ کے چچا ابوطالب ۔ جوآپ کے ليے ڈھال کی حيثيت رکھتے تھے ۔دنيا سے جاچکے تھے ۔کوئی راستے ميں کانٹے بچھا رہا ہے ، تو کوئی دروازے پر گندگياں پھينک رہا ہے ۔ کوئی بد تميزی سے سرپر مٹی ڈال رہاہے۔ توکوئی گلے ميں چادرلپيٹ کر اسقدر اينٹھتا ہے کہ آپ کا دم گھٹنے لگتاہے۔
جب مکہ کی گلياں اجنبی ہوگئيں تو آپ نے طائف کا رخ کيا کہ شايد اہل طائف اسلام کو اپناليں ليکن وہاں کی زمين اور سخت ثابت ہوئی ،وہاں کے لوگوں نے آپ کے ساتھ بدسلوکی ہی نہيں کی ‘ اپنے اوباشوں کو آپ کے پيچھے لگاديا جنہوں نے پتھر سے مار مار کر آپ کو لہولہان کرديا ، جب زخموں سے چور ہوکر بيٹھ جاتے تويہ درندہ صفت انسان بازو تھام کر آپ کو اٹھاتے ۔ پھر پتھر برسانا شروع کر ديتے ۔
مخالفتوں کے اسی طوفان ميں نبوت کے گيارہ سال گذرجاتے ہيں.... جب ہرجگہ مخالفت ہونے لگی توآپ کی توجہ ان قافلوں کی طرف مرکوز ہوگئی جو مکہ ميں حج کے ليے يا تجارتی لين دين کے ليے آيا کرتے تھے ، آپ راز داری کے ساتھ اُن سے ملتے اور اُن لوگوں کے سامنے اسلام کا پيغام پيش کرتے تھے۔
اِسی دوران يثرِب يعنی مدينہ کے چھ لوگوں نے اسلام قبول کرليا،۔۔ ايک سال بعد موسم حج میں بارہ آدمی آئے اور انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کی ، پھر دوسرے سال موسم حج میں 73 مرد اور 2 عورتیں آئیں، ان لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بيعت کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کو مدينہ آنے کی دعوت بھی دی ۔ جب وہ يثرب لوٹنے لگے توآپ نے ان کے ہمراہ حضرت مصعب بن عمير رضى الله عنه کو بحيثيت داعی روانہ کرديا ۔ چنانچہ آپ کی کوشش سے وہاں مسلمان اچھی خاصی تعداد ميں ہوگئے ۔
اس طرح صحابہ کرام کو ايک پناہ گاہ مل چکی تھی، انہيں دين کی حفاظت مطلوب تھی ، چنانچہ صحابہ کرام چپکے چپکے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے لگے، دين کی حفاظت کے ليے انہوں نے اپنا مال واسباب ، گھر بار ، بیوی بچوں ، تجارت وکاروبار سب کچھ قربان کرديا۔ ليکن قريش جو اسلام کے درپے آزار تھے انہيں کب بھاتا کہ مسلمانوں کو امن وسکون سے مدينہ ميں زندگی گذار تے ديکھيں۔
چنانچہ انہوں نے فورا قریش کی پارلیمنٹ دار الندوة میں ایک میٹنگ طلب کی ، جس ميں اس بات پراتفاق ہوا کہ” مکہ کے تمام قبائل سے ایک ایک طاقت ور نوجوان کا انتخاب کیا جائے ، اور رات میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرکا محاصرہ کرلیا جائے ، اور جس وقت وہ صبح بیدا رہوکر اپنے گھر سے باہر نکلیں تو سب ایک ساتھ ان پر حملہ کرديں تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ۔ اس طرح نعوذباللہ دين محمدی کا صفايا ہوجائے گا“۔
چنانچہ پلان کے مطابق آج کی رات آپ کے گھر کی گھيرابندی ہوچکی تھی،ادھر اﷲ تعالیٰ نے وحی کے ذريعہ اپنے حبيب کو کافروں کے منصوبے کی اطلاع دے دی تھی ۔ چنانچہ آدھی رات گذرنے کے بعد آپ کو حکم دیاگيا کہ آپ اِسی وقت سفر ہجرت پر روانہ ہوجائيں ، آپ نے اپنے بستر پر حضرت علی رضى الله عنه کو سونے کا حکم ديا اور اہل مکہ کی امانتیں ان کے حوالے کرتے ہوئے تاکيد کی کہ ايک ايک کی امانتيں لوٹا کر مدينہ پہنچ جانا ۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ انہیں کوئی تکليف نہ پہنچ پائے گی ۔ آپ اپنے گھر سے باہر آئے ، مٹھی بھر مٹی لی اور ان کے سروں پر ڈالتے ہوئے ان کے بيچ سے نکل گئے ۔اس طرح آپ ابوبکر رضى الله عنه کے گھر پہنچے ،انہيں رفيق سفر بنايا، اور بلاتاخير غار ثور پہنچ گئے۔
ادھر محاصرہ کرنے والے خوشی سے پھولے نہيں سما رہے تھے کہ آج تو اسلام کا خاتمہ ہی ہوجائے گا ليکن ان نادانوں کو کيا پتہ تھا کہ حضور ان کے درميان سے نکل چکے ہيں ۔۔ دھوپ نکلنے تک انتظار ميں رہے ، جب تھک ہار کر گھر ميں داخل ہوئے تو ان کی آنکھيں کھلی کی کھلی رہ گئيں ۔
اب کيا تھا؟ دارالندوہ سے اعلان ہوا کہ” جو کوئی محمد اور ابوبکر کو زندہ یا مردہ کسی بھی حالت میں پیش کرے اُسے سو اونٹنياں انعام ميں دی جائيں گی “۔
يہ انعام کوئی معمولی نہيں تھا ، چنانچہ قريش کے نوجوان آپ کی تلاش ميں نکل گئے ۔ مکہ اور اس کے اطراف واکناف کا چپہ چپہ چھان مارا ، یہاں تک کہ وہ جبل ثور کے اس غار تک بھی پہنچ گئے جس میں یہ دونوں مقدس ہستیاں چھپی تھیں ، عالم یہ تھا کہ اگر کوئی شخص اپنی نظر بھی نیچی کرلیتا تو آپ دونوں کو دیکھ سکتا تھا۔ سیدنا ابوبکر صدیق گھبرا گئے اور کہنے لگے : یا رسول ﷲ ! اگر ان میں سے کوئی اپنے قدموں کو بھی دیکھ لے تو ہم دونوں کو پالے گا ۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : ابوبکر ! ان دو آدمیوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جن کا تیسرا ﷲ ہے ۔لاتحزن ان اللہ معنا گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ، ﷲ ہمارے ساتھ ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تين دن تک غار میں چھپے رہے ، تين دن کے بعد عبد اللہ بن اریقط دونوں اونٹنیاں لے کر غار کے دہانے پر پہنچ گیا ، چنانچہ يہ چھوٹا سا قافلہ پوری تياری اور منظم منصوبہ بندی کے ساتھ مدينہ کی جانب روانہ ہوا۔ سفر کے تين دن گذر چکے تھے، تيسرے دن سراقہ بن مالک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضى الله عنه کو دور سے ديکھا۔ انعام کی لالچ ميں آپ سے قريب ہونا چاہا تو کئی بار اس کی اونٹنی کا پيرزمين ميں دھنس گيا، بالآخر اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پروانہ امن حاصل کرليا ۔
اس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چند دنوں ميں قبا ء پہنچ گئے جہاں کچھ دنوں قيام فرمايا اور اِسی قيام کی مدت ميں آپ نے مسجد قبا کی تعمير فرمائی ۔ يہ پہلی مسجد تھی جو اسلام ميں بنائی گئی ، آج بھی يہ مسجد مسجد قبا کے نام سے مشہور ہے ۔ ادھر مدينہ ميں يہ خبر پہنچ چکی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبا پہنچ چکے ہيں ۔اور جلد مدينہ تشريف لانے والے ہيں ۔ مدینہ کے مسلمان ہر دن آپ کے استقبال کے لئے مدینہ سے باہر آتے اور دھوپ کے تیز ہونے تک انتظار کرکے چلے جاتے ، يہاں تک کہ وہ دن آگيا جس دن کا شدت سے انتظار تھا اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم يثرب پہنچ چکے تھے ۔آج کے دن سے يثرب مدينہ بن گيا۔ سارا مدينہ خوشی سے جھوم رہا تھا ۔ کيا بچے ،کيا جوان ، اورکيا بوڑھے سب ديدہ ودل فرش راہ کيے تھے ۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ آنے سے زیادہ روشن ، معطر اور پر مسرت دن نہیں دیکھا،اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے زیادہ تاریک ، المناک اور افسردہ دن کوئی دیکھا ہے ،،
محترم قارئين ! اب سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ ہجرت نبوی ميں ہمارے ليےکيا پيغام ہے ؟ آئيے ذرا اس پر بھی ايک نظر ڈال ليں
(1) ہجرت ميں سب سے پہلے ہميں يہ پيغام ملتا ہے کہ صبر اور یقین ؛نصرت اور غلبہ کا راستہ ہے : نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ مکہ میں ظلم و ستم سہتے سہتے تیرہ سال کی طویل مدت گزارچکے تھے ، چنانچہ اللہ تعالی نے ہجرت مدينہ کے بعد اُن پر نصرت وغلبہ کا دروازہ کھول ديا-
(2) ہجرت کا دوسرا پيغام يہ ہے کہ جولوگ للہ پر توکل اور یقین کرتے ہيں اللہ تعالی اُن کے ليے کافی ہوتا ہے: ومن يتوکل علی اللہ فھو حسبہ جو اللہ پر توکل کرے اللہ اس کے لیے کافی ہے“ (الطلاق:3)
(3) ہجرت کا تيسرا پيغام يہ ہے کہ حب رسول کے سامنے ساری محبتيں ہيچ ہيں : چنانچہ اِس کا ايک نمونہ حضرت ابوبکرؓ کی زندگی ميں جھانک کرديکھئے ۔ ہجرت کے موقع سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرؓ کو اطلاع دی کہ آپ نے انہيں رفيق سفرچنا ہے توابوبکرؓ کی آنکھيں خوشی سے چھلکنے لگيں۔۔ يہ محض کنايہ نہيں حضرت عائشہ ؓ کی چشم ديد گواہی سنئے ۔ فرأيت أبا بکر يبکی ‘ وما کنت أحسب أن أحدا يبکی من الفرح (السيرة النبوية لابن ہشام 2 /93) ميں نے ديکھا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ (رفاقت کی خبر سن کر خوشی سے ) رو رہے ہيں اور اِس سے پہلے مجھے اِس بات کا تصور تک نہ تھا کہ کوئی خوشی و مسرت کی وجہ سے روتا ہوگا ۔
اور پھريہ محبت ہی تو تھی کہ غار کی بِل پر اپنا پيررکھ ديتے ہيں کہ ايسا نہ ہوکوئی موذی جانور آپ کو تکليف پہنچائے ،اور جب بچھو ڈنک مار ديتا ہے تو ہلتے بھی نہيں ہيں کہ مبادا آپ کی نيند ميں خلل آجائے ،يہاں تک کہ تکليف کی شدت سے ٹپکنے والا آنسو ہی پيارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بيدار کر پاتا ہے ۔ سبحان اللہ کےسی محبت تھی ان اللہ والوں کو اپنے حبيب سے ۔
(4) واقعہ ہجرت ميں سب سے نماياں کردار انصارمدينہ کا دکھائی ديتا ہے جنہوں نے خلوص دل سے اسلام قبول کيا ،پيارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو ہجرت مدينہ کی دعوت دی، حالانکہ وہ دعوت ديتے وقت بخوبی جان رہے تھےکہ اُس کے نتيجے ميں انہيں تمام عرب کی دشمنی مول لينی ہوگی ۔ يہی نہيں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا حاکم تسليم کيا اورآپ کی وفادار رعيت بن گئے ، مہاجرين مسلمانوں کو اپنا بھائی بنايا ، اپنے مال واسباب اور جائداد تک ميں ان کو شريک کيا ۔۔۔ ايسے ايثار کی مثال تاريخ کے کسی دور ميں نہيں ملتی ۔
اخيرميں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بارالہا توہم سب کو پيارے نبی کے اسوہ حسنہ کو اپنانے اور اسلامی تعليمات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفيق عطا فرما ۔۔ آمين يا رب العالمين وصلی اللہ علی نبينامحمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعين
0 تبصرہ:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔