بدھ, مارچ 12, 2014

سوشل میڈیا کا استعمال خیر کے فروغ میں کریں

                         
جدید ٹکنالوجی کے اس دورمیں سوشل میڈیا آپسی رابطے کا مؤثرترین ذریعہ بن چکا ہے، آج جملہ ذرائع ابلاغ میں سوشل میڈیا  کا استعمال سب سے زیادہ ہورہا ہے،ایک آدمی اپنے گھر بیٹھے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک چند سیکنڈوں میں اپنا پیغام پہنچاسکتا ہے ۔ پوری دنیا سے میل جول رکھ سکتا ہے ، موبائل میں بآسانی نیٹ کی سہولت دستیاب ہونے کے باعث پڑھے لکھے لوگ تو کجا ان پڑھ بھی سوشل میڈیا  کا استعمال کرنے لگے ہیں، ہرطبقہ کے لوگ یہاں پر اپنا اچھا خاصا وقت صرف کررہے ہیں، صبح ہوکہ شام ہروقت ان  کا دھیان سوشل میڈیا  میں لگا  رہتا ہے، بالخصوص نوجوان نسل کے ذہن ودماغ پرسوشل میڈیا جنون کی حد تک حاوی ہوچکاہے، دن بھر کی لاکھ تھکاوٹ اورتکان ہو جب تک نوجوان سوشل میڈیا پر اپنا کچھ وقت بتا نہیں لیتا اسے نیند نہیں آسکتی ۔
 سوشل میڈیا پرصارفین کی بہتات کو دیکھتے ہوئے ہر فکر کے حاملین نے اپنی فکر کوپھیلانے کے لیے سوشل میڈیا  کا استعمال شروع کردیا ہے ،کبھی تاجروں کو الیکٹرونک اورپرنٹ میڈیا میں تجارت کو فروغ دینے کے لیے خطیر رقم خرچ کرنا پڑتی تھی ابھی نہایت کم لاگت میں سوشل میڈیا کے ذریعہ اپنی تجارت کو فروغ دے رہے ہیں ، باطل مذاہب اورگمراہ فرقوں نے سوشل میڈیا کے سہارے دین کے بازارمیں کھوٹے سکوں کو خوب خوب رائج کیا ہے اورکر رہے ہیں ، یہود ونصاری اورمتعصب ہندو تنظیموں نے اسلام کے خلاف شبہات پھیلانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کی  ہے، ان کی شرارت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کی نئی نسل کے بیچ اس طرح کے شبہات پھیلاتے  رہتے ہیں تاکہ ان کو اسلام سے بدظن کرسکیں ۔ فیس بک ، ٹیوٹر ، یوٹیوب اوربلاگ جیسے سوشل میڈیا کو انہوں نے شبہات سے بھر رکھا ہے ۔ فحش کے پجاریوں نے بے حیائی، فحاشی، عریانیت اوررقص وسرور کے وہ گل کھلارکھے ہیں کہ گمان ہونے لگتاہے وہ انسان نہیں جانوروں سے بدترکوئی مخلوق ہیں، تفریح کے نام پرمسلمانوں کی نئی نسل کو بدلنے کی منظم پلاننگ ہوچکی ہے۔ صلیبی جنگوں میں جب نصاری کو منہ کی کھانا پڑی تو انہوں نے عسکری جنگ کی بجائے فکری جنگ کے لیے پلاننگ شروع کردی،اس مقصد کو بروئے کارلانے کے لیے انہوں نے مستشرقین کی ایک کھیپ تیار کی ۔آج شبہات اورشہوات کی جو آندھی چل رہی ہے انہیں مستشرقین کی دسیسہ کاریوں کا شاخسانہ ہے۔
ایسے حالات میں سوشل میڈیا کی خطرناکی پر آنسو بہانا ،اسے برائیوں کا سرچشمہ قرار دینا اوراس سے پیچھا چھڑانے کی نصیحت کرنا دوراندیشی کی علامت قطعاً نہیں ہوسکتی ۔ ہم لاکھ سر پیٹیں لیکن ہماری نئی نسل اس سے دورنہیں ہوسکتی ، یہ بات صحیح ہے کہ مسلم نوجوانوں کی اکثریت سوشل میڈیا کا غلط استعمال کررہی ہے ، یہ ٹائم پاس کا ایک ذریعہ بن چکا ہے ،اس سے بچوں کا کیرئیر خراب ہورہا ہے ، معاشرے میں بے حیائی فروغ پارہی ہے،یہ ایک طرح کا خمارہے جو چڑھتا ہے توبآسانی نہیں اترتا اورجب ہوش آتا ہے تو اچھا خاصا وقت نکل چکا ہوتا ہے۔ایسا کیوں ہورہا ہے ؟ اوراس کا تدارک کیوں کر ممکن ہے ،یہ ہمارا موضوع بحث نہیں ،سردست آج ہمیں یہ غورکرنا  اور سوچنا ہے کہ جب ہر فکر کے حاملین سوشل میڈیا کو استعمال کرکے اپنے مقاصد کی تکمیل  کررہے ہیں تو آفاقی دین کے حاملین  نےاپنے دین کے محاسن اورآفاقیت کو فروغ دینے میں کیا کردار ادا کياہے، ہمیں سوشل میڈیا  كو دعوت کے فروغ کے لیے نعمت غیرمترقبہ سمجھنا چاہیےتھا ، شر کا مقابلہ خیر سے کرتے ہوئے اس کا استعمال خیرکے فروغ اوردعوت کے کاموںمیں کرنا چاہیے تھا ، اسلام کی عالمگیریت اورآفاقیت سے غیرمسلموں کومتعارف کرانا چاہیے تھا۔ بلاشبہ وہ سارے بھائی اوربہن قابل مبارک باد ہیں جو سوشل میڈیا  کااستعمال خیرکے فروغ میں کررہے ہیں ، ایسے لوگوں کو دیکھ کر آنکھوں سے خوشی کے آنسو چھلکتے ہیں ،اوران کے حق میں زبان سے دعائیں نکلتی ہیں لیکن افسوس کہ ایسے لوگ بہت کم ہیں ۔
انسان کی تحریروتقریر اورحرکت وعمل اس کی فکر اورسوچ کا آئینہ دار ہوتی ہے۔برتن میں جو ہوتا ہے وہی چھلکتا ہے، نیک طبیعتیں اچھے اثرات چھوڑتی ہیں اوربری طبیعتیں برائی سے پہچانی جاتی ہیں،حتی کہ موت کے بعد بھی برائی سے ان کی پہچان ہوتی ہے ۔ پچھلے دنوں فیس بک پر راقم سطورکی پہنچ ایک ایسے وال تک ہوئی جس پرفحش تصاویر نشر تھیں اوربے حیائی کی طرف دعوت دی گئی تھی حالانکہ اکاونٹ ہولڈرمہینوں پہلے دارفانی سے رخصت ہوچکا ہے ،قبرکی گودمیں اپنے کئے کا بدلہ پارہا ہے، تاہم اس کا وال ہے جو اس کی سوچ اورفکر کی ترجمانی کررہا ہے۔ جی ہاں! ہم دنیا سے چلے جاتے ہیں لیکن ہماری یادیں خیروشر کی شکل میں جاوداں ہوتی ہیں اورانہیں کے ذریعہ ہم جانے پہچانے جاتے ہیں،توپھرکیا ہم چاہیں گے کہ دنیا سے چلے جائیں اورہماری یہ لاابالی باتیں ہماری سوچ کی پہچان کراتی رہیں؟

اس لیے جن احباب نے اب تک سوشل میڈیا کا استعمال ذہنی تفریح کے لیے کیا ہے،ان کوچاہیے کہ اپنی زندگی میں وقت کی قدرو قیمت کو سمجھیں، اپنے ذہن ودماغ میں اسلام کی عظمت اورآفاقیت کو بٹھائیں، دعوت کے فروغ میں سوشل میڈیا کے کلیدی رول کوپیش نظر رکھیں اوراس کے لیے منظم پلاننگ کریں ،اگر ہمارے اندر دعوتی شعور آگیا تو فی الواقع سوشل میڈیا کے ذریعہ دعوت کا  کام اعلی پیمانے پر ہوسکتا ہے ۔ اگراللہ پاک نے آپ کوتحریری اورتقریری صلاحیت دے رکھی ہے تو سوشل میڈیا  کااستعمال کرکے تعارف اسلام پر مبنی صفحہ کھولیں، خود سے اسلام کا تعارف کرائیں، دوتین منٹوں پر مشتمل آڈیوز اور ویڈیوز ریکارڈ کرکے انہیں اپلوڈ کریں ، اس سلسلے میں تجربہ کار دعاة سے رہنمائی حاصل کریں ، اگر تقریری یاتحریری قابلیت نہیں تو جولوگ سوشل میڈیا پردعوتی کام کررہے ہیں ان کے دعوتی مواد کو شیئر کریں ان پرستائشی تبصرے اور ہمت افزائی کے کلمات لکھیں ، اپنے وال پرمستند دعوتی ویب سائٹس کے لنکس شیئرکریں ،منتخب قرآنی آیات اوراحادیث نبویہ پوسٹ کریں ۔ غرضیکہ آج سوشل میڈیا  کا شعور رکھنے والا ہرمسلمان اسے استعمال کرکے دین کی تبلیغ کرسکتا ہے ۔تو آئیے ہم عہد کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ ہم خیر کے ہرکارہ بنیں گے ،بھلائی کو فروغ دیں گے ،اور برائی پر ہرممکن روک لگانے کی کوشش کریں گے ۔اللہ ہمارا حامی وناصر ہو ۔رہے نام اللہ کا 
                                                         صفات عالم محمد زبیر تیمی
Safatalam12@yahoo.co.in                                                  

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔