اتوار, مارچ 16, 2014

اردو کوبچائیں اوراس کے دینی کردار کو بحال رکھیں


انسان کے افکاروخیالات کی ترجمانی اس کی زبان یاقلم کرتی ہے ،اور افکاروخیالات کی صحیح ترجمانی کے لیے فکر میں وسعت اورگہرائی کی ضرورت ہوتی ہے ، اورفکر میں وسعت اورگہرائی مطالعہ کے ذریعہ آتی ہے۔ جس کا مطالعہ جتنا گہرا ہوتا ہے اسی قدر اس کی فکر وسیع ہوتی ہے ،اورمطالعہ کا ذوق بہت حد تک ماحول اور خاندانی نشوونما کی مرہون منت ہے، برصغیر کے جو تارکین وطن کویت میں مقیم ہیں ا ن کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانیوں میں جنوب ہندکے تمل ناڈو ،اورکیرلا کے لوگوںمیں مطالعہ کا ذوق زیادہ پایا جاتا ہے، بنگالی اورنیپالی کمیونٹی کے اکثر افراد معمولی ملازمت کرنے کے باوجود اپنی زبان کی خدمت میں آئے دن کوشاں رہتے ہیں ،ان زبانوں میں کویت سے متعدد رسائل اورجرائد شائع ہو رہے ہیں ، ان کے جاننے والے اپنی زبان کے مطالعہ سے بیحد دلچسپی رکھتے ہیں، پیسے خرچ کرکے کتابیں اوررسائل خریدتے ہیں، کویت اوردیگرخلیجی ممالک سے ملیالی زبان میں ایک روزنامہ بھی نشر ہوتا ہے جسے ہرملیالی صبح سویرے پڑھنے کے لیے بیتاب رہتا ہے۔ لیکن افسوس کہ اردوداں طبقہ کویت میں اپنی اکثریت رکھنے کے باوجود مطالعہ کا کوئی خاص جذبہ نہیں رکھتا ،کویت میں سب سے زیادہ اردوادب کی کمیٹیاں پائی جاتی ہیں ،اصحاب ذوق پائے جاتے ہیں ، شعراء کی محفلیں سجائی جاتی ہیں ،اس کے باوجود اردوداں افرادمیں مطالعہ کا جذبہ بیدار نہیں ہوپا رہا ہے ۔ ’میرے پاس ٹائم نہیں‘ ، ’ پڑھنے کا موقع نہیں ملتا ‘ ،’ مطالعہ کے لیے وقت نہیں‘ یہ اوراس طرح کی باتیں بالعموم اردوداں طبقہ کی طرف سے سننے کوملتی ہیں، بسااوقات ایسی باتیں سن کربہت کوفت ہوتی ہے، حالانکہ ہمارے اچھے خاصے اوقات بے فائدہ گفتگو میں صرف ہوتے ہیں، ٹیلیویژن پر فلموں کے مشاہدے اورسوشل میڈیا میں ٹائم پاس کرنے میں لگتے ہیں، اردو کے ساتھ ہماری ستم ظریفی کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ کویت  میں اردوداں کی اچھی خاصی تعداد ہونے کے باوجود  یہاں سے کوئی روزنامہ نہیں نکل رہا ہے ،کبھی کویت سے’ کویت ٹائمز‘ کا اردو اور ملیالم ایڈیشن نکلا کرتا تھا جب ’کویت ٹائمز‘ کے ذمہ داران نے دونوں زبانوں کو بند کیا  تو ملیالی طبقہ نے ہزاروں تبصر ے ارسال کیے اوردوبارہ اسے جاری کرنے کا مطالبہ کیا لیکن اردو داں طبقہ نے یہاں بھی اپنی سردمہری کا مظاہرہ کیا،اورادارہ تک اپنی چاہت پہنچانے سے بھی قاصر رہے ۔
کویت کا اردوداں حلقہ خواہ ہندوستان سے تعلق رکھنے والا ہو یا پاکستان سے دونوں کی صورتحال تقریباً ایک ہے ، بات کویت کی حد تک نہیں ہے بلکہ ہم اپنے ملکوں میں رہ کر بھی اردوسے تعلق رکھنے کے باوجود اردو پڑھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، بہت کم گھروں میں اردو اخبارات آتے ہیں، دیہی علاقوں کا جائزہ لیں تو تعجب ہوگا کہ کتنے خوشحال اور کھاتے پیتے گھرانے ہیں جن کے پاس شہری سہولتیں دستیاب ہوتی ہیں پھر بھی ان کو اپنے گھروں میں روزنامے اور ماہنامے منگوانے کی فکر نہیں ہوتی ، سکول کے ٹیچرس، سرکاری دفاتر کے ملازمین اورکاروباری پیشے سے جڑے مسلمان سب کی یہی حالت ہے کہ پڑھنے اورمطالعہ کرنے کا جذبہ نہیں رکھتے ، اورجب وہ مطالعہ کے شوقین نہیں توپھر ان کے بچوں میں مطالعہ کا ذوق کیوں کرپیدا ہوسکتا ہے ، جبکہ غیرمسلموں کے اندر اب تک یہ ذوق برقرار ہے ،آج بھی دیہی علاقوں میں ان کے گھر گھر  روزنامے پہنچ رہے ہیں ،اوروہ تازہ بہ تازہ ملکی اوربین الاقوامی خبروں سے باخبر رہتے ہیں ۔
ایک طرف تو اردوداں طبقہ کی  اکثریت کے اندر سے مطالعہ کی روح نکلتی جارہی ہے تو دوسری طرف ہمارے دشمنان اردو میڈیا کومسموم کرنے پرتلے ہوئے ہیں، ہندوستانی میڈیا کا جائزہ لیں تو خواہ الیکٹرونک میڈیا ہویا پرنٹ میڈیا دونوں پر متعصب تنظیموں کی اجارہ داری ہے،الیکٹرونک میڈیا تقریباً کلی طورپر ان کے قبضہ میں ہے ،پرنٹ میڈیا میں اردواخبارات کچھ حد تک مسلمانوں کی نمائندگی کرتے اورمسلمانوں کے مسائل کی ترجمانی میں اپنا کردار ادا کرتے تھے لیکن افسوس کہ ان کا کردار بھی آئے دن کمزور ہوتا جارہا ہے ، اوررفتہ رفتہ یہ بھی غیرمسلموں کے قبضہ میں چلے جارہے ہیں۔ ہندوستان کی اکثر ریاستوں میں ہندی روزنامہ "دینک جاگرن" نے اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے ،جو اسلام دشمنی اورتعصب وتنگ نظری کوفروغ دینے میں مشہورہے، آرایس ایس نے دوقدم آگے بڑھاتے ہوئے مسلمانوں کا بھارتی کرن کرنے کے ارادہ سے" مسلم راشٹریہ منچ" قائم کیا ہے جس کے زیراہتمام اردو روزنامہ ''پیغام مادر وطن" نکل رہا ہے اور اب ان کا ارادہ لوک سبھا چناؤ سے قبل " پیغام ٹی وی چینل"  لانچ کرنے کا ہے ،اس سے پیشترانہوں نےممبئی سے شائع ہونے والے اردو روزنامہ ’انقلاب‘ کو بھی خرید لیا ہے اور اسے پورے ہندوستان میں فروغ دینے کے لیے پلاننگ کررہے ہیں، طرفہ تماشا یہ کہ بعض دیہی علاقوں میں’ انقلاب‘ کے علاوہ دوسراکوئی اردو روزنامہ دستیاب نہیں ہوتا ، مجبوری میں اخبارپڑھنے کے شائقین روزنامہ’ انقلاب‘ خریدتے ہیں۔ یہ کسی قوم  کی پستی اورزوال کی واضح علامت ہے کہ اسے فکری غذا کے لیے غیرقوموں پر منحصر ہونا پڑے ۔ بلکہ ہمیں کہنے دیا جائے کہ آرایس ایس نے منظم پلاننگ کے ساتھ ان اخبارات کے ذریعہ فکری جنگ چھیڑ رکھی ہےجس میں وہ کلی طور پر کامیاب ہیں، اس کا اندازہ ان تمام احباب کوبخوبی ہوگا جو مذکورہ اخبارات کا پابندی سے مطالعہ کرتے ہیں۔
چونکہ مسلمانوں میں اردوسے جذباتی عقیدت پائی جاتی ہے ،اسی لیے جب کچھ لوگ دینی کتابیں ہندوستان کی ریاستی زبانوں میں دیکھتے ہیں تو سیخ پا ہوجاتے ہیں،ان کا خیال ہوتاہے کہ دینی کتابیں اردو زبان میں ہی نشر ہونی چاہئیں۔ دشمن کو مسلمانوں کی اس عقیدت کااحساس ہے ، لہذا وہ ان کی زبان میں ان کوفکری غذا دینے کی منظم پلاننگ کررہے ہیں ۔ ایک مرتبہ میں نے اپنی بستی میں ایک مسلم نوجوان کواردوزبان میں عیسائی نشریہ سنتے ہوئے دیکھا ، میرے سوال پر اس نے کہا کہ میں یہ پروگرام بہت شوق سے سنتا ہوں کیونکہ یہ لوگ نہایت عمدہ  اسلوب میں انبیاء ورسل کے قصے بیان کرتے ہیں ، میں نے پروگرام سنا تو پتہ چلا کہ پروگرام عیسائی مشینریز کا ہے اورپروگرامر اردوزبان میں بائیبل کی سلجھے اندازمیں تشریح کررہا ہے ۔
 غرضیکہ د شمن ہر چہارجانب سے مسلح ہوکر قوم مسلم پر حملہ آور ہے اب انہوں نے اپنے مسموم  نظریات کوپھیلانے کے لیے ہماری مادری زبان کا استعمال شروع کردیا ہے ، ایسی  صورتحال میں  ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود اردو زبان کی حفاظت کریں ، اردوزبان میں زیادہ سے زیادہ کتابوں کا مطالعہ کریں، اردو زبان کی بقا کم ازکم برصغیر کے اردوداں طبقہ کے ملی تشخص کی بقا ہے، آج ملت کے ارباب حل وعقد کو نہایت دوراندیشی اور گہری بصیرت سے کام لینے کی ضرورت ہے ۔اللہ ہمارا حامی وناصر ہو ۔ 

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔