جمعرات, جنوری 09, 2014

سخاوت وفیاضی اورسیر چشمی


 سخاوت ،وفیاضی اورسیر چشمی ان قدیم اخلاقیات میں سے ایک ہے جسے اولوالعزم طبیعتوں نے ہرزمانے میں اپنایا اوراپنی رفعت وبلندی اورشرافت وعظمت کی دلیل سمجھا ، زمانہ جاہلیت میں سخاوت عرب معاشرے کی ایک زریں صفت تھی ،شعراء اپنے اشعار میں سخاوت وسیرچشمی کی خوب داد دیتے تھے ، ایک شاعرکہتاہے :

      یا ضیفنا لو زرتنا لوجدتنا  
نحن الضیوف وأنت رب المنزل
”اے ہمارے مہمان ! اگرہماری زیارت کرو تو پاؤگے کہ مہمان ہم ہیں اورتوگھرکامالک ہے“۔
زمانہ جاہلیت میں جولوگ سخاوت سے مشہور ہوئے ان میں ایک نام حاتم الطائی کابھی آتاہے، اس کے سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ وہ سن شعور سے ہی اپناحصہ کھانالیکر باہر نکل جاتا اورکسی کوتلاش کرکے اس کے ساتھ کھاتا تھا،اگرکوئی ساتھ کھانے والانہ ملتاتوکھاناپھینک کرگھرلوٹ آتا ، کہتے ہیں کہ اس کے چولہے پرہمیشہ دیگ چڑھا رہتاتھا۔
تاہم زمانہ جاہلیت کی سخاوت وفیاضی پرفخر ومباہات اورنیک نامی کی چھاپ تھی ،لیکن جب اسلام کانیرتاباں حراکے افق پرطلوع ہواتواس نے اس عمدہ وصف کورب کریم کی رضاجوئی اورخوشنودی سے مربوط کردیا،چنانچہ یہ صفت ایک مومن صادق کی پہچان اورعلامت بن گئی ، سخاوت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ اللہ رب العزت نے سخاوت کی تعریف کی، بندہ مومن کواس صفت سے متصف کیا، اورخود اپنا نام کریم رکھا،سنن ترمذی میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :
ان اللہ کریم یحب الکریم ،جواد یحب الجود ۔(سنن الترمذي) 
”اللہ تعالی کریم ہے، کرم کومحبوب رکھتاہے اورسخی ہے ،سخاوت کوپسند کرتا ہے“۔
سخاوت کی اہمیت کے پیش نظراللہ تعالی نے اپنے مومن بندوں کومتعددآیات میں باربارانفاق کی ترغیب دلائی ، چنانچہ سورة البقرہ آیت نمبر245میں فرمایا:
 یا أیھا الذین آمنو أنفقوا مما رزقناکم من قبل أن یأتی یوم لابیع فیہ ولاخلة ولاشفاعة (سورة البقرة 245) 
”اے ایمان والو!اس میں سے خرچ کرو جوہم نے تم کوروزی دی ہے اس دن کے آنے سے پہلے جب کہ کوئی تجارت ،کوئی دوستی ،اورکسی کی شفارش کام نہ دے گی “۔ 
اورسورةالبقرہ آیت نمبر 261میں انفاق فی سبیل اللہ کے بے پناہ اجروثواب کوبیان کرتے ہوئے فرمایا:
 مثل الذین ینفقون أموالھم فی سبیل اللہ کمثل حبة أنبتت سبع سنابل فی کل سنبلة مأة حبة واللہ یضاعف لمن یشاءواللہ واسع علیم(سورة البقرة 261) 
 ”یعنی ان لوگوں کی مثال جواللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی سی ہے ،جس نے سات بالیاں اگائی ہوں ،ہربالی میں سودانے ہوں اوراللہ جسے چاہتاہے اسے زیادہ دیتاہے ،اوراللہ نہایت وسعت والااورسب کچھ جاننے والاہے “۔ 
پتہ یہ چلاکہ رب کریم کے بنک میں جورقم جمع کی جاتی ہے ،وہ گویاایک زرخیززمین کی کھیتی میں بودی جاتی ہے ،اس زرخیززمین میں گیہوں کے تناورپودامیں سات بالیاں آجاتی ہیں ،اورایک ایک بالی کے خوشہ میں سوسودانے ہوتے ہیں ۔تواس طرح ایک دانہ سے سات سودانے ہوگئے ،اب اگرسودانے بوئے جائیں تواس حساب سے سترہزاردانے ہوئے تو الہی بنک کاعطیہ سترہزارنکلا، آخراس سے بڑھ کراضافہ اورکیاہوسکتاہے ؟اورآیت کریمہ میں اس بات کی بھی وضاحت ہے کہ اللہ جس کوچاہتاہے اس سے بھی زیادہ بڑھادیتاہے ۔
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کواللہ تعالی مزیدفراخی اورتونگری عطافرماتاہے ،اوراپنے فضل وکرم سے اس کابدل ہی نہیں بلکہ نعم البدل بھی دیتارہتاہے، چنانچہ صحیحین میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی فرماتاہے:
 یا ابن آدم أنفق أنفق علیک (متفق عليه )
 ”اے اولادآدم ! توخرچ کرمیں تجھ پرخرچ کروں گا “۔
اللہ اکبر ! اللہ تعالی ہم پرخرچ کرنے کی ضمانت لے رہاہے ،اللہ کے واسطے ہمیں بتائیںکہ جس پراللہ تعالی خرچ کرنے کی ضمانت لے لے کیاوہ کبھی فقروفاقہ کاشکار ہوسکتاہے ؟ یقین رکھیں کہ خرچ کرنے سے مال میں زیادتی ہوتی ہے ،کمی نہیں آتی ۔
صحیحین کی روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جوشخص پاکیزہ کمائی سے ایک کھجورکے برابربھی صدقہ کرتاہے ، اوراللہ تعالی صدقہ قبول ہی پاکیزہ کمائی کاکرتاہے ،تواللہ تعالی اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتاہے ،پھراسے صاحب صدقہ کے لیے بڑھاتا رہتاہے ،جیسے تم میں سے ایک شخص اپنے بچھڑے کوپالتااوربڑھاتاہے یہاں تک کہ وہ (کھجور برابرصدقہ)پہاڑکی مثل ہوجاتاہے “۔(متفق عليه ) 
فی الواقع خرچ کرنے سے مال میں اس قدر اضافہ ہوتاہے کہ انسان اس کاتصور بھی نہیں کرسکتا،جبکہ بخیلی اورکنجوسی کے باعث مال میں کمی آتی ہے ۔ صحیح بخاری ومسلم کی روایت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
 مامن یوم یصبح العباد فیہ الا ملکان ینزلان فیقول أحدھما: اللھم أعط منفقا خلفا، ویقول الآخر: اللہم أعط ممسکا تلفا (متفق عليه )
”ہردن جس میں بندے صبح کرتے ہیں دوفرشتے آسمان سے اترتے ہیں ،ان میں سے ایک کہتاہے :اے اللہ خرچ کرنے والے کوبدلہ عطافرما،اوردوسراکہتاہے ،اے اللہ روک کررکھنے والے کے حصے کوبرباد کردے “۔
اللہ اکبر ! خرچ کرنے والوں کے لیے آخر اس سے بڑھ کر بشارت اورکیاہوسکتی ہے کہ ہرصبح فرشتے ان کے مال میں زیادتی کی دعاکرنے کے لیے اترتے ہیں ،اورمال کوروک کررکھنے والوں کے لیے اس سے بڑھ کرنحوست اورکیاہوسکتی ہے کہ ہرصبح فرشتے ان کے مال میں ہلاکت کی دعا کرنے کے لیے اترتے ہیں ۔اللہ تعالی ہم سب کوایسی آفت سے بچائے آمین ۔
سخاوت وفیاضی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امتیازی شان تھی ،آپ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی ،فیاض اور دریادل تھے ،کبھی آپ نے سائل کونفی میں جواب نہیں دیا،آپ کی سخاوت وفیاضی کے سامنے بڑے بڑے بادشاہ بھی گھٹنے ٹیک دیں ،اسی سخاوت کانتیجہ تھا کہ جب ایک شخص آپ کے پاس آتاہے ،توآپ دوپہاڑوکے درمیان جتنی بکریاں تھیں سب کی سب دے دیتے ہیں ۔
ایک طرف تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ فیاضی تھی اوردوسری طرف زہدایساکہ فقیروں کی سی زندگی گزارتے تھے ،مہینہ دومہینہ تک آپ کے چولہوں میں آگ نہیں جلتی تھی ،بسااوقات بھوک کی شدت سے پیٹ پردو دو پتھرباندھے ہوتے تھے ۔
اللہ کاشکر ہے کہ اس نے امت محمدیہ میں ایسے اشخاص کوپیداکیاجنہوں نے سخاوت وفیاضی میں اپنے نبی کے اسوہ کواپنایا، اللہ کی راہ میں اپنی دولت وثروت بے تحاشاخرچ کیا اورجودوسخامیں ایک ریکارڈقائم کیا، ایسے دریادل انسانوں کے سنہرے کردار سے تاریخ کے صفحات بھڑے پڑے ہیں :
یہ یارغار حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ہیں کہ غزوہ تبوک کے موقع سے جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو صدقات وخیرات کی ترغیب دلائی ،توآپ نے اپنے گھرکاسارااثاثہ کا شانہ نبوت میں لاکرپیش کردیا،حضور نے پوچھا:
 یا أبابکر ماذا أبقیت لأھلک ؟
 ابوبکر !تم نے اپنے اہل وعیال کے لیے کیاباقی رکھا ؟ جواب دیاکہ بس اللہ اوراس کے رسول کوباقی رکھاہوں۔ علامہ اقبال نے اس جواب کی کیاخوب ترجمانی کی ہے
   پروانہ کوچراغ ہے بلبل کوپھول بس 

 صدیق کے لیے ہے خداکارسول بس 
حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے غزوہ تبوک کے موقع پراپنی آدھی دولت مجاہدین اسلام کی ضروریات کے لیے پیش کردی ،مسجد نبوی کی توسیع کے لیے آپ نے ایک لاکھ میں زمین خریدکرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کردی ۔ 
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سخاوت بھی بہت مشہورہے ،حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی خلافت میں ایک مرتبہ لوگ قحط کے شکارہوئے ،لوگوں نے خلیفہ وقت کے پاس آکراپنی بدحالی کی شکایت کی توآپ نے فرمایا:لوٹ جائیں اورصبرکریں ہمیں امیدہے کہ شام تک اللہ تعالی آپ کی مشکلات کاحل نکال دے گا،صبح میں لوگ نکلے تودیکھاکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کاتجارتی قافلہ ایک ہزاراونٹوں پرغذائی سامان سے لداہواآرہا ہے ،مدینہ کے تاجروں کواطلاع ملی توفوراعثمان رضی اللہ عنہ کے پاس حاضرہوئے، آپ نے پوچھا: کیاارادہ ہے؟ جواب دیا: ہمارا ارادہ آپ کومعلوم ہے ،آپ نے پوچھا:کتنانفع دوگے ؟ تاجروں نے کہا:ایک کادو ۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمیں اس سے زیادہ مل رہاہے ،تاجروں نے کہا :ہم لوگ آپ کوایک کاچاردیں گے ،آپ نے کہا:ہمیں اس سے بھی زیادہ مل رہاہے ،تاجروں نے کہا:ہم آپ کوایک کاپانچ دیتے ہیں ،آپ نے فرمایا:ہمیں اس سے بھی زیادہ مل رہاہے ،تاجروں نے کہا : مدینہ کے سارے تجار یہاں حاضرہیں ،آخرکون آپ کوپانچ گناسے زیادہ دے رہاہے ؟آپ نے فرمایا: ان اللہ أعطانی بکل درھم عشرة دراھم ،أعندکم زیادة ؟ اللہ تعالی ہمیں ہردرہم کے بدلے دس درہم دے رہاہے ،کیاآپ لوگ اس سے زیادہ دے سکتے ہو؟ تاجروں نے کہا: نہیں ۔آپ نے فرمایا: توتم سب گواہ رہو کہ میں نے یہ سارے مال تجارت فقراءومساکین پرصدقہ کردیا۔
تاجربھائیو! ذراغورکروکیاعثمان رضی اللہ عنہ کے لیے جائزنہیں تھا کہ ایک کاپانچ لے کرخوب منافع حاصل کرلیں ؟ جی ہاں !جائزتھا ، لیکن اللہ کے پاس ایک کادس مل رہاتھا، اس لیے انہوں نے اللہ کے ساتھ تجارت کوترجیح دی ۔
لیکن صدحیف آج کے اس مادہ پرستانہ دورمیں اکثرلوگوں کا جوحال ہے اس کی ترجمانی ایک شاعر نے کی ہے: 
گودام بھڑے ہیں غلوں سے  

 بھوکوں کے شکم خالی خالی 
آخرہم بھی تواسی نبی کے ماننے والے ہیں جس کے ماننے والے وہ تھے ،ہمارے پاس بھی تووہی نظام حیات ہے ،جوان کے پاس تھا ، آخریہ تضادکیسا؟ آج کتنے ایسے لوگ ہیں جوغریبوں سے سیدھے منہ بات نہیں کرتے ،دینے کی بات توالگ ہے ،آج غریبوں کاخون چوساجارہاہے ،ان کی گاڑھی کمائی سے اہل ثروت مستفیدہورہے ہیں ،علامہ اقبال ؒ نے اہل ثروت کے اس طرزعمل پرکیاخوب تیشہ زنی کی ہے :
 سرماکی ہواؤں میں عریاں ہے بدن اس کا 

  دیتاہے ہنرجس کا امیروں کو دوشالہ 
   امید نہ رکھ دولت دنیا سے وفا کی

   رم اس کی طبیعت میں ہے مانندغزالہ
دینی بھائیو! اللہ تعالی نے آپ کوبے شمارنعمتیں دی ہے ،مختلف ممالک میں اپنے مسلمان بھائیو کے احوال سنتے اورپڑھتے رہتے ہیںکہ وہ کس طرح مصائب وآلام فقروفاقہ اوربھوک مری کے شکارہیں ،دوسری قومیں ان پرخرچ کرکے ،اوران کے مشکلات کوحل کرکے انہیں اپنابنانے کی فکرمیں کوشاں ہیں ،یتیموں اوربیواؤں کی آہیں اورٹیسیں ہمیں پکاررہی ہیں کہ ہم ان کی مددکے لیے کمربستہ ہوجائیں ،آج مسلمانوں کے سارے مسائل مال کی متقاضی ہیں ،اگرمسلمانوں نے اپنے مال کوصحیح مصرف میں لگایاہوتاتوان کو بخوبی علم ہوتا کہ کیسے اسلام کی دعوت کوعام کیاجائے ؟کیسے علم کی نشرواشاعت کی جائے ؟کیسے فقروفاقہ سے نبرد آزماہوں ؟اورکیسے اپنے دشمنوں سے پنجہ آزمائی کریں ۔
 لہذا ہرشخص کوچاہئے کہ وہ اپنی اپنی وسعت کے مطابق سخاوت کرے اورسخاوت کے لیے اللہ تعالی نے مالی وسعت کی کوئی تحدیدنہیں کی ،لہذا ہرشخص اپنی اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرکے سخی بن سکتاہے ،اگردوروپئے کے مالک نے اللہ کے راستے میں ایک روپئے خرچ کیاتویہ اللہ تعالی کے نزدیک لاکھوں روپیوں پربھاری ہے ،اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا تھا:
سبق درھم علی مائة ألف درھم
 ”ایک درہم ایک لاکھ درہم پرسبقت لے گیا، یہ بات سن کر صحابہ کرام کوتعجب ہواکہ آخرایساکیسے ہوگا،چنانچہ آپ نے اس کی وضاحت فرمائی کہ ایک آدمی جس کے پاس دو درہم تھا،اس نے اس میں سے ایک درہم نکال کرصدقہ کردیا،اورایک آدمی جس کے پاس وافرمقدارمیں مال تھا،اس نے اپنے مال میں سے ایک لاکھ نکال کر صدقہ کیا، اس طرح فقیرکاایک درہم مالدارکے ایک لاکھ درہم پرسبقت لے گیا،کیوں کہ ایک درہم فقیرکاآدھامال تھا،اورایک لاکھ درہم اس مالدارکے مال کاایک ادنی حصہ تھا۔ (نسائی ،ابن حبان ، والحاکم وحسنہ الالبانی )
اس لیے ایک معمولی ملازم کوبھی چاہئے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق صدقہ کرے،اورمعمولی رقم کوبھی حقیرنہ سمجھے۔ 

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔