![]() |
محبت اوراس کی مانگ |
آپ اپنی زندگی میں ’ محبت‘ کا نام بار بار سنتے ہوں
گے، محبت کیاہے ؟ محبت آب حیات ہے، روح کی غذا اورنفس کی قوت ہے ۔محبت سے ہی چہرے روشن ہوتے ہیں، ہونٹوں پر مسکراہٹ کھلتی ہے، جذبات میں ہلچل مچتی ہے۔ محبت کی بنیاد پر ہی دنیا کا وجود ہے ، محبت سے ہی ایک ماں اپنے بچے کو پالتی ہے، محبت ہی سے بندہ مومن گناہوں سے بچتا ہے، نیکیاں کرتا ہے اور شب دیجورمیں اس کی آنکھیں اشک بار ہوتی ہیں۔یہ محبت تھی کہ حرام بن ملحان رضى الله عنہ کی زبان سے نکلتا ہے: فزت ورب الکعبة ” رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا“۔ یہ محبت تھی کہ عمیر بن الحمامرضى الله عنہ پکار اٹھتے ہیں: ”اگران کجھوروں کو کھانے میں لگوں تو یہ لمبی زندگی ہوجائے گی ....“ یہ محبت تھی کہ ابراہیم خلیل کے لیے آگ گل گلزار بن جاتی ہے ، یہ محبت تھی کہ موسی کلیم کے لیے سمندر میں راستے بن جاتے ہیں ۔ یہ محبت تھی کہ ہمارے حبیب کے لیے کھجور کے تنے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتے ہیں اورچاند شق ہوجاتا ہے ۔ (1) غرضیکہ یہ لفظ ہے بہت مختصر لیکن نہایت جامع اور پاکیزہ ہے-
لغوى تحقيق:
محبت عربی زبان کا لفظ ہے جو حب ّ سے نکلا ہے، اسی سے آتا ہے حب الماء پانی نتھر گیا، پانی
کا گدلاپن ختم ہوگیا، پانی صاف ہوگیا ، گویا محبت میں پاکی صفائی اورپاکیزگی کامعنی ہوتاہے۔
اسی طرح عرب کہتے ہیں: حب البعیراونٹ بیٹھ گیا، پرسکون ہوگیا،گویاکہ اِس میں دوام ،استقرار
اورہمیشگی کامعنی بھی پایاجاتاہے، اسی سے ’حباب‘ بھی ہے جوپانی کے اوپراٹھتا ہے،گویا اس
میں بلندی اور اونچائی کا معنی بھی پایا جاتاہے،گویاکہ محبت کے بغیر انسان میں بلندی
نہیں آتی، اسی سے عربی میں ’حب ‘ آتاہے ،جس کے معنی دانہ کے ہوتے ہیں جو زندگی کا سبب
ہے،گویاکہ محبت کے بغیر زندگی کا وجودممکن نہیں ہے
۔یہ ہے محبت جس میں پاکیزگی ہوتی ہے، دوام اوراستقرار ہوتا ہے ، بلندی ہوتی ہے ،اوریہ
انسان کی بقا کے لیے لازمی عنصر ہے۔ محبت کے اظہار کے لیے ایک اورلفظ استعمال ہوتا
ہے عشق جس کے اندرخالص پاکیزگی نہیں ہوتی بلکہ شہوت کا مفہوم بھی پایاجاتاہے۔اسی لیے
اس کا استعمال ہم اپنی ماں،بہنوں اوربیٹیوں
کے لیے نہیں کرتے، لہذا اللہ اوراس کے رسول کے لیے بھی عشق
کا لفظ استعمال نہیں ہوسکتا ۔ قرآن اورحدیث میں کہیں بھی اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کے لیے عشق کے لفظ کا استعمال نہیں ہوا۔(2)
اس مختصر سی تمہید کے بعد
آج ہم بات کریں گے اس انسان سے محبت کے بارے میں جو انسانیت کی خاطر 23سال تک تڑپتے
رہے ،جن سے بہتر انسان نہ اس دنیا میں پیدا ہوا نہ قیامت کی صبح تک پیدا ہوسکتا ہے
، جن پر اللہ تعالی رحمت نازل کرتا ہے ، جن کے لیے فرشتے رحمت کی دعا کرتے ہیں، جن
کی عمر کی قسم اللہ نے اپنی کتاب میں اٹھائی ہے ، جن کی زندگی کو اللہ تعالی نے اورآئیڈیل
بنا دیاہے ۔جن پر ایمان لانے کا وعدہ اللہ تعالی نے تمام نبیوں سے عالم ارواح میں لیاتھا،جن
کے خوش ہونے سے اللہ خوش ہوتا ہے اورجن کے ناراض ہونے سے اللہ ناراض ہوتا ہے ،جن کی
اطاعت اللہ کی اطاعت ہے اورجن کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے ۔کل قیامت کے دن حشر
کے میدان میں سارے انبیاءجب سفارش کرنے سے انکار کردیں گے تو و ہی ہیں جو ہمارے لیے
سب سے پہلے اللہ سے سفارش کریں گے اوران کی سفارش سنی جائے گی ۔
ہمیں اپنی قسمت پر ناز کرنا
چاہیے کہ اللہ پاک نے ہمیں ایسے نبی کی امت ہونے کا موقع نصیب فرمایا، مسنداحمد کی
روایت ہے حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا :
طوبی لمن رانی وآمن بی وطوبی سبع مرا ت لمن آمن بی ولم یرانی ۔
خوش
خبری ہے اس شخص کے لیے جس نے مجھے دیکھا اورمجھ پر ایمان لایا اورسات مرتبہ خوشخبری
ہے اس شخص کے لیے جس نے مجھے نہیں دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا ۔
میرے بھائیو ! اس انعام کا
تقاضا ہے کہ اللہ کے بعد سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی جائے ،اوراگر
محبت نہ ہو تواطاعت کیوں کر ہوپائے گی ۔ اللہ تعالی نے فرمایا:سورہ احزاب 6 النبی اولی
بالمومنین من انفسھم نبی کا حق ایمان والوں پرخود
ان کی اپنی جانوں سے بڑھ کر ہے ۔ صحیح مسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:
لایومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین
تم میں
سے کوئی اس وقت تک مکمل مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے ماں
باپ ،اولاد اوردوسرے سارے لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں
۔
صحیح بخاری کی روایت ہے حضرت
عبداللہ بن ہشام کہتے ہیں :
ہم لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کا ہاتھ پکڑا تو عمررضی اللہ عنہ نے کہا: ہے اللہ کے رسول ! آپ مجھے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں سوائے میری جان کے ، آپ نے فرمایا: جی نہیں ! اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہاں تک کہ میں تمہیں تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ انہوں نے کہا: اب اللہ کی قسم آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں ۔تب آپ نے فرمایا: الآن یا عمر ”اے عمر ! اب بات بنی ہے “ ۔ یعنی تمہارا ایمان اب مکمل ہوا ہے ۔
پہلے خلیفہ ابوبکررضی اللہ
عنہ کو دیکھیے کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے جرم میں اتنا پیٹا
جاتا ہے کہ بیہوش ہوکرگرجاتے ہیں ،لیکن جب ہوش آتا ہے تو سب سے پہلے ہی پوچھتے ہیں
کہ اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم کا کیاحال ہے؟اور اس وقت تک دانا پانی منہ میں نہیں
ڈالتے جب تک کہ آپ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچانہ دیاجاتا ہے اورآپ
کو اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لیتے ہیں ۔ سبحان اللہ ! جن کی خاطر پیٹے جاتے ہیں ہوش آتے
ہی ان ہی کا نام لے رہے ہیں ۔
پھرجب ہجرت کے موقع سے ہمارے
حبیب ابوبکررضی اللہ عنہ کے بعد آتے ہیں اوریہ اطلاع دیتے ہیں کہ ابوبکر!تم میرے رفیق
سفربننے والے ہو،یہ سننا تھا کہ ان کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو چھلک پڑتے ہیں،سیدہ عائشہ
رضی اللہ عنہا یہ ماجرا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں، کہتی ہیں:
فرأیت أبا بکر یبکی وما کنت أحسب أن أحدا یبکی من الفرح"میں نے ابوبکر کودیکھا کہ وہ رورہے ہیں حالانکہ اس سے قبل میں نے کسی کو خوشی سے روتے ہوئے نہیں دیکھا تھا"۔
اورسیرت ابن ہشام میں ہے
کہ احد کی جنگ میں بنو دینار کی ایک خاتون کے باپ ، شوہر اوربھائی شہید کردئیے جاتے
ہیں ،جب ان کوایک ہی بار اپنے باپ ، بھائی اورشوہر کی شہادت کی اطلاع ملتی ہے تو کہتی
ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون۔لیکن باربار پوچھتی جارہی ہیں : ہمیں بتاؤ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں ، اسے بتایاجاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
ویسے ہی ہیں جیسا کہ تو چاہتی ہے،پھر بھی بے چین ہیں یہاںتک کہ اللہ کے رسول کو دیکھ
لیتی ہیں ، جب اس کی نگاہ آپ پرپڑتی ہے تو بول اٹھتی ہیں :
کل مصیبة بعدک جلل
” اے
اللہ کے رسول! آپ کے ہوتے ہوئے ساری مصیبتیں آسان ہیں
اب سوال یہ ہے کہ اللہ کے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا اوراس کی مانگ کیا ہے ؟
(1) دل وجان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتکریم کی جائے :
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم سے محبت کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ دل وجان سے آپ کی تعظیم وتکریم کی جائے ،آپ کی
عزت کی جائے ، یہ عزت ہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوآپ کی زندگی میں آپ کے نام
سے پکارنے سے منع کردیاگیا تھا ۔ اسی طرح صحابہ کرام کو آپ کے سامنے اونچی آوازمیں گفتگو
کرنے سے روک دیاگیاتھا ، لیکن تعظیم کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کی شان میں غلو کیاجائے
، اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مشکل دور کرنے والا ،ضروررت پوری کرنے
والا ،اور نفع اورنقصان کا مالک ماننا اصل میں اللہ کا حق نبی کو دینا ہے جس سے شرک
لازم آتا ہے ۔
(2) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجاجائے:
للہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم سے محبت کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ آپ پر درود وسلام بھیجاجائے،اورہم کیاان پر تو
اللہ تعالی اوران کے فرشتے بھی درودبھیجتے ہیں،اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :
بے شک اﷲ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں ، اے ایمان والو ! تم بھی ان پر درود وسلام بھیجو۔( الاحزاب : 56)
صحیح مسلم کی روایت ہے سیدناعبد اللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں
: میں نے رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
” جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھتا ہے ، اس پر اﷲ تعالیٰ اپنی دس رحمتیں نازل فرماتا ہے “۔
امام ابن قیم رحمہ نے 41 ایسی
جگہوں کا ذکر کیا ہے جہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر درودوسلام بھیجنا چاہیے
جیسے جمعہ کے دن ،اذان کے بعد ،تشہد کی حالت میں وغیرہ ۔
(3) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کى اطاعت كى جائے:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم سے محبت کا تیسراتقاضایہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن باتوں کی خبردی ہے
ان کی تائید کی جائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن باتوں کا حکم دیا ہے ان کے مطابق
عمل کیا جائے ۔ اور جن باتوں سے روک دیاہے ان سے رک جائے ۔اللہ تعالی نے فرمایا:
قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ویغفر لکم ذنوبکم واللہ غفوررحیم ۔(سورہ آل عمران : 31 )
”آپ کہہ دیجئے کہ اگرتم اللہ سے محبت رکھتے ہو تومیری تابعداری کرو،اس
طرح اللہ تم سے محبت کرے گا ، اورتمہارے گناہ معاف فرمادے گا اوراللہ تعالی بہت بخشنے
والا نہایت مہربان ہے “۔ لہذ ا جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعوی کرتا
ہو اور آپ کی سنت کی پیروی بھی کرتا ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ محبت کے دعوے میں
سچا ہے ،اوراگر وہ محبت کا دعوی تو کرتا ہے لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے
احکام کا پابند نہیں تو اس کے متعلق یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ لاکھ محبت رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کا دم بھرے اس کی محبت کا دعوی جھوٹا ہے ۔ سچ کہا کسی شاعر نے
لوکان حبک صادقا لأطعتہ إن المحب لمن یحب مطیع
”اگر تمہاری محبت سچی ہوتی تو تم ان کی اطاعت کرتے
،کیوں کہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کی اطاعت کرتا ہے “ ۔
(4) سارے اختلافی مسائل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوحرف اخیر سمجھاجائے :
محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے
محبت کا چوتھا تقاضا یہ ہے کہ سارے اختلافی مسائل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اورآپ
کی احادیث کو حرف اخیر سمجھتے ہوئے ان کے سامنے سرٹیک دیاجائے ،ان کے مقابلہ میں کسی
کی رائے یا کسی کے مسلک کو کوئی اہمیت نہ دی جائے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
فلا وربک لایؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لایجدوا فی أنفسھم حرجا مما قضیت ویسلموا تسلیما (سور ہ نساء: 65 )
” قسم ہے تیرے رب کی ، یہ مومن نہیں ہوسکتے جب تک آپس کے تمام اختلافات
میں آپ کو حاکم نہ مان لیں ،پھر جو فیصلہ آپ ان میں کردیں اس سے و ہ دل میں کسی طرح
کی تنگی اورناخوشی محسوس نہ کریں اورفرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں “۔
کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اگر ان کے سامنے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات سنائیں تو فورا بول پڑیں گے : ”لیکن فلاں امام کا قول تو ایسا ہے “ یہ جملہ بہت خطرناک ہے ،کسی انسان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ کا مقابلہ کسی امام کے قول سے کرے ،چاہے وہ چوٹی کا عالم ہی کیوں نہ ہو ۔
کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اگر ان کے سامنے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات سنائیں تو فورا بول پڑیں گے : ”لیکن فلاں امام کا قول تو ایسا ہے “ یہ جملہ بہت خطرناک ہے ،کسی انسان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ کا مقابلہ کسی امام کے قول سے کرے ،چاہے وہ چوٹی کا عالم ہی کیوں نہ ہو ۔
رہتے ہوئے مصطفی کا گفتار
مت دیکھ کسی کا قول وکردار
(5) آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے اہل بیت ،صحابہ اور ازواج مطہرات سے محبت کی جائے:
محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے
محبت کا پانچواں تقاضا یہ ہے کہ آپ کے اہل بیت ،آپ کے جملہ صحابہ اورازواج مطہرات سے
محبت کی جائے ۔ابوبکررضی اللہ عنہ نے فرمایاتھا:
أرقبوا محمدا فی أھل بیتہ ( صحيح البخارى)
محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کوان کے اہل بیت میں تلاش کرو۔ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:
لاتسبوا أصحابى فلو أن أحدكم أنفق مثل أحد ذهبا ما بلغ مد أحدهم ولا نصيفه (بخارى ومسلم)
"میرے صحابہ کو برابھلا مت کہو،اگر تم میں کا ایک آدمى احد پہاڑ برابر سونا خرچ کرے تو ان کے ایک مدیا نصف مد(سونا خرچ کرنے) کے برابر نہیں پہنچ سکتا "۔
(6) اللہ کی عبادت ویسے ہی کی جائے جیسے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کی یا کرنے کا طریقہ بتایا ہے:
محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے
محبت کا چھٹا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کی عبادت ویسے ہی کی جائے جیسے نبی پاک صلی اللہ
علیہ وسلم نے کی یا کرنے کا طریقہ بتایا ہے۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں کسی
طرح کا اضافہ نہ کیاجائے کیونکہ ہم نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مانا ہے ، اورآپ
کے ذریعہ دین مکمل ہوچکا ہے۔ اورشریعت میں کسی بھی عمل کے لیے نیت کا خالص ہونا کافی
نہیں ہے بلکہ اس کا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے مطابق انجام پانابھی ضروری
ہے ۔
اللہ نے اپنے نبی کو انسانوں
کی رہنمائی کے لیے بھیجا تھا ،انہوں نے دین کو پوری طرح پہنچا دیا ،اس میں کسی طرح
کی کمی نہیں رہنے دی ، اب اگر کوئی آدمی بعدمیں آکر دین میں نئی چیز داخل کرتا ہے تودین
کھلواڑ بن کر رہ جائے گا ۔اوریہی کچھ دوسرے دھرموںمیں دیکھنے کو ملتا ہے ،اللہ نے دین
کومحفوظ کردیا ہے ،اس لیے اب اس میں کسی کے لیے کمی بیشی کرنے کی گناجائش نہیں رکھی
گئی ، اِسے آپ ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ سرکار نوٹ چھاپتی ہے ،جس پر سرکارکامہر لگاہوتا
ہے ،اگرکوئی عام آدمی نقلی مہر بنالے اورنوٹ چھاپ چھاپ کر سرکار کو پیش کرے کہ میں
نے بہت سارا نوٹ چھاپ دیاہے تواسے شاباشی نہیں ملے گی بلکہ سرکار اسے دیش دروہی اورغداروطن
کی سزا دے گی ۔ ویسے ہی دین کی کوئی بات اسی وقت قبول کی جائے گی جب اس پر اللہ
اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مہر لگا ہوا ہو ۔
(1) یہ فقرہ ڈاکٹر عائض القرنی کے مقالہ سے مستفاد ہے-
(1) یہ فقرہ ڈاکٹر عائض القرنی کے مقالہ سے مستفاد ہے-
(2) یہ فقرہ مولانا جلال الدین قاسمی کے خطاب سے مستفاد ہے۔
0 تبصرہ:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔