ہفتہ, جنوری 18, 2014

اسلام دین امن وراحت ہے


لفظ امن اپنے مشتقات کے ساتھ قرآن کریم میں 48 مقامات پرمستعمل ہواہے ،اورامن کی ضدفساد ہے اس کی قباحت وشناعت پر قرآن کریم کی کم وبیش پچاس آیتیں ملتی ہیں ،جس کامقصود یہ ہے کہ اسلام امن وآشتی کا علم بردار مذہب ہے ،سکون ،سلامتی اور اطمینان سے عبارت ہے ، اسلام کے سرتاپا امن وسلامتی ہونے کا ثبوت خود اس کے نام ہی سے ملتاہے، اسلام عربی لفظ ہے جوسلم سے نکلاہے اورسلم کے معنی امن وسلامتی کے آتے ہیں ۔اسی طرح لفظ”ایمان“بھی امن سے بناہے ،اوراس دین کوماننے والامومن کہلاتاہے ،اورمومن کے لفظی معنی ہیں ”امان دینے والا“اللہ تعالی کاایک صفاتی نام بھی المؤمن ہے اسی طرح اللہ تعالی کادوسراصفاتی نام ”السلام “ بھی ہے ۔
اسلام کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پوری انسانیت کے لیے ”رحمت“ ہیں ،اسلام کی آخری کتاب قرآن کریم کی شروعات ہی ”بسم اللہ الرحمن الرحیم “سے ہوتی ہے جس کامطلب ہے :”شروع کرتاہوں اللہ کے نام سے جونہایت مہربان بہت رحم کرنے والاہے“۔اسلام انسانوں کوجس جنت کی طرف بلاتاہے اس کانام ”دارالسلام “یعنی سلامتی کاگھرہے ،اورمسلمان بوقت ملاقات ”السلام علیکم “کے ذریعہ جس تحیہ کاآپسی تبادلہ کرتے ہیں اس میں سلامتی ہی سلامتی ہے ۔
عزیزقاری ! اسلام کی نظرمیں امن کی کیااہمیت ہے اس کاصحیح اندازہ اسی وقت ہوسکتاہے جب ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے کے حالات کاجائزہ لیں ،پھرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد حالات میں کیاتبدیلیاں آئیں ان کوسامنے رکھیں ۔چنانچہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جوحالات تھے وہ یہی نہیں کہ انسانیت کفروشرک کی تاریکیوں میں بھٹک رہی تھی ،بلکہ ظلم وستم ،جوروتعدی ،فتنہ و فساد ،قتل وقتال ،لوٹ مار،خونرریزی اور رہزنی اپنے شباب پرتھی،بیواؤں پرظلم کرنا،یتیموں کوستانا،چلتے مسافروں کومارڈالنا،معمولی بات پرخاندان کے خاندان کوتہہ تیغ کردینا،حقداروں کوحق سے محروم کرنااوربچیوں کوزندہ درگورکردینا ان کی عادت ثانیہ بن چکی تھی ،کہیں امن وامان اورسکون واطمینان کانام ونشان نہ تھا ۔ایسے تاریک ترین دور میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم آتے ہیں تو لوگوں کو توحیدخالص پرجمع کرتے ہیں ۔اب کیاتھا انسانیت ظلم وستم سے نجات پائی ،ہرطرف امن وامان کا بول بالاہوا ،ایک دوسرے کے خون کے پیاسے باہم شیروشکرہوگئے ،اگریقین نہ آئے توتاریخ سے پوچھو کہ کیسے خون کے پیاسے اورجان کے دشمن دل وجان سے گلے لگ رہے ہیں ، جانوں سے کھیلنے والے کیسے جانوں کے محافظ بن جارہے ہیں ،پردیسیوں کولوٹنے والے کیسے ان پرسب کچھ لٹانے کے لیے تیارہوجاتے ہیں ، بچیوں کوزندہ دفن کرنے والے بچیوں کی آنکھ میں آنسودیکھناگوارانہیں کرتے،اپنی ذات کے لیے جینے والے دوسروں کے لیے جینے لگتے ہیں۔غرضیکہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعدایساامن پسند،سکون نواز،اوراطمینان بخش معاشر ہ بناجس کی مثال پوری انسانیت پیش کرنے سے قاصرہے ۔
اسلام امن وسلامتی کاسبق سکھاتاہے ،حق وانصاف کاعلم بردارہے ،اس کی نظرمیں تمام بنی آدم ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں:
 یا أیہا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدہ (سورة النساء 1)
 ”اے لوگو!”اپنے پر وردگارسے ڈرو جس نے تجھے ایک ہی جان سے پیداکیا“۔
اس طرح وہ فتنہ وفساد کادشمن ہے ،وہ ہرطرح کے فسادکومٹانے کی کوشش کرتا ہے ،قرآن کہتاہے :
واللہ لایحب المفسدین (سورہ المائدہ 64)
”اللہ تعالی فساد کرنے والوں کوہرگزپسندنہیں کرتا“(سورہ المائدہ64)
ولا تفسدوا فی الأرض بعد إصلاحھا  (سورہ الاعراف 56)
’زمین میں پیغمبروں کے ذریعہ اس کی اصلاح کے بعد فسادنہ کرو“(سورہ الاعراف 56) ولاتقتلو االنفس التی حرم اللہ الابالحق ”اورکسی جان کو جسے اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ“ (سورہ انعام 151)اسلام کی نظرمیں انسانی جان کااحترام اس قدرملحوظ ہے کہ کسی فردکے قتل ناحق کوپوری انسانیت کاقتل قراردیتاہے قرآن کہتاہے :
من قتل نفسا بغیر نفس أوفساد فی الارض فکأنما قتل الناس جمیعا ومن أحیاھا فکأنما أحیا الناس جمیعا (سورہ مائدہ آیت نمبر 32)
”جوکوئی کسی انسان کوجبکہ اس نے کسی کی جان نہ لی ہو یا زمین میں فساد برپانہ کیاہو ،قتل کرے تو گویااس نے تمام انسانوں کوقتل کرڈالا اورجوکسی ایک نفس کوزندہ کرے گویااس نے تمام انسانوں کو زندہ کیا“
 یعنی اگر کسی نے کسی کو ناحق قتل نہیں کیاہے ،زمین میں فسادنہیں مچایاہے،یاکوئی ایساسنگین جرم نہیں کیاہے جو اسے واجب القتل قراردے ایساانسان زندگی کاحق رکھتاہے ،جوشخص اس حق کو پامال کرتا اوراس کا نارواخون بہاتاہے اسلام کی نظرمیں وہ گویاسارے انسانوں کاخون بہارہاہے ،اس لیے کہ اس نے اپنے عمل سے دنیاکو یہ غلط راستہ دکھایاکہ انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں ،تب ہی تو بغیرجرم کے اس نے ایک انسان کی جان لی ،اس کے برخلاف اگرکوئی قتل نا حق کے خلاف سینہ سپرہوگیااورکسی معصوم کی جان بچالی تواس نے تمام انسانوں کوزندگی عطا کردی اوراپنے اس کردارسے ثابت کردیاکہ کسی بھی انسان کی جان ،ناحق نہیں لی جا سکتی ۔
یہ ہے اسلام کانقطہ نظر ۔بالکل واضح اور دوٹوک !اسلامی دہشت گردی کا واویلا مچانے والے ذرااسلام کی اس تعلیم پرغور کریں ،اب ہمیں کوئی بتاسکتاہے کہ کیا ، دنیامیں کوئی ایسامذہب یاقانون ہے جس نے ایک فرد بشر کے قتل کوساری انسانیت کاقتل کراردیاہو؟نہیں اور ہرگزنہیں ،توپھر بات بالکل واضح ہے کہ اسلام نے انسانی جان کے احترام کی جتنے پرزورالفاظ میں تعلیم دی ہے ،اس کی مثال دنیاکے کسی قانون میں نہیں ملتی ۔
اسلام کوامن وامان اس قدر مطلوب ہے کہ غیرمسلم ذمی جواسلامی حکومت میں رہ رہے ہوں ،اسلامی حکومت ان کی جان مال اورعزت کے تحفظ کی ذمہ دار ہے ،اسی طرح وہ غیرمسلم جواسلامی حکومت کے ساتھ اچھے ہم سایوں کی طرح رہنے کے پا بند ہوں اسلام ا نہیں بھی جان مال اورعزت کا پورا تحفظ فراہم کرتا ہے ،صحیح بخاری کی روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 من قتل معاہدا لم یرح رائحة الجنة ( صحيح البخاري) 
”جوکوئی معاہدہ غیرمسلم کوقتل کردیتاہے ،وہ جنت کی ہواتک نہ پائے گا“۔
اورکیاآپ جانتے ہیں مسلمان کی تعریف کیاہے ؟ سنن ترمذی کی روایت کے مطابق رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
المسلم من المسلمون من لسانہ ویدہ والمؤمن من أمنہ الناس علی دمائھم وأموالھم (سنن الترمذی) 
”مسلم وہ ہے جس کی زبان درازیوں اوردست درازیوں سے مسلمان محفوظ رہیں ،اورمومن وہ ہے جس کی طرف سے لوگوں کواپنی جانوں اورمالوں کے بارے میں کوئی خطرہ نہ ہو “۔
جی ہاں! یہ مومن کی پہچان ہے کہ لوگ اس سے مامون رہیں ،اپنی جانوں کے معاملے میں بھی اوراپنے اموال کے معاملے میں بھی ۔اسی وجہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم سے منع کیااورفرمایاکہ ظلم قیامت کی تاریکیوں میں سے ایک تاریکی ہے:
اتقواالظلم فإن الظلم ظلمات یوم القیامة، اتقوا الشح فإن الشح أھلک من کان قبلکم حملھم أن سفکوا دمائھم واستحلوا محارمھم (رواه مسلم) 
"ظلم سے بچو!کیوں کہ ظلم قیامت کی تاریکیوںمیں سے ایک تاریکی ہے ،اوربخل سے بچو!کیوں کہ بخل نے تم سے پہلے لوگوں کوبرباد کردیا،اس نے ان کواس بات پرابھاراکہ وہ آپس میں خونریزی کریں اوراپنے اوپرحرام کردہ چیزوں کوحلال گردانیں “۔
معاشرے میں امن وامان کے قیام کے لیے اس کے افراد کے بیچ خوش گوار تعلقات کاہموارہونانہایت ضروری ہے ،اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واللہ لایؤ من واللہ لایؤمن  ”اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہوسکتا ،اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہوسکتا “آپ نے فرمایا :
من لا یأمن جارہ بوائقہ (رواه البخارى ) 
 ”جس کے شرسے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں“
اسی طرح حجة الوداع کے موقع پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوخطبہ دیاتھاوہ امن عالم کاحقیقی منشور ہے ،آپ نے فرمایاتھا:
 إن دماءکم وأموالکم حرام علیکم کحرمة یومکم ھذا،فی شھر کم ھذا ، فی بلدکم ھذا ( رواه مسلم ) 
 ”یقینا تمہارے خون اورتمہارے مال تم پرواجب الاحترام ہیں جیساکہ تمہارے اس شہر میں ،تمہارے اس ماہ میں ،تمہارے اس دن کی حرمت تم پر واجب ہے“ ۔
یہ ہیں قیمی ارشادات رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ۔جن پرسرسری نظرڈالنے سے یہ بات بالکل نکھر کرسامنے آجاتی ہے کہ آپ کی تعلیمات کاخلاصہ قیام امن ہی ہے ،ایک مومن کی شان نہیں کہ وہ خونریزی کرے ،اورسماج میں فساد مچائے ،ایمان اورخون ریزی میں تضاد ہے ،ایمان اوررہزنی میں منافات ہے ،ایمان اورایذارسانی میں زبردست مغایرت ہے ،دونوں کبھی یکجانہیں ہوسکتے ۔
امن کے پیغامبر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو امن کس قدر محبوب تھا ،اس کا عملی نمونہ دیکھنا ہوتونبوت سے پہلے کی زندگی پربھی ایک نظرڈال لی جائے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے امن وامان کی بحالی کے لیے حلف الفضول کے نام سے ایک انجمن قائم کی جس میں بنوہاشم ، بنومطلب، بنواسد، بنوزہرہ ، اوربنو تمیم کوشامل کیا چنانچہ آپ کی کوشش سے ممبران انجمن نے ان باتوں پراتفاق کیا کہ ”ہم ملک سے بدامنی کودور کریں گے “ ہم مسافروں کی حفاظت کریں گے ، ہم غریبوں کی امدادکرتے رہیں گے ، ہم زبردست کوزیردست پرظلم کرنے سے روکاکریں گے ،اس طرح آپ کی حسن تدبیرسے معاشرے میں امن وامان قائم ہوا اورلوگوں کے جان ومال اورعزت وآبروکی حفاظت ہونے لگی ۔
پھرایک وقت آیاکہ آپ کونبوت سے سرفرازکیاگیا،اورآپ نبوت کے ذمہ داریوں میں لگ گئے ، ادھردہشت گردوں کی دہشت گردی اپنے شباب پرپہنچ گئی تواللہ کی اجازت سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمایا۔یہاں آکرآپ نے قیام امن کے لیے بے پناہ کوششیں کی،جس کے نتیجہ میں اوس وخزرج کی طویل خانہ جنگیا ں ختم ہوئیں ،بھاچارگی کی فضاعام ہوئی ،سب باہم شیروشکر ہوگئے ،یہاں پرآپ نے قیام امن کے لیے بین الاقوامی معاہدے بھی کیے ،معاہدے کے دفعات پرمدینے کی تمام آباد قوموں کے دستخط لیے گئے ،اس کے بعد سفرکرکے گردونواح کے قبائل کوبھی اس معاہدہ میں شامل کیا ۔مقصدصرف یہ تھا تاکہ سماج میں امن وسکون قائم رہے ۔
پھرمدینہ میں قیام کے بعد کفارکے ساتھ جوغزوات یاجنگیں ہوئیں ان کامقصدبھی پائدارامن کاقیام تھا ،جن کاسلوگن تھاالاسلام دین وامن ، اسلام اللہ کادین اورامن کاپیغام ہے ،پھرامن وامان کے قیام کے خاطرہی رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے لیے راضی ہوئے ،یہاں تک کہ وہ دین بھی آیاکہ دس ہزارکی تعداد میں مجاہدین مکہ میں داخل ہوگئے ،آج امن کی پہچان ہورہی تھی ،عالم گیرامن کی بنیاد ڈالی جارہی تھی ، کیاانسانیت اس عظیم انسان کی مثال پیش کرسکتی ہے کہ جن کومسلسل اکیس سال تک مشق ستم بنایاگیا،آج اپنے دشمنوںپرفتح پانے کے بعدانہیں کوامن کاپروانہ بانٹ رہاہے ۔۔اللہ اللہ قربان جائیے آپ اوردشمنوں کے حق میں آپ کے عفودرگزرپرآپ کاعلان ہوتاہے :
  لاتثریب علیکم الیوم اذھبوا وأنتم الطلقاء (ضعفه الألباني في الضعيفة 3/ 307)
”تم پرآج کوئی گرفت نہیں کی جائے گی ،جاؤتم سب آزاد ہو“۔ (ضعيف) 
 اگر دیکھو توفتح مکہ ایک زندہ قصیدہ ہے   

رسول اللہ کے عفوکرم کاشان رحمت کا
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ا سلام امن وآشتی کاجامع اورکامل پیغام ہے ،جوایسے افراد اورمعاشرے کی تشکیل کرتا ہے ،جوامن وپسند ہوں اورامن وامان کے محافظ بھی ہوں، مسلم قوم ہردورمیں ہرجگہ امن پسند ہوتی ہے ،امن کے قیام کے لیے جیتی ہے اوراسی کے لیے مرتی ہے ،مذہب اسلام میں اوراس کے ماننے والوں میں دہشت گردی نہیں آسکتی اوراگر آجائے تو اسے قبول نہیں کیاجاسکتا ۔
    

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔