بدھ, دسمبر 04, 2013

سیرت طیبہ کا مطالعہ کیوں كريں؟


وقت کا سب سے بہتر استعمال یہ ہے کہ ہم انسانی تاریخ کی سب سے عظیم ہستی اور اپنے حبیب کے بارے میں جانیں جو کل قیامت کے دن ہمارے سفارشی ہیں، جو ہمارے نزدیک ہمارے ماں باپ اورہماری اولاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں ،بلکہ ہمیں اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔
 وہ ہمارے آقا ہیں ،اگر وہ نہ ہوتے توآج ہم پتھروں کی پوجا کرتے ہوتے ،ان کے بارے میں گفتگو دل لگی کے لیے نہیں بلکہ اطاعت اور اقتداءکرنے کے لیے ہے کہ ان کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے ، ان کی اطاعت دخول جنت کا سبب ہے ، اوران کی نافرمانی جہنم میں داخلے کا موجب ہے۔
 ان کے بارے میں کیوں نہ جانیں کہ سارا دین انہیں تک پہنچتا ہے،قرآن اگر پیغام ہے توہمارے حبیب کی زندگی اس کی عملی تطبیق ہے ، قرآن اگر تھیوری ہے تو ہمارے حبیب کی زندگی ایک پریکٹیکل نمونہ ہے۔تب ہی تو مائی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہاتھا :
 کان خلقہ القرآن (مسلم)
”آپ کا اخلاق سراسر قرآن تھا“۔یعنی آپ قرآن کے چلتا پھرتا نمونہ تھے۔گویاقرآن کو سمجھنے کے لیے سیرت کو سمجھنا بیحدضروری ہے۔
ان کے بارے میں کیوں نہ جانیں کہ ان کی ساری زندگی ہمارے لیے اسوہ اورنمونہ ہے:
 لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللَّہِ اُسوَةحَسَنَة )سورة الاحزاب 21)
 ” تمہارے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔
جی ہاں! ہرانسان اس دنیا میں اپنے لیے ایک آئیڈیل کا ضرورت مند ہوتا ہے اورہمارے حبیب کی زندگی سے بہترآئیڈیل نہ دنیامیں ہے اورنہ ہوسکتا ہے۔ آپ دولت مند ہوں،یا غریب ہوں، بادشاہ ہوں یا رعایا ہوں،استاذہوںیاشاگردہوں، داعی ہوں یا تاجر ہوں، باپ ہوں یا شوہر ہوں، صاحب اولاد ہوں یا بے اولاد ہوں غرضیکہ آپ جو بھی ہوںآپ کے لیے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین آئیڈیل اورنمونہ ہے۔
پھر جب ہم سیرت کا مطالعہ کررہے ہوں تو اس کے ایک ایک نکتہ پر غور کریں اور اس سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کریں کہ یہی ہمارے لیے مشعل را ہ ہے۔

عالمگیر نبی اور ہمہ گیر دعوت:

جس عظیم انسان کی سیرت طیبہ ہم بیان کریں گے وہ صرف مسلمانوں کے پیغمبر نہیںبلکہ ساری انسانیت کے لیے رہنمااورقائد ہیں ،یہ الگ بات ہے کہ لوگ ان کو پہچان نہیں رہے ہیں، آپ خودغورکیجئے کہ اِس دنیا میں جتنے بھی مذاہب کے پیشوا گذرے ہیں ان کی تعلیم اور ان کی سیرت ہم تک قابل اعتماد اور مستندذرائع سے نہیں پہنچی۔ پچھلے انبیاءکی سیرت کو ہی لے لیجئے،اس کی معلومات ہمیں بائبل سے مل سکتی تھی،لیکن تورات ہو ،یا زبور ہو یا انجیل آج اپنی اصلی شکل میں باقی نہیں، ان کے علاوہ دوسرے مذاہب کی طرف جھانک کر دیکھیں تو ان کی تعلیمات خود اپنی بنائی ہوئی ہیں اوران کے پاس بھی کوئی ایسا پیشوا نہیں ہے جس کی زندگی مستندشکل میں ہم تک پہنچی ہو اورجو سارے انسانوں کے لیے آئیڈیل بن سکتے ہوں۔لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں چارایسی امتیازی خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کی بنیاد پر ہم انہیں عالمی قائد ماننے پر مجبورہوتے ہیں:

پہلی خصوصیت :

انہوں نے ایک محفوظ کتاب چھوڑی ، جس کے ایک حرف میں بھی الٹ پھیر نہ ہوسکا ہے ،آج یہ کتاب اپنی اصلی زبان اور اصلی الفاظ میں ہو بہو محفوظ ہے۔

دوسری خصوصیت:

 آپ کی لائی ہوئی کتاب کی طرح آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ بھی محفوظ ہے ، آپ کی پیدائش سے لے کر موت تک آپ کی ایک ایک بات ، آپ کی ایک ایک حرکت مستند طریقے سے ہم تک پہنچی ہے۔ جن لوگوں نے آپ کی باتیں بیان کی ہیں ان کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچتی ہے،جن کی زندگیاں آج اسماءالرجال کی کتابوںمیں محفوظ ہیں۔وہ بیان کرتے وقت کہتے ہیں کہ مجھ سے فلاں نے بیان کیا اورفلاں سے فلاں نے بیان کیا،اورفلاںسے فلاں نے بیان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایاہے: اس طرح وہ باتیں ہم تک مستنداورقابل اعتماد طریقے سے پہنچتی ہیں۔پھر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان کرنے والے ہیں ان میں اگر یادداشت کی کمی پائی گئی یا عام معاملات میں معمولی اخلاقی کمزوری پائی گئی تو ایسے لوگوں کی روایتیں رد کردی گئیں ۔
غرضیکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں اور آپ کی سیرت اس سرزمین پر جس قدر احتیاط اور صحت کے ساتھ ہمارے پاس پہنچی ہے کسی بھی انسان کی زندگی اس قدرصحت اوراحتیاط کے ساتھ نہیں پہنچ سکی، چاہے وہ کوئی نبی ہو یاکوئی مصلح۔

 تیسری خصوصیت:

آپ کی زندگی کے ہر پہلو کی اتنی تفصیلات ملتی ہیں جو تاریخ کے کسی دوسرے شخص کی زندگی کے بارے میں نہیں ملتی۔ آپ کا خاندان کیسا تھا ، آپ کی نبوت سے پہلے کی زندگی کیسی تھی ، آپ کو نبوت کس طرح ملی ،آپ پر وحی کیسے اترتی تھی ،آپ نے اسلام کی دعوت کس طرح پھیلائی ،مخالفتوں کا سامنا کیسے کیا، اپنے ساتھیوں کی تربیت کیسے کی ، آپ کیسے کھڑے ہوتے تھے ، کیسے بیٹھتے تھے ،کیسے چلتے تھے ،کیسے ہنستے تھے ،کیسے غسل کرتے تھے ،کیسے وضوکرتے تھے ، کیسے نماز پڑھتے تھے ، کیسے کھاتے پیتے تھے ،کیسے گفتگو کرتے تھے ،آپ کی خانگی زندگی کیسی تھی ، آپ کے معاملات کیسے تھے ،آپ نے کس چیز کا حکم دیا،اورکس چیزسے منع کیا۔آپ کا حلیہ کیسا تھا اورجسمانی ساخت کیسی تھی ،یہ سب کچھ تفصیل کے ساتھ حدیث اورسیرت کی کتابوںمیں موجود ہے۔

چوتھی خصوصیت:

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم میں خود آفاقی نقوش جھلکتے ہیں:
٭آپ کی پہلی دعوت توحید کی دعوت تھی ، آپ نے انسانوں کو اس اللہ کی عبادت اور بندگی کی طرف بلایا جو سارے انسانوںکا رب ہے ،اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بندگی کا حکم دیاہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم عربوں کے پیغمبرہیں۔
٭ آپ نے رنگ ونسل اور زبان ووطن کے سارے امتیازات کو مٹاکر سارے انسانوں کو ایک ماں باپ کی اولاد قراردیا اورہر طرح کے چھوت چھات ،اونچ نیچ اور بھید بھاؤکو مٹایا۔
٭ آپ نے ایساآئیڈیل نظام حیات پیش کیا جوزندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی کرتا ہے اوراس میںحذف واضافہ کی قطعاًگنجائش نہیں ہے۔ 
٭ اس تعلیم کی بنیادپر ہردورمیں پرامن اورخوشحال ملک ومعاشرے کی تشکیل عمل میں آسکتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہر انسان کے لیے آئیڈیل اورنمونہ ہے چاہے وہ کسی بھی خاندان ،کسی بھی ملک اور کسی بھی سماج سے تعلق رکھتا ہو۔

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔