بدھ, دسمبر 18, 2013

اسلام آسان دين ہے

اسلامکی بیشمار خوبیوں اور محاسن میں سے ایک عظیم خوبی يہ ہے كہ يہ نہايت آسان دين ہے ،اس کو اپنانا اوراس کے مطابق زندگی گذارنا بہت آسان ہے، يہ آسانی فراہم کرتا  اور تنگی کو دور کرتا ہے، کسی آدمی پر اس کی طاقت اور صلاحیت سے زیادہ کوئی ذمہ داری نہیں ڈالتا، الله تعالى نے فرمايا :
 يُرِيدُ اللَّـهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ  (سورة البقرة 185)  
 "اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا "۔ اور ارشاد ربانى ہے:
 يُرِيدُ اللَّـهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا (سورة النساء 28 )
"اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے"۔  تیسری جگہ اللہ تعالی نے فرمایا :
 مَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ ( سورة المائده 6)
 "اللہ تم پر زندگی کو تنگ نہیں کرنا چاہتا"
اور ارشاد ہے:
وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ( سورة الحج 28 )
"اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی" 
ان آیا ت سے پتہ  چلا کہ اسلام بالکل آسان دین ہے،اس كے شرعی احکام مكلف سے مشقت اور تكليف کو دور کرتے ہیں ، دين شريعت  کے سارے احکام کو شامل ہے ،مطلب یہ ہوا کہ دين کی کوئی ایسی تعليم نہیں جس پر عمل کرنے میں بندے کو مشقت ہوتی ہو،بالخصوص عبادات کی فرضیت میں انسانی طبیعت کی پورى رعایت کی گئی ہے اور جہاں مشقت پیدا ہو جائے وہاں آسانیاں رکھی گئی ہیں. چنانچہ اسلامی عبادات پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر دیکھ لیجيے آپ کو اسلام کی آسانی کا پہلو بآسانی سمجھ میں آ جائے گا-
طہارت حاصل كرنے میں رخصت دی گئی کہ اگر کو ئی بیمار ہے یا مشقت میں ہے تو وضو کی بجائے تیمم کر لے ، اگر تیمم کرنے کی استطاعت نہیں ہے اورکوئی   پاس میں نہیں جو تیمم کراسکے اورادھر نمازکا وقت نکل جاتے کا اندیشہ ہو تو بغیر طہارت کے نماز ادا کرنے کی بھی رخصت ملتی ہے -
مسافر کو چار رکعت کی نمازوں میں قصر اور جمع کی رخصت دى گئى ہے اور جو کھڑا ہو کر نماز ادا نہ کر سکے اس کے لیے بیٹھ کر یا سو کر یا آنکھ یا سر کے اشارے سے نماز ادا کرنے كى رخصت ہے - عورتوں کی جو نمازیں مخصوص ايام میں چھوٹ جاتی ہیں  اسلام نے ان کی قضا  ان سے ساقط کردی ہے، البتہ روزے چونکہ زیادہ نہیں ہوتے اوران کی ادائیگی آسان ہے اس لیے ان کو قضا کرنے کا حکم دیاگیا، اسی طرح اگر بارش وغیرہ کا موسم ہو تو یہ رخصت دی گئی کہ دو نمازوں کو جمع تقدیم کے ساتھ اکٹھا کرکے ادا کرلیں ،جیسے عصر کوظہر میں اور عشا کو مغرب میں ۔

اسی طرح اس بات کی بھی گنجائش رکھی گئی کہ جن لوگوں کو مسلسل پیشاب کے قطرے آتے رہتے ہیں ،یا جن مرد وخواتين کو دهات يا ليكوريا كى بیماری ہے وہ تازہ وضو کریں اور اسی حالت میں نماز ادا کرلیں ، نماز ادا کرتے وقت اگر قطرے گریں بھی تو ان سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔
روزے میں مسافر اور مریض کو مشقت کی بنیاد پر افطار کرنے کی رخصت دی گئی اور بعد میں قضا کا حکم دیا گیا اسی طرح جس مریض کو شفا کی امید نہ ہو یا کبر سنی کے باعث  روزہ رکھنے کی طاقت نہیں ركهتا  اس کے ليے ہر دن کے بدلے کسی  غریب کو کھانا کھلانا  دينا مشروع ہے - زکاة مالدار مسلمان پر ہی فرض ہوتی ہے جب کہ اس کی شرطیں پوری ہو جائیں، پھر یہ ضرورت سے زائد مال میں ہی واجب ہوتی ہے، اسی طرح ملکیت کی ہر چیز میں زکاة نہیں آتی، گھر جس میں آدمی رہتا ہے سواری جسے استعمال کرتا ہے اور زمیں جسے تجارت کے لیے نہیں رکھا اس پر زکاة نہیں، خواہ اس کی قیمت کتنی بھی ہو، حج زندگی میں ایک مرتبہ ہی فرض ہے جبکہ اس کی شرط پائی جائے کہ مالی اور بدنی قدرت حاصل ہو  اور اس میں نیابت کی بھی گنجائش  رکھی گئی ہے-
عام حالات میں ايسى رخصت  کو اپنانا  افضل ہے لیکن اگر مشقت ہو رہی ہو تو اس وقت  رخصت كو اپنانا ضروری ہو جاتا ہے – رسول صلى الله عليه وسلم فتح مکہ کے سال ماہ رمضان میں مکہ کے لیے روانہ ہوئے ، آپ نے روزہ رکھا تھا اور لوگ بھی روزہ سے تھے، آپ سے کہا گیا کہ لوگوں پر روزہ  ركهنا شاق گزر رہا ہے، چنانچہ آپ نے پانی منگوایا اور پی لیا ،    لوگ دیکھ رہے تھے اس طرح لوگوں نے بھی روزہ توڑ دیا اور بعض روزہ سے ہى رہے ،آپ سے کہا گیا کہ بعض لوگ اب تک روزہ سے ہیں تو آپ نے فرمایا : 
أولئك العصاة أولئك العصاة  
" وہ لوگ نافرمان ہیں، وہ لوگ نافرمان ہیں" ( صحيح مسلم )
نبی اکرم صلى الله عليہ وسلم   خود سراپا رحمت تھے، آپ نے آسانی فرمائی، لوگوں كو  آسانی کا حکم دیا  اور پوری زندگی آسانی کے پیکر رہے-مسند احمد کی روایت ہے اللہ کے رسول صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا:
إنی بعثت بحنیفیة سمحة  (مسند احمد ) 

"مجھے وہ دین کے ساتھ بھیجاگیاہے جو باطل کی ملاوٹ سے بالکل پاک ہے اورنہایت آسان ہے" ۔
اسی طرح اللہ کے رسول صلى الله عليہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: 
إن الدین یسر ولن یشاد الدین أحد الا غلبہ  ( رواه البخارى )
"بیشک دین آسان ہے اورجوآدمی اس میں تکلف کرے گا اوراپنی طاقت سے بڑھ کر عبادت کرنے کی کوشش کرے گا دین اس پر غالب آجائے گا "۔(بخارى )  
الله کے رسول صلى الله عليہ وسلم نے ایک شب لوگوں کو تراویح کی نماز پڑھائی، دوسری شب جب آئے تو لوگوں كى تعداد زیادہ ہو گئى تهى، پھر تیسری یا چوتھی شبلوگ كثير تعداد میں اکٹھا ہو گیے تو آپ نہ نکلے، صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا: 
تم نے جو کچھ کیا مجھے پتہ تھا لیکن مجھے نکلنے میں یہ امر  مانع تھا کہ مجھے خدشہ ہوا کہ مبادا (نمازتراويح) تم پر  فرض  ہو جاے اور تم اس سے عاجز آ جاؤ " (صحيح مسلم ج 4 ص 41 )
نبی اکرم صلى الله عليہ وسلم  نے یہ  بهى فرمايا : 
"میں نماز میں کھڑا ہوتا  ہوں اور اسے لمبی کرنا چاہتا ہوں اسی وقت بچے کے رونے کی آواز آتی ہے تو نماز کو مختصر کر دیتا ہوں کہ مبادا ماں کو شاق گزرے" ( سنن ابى داؤد ، ج 5 ص3 )  
اسی طرح آپ صلى الله عليہ وسلم نے تخفیف اختیار  کرنے کا حکم دیا اور سختی  اپنانے سے شدت سے منع  کیا :
ایک آدمی اللہ کے رسول صلى الله عليہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ میں صبح کی نماز میں فلاں آدمی کی وجہ سے تاخیر کرتا ہوں کہ وہ نماز کو بہت لمبا کرتے ہیں، حدیت کے روی ابو مسعود الانصاری کہتے ہیں: میں نےآپ كو اس دن سے زیادہ کبھی غضبناک ہوتے ہو ئے نہیں دیکھا، آپ نے فرمایا :اے لوگو! تم میں سے بعض لوگ نفرت دلانے والے ہیں جو کوئی لوگوں کی امامت کرائے اسے چاہیے کہ نماز کو مختصر کرے کیوں کہ اس کے پیچھے عمر دراز ،کمزور اور ضرورت مند بهى ہوتے ہیں." (صحيح مسلم ج 1 184 )
 کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ شرعی احکام کی بجاآوری میں بندے کو قربانی دینے کی ضرورت پڑتی ہی ہے اوراسے پریشانی بھی لاحق ہوتی ہے پهرآسانى  کا مفہوم کیا ہوا ؟ توآسانی کا مفہوم یہ ہے کہ الله کسی انسان کو اسکی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا اور اگر کسی عبادت  میں مشققت ہو بھی رہی ہو تو الله مختلف طریقے سے اس کی ادائيگی کو آسان کر دیتا ہے کہ ایک مومن کی طبیعت اس کے ليے سازگار ہو جاتی ہے ، مومن کو اسکی ادائیگی میں روحانی لذّت ملتی ہے پھر ایک مومن اس عبادت کے ذریعہ ایک اعلی مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے اس ليے عبادت کی وقتی تھکاوٹ اسے بہت آسان لگتی ہے-

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔