منگل, دسمبر 10, 2013

بلند ہمت كون ؟

بلند ہمت وه ہے جو جنت کا رسیا ہو،جس کی ساری تگ ودو جنت کے حصول کے لیے ہو، وہ دنیا کمارہاہو لیکن اس کے پیچھے بھی اس کا مطمح نظر جنت ہو۔کیوں؟اس لیے کہ دنیا دارفانی ہے ،چنددنوں کا کھیل ہے، یہ دراصل مردار ہے اور شیر کبھی بھی مردار پرواقع نہیں ہوتا، ہمیشہ کی زندگی آخرت کی زندگی ہے اوروہاں کی کامیابی اصل کامیابی ہے، اس لیے جس کی کوشش جنت کے لیے ہوگی وہی بلند ہمت ہے ۔کفارومشرکین جنہوں نے دنیا کمانے میں پوری طاقت صرف کردی ہے وہ بلند ہمت نہیں،کفارومشرکین کو بلند ہمت نہیں کہا جاسکتا ۔ کہ ان کی کوششیں دنیا کے لیے صرف ہورہی ہیں: اللہ تعالی نے فرمایا:
ومن یشرک باللہ فکأنما خرمن السماء فتتخطفہ الطیر أوتھوی بہ الریح فی مکان سحیق ۔(سورة الحج 31)
" اورجو اللہ کے ساتھ شرک کرے وہ تو ایسے ہی ہے جیسے وہ آسمان سے گرجائے، پھر اسے پرندے اچک لے جائیں یا ہوا  اسے کسی دور درازمقام میں لے جاکے پھینک دے “۔
 کفارومشرکین دنیا کے معاملے میں بیحدچالاک ہوتے ہیں جبکہ آخرت سے غافل اور لاپرواہ ہیں،  اللہ تعالی نے سچ فرمایا
يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ (الروم: 7)۔
 "لوگ دُنیا کی زندگی کا بس ظاہری پہلو جانتے ہیں اور آخرت سے وہ خود ہی غافل ہیں
یعنی وہ دنیاوی زندگی کے محض ظاہر کو جانتے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کا ظاہر بھی ہے اورباطن بھی ہے ، دنیا کا ظاہر وہ ہے جسے جاہل جانتے ہیں کہ اس کی زینتوں اور نعمتوں سے لطف اندوز ہولیاجائے ، اوراس کا باطن اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ فی نفسہ غلط نہیں بلکہ اس میں انسان اطاعت کاکام کرتا ہے ۔اورکفار میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو جنت کے حصول میں تو تھکتے ہیں لیکن جنت کا راستہ معلوم نہیں جس کی وجہ سے ان کی تھکاوٹ بے فائدہ ہے ۔اصل میں ان کی ہمت اس قدرپست ہے کہ دنیا کے معاملے میں بڑے چالاک لیکن آخرت کے معاملے میں حق کی تلاش میں نہیں نکلے ۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: 
عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ تَصْلَىٰ نَارًا حَامِيَةً  (سورة الغاشية3،4 )  
")اور) محنت کرنے والے تھکے ہوئے ہوں گے، وه دہکتی ہوئی آگ میں جائیں گے" 
دوسری جگہ اللہ تعالی نے فرمایا::
أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا ﴿الفرقان: 44﴾
"کیا آپ اسی خیال میں ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں۔ وه تو نرے چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیاده بھٹکے ہوئے "
اسی وجہ سے اللہ والوں نے دنیا کو حقیرسمجھا اور اپنے مقاصد کی تکمیل میں دنیا کوحائل نہ ہونے دیا۔ یحیی بن یحییٰ اندلسى رحمة اللہ علیہ  مدینہ امام مالک رحمة اللہ علیہ کے پاس طلب علم کے لیے گئے تھے ، امام مالک رحمة اللہ علیہ ان کی ذہانت وفطانت کے قائل تھے ،ایک دن وہ امام مالک رحمة اللہ علیہ کے درس میں بیٹھے تھے کہ اعلان ہوا : ہاتھی آیا،ہاتھی آیا، سارے لوگ ہاتھی دیکھنے چلے گئے لیکن یحیی اپنی جگہ بیٹھے رہے ۔امام مالک رحمة اللہ علیہ نے ان سے کہا : تم کیوں نہ گئے ، انہوں نے کہا: "میں آپ کے پاس آپ سے سیکھنے اور علم حاصل كرنے كےلیے آیاہوں،ہاتھی دیکھنے نہیں آیا“۔ امام مالک نے ان کی ہمت کی داد دی اورانہیں ”عاقل أھل الأندلس “ کا خطاب دیا۔
عمرفاروق رضی اللہ عنہ شام کا سفر کررہے ہیں، ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ساتھ تھے، جب شہرکے قریب پہنچے توایک جگہ پانی عبور کرنے کا موقع آیا، عمرفاروق  رضی اللہ عنہ اونٹ سے اُترے، اپنے جوتے کواُتارا، اپنے کندھے پر رکھا اوراونٹ کا  لگام پکڑکرپار کرنے لگے۔ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا : امیرالمومنین!آپ جوتے اُتارکرکندھے پر رکھ رہے ہیں اوراونٹ کا لگام پکڑکر پار کر رہے ہیں، عیسائیوں نے دیکھ لیا تو ہمارے لیے یہ بات خوشی کی نہ ہوگی ۔ عمر فاروق  رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابوعبیدہ! تیرے علاوہ اگرکسی دوسرے نے یہ بات کہی ہوتی تو میں اسے امت محمد کے لیے عبرت کا سامان بنادیتا :
 إنا کنا أذل قوم فأعزنا اللہ بالإسلام، فمھما نطلب العز بغیرماأعزنا اللہ بہ إذلنا اللہ
" ہم نہایت ذلیل قوم تھے الله نے ہمیں اسلام کے ذریعہ عزت بخشی اگر ہم نے اسلام کے علاوہ کسی دوسرے طریقے سے عزت حاصل کرنے کی کوشش کی تو الله ہمیں ذلیل کر دے گا"
جب ایک مورخ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے تو یہ دیکھ کر عش عش کرنے لگتا ہے کہ مکہ کی سرزمین پر ایک انسان توحید کی دعوت لے کر نکلتا ہے، ہرطرف سے اس کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے، اس کے پیغام کو قبول کرنے والوں کو اذیت ناک تکلیفیں دی جاتی ہیں، ایک دن اوردو دن نہیں بلکہ لگاتار 19 سال تک ، پھر جب مکہ فتح ہوتا ہے اور کفارومشرکین کی عام معافی کا اعلان کردیا جاتا ہے تو لوگ فوج درفوج اسلام میں داخل ہونے لگتے ہیں، پھر یہی اسلام کے سورما اسلام کی دعوت کو لے کر پوری دنیا میں پھیل جاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ وقت کی دوسپرپاور طاقت قیصر وکسری کی اینٹ سے اینٹ بجادیتے ہیں ۔ اسلام کے ان سورماؤں کی عظمت کا راز محض اللہ کی مدد نہ تھا بلکہ انہوں نے خودکو ان صفات اور اساس سے مسلح کیا تھا جس نے ان کے اندر انسانی قیادت کی اہلیت پیداکی ۔
عمروبن عاص رضی اللہ عنہ نے جب روم کے بادشاہ مقوقس کے پاس بات کرنے کے لیے دس آدمیوں کو بھیجا تو ان میں عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ كو گفتگو کرنے کی ذمہ داری دی گئی ،آپ سياه فام تھے ، مقوقس کے دربار میں مسلمان آئے، عبادة بن صامت  رضی اللہ عنہ سب سے  آگے تھے، مقوقس نے ان کی لمبائی اورسیاہی دیکھ کر حقارت سے بولا: 
نحّوعنی ذلک الأسود وقدموا غیری یکلمنی
"میرے سامنے سے اس سیاہ فام کو ہٹاؤ اور کسی دوسرے کو پیش کرو جو مجھ سے بات کر سکے" صحابہ نے ترکی بترکی جواب دیا: "ہمارے بیچ  کالوں اور گوروں میں کوئی امتیاز نہیں ہم میں فضیلت کا معیار عقل اوردانائی ہے رنگ ونسل نہیں“ جب سارے صحابہ بضد رہے کہ ہمارے متکلم عبادہ ہی ہوں گے توآپ کو گفتگوکرنے کا موقع دیاگیا: آپ نے فرمایا :  ہمارا مطلوب دنیا نہیں بلکہ ہم آخرت کے راہی ہیں ۔ اس نے کہا :
 ہم سمجھتے ہیں کہ تم سب یہاں کیوں آئے ہو، فقروفاقہ ہے جو تمہیں یہاں لے آیا ہے ،اس لیے ہم تم سب کو دو دو دینار دیتے ہیں، تمہارے امیر کو سودینار اور تمہارے خلیفہ کو ہزار دینار دیتے ہیں، اسے  لو اور اپنے ملک لوٹ جاؤ ورنہ تمہارى وہ حالت ہوگی جس کی تم طاقت نہیں رکھ سکتے“۔
 آپ نے نہایت اطمینان اوروثوق سے فرمایا:
"اے بادشاہ!  تمہیں تمہارا نفس اور تمہاری فوج دھوکے میں نہ ڈالے، ہمیں تمہاری تعداد اورفوج کا کوئی خوف نہیں، اگر ہم میں سے ہرایک شہید کردیا جائے تویہ ہمارے لیے بڑے اعزاز کی بات ہوگی اوریہی ہماری تمنا ہے، ہم میں سے ہرآدمی صبح شام شہادت کی تمنا کرتا ہے، لہذا خودپر غورکرلو، اورہاں!تمہارے لیے صرف تین اختیارہے یا تواسلام قبول کرلو، یاجزیہ پر راضی ہوجاؤ یا ہمارے اورتمہارے بیچ جنگ ہی فیصلہ کرے گی “۔

1 تبصرہ:

premsandesh نے لکھا ہے کہ

جزآكم الله خيرا المقالة جميل جدا تجدد ايماننا

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔