منگل, دسمبر 10, 2013

تصورآخرت اور اس سے متعلق غلط فہمیاں


بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
موت اورقبرسے لے کر جنت یا جہنم میں جانے تک كى زندگی آخرت کی زندگی كہلاتى ہے ۔ يہ دنیا امتحان ہال ہے ،اس میں ہرانسان کو امتحان کے لیے بسایاگیا ہے،اوراس امتحان کا دور روح نکلتے ہی ختم ہوجاتا ہے ۔اب نعمت یا عذاب کا مرحلہ ہوتا ہے،جس کی ابتداء قبر سے ہی ہوجاتی ہے۔ قبر جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے ۔اس کے بعد قیامت ہوگی ،محشر بپا ہوگا،اللہ کے دربارمیں سب اکٹھا ہوں گے ۔ حساب وکتاب ہوگا، اعمال تولے جائیں گے، نامہ اعمال دیاجائے گا، پلصراط سے گذرنا ہوگا، پھرآخری ٹھکانا یاتو جنت ہوگا یا جہنم ۔
لیکن جب انسانوں نے اپنی الٹی سمجھ سے اس عقیدے پر غورکیا تو معاشرے اورسماج میں بہت ساری غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں۔

(1) بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست 

کچھ لوگ سمجھنے لگے کہ دنیاوی زندگی ہی سب کچھ ہے ۔ مرنے کے بعد کسی طرح کے حساب وکتاب اور جزا وسزا کا معاملہ نہیں۔اس دھرتی پر آج تک اس تصور کے حامی لوگ پائے جاتے ہیں ۔جو کہتے ہیں کہ دنیا ہی سب کچھ ہے ۔ مرنے کے بعد کچھ بھی ہونے والانہیں ۔ ایسے لوگوں کودہریہ کہتے ہیں۔
حالانکہ ان کی سوچ میں ذره برابر دم نہیں ۔ اگر ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں جوہمیں دنیامیں میسر ہے تو معلوم ہوگا کہ اس  میں کسی کو مکمل اطمینان حاصل نہیں۔اِس دنیا میں ہرآدمی کے ساتھ ماضی کے پچھتاوے اور مستقبل کاخوف ہمیشہ لگا رہتا ہے۔ یہاں سب سے بڑی تکلیف موت کی ہے جس کی وجہ سے انسان کی ساری خواہشیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس زندگی میں مکمل انصاف موجودنہیں ۔ آپ خودسوچئے کہ کتنے لوگ زندگی بھر نیکیاں کرتے رہتے ہیں، کتنے لوگ زندگی بھر پریشانیاں جھیلتے ہیں لیکن ان کودنیامیں کوئی بدلہ نہیں مل پاتا جبکہ دوسری طرف کتنے لوگ زندگی بھر زمین میں فساد مچاتے ہیں،قتل وخون ریزی کرتے ہیں ، ہزاروں کوقتل کردیتے ہیں ۔ دنیا  ایسے مجرم کو سزادینا بھی چاہے تو زیادہ سے زیادہ موت کی سزا دے سکتی ہے۔ یہاں تو ایک جان جارہی ہے جبکہ اس نے ہزاروں کی جانیں لی ہیں ۔اس طرح ایک ایسی زندگی کی سخت ضرورت محسوس ہوتی ہے جہاں نیکوکارو ں کو ان کا پورا پورا بدلہ مل سکے ۔ اور مجرموں کو پوری پوری سزا مل سکے ۔ یہی دراصل آخرت کی زندگی ہے ۔ یہ ایسی زندگی ہے جو فطرت کی پکار ہے ۔

(2)نیکی اور بدی کا بدلہ بذريعہ تناسخاس دنیا میں ہی ملتا ہے:

انسانوں کی ایک دوسری جماعت وہ ہے جس کا کہنا ہے کہ نیکی اور بدی کا بدلہ اس دنیا میں ہی مل جاتا ہے ۔ آدمی اگرنیک ہے تو مرنے کے بعد اچھے لوگوں کے جسم میں دوبارہ جنم لیتا ہے اوراگر برا ہے تو پیڑ پودے اور جانوروں کے قالب میں پید ہوتا ہے ۔ اس عقیدے کو آواگمن یا تناسخ کا نام دیاجاتا ہے ۔ اورسنسکرت میں اسی کو ’پنرجنم‘ کہتے ہیں ۔ یعنی پچھلے عملوں کا بدلہ پانے کے لیے مختلف شکلوں میں باربارپیدا ہونا ۔ یہ عقیدہ آج ہندو مذہب اور بہت سارے دوسرے مذاہب میں رائج ہے ۔
حالانکہ ہندومذہب کے بڑے بڑے عالموں نے اس عقیدے کی تردید کی ہے ۔ بلکہ ویدوں سے بھی اس کی تردید ہوتی ہے ۔ خودپنرجنم کا لفظ اس کی تردیدکرتا ہے کیونکہ پنر جنم کے معنی ”دوبارہ جنم لینے کے ہیں“ باربار جنم لینے کے نہیں ۔ گویا پنرجنم سے مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کی تائید ہوتی ہے ۔جس کا قائل خود اسلام ہے۔

(3)قبر کی نعمت اور عذاب کی کوئی حقیقت نہیں:

انسانوں کی ایک تیسری جماعت وہ ہے جس کا ماننا ہے کہ مرنے کے بعد حساب وکتاب تو ضرور ہوگا البتہ مرنے کے بعد قبر کی نعمت اور عذاب کی کوئی حقیقت نہیں ۔یعنی قبر میں نہ نعمتیں ملیں گی اور نہ ہی عذاب ہوگا ۔ یہ عقیدہ ان لوگوں کا ہے جو صرف قرآن کو ماننے کا دعوی کرتے ہیں اورحدیث کا انکارکرتے ہیں ۔ ان کو اہل قرآن کہا جاتا ہے ۔
یہ تصوربھی قرآن وحدیث کے نصوص سے ٹکڑا تا ہے ۔ کیونکہ قبر میں عذاب ہونے یا قبر میں نعمتوں کے حاصل ہونے کی تائید مختلف آیات واحادیث سے ہوتی ہے ۔فرعونیوں کے حق میں  الله تعالى كا ارشاد ہے: 
النّارُ‌ يُعرَ‌ضونَ عَلَيها غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَومَ تَقومُ السّاعَةُ أَدخِلوا ءالَ فِر‌عَونَ أَشَدَّ العَذابِ  ( سورة الغافر 46 )
 '' آگ ہے جس پر وہ صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی، حکم ہو گا: فرعون والوں کو بدترین عذاب میں داخل کرو۔'' یعنی قیامت سے پہلے اس وقت وہ صبح و شام آگ پر پیش کیے جا رہے ہیں۔
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تم میں جب کوئی فوت ہوتا ہے تو اس پر صبح اور شام اس کا ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے تو جو شخص جنتی ہو اسے جنت کا اور جو جہنمی ہو اسے جہنم کا ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے". ( بخاری و مسلم)

اورعائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ان کے پاس ایک یہودی عورت آئی تو اس نے عذاب قبر کا ذکر کیا اور عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہنے لگی کہ اللہ تعالی آپ کو عذاب قبر سے محفوظ رکھے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر کے متعلق سوال کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 ہاں عذاب قبر ہے عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اس کے بعد میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر نماز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگتے دیکھا " ( بخارى ومسلم) 
ان آیات و احادیث سے عذاب قبر کا ثبوت ملتا ہے اور ان سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کو عذاب مسلسل مل رہا ہے ۔ رہى منطقى دليل تو انسانی زندگی کو چار مراحل میں تقسیم کر سکتے ہیں ولادت سے پہلے کا مرحلہ جب وہ بشکل روح عالم ارواح میں موجود ہوتا ہے دوسرا مرحلہ جب وہ ماں کے شکم میں ہوتا ہے تیسرا مرحلہ جب وہ دنیا میں پیدا ہوتا ہے اور چوتھا مرحلہ جب اس کی زندگی کا خاتمہ ہوتا ہے اور یہی در اصل برزخی زندگی ہے جسمیں نیکوں کو انعام ملتا ہے اور بروں کو سزا ملتی ہے - اور انسان کا اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ نہ کر پانا اس بات کو مستلزم نہیں کہ عذاب قبر کی حقیقت نہیں کیوں کہ سونے کی حالت میں انسان پر مختلف واردات پیش آتے ہیں کبھی وہ باغ و بہار کی سیر کرتا ہے اور کبھی کسی بھیانک منظر سے ڈرتا ہے حالانکہ اسی کے پاس سونے والا انسان اس کی اس حالت سے آگاہ نہیں ہو پا تا - تو صرف عذاب یا انعام کو نہ دیکھ پانے سے قبر کے عذاب یا سزا کا انکار نہیں کیا جا سکتا

(4)  اولیاءاللہ کے دامن سے وابستہ ہوجائیں تو قیامت کے دن ہماری سفارش کرکے ہمیں بخشوا دیں گے:

ایک چوتھی جماعت وہ ہے جس کاماننا ہے کہ اولیاءاللہ کا اللہ کے ہاں بڑا اثرورسوخ ہوتا ہے، ان کی ہربات مانی جاتی ہے ۔اس لیے اگرہم دنیا میں ان کے دامن سے وابستہ ہوجائیں توقیامت کے دن ہماری سفارش کرکے ہمیں بخشوا دیں گے ۔ حالاں کہ یہ سوچ بھی غلط ہے ۔ اللہ کے رسول صلى الله عليہ وسلم نے اپنی چہیتی بیٹی فاطمہ رضى الله عنہا سے کہا تھا :
يا فاطمة بنت محمد سليني ما شئت من مالي لا أغني عنك من الله شيئا( بخارى )
 "اے فاطمہ ! تجھے دنیا میں جو مانگنا ہے مانگ لے ۔آخرت میں میں تجھے کچھ کام نہیں آسکتا" ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ سفارش کی کوئی حقیقت نہیں … قیامت کے دن سفارش برحق ہے، گنہگاروں کے حق میں انبیاء واولیائے کرام کی سفارش ضرور ہوگی لیکن دو شرطوں کے ساتھ پہلی شرط یہ کہ اللہ تعالی سفارش کرنے کی اجازت دے دیں ۔ اوردوسری شرط یہ کہ جس کے لیے سفارش کی جارہی ہے اس کے عمل سے اللہ تعالی راضی بھی ہو۔ اللہ تعالی نے فرمایا 
يَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَـٰنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلًا (طه: 109) 
یعنی کل قیامت کے دن اسی کو سفارش فائدہ پہنچاسکتی ہے جس کو اللہ سفارش کرنے کی اجازت دے دیں اور جس کے لیے سفارش کی جارہی ہے اس کے تئیں راضی بھی ہو۔ گویاکہ شفاعت کا سارا اختیاراللہ کے پاس ہے
قُل لِّلَّـهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا  ( الزمر 44)
"کہہ دیجئے! کہ تمام سفارش کا مختار اللہ ہی ہے۔" ۔

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔