امریکا کے مشہور داعی یوسف اسٹیس
کے قبول اسلام کی داستان جس نے ايک مسلم کو عیسائی بنانا چاہا تھا، تاہم اللہ
تعالی نے اسے اپنے دین کی ہدایت دے دی
جوزیف
اڈوارڈ اسٹیس امریکہ وسطی کے مغربی علاقہ کے رہنے والے ہیں، ان کی پیدائش
کٹر عیسائی گھرانے میں ہوئی، انہوں نے انجیل اور عیسائیت کا گہرائی سے مطالعہ کیا
، عیسائیت کے لاہوتی علوم میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، تاہم بحث و تحقیق کے
دوران عیسائیت سے متعلق ان کے سامنے چند اشکالات پیدا ہوئے جس نے انہیں حیرت
واستعجاب میں ڈال دیا ۔
ادھر وہ اسلام کو بھی بے ناپسند کرتے تھے، انہوں نے مسلمانوں کے متعلق محض
یہ سن رکھا تھا کہ وہ بت پرست ہوتے ہیں، اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور مکہ میں
خانہ کعبہ میں موجود” کالے پتھر“ کی پوجا کرتے ہیں ۔ مسلمان قدامت پسند، کٹرپنتھی
اور دہشت گرد ہوتے ہیں، اپنے عقیدے کے مخالف کو جب چاہتے ہیں قتل کردیتے ہیں ۔
وہ اپنے قبول اسلام کا قصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :
” میرے قبول اسلام کا قصہ عام
آدمی کے جیسے نہیں ہے کہ اسے مترجم قرآن کا نسخہ دیا گیا ہو یا اسلامی کتاب دی گئی
ہو اور اسے پڑھ کر اسلام میں داخل ہو گیا ہو بلکہ میں پہلے اسلام کاسخت دشمن تھا،
اور نصرانیت کے فروغ واشاعت میں ہمہ تن مشغول رہتا تھا، جب میری ایک ایسے شخص سے
ملاقات ہوئی جس نے مجھے اسلام کی دعوت دی تھی تو میں نے کوشش کی کہ اسے عیسائیت
میں داخل کرلوں
1991ء میں جوزیف کے والد نے مصرکے ایک مسلم باشندہ محمد عبدالرحمن کے ہمراہ
تجارت شروع کی، پہلے تو جوزیف اس سے ملنے میں متردد ہوا، پھربعد میں اس سے اس مقصد
سے ملاکہ اسے عیسائیت کی طرف دعوت دے گا، کئی باراس کے ساتھ بیٹھا، ایک مرتبہ اسے کھانے پر مدعوکیا اورایک
عیسائی پادری کو دعوت دی تاکہ اسے عیسائیت کی طرف بلاسکے ۔ جوزیف نے اپنی بیوی کو
بھی مجلس میں مدعو کیا تھا جو صہیونی خیالات کی حامل تھیں ۔ سب نے بائیبل کی صحت
پر دلائل پیش کیں، تاہم ایک بات جو سب لوگوں کی الجھن کاباعث بن رہی تھی کہ بائبل
من جانب اللہ ہونے کے باوجود تحریف سے خالی نہیں کیوں کہ اس کے لکھنے والوں نے اس
میں اپنی طرف سے بھی اضافہ کیا ہے ۔ تاہم محمد عبدالرحمن نے دعوی کے ساتھ کہا کہ دنیا میں محض قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے
جو ہرطرح کے تغیر وتبدیلی سے پاک ہے ۔
بہرحال جوزف کی ہمیشہ يہی کوشش رہی کہ محمد عبدالرحمن عیسائیت اختیار
کرلے۔ جوزیف نے اسلام سے متعلق محمد
عبدالرحمن سے چند سوالات کی، ان سوالوں میں منجملہ یہ سوال بھی تھا کہ گذشتہ چودہ
صدیوں میں قرآن کریم کے کتنے نسخے منظر عام پر آئے؟
محمدعبدالرحمن : قرآن کریم ایک مصحف کی شکل میں شروع سے آج تک محفوظ ہے جس
میں ذرہ برابر تبدیلی واقع نہیں ہوئی ۔ خود اللہ تعالی نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری
اپنے سرلے رکھی ہے
” ہم نے ہی قرآن کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں “ (الحجر 9)
اور ہاں! میں عیسائیت اختیار کرنے کے ليے تیار ہوں بشرطیکہ تم میرے سامنے
میرے دین سے افضل چیز پیش کردو۔
جوزیف : بالکل ہمارے پاس تم سے افضل چیزموجود ہے ۔
محمدعبدالرحمن : اگر دلیل وبرہان سے ثابت کردوتوپھر میں اپنا مذہب تبدیل
کرنے کے ليے تیار ہوں ۔
جوزیف : دین ہمارے نزدیک عقلی استدلات اور برھان پر مبنی نہیں، بلکہ ہمارے
ہاں عقائد پر مبنی چند مسلم امور ہیں، ظاہر ہے انہیں دلیل سے ثابت نہیں کیا جا
سکتا ۔
محمدعبدالرحمن : لیکن اسلام تو برھان ودلیل پر مبنی دین وشریعت ہے جو
انسانی عقل ودماغ سے بالکل ہم آہنگ ہے ۔
اس طرح چند امور پر رد وقدح ہوا جن میں عقیدہ تثلیث اور اسلام میں الوہیت
کا مسئلہ تھا ، محمد عبدالرحمن کے جوابات نہایت ٹھوس ہوتے تھے، بالخصوص اس نے جب
سورہ الاخلاص کی عربی زبان میں تلاوت کی اور اس کا ترجمہ پیش کیا کہ ”اللہ ایک ہے
، وہ بے نیار ہے، نہ اس نے کسی کو جنم دیا ہے اور نہ اس کا جنم ہوا ہے، اور اس کا
کوئی ہمسر نہیں “ اس آیت میں تثلیث پر کاری ضرب لگائی گئی تھی، اور وحدانیت کی
پرزورتائید کی گئی تھی۔
اس آیت نے جوزیف کے ليے اکسیر کا
کام کیا، اب وہ اسلام کی چھان بین میں لگ گیا ، مسلسل تین ماہ تک اپنی تحقیق جاری
رکھی بالآخر وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ :
”وہ صحيح عقیدہ جس کی طرف حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت تھی وہ توحید ہے،
اور میں نے اس میں تثلیث کاعقیدہ قطعانہیں پایا جیسا کہ وہ دعوی کرتے ہیں، میں نے
پایا کہ عیسی علیہ السلام اللہ کے بندہ اور اس کے رسول ہیں الله نہیں ، ان کی مثال
ان تمام انبیاء کے جیسے ہے جو توحید باری تعالی کی طرف دعوت دینے کے ليے بھیجے گيے،
اور ذات باری تعالی کے تعلق سے سارے مذاہب کا پیغام ایک ہی رہا ، سبہوں نے دین
مسیحی کے وجود سے پیشتر اسی صحیح عقیدہ کی طرف دعوت دی کہ اللہ کے علاوہ کوئی صحیح
عبادت کے لائق نہیں، مجھے یہ بھی پتہ چل گیا کہ اسلام اس ليے آیا تاکہ جملہ آسمانی
پیغامات کا خاتمہ کرکے ایک مکمل ضابطہ حیات پیش کرے ، اور لوگوں کو شرک کی کھائیوں
سے نکال کرتوحید پر ثابت قدم رکھے‘‘-
اور میرا اسلام میں داخل ہونا دراصل عیسی علیہ السلام ہی کے مذہب کو
اپنانا ہے جس میں ایمان باللہ کی طرف دعوت ہے ۔ اور عیسی علیہ السلام کی رسالت اور
عبدیت کی گواہی ہے ۔ اور جو شخص یہ عقیدہ نہیں رکھتا وہ مسلمان نہیں “ ۔
یہ دراصل جوزیف کی زندگی میں تبدیلی کا نقطہ آغاز تھا، وہ دل سے اسلام کا
قائل سوچکا تھا، اسی اثناء مزید چند ایسے حالات پیش آئے جو جوزیف کے قبول اسلام کا
محرک بنے، ایک دن جوزیف کے دوست پادری پیٹر جاکوب نے محمد عبدالرحمن سے گذارش کی
کہ اسے مسجد لے جائے تاکہ وہ مسلمانوں کی عبادت اور نماز سے متعلق مزید جانکاری
حاصل کرسکے، انہوں نے مسجد میں دیکھا کہ لوگ يہاں آکر نماز ادا کرتے ہیں اور نکلتے
وقت نہایت ہشاش بشاش ہوتے اور ان کے چہروں پر تبسم کھلا ہوتا ہے ۔
ایک دوسری مرتبہ بھی مسجد کی زیارت کے ليے گيے جس نے جوزیف کے دل پرنہایت
گہرا اثرچھوڑا، اب ان کے اندر اسلام میں داخل ہونے کے يے ایک طرح کی بے چینی پیدا
ہونے لگی ۔ ایک دن جب انہوں نے اپنی بیوی سے اس موضوع پرگفتگو کی اور اُس کا عندیہ
لینا چاہا توبیوی چوں کہ اس سے پہلے اسلام سے مطمئن ہوچکی تھی، اس ليے فورا حامی
بھر لی ۔
اس طرح جوزیف اور اس کی بیوی
دونوں نے محمد عبدالرحمن کے سامنے کلمہ شہادت کی گواہی دی اور اسلام کو گلے سے لگا
لیا ۔ چند مہینے ہی گذرے تھے کہ جوزیف کے والد بھی اسلام لے آئے ۔
0 تبصرہ:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔