ہفتہ, نومبر 23, 2013

دل کی بیماریوں میں سب سے خطرناک بیماری : ریاکاری



ہمارے جسم میں ایک ایسامغضہ گوشت ہے جواگر ٹھیک رہتا ہے توجسم کے سارے اعضاءکی کارکردگی ٹھیک رہتی ہے اوراگروہ بیمار ہوجاتاہے تو جسم کی ساری کارکردگی اس سے متاثر ہوتی ہے ۔یہ مغضہ گوشت دل ہے ۔دل صحتمند بھی رہتا ہے اوربیماربھی پڑتا ہے ۔دل کی بیماریاںبھی مختلف طرح کی ہوتی ہیں،دل کی بیماریوںمیں سے ایک خطرناک بیماری ہے جس سے ایک بندے کے اعمال برباد ہوجاتے ہیں،اس کی ساری محنت پر پانی پھر جاتا ہے اوراللہ بھی اس سے نارا ض ہوتا ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی امت کے بارے میں اس کا بہت ڈرتھا کہ ایسا نہ ہو کہ میری امت اس کی شکار ہوجائے ۔ آپ نے اُس بیماری کو دجال کے فتنے سے بھی زیادہ خطرنا ک قراردیاہے ۔آپ سوچتے ہوں گے یہ کونسی بیماری ہے ؟اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنئیے :
مسند احمدکی روایت ہے ،حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن ہمارے پاس تشریف لائے ،ہم اپنی مجلس میں دجال کا ذکر کررہے تھے، توآپ نے فرمایا: کیامیں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جو دجال سے بھی زیادہ بھیانک اورخطرناک ہے ؟ لوگوں نے کہا :ہاں کیوں نہیں ،ضرور بتائیے ؟آپ نے فرمایا:یہ شرک خفی ہے ۔لوگوں نے پوچھا : شرک خفی کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا:
یقوم الرجل فیصلی فیزین صلاتہ لما یری من نظر الرجل الیہ
” ایک آدمی نماز ادا کررہا ہواورکوئی اسے دیکھ رہا ہو،تو وہ نماز اچھی طرح پڑھنے لگے“ ۔
 کیوں؟ تاکہ اُس آدمی کی نظرمیں اُس کی نماز کی اہمیت بیٹھ جائے ،یہی وہ بیماری ہے جس کا نام ....ریاہے ،دکھلاوا ہے،نمودونمائش ہے، اخلاص یہ ہے کہ دل کو اللہ کے لیے خالی کرلیاجائے ،کوئی بھی اطاعت صرف اللہ کے لیے کرے ۔اُس کے برخلاف ریا یہ ہے کہ عبادت کو اس انداز میں بجالایاجائے کہ لوگ دیکھیں تو تعریف کریں ۔ 

ریا سے اعمال بربادہوجاتے ہیں کیونکہ عمل کی قبولیت کی دو شرطیں ہیں ۔پہلی شرط عمل خالص اللہ کے لیے انجام دیاگیاہو۔دوسری شرط سنت کے مطابق انجام پایاہو۔ اگر عمل خالص ہے لیکن سنت کے مطابق نہیں تو قبول نہیں کیاجائے گا اوراگر سنت کے مطابق ہے لیکن خالص اللہ کے لیے نہیں ،اُس میںشرک آگیا،ریاکاری آگئی تووہ بھی قابل قبول نہیں۔اللہ نے فرمایا: 
فمن کا ن یرجولقاءربہ فلیعمل عملا صالحا ولایشرک بعبادة ربہ احدا
”جو کوئی اپنے رب سے ملنے کی امید رکھتا ہواسے چاہیے کہ نیک عمل کریں اوراپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے ۔ “
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس آیت کے ضمن میں فرمایاہے کہ اس آیت میں قبولیت اعمال کی دوشرطیں بتائی گئی ہیں اخلاص اورمتابعت ۔ 

اب آ پ تصور کریں کہ ایک آدمی نیکی کے کاموںمیں خرچ کرتا ہے ،رشتے داروں کا خیال کرتا ہے ،ماں باپ اورسسرال والوں کی ضرورت پوری کرتا ہے ۔لیکن اس کی نیت اگر یہ ہے کہ لوگ یہ کام دیکھ کراس کی ستائش کریں تو خیر کے یہ وہ سارے کام برباد ہوگئے ۔اسے اتنی محنت کرنے کاکوئی فائدہ نہ ہوسکا....وقتی طورپرتعریف کے چندکلمات سن لیا اوربس ؟ اِسی لیے بعض علماءنے کہا کہ جو اپنے اندر اخلاص پیدا نہیں کرپاتا اسے کہہ دو کہ خواہ مخواہ تھکتااورپریشان ہوتا ہے ۔
آپ نے صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث تو سنی ہوگی جسے بیان کرتے ہوئے اس میں پائی جانے والی ہیبت کی وجہ سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر تین بارغشی طاری ہوگئی تھی ....اس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن جن تین شخصوںکا سب سے پہلے فیصلہ ہوگا ان میں ایک شہید ہوگا جس نے جہاد اس لیے کی ہوگی کہ لوگ اُسے بہادراورشہید کہیں ،دوسرا قاری اورعالم ہوگا جس نے اس لیے قرآن پڑھا اورپڑھایاہوگا،علم سیکھا اورسکھایاہوگا تاکہ لوگ اسے قاری اورعالم کہیں۔تیسرا سخاوت کرنے والا ہوگا جس نے ہر بھلائی کے راستے میں اپنا مال خرچ کیاہوگاتاکہ اسے سخی اورداتا کہاجائے ....اتنے اہم اعمال کی اللہ کی نظرمیں کوئی اہمیت نہیں ہوگی اوراللہ کے حکم سے ان تینوںکوگھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔کتنے اعمال ایسے ہوتے ہیں جنہیں انسان معمولی سمجھتا ہے لیکن نیت خالص ہونے کی وجہ سے اللہ کی نظر میں ان کی بہت اہمیت ہوتی ہے اور کتنے ایسے اعمال ہوتے ہیں کہ انسان انہیں بہت عظیم سمجھتا ہے لیکن نیت میں کھوٹ آنے کی وجہ سے اللہ کی نظر میں ان کی کوئی وقعت نہیں ہوتی ۔ 

اللہ والوں کا اخلاص:

امام زین العابدین علی بن حسن رحمہ اللہ کی بابت آتا ہے کہ ان کی وفات کے بعد لوگوں کو معلوم ہوسکاکہ وہ مدینہ کے سوگھر کی کفالت کرتے ہیں۔ 
حضرت تمیم الداری رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا کہ آپ شب میں کتنی نمازیں پڑھتے ہیں ؟یہ سن کرانہیں سخت غصہ آیا،انہوں نے کہ: اللہ کی قسم ! میں اکیلے رات کی تاریکی میں ایک رکعت ادا کروںیہ میرے لیے بہتر ہے کہ پوری رات نمازپڑھوں پھر اس کا لوگوں سے تذکرہ کروں“۔ 
عبداللہ بن محیریز ایک دکان میں کپڑا خریدنے کے لیے داخل ہوئے توکسی شخص نے دکاندار سے ان کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ عبداللہ بن محیریز ہیں ،انہیں مناسب قیمت پر دینا،یہ سن کر ابن محیریز غصہ ہوگئے اورکپڑا پھینک کر یہ کہتے ہوئے وہاں سے نکل گئے : ”ہم اپنے مال کے ذریعہ خریداری کرتے ہیںاپنے دین کے ذریعہ خریداری نہیں کرتے ۔“ 
علامہ محمدامین شنقیطی رحمہ اللہ کی بابت آتا ہے کہ انہوں نے بلوغت سے قبل زمانہ طالب علمی عرب کے انساب پر ایک نظم لکھا تھا، سن بلوغت کو پہنچنے کے بعد انہوں نے اسے دانستہ زمین میں دفن کردیااورسبب یہ بتائی کہ انہوں نے اسے اپنے ہم سبق ساتھیوں پر تفوق حاصل کرنے کی نیت سے لکھا تھا۔ ان کے اساتذہ نے ان کواس عمل پرملامت کیااورکہاکہ تمہارے لیے ممکن تھا کہ نیت بدل لیتے اوراسے خالص کرلیتے ۔ 

ریاکاری سے دوری کیسے ممکن ہے:

اب سوال یہ ہے کہ ہمارے اندراخلاص کیسے پیدا ہوگا ، ریاکاری سے دوری کیسے ممکن ہے ؟ تواِ س سلسلے میں چند تجاویز پیش کر رہے ہیں اگر ہم نے ان کو سامنے میں رکھا تو ریاکاری سے بچ سکتے ہیں ،ہمارے اندر اخلاص پیدا ہوسکتا ہے
(۱) ہم یہ سمجھیں کہ ہم اللہ کے غلام ہیں،اورایک غلام اپنے آقا کی خدمت کا بدلہ نہیں چاہتا ،وہ تو غلام ہونے کے ناطے خدمت کرتا ہے ۔اُسی طرح ہمیں بھی خدمت کرنی ہے ،اس سوچ میں رہنا ہی نہیں ہے کہ ہماری تعریف کی جائے ۔پھر اللہ ہمیں اُس کے بدلے ایک کا دس بلکہ سات سو گنا تک دینے والا ہے ۔ لیکن اگرعمل میں دکھلاوا آگیا،ریا کاری آگئی تو وہ عمل ہمارے چہرے پرماردیاجائے گا ۔ 
(۲) ہم اپنے اوپر اللہ کے احسان کو یادکریں کہ اُس کی توفیق نہ ہوتی تو کیا ہم نیکی کا یہ کام کرسکتے تھے ؟ اللہ کے راستے میں خرچ کرسکتے تھے ؟ نہیں ....گویا اُس کی توفیق سے ہی ہم نیکی کا یہ کام کرلے رہے ہیں تو اُس میں بدلہ کیامعنی رکھتا ہے ۔ 
(۳) ریاکاری کے دنیوی اوراخروی اانجام کو یاد کریں ۔ایک آدمی کوئی اچھا کام کرکے اُسے پھیلاتا ہے تاکہ اُس کی تعریف کی جائے تویاد رکھیں کہ اِس سے اس کی شہرت نہیں ہوتی ، بلکہ اللہ تعالی اسے دنیا میں لوگوںکی نگاہ سے گرادیتا ہے ،کتنے ایسے لوگوں کے بارے میں آپ نے خودسناہوگا کہ فلاں ریاکار ہے ،فلاں خرچ توکرتا ہے لیکن نام ونمود کے لیے ۔اس طرح دنیا میں بھی گئے اورآخرت میں ساری محنت رائیگاں اوربیکار جائے گی ۔ 
(۴) چھپ کر کچھ نیک اعمال انجام دیں ،جنہیں اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا نہ جانتا ہوجیسے تنہائی میں شب بیداری ،خفیہ صدقات وخیرات کا اہتمام ۔ وغیرہ 
 دعا بھی کرنی چاہیے کہ اے اللہ تو ہمارے اندراخلاص پیدا فرمادے ۔اورہمیں ریاکاری سے بچالے ۔ ریاکاری سے بچنے کی دعابھی پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھا دی ہے : 
اللھم إنا نعوذبک أن نشرک بک شیئا نعلمہ ونستغفرک لما لا نعلمہ 
”اے اللہ ! میں تیری پناہ میں آتاہوںاس شرک سے جسے میںجان رہاہوں،اورمعافی چاہتا ہوںاس شرک سے جو مجھ سے نادانی میں ہوجائے ۔“ 

اسی طرح اللہ کا ڈر دل میں بساناچاہیے ،اللہ کے اسماءوصفات پر غورکرنا چاہیے ،قرآن کریم کو سمجھ کر اُس کی تلاوت کرنی چاہیے ،نیک لوگوںکی صحبت اختیار کرنی چاہیے ،فکرآخرت اورموت کی یاد کو دل میں بسانا چاہیے ۔ اگر ایسا کیا تو دل میں اخلاص پیدا ہوگا اورریاکاری سے بچ سکیں گے ۔

ہرتعریف بری نہیں ہے:

اخیرمیں ایک اہم نکتے کی وضاحت کرناچاہیں گے وہ یہ کہ ہرتعریف بری نہیں ہے ،ایک آدمی کوئی اچھا کام کیا ،اللہ کے لیے اوراخلاص کے ساتھ ....جسے لوگ سراہتے ہوئے اُس کے حق میں خیر کے کلمات کہتے ہیں،دعا دیتے ہیں تویہ برا نہیں ہے ،بلکہ یہ اُس کے لیے نیک فال ہے ۔صحیح مسلم کی روایت ہے حضرت ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلمسے پوچھا گیا: کہ ایک آدمی اچھائی کا کام کرتا ہے ،اِس پر لوگ اُس کی تعریف کرتے ہیں تو اِس کا کیا حکم ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تلک عاجل بشری المؤمن ۔”وہ تو ایک مومن کے لیے دنیامیں بشارت ہے “۔ 

 اللہ پاک ہمارے اندر اخلاص پیدافرمائے اورہمیں ریاءونمود سے محفوظ رکھے  

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔